طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت کا مرد کی شرم گاہ کو منہ میں لینے سے کسی پرغسل واجب نہیں ہوتا، ہاں اگر اس عمل کی وجہ سے انزال ہوجائے، تو اگر دونوں کا انزال ہوجائے تو دونوں پر یا جس کا انزال ہو اس پر غسل واجب ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عورت کا مرد کی شرم گاہ کو منہ
میں لینا یا مرد کا عورت کی شرم کو منہ میں لینا یہ گھنائونا عمل ہے۔ اس سے احتراز ضروری ہے (و) لا عند (إدخال إصبع و نحوہ) کذکر غیر آدمی و ذکر خنثی و میت و صبي لا یشتھی وما یصنع نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار۔۔۔ (بلا إنزال) لقصور الشھوۃ أما بہ فیحال علیہ ۔۔۔ (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وھو صائم، اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، و قید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشھوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمھا نوح أفندی۔۔۔ (قولہ: أما بہ) أي ما فعل ھذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال۔(۱)
منھا إدخال إصبع و نحوہ کشبہ ذکر مصنوع من نحو جلد في احد السبیلین علی المختار لقصور الشھوۃ۔(۲)
(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ج۱، ص:ـ۳۰۶
(۲) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل: عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا‘‘ص:۱۰۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص321

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مٹی کا برتن خواہ کورا ہو یا استعمال شدہ، تین دفعہ دھونے سے پاک ہو جاتا ہے، کوئی الگ سے اس کا طریقہ نہیں ہے۔(۲)

(۲)و یطھر محلّ غیرھا أي غیر مرئیۃ بغلبۃ ظن غاسل۔۔۔۔ طھارۃ محلھا بلا عدد بہ یفتی۔ وقدر ذلک لموسوس بغسل و عصر ثلاثاً فیما ینعصر و بتثلیث جفاف أي إنقطاع تقاطر في غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم،ج۱،ص:۵۳۹-۵۴۰)، و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا ولو بمرّۃ علی الصحیح، ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ، و غیر المرئیۃ بغلسھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ۔ (الشرنبلالي،، نورالإیضاح، باب الأنجاس والطہارۃ عنھا،ج۱،ص:۵۳-۵۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص415

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر حیض اور نجاست وغیرہ گرنے سے ناپاک ہو جائے، تو وہ حوض ناپاک ہے اور حوض کا تمام پانی نکالنے سے حوض پاک ہوگا۔(۲)

(۲) إذا وقعت نجاسۃ في بئر دون القدر الکثیر، أو مات فیھا حیوان دموي وانتفخ أو تفسخ، ینزح کل مائھا بعد إخراجہ۔ (ابن عابدین، تنویر الٔابصار مع الدر المختار و رد المحتار، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۶-۳۶۷)؛ و إذا وقعت في البئر نجاسۃ، نزحت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، النوع الثالث: ماء الآبار،ج۱، ص:۷۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص463

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ناخن ان اعضاء میں سے ہے جن کو وضو میں دھونا ضروری ہے اور پالش ان چیزوں میں ہے جو اپنی کثافت کی وجہ سے پانی کو ناخن تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے، اسی لیے پالش لگا کر وضو کرنا درست نہیں ہے ا ور سرخی اس سے مختلف ہے؛ اس لیے اس کا حکم یہ نہیں ہے۔(۱)

(۱)و زوال مایمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع و شحم أو کان فیہ ما یمنع الماء کعجین وجب غسلہ ما تحتہ و لا یمنع الدرن و خرء البراغیث۔(الشرنبلالی، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، فصل في الوضوء، ص:۳۱ مکتبۃ عکاظ دیوبند)؛ و إن کان ممضوغاً مضغاً متاکداًبحیث تداخلت أجزاء ہ و صار لزوجۃ و علاکۃ کالعجین شرح المنیۃ۔ قولہ وھو الأصح صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ۔ والحرج۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل، ج۱، ص:۲۸۹)؛ والخضاب إذا تجسد و یبس یمنع تمام الوضوء والغسل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین،ج:۱، ص:۵۴، مکتبۃ فیصل دیوبند)؛ و أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز، و إن تلطخ یدہ بخمیر أو حناء جاز۔(جماعۃ من علماء الہند، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني، في غسل الیدین‘‘، ج:۱، ص:۵۵)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص132

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں لکھا ہے کہ: باوضو شخص اگر شرمگاہ کو چھوتا ہے، تو چھونے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا، لیکن مستحب ہے کہ ہاتھ دھولے؛ ایسے ہی اگر اس نے عورت کو چھو لیا یا امرد کو ہاتھ لگا دیا؛ تویہ بھی ناقض وضو نہیں ہے۔
لا ینقضہ مس ذکر لکن یغسل یدہ ندباً۔ وامرأۃ و أمرد لکن یندب۔(۴) عن  النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أنہ سألہ رجل فقال یا نبی اللّٰہ ماتری في مس الرجل ذکرہ بعد ما توضأ؟ فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہل ہو إلا بضعۃ منک أو مضغۃ منک  ہذا حدیث ملازم، صحیح مستقیم الإسناد،(۱) و منہا: مس إمرأۃ الخ۔(۲)
 

(۴) ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ، ج۱، ص:۱۴۷
(۱) أخرجہ أبوجعفر أحمد بن محمد، المعروف بـ الطحاوي، شرح معاني الآثار، ’’باب مس الفرج ھل یجب فیہ الوضوء أم لا‘‘، ج۱، ص:۷۶، رقم: ۴۶۱
(۲) مراقی الفلاح شرح متن نور الإیضاح، حسن بن عمار المصري الحنفي، وراجعہ، نعیم زردور۔ ’’کتاب الطہارۃ، فصل عشرۃ أشیاء لا تنقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۳۸

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص232

طہارت / وضو و غسل

 الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرض غسل کے اندر پورے جسم تک پانی پہنچانا فرض ہے   اس لیے بلاضرورت اس طرح کے چپ کا استعمال درست نہیںہوگا اور اگر کوئی اس طرح کا چپ استعمال کرے، تو اس کا فرض غسل صحیح نہیں ہوگا، ہاں اگر مریض کو اس طریقۂ علاج کی ضرورت ہو اور اس طرح سے فائدہ کا یقین یا ظن غالب ہو، تو اس طرح کے چپ کے استعمال کی اجازت ہوگی اور اگر غسل فرض کی ضرورت ہو اور چپ نکالنے میں نقصان اور ضرر نہ ہو، تو چپ نکالنا ضروری ہے ورنہ اسی چپ کے ساتھ غسل کرلے۔ اس چپ کو پٹی کے مشابہ قرار دیا جائے گا اس کے ظاہر پر پانی پھیر لینا کافی ہوگا۔
و یجب أي یفرض (غسل) کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و سرۃ و شارب و حاجب و أثناء لحیۃ و شعر رأس ولو متلبداً لما في -فاطھروا- من المبالغۃ.و أما إذا لم یضرہ فلا یمسح علی الجبائر.(۱) قال قاضی خاں : و یمسح علی العصابۃ  کان تحتہ جراحۃ أو لا۔۔۔ لأن العصابۃ لا تعصب علی وجہ
یأتي علی موضع الجراحۃ۔ (۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱،ص:۲۸۵
(۲) محمد بن محمد، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱،ص:۱۵۷(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص322

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: امداد الاحکام وغیرہ میں ہے کہ غیر مسلم کی بنائی گئی صفوں کا اگر ناپاک ہونا یقینی ہو، تو دھونا ضروری ہے اور اگر صرف شبہ ہو،تو احتیاطاً دھو لیا جائے۔(۱)

(۱)امداد الاحکام کی عبارت یہ ہے: ’’اگر ناپاک ہونا یقین سے معلوم ہوجاوے، تب تو دھونا ضروری ہے اور اگر شبہ ہو، تو احتیاطاً دھو لینا بہتر ہے۔ کما فی الدر المختار: ما یخرج من دار الحرب کسنجاب إن علم دبغہ بطاھر فطاھر، أو بنجس فنجس، و إن شک فغسلہ أفضل، و في الشامي: و نقل في القنیۃ أن الجلود التي تدبغ في بلدنا، ولا یغسل مذبحھا، ولا تتوقی النجاسات في دبغھا، و یلقونھا علی الأرض النجسۃ، ولا یغسلونھا بعد تمام الدبغ، فھي طاھرۃ، و یجوز اتخاذ الخفاف و المکاعب و غلاف الکتب والمشط والقراب والدلاء رطبا و یابساً الخ أقول: ولا یخفی أن ھذا عند الشک و عدم العلم بنجاستھا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ،مطلب في أحکام الدباغۃ، ج۱، ص:۳۵۹) اور قنیہ کی عبارت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ کسی جگہ عام دستور ہونے سے یقین نجاست کا نہیں ہوتا؛ بلکہ یقین کی صورت یہ ہے کہ کسی خاص چٹائی میں ناپاک پانی لگنا معلوم ہوجائے۔ (إمداد الاحکام، کتاب الطہارۃ، فصل في النجاسۃ و أحکام التطہیر، عنوان ہندو کی بنائی ہوئی صفوں کو دھونا ضروری ہے یا بغیر دھوئے اس پر نماز پڑھی جاسکتی ہے، ج۱، ص:۳۹۹) في التاتارخانیہ: من شک في إنائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا، فھو طاھر مالم یستیقن… و کذا ما یتخذہ أھل الشرک أو الجھلۃ من المسلمین کالسمن والخبز والأطعمۃ والثیاب۔  (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ،قبیل۔ مطلب في أبحاث الغسل، ج۱،۲۸۳-۲۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص416

طہارت / وضو و غسل

الجواب و باللہ التوفیق : ناپاک حوض سے وضو بنا کر یا استنجاء کر کے جو نماز پڑھی ہے، اس کا اعادہ ضروری ہے۔ (۱)

(۱)لا یستنجي بالأشیاء النجسۃ (علی بن عثمان، سراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء، ج۱، ص:۶۱)؛ و(بل یمسحہ بنحو حجر) و مدر و طین یابس و تراب و خشب و قطن و خرقۃ وغیرھا طاھرۃ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، کتاب الطہارۃ، با ب الأنجاس،ج۱، ص:۹۷)؛ ولا یستنجی بالأشیاء النجسۃ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثاني، في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني: المخففۃ، و صفۃ الاستنجاء بالماء، ج ۱، ص:۱۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص464

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:لوٹے کے نچلے حصہ میں کوئی نجاست لگی ہو سکتی ہے، اس کو دھو کر بالٹی میں ڈال کر غسل کرنا درست ہے(۲)، تاہم اس کا خیال رہے کہ اہل مسجد نے جو لوٹے جس کام کے لیے رکھے ہیں، ان سے وہی کام لینا چاہیے۔(۳)

(۲)لأن ملاقاۃ الطاھر للطاھر لا توجب التنجس۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطھارۃ باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۹۲، مکتبۃ زکریا، دیوبند)
(۳) و إذا وقف للوضوء، لا یجوز الشرب منہ، و کل ما أعدّ للشرب حتی الحیاض, لا یجوز فیھا التوضؤ کذا في ’’خزانۃ المفتیین‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات‘‘، ج۲، ص:۴۱۵)؛ و لا یجوز الوضوء من الحیاض المعدۃ للشرب في الصحیح و یمنع من الوضوء منہ و فیہ و حملہ لأھلہ، إن مأذوناً بہ جاز۔ و إلا لا (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع،‘‘ ج ۹، ص: ۱۱-۶۱۲)؛ و أجمعوا أنہ إذا وقف للوضوء، لا یجوز الشرب منہ۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الوقف، الفصل الثاني والعشرون، في المسائل التي تعود إلی الرباطات والمقابر‘‘، ج۸، ص:۱۸۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص133



 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص بغیر ترتیب وضو کرے، یعنی :پہلے ہاتھ دھویا پھر مسح کیا، اس کے بعد چہرہ دھویا یا اس کے برعکس؛ بہر صورت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک وضو درست ہو جائے گا، جب کہ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک وضو میں ترتیب واجب ہے ان حضرات کے نزدیک وضو میں تقدیم و تاخیر کرنا جائز نہیں۔  وقال الشافعيؒ ومالکؒ حفظ الترتیب واجب في الوضوء، و لا یجوز فیہ التقدیم والتاخیر۔ و عند الفقھاء (الأحناف) حفظ الترتیب لیس بواجب في أرکان الوضوء۔ (۳)

(۳) أبوالحسن علی بن الحسین، النتف فی الفتاوی، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص۱۴،…(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)والترتیب المذکور في لفظ آیۃ الوضوء سنۃ، ولیس بفرض خلافا لثلاثۃ لأن العلف فیھا بالواو، و إجماع اللغۃ أنھا مطلق الجمع لا لغرض فیھا للترتیب الخ۔ (إبراھیم الحلبي، الحلبي الکبیري،ج۱، ص:۲۷)، و ایضاً: و أما سنتہ ۔۔۔ والترتیب المذکور في لفظ آیۃ الوضوء سنۃ، (إبراھیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ج۱، ص:۲۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص233