طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: چوںکہ اس میں کوئی ناپاکی نہیں ہے، اس لیے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا جائز ہے۔(۱)

(۱) اس پانی سے وضو کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ فقط، فتاویٰ رشیدیہ، باب غسل ووضو کا بیان، ص:۲۸۳)؛ و طاھر مطھر غیر مکروہ وھو الماء المطلق الذي لم یخالطہ ما یصیر بہ مقیداً۔ (احمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، ص:۲۱)؛  و قولہ علیہ السلام: الماء طھور لا ینجسہ شيء إلا ما غیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ۔ (محمود بن احمد، البنایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز ،ج۱، ص:۳۵۳)؛  قلت معنی قولہ علیہ السلام: الماء طہور لا ینجسہ شيء إلا ماغیر۔ الحدیث، أي لا ینجسہ شيء نجس۔(محمود بن أحمد، البنایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضو ومالا یجوز بہ، ج۱، ص:۳۶۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص466

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پیر دھونا اور اگر خفین پہنے ہوں، تو ان پر مسح کرناجب فرض ہے(۱)؛ تو جوتے پہن کر وضو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جوتے تو بہرحال اتارنے ہی پڑیںگے۔(۲)

(۱) عن سعید بن المسیب والحسن أنھما قالا: یمسح علی الجوربین إذا کانا صفیقین۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ’’کتاب الطہارۃ، في المسح علی الجوربین‘‘ ج۱، ص:۲۷۶، رقم :۱۹۸۸، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲)لا شک أن المسح علی الخف علی خلاف القیاس، فلا یصلح إلحاق غیرہ بہ، إلا إذا کان بطریق الدلالۃ وھو أن یکون في معناہ و معناہ (الساتر) لمحل الفرض الذي ھو بصدد متابعۃ المسح فیہ في السفر وغیرہ للقطع بأن تعلیق المسح بالخف لیس لصورتہ الخاصۃ؛ بل لمعناہ للزوم الحرج في النزع المتکرر في أوقات الصلاۃ خصوصاً مع آداب السیر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الآثار، باب المسح علی الخفین‘‘، ج۱، ص:۱۵۸)؛ اور جوربین اگر موٹے ہوں تو ان پر مسح کرنے کے تو بعض فقہاء قائل بھی ہیں لیکن جوتوں پر مسح کرنا تو کسی بھی امام کے مذہب میں جائز نہیں۔ لم یذھب أحد من الأئمۃ إلی جواز المسح علی النعلین۔ (محمد یوسف البنوري، معارف السنن، ’’باب في المسح علی الجوربین والنعلین‘‘ ج۱، ص:۳۴۷،مکتبۃ أشرفیۃ، دیوبند)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص136

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:القہقہۃ في کل صلوٰۃ فیہا رکوع و سجود تنقض الصلوٰۃ والوضوء(۱)
 قہقہہ مار کر ہنسنا رکوع و سجدے والی نماز میںناقض وضو ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جب کہ نماز جناز ہ میں ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹنا؛ صرف نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
حدیث میں ہے: إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلي بالناس فدخل أعمی المسجد فتردی في بئر فضحک ناس فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان ضحک أن یعید الوضوء والصلاۃ۔(۲)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زور سے ہنسنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، ساتھ ہی وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

(۱) جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء، و منھا القھقھۃ،‘‘ ج۱، ص:۶۳
(۲) أخرجہ دار قطني، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب أحادیث القھقھۃ في الصلاۃ و عللھا، ج۱، ص: ۱۸-۲۱۹ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص236

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: شراب ناپاک ہے، دھونے سے کپڑا پاک ہو جائے گا۔(۲

(۲) تحرم الخمر وھی التي ماء العنب إذا غلا واشتد۔۔۔ فنجاسۃ الخمر غلیظۃ و نجاسۃ ھذہ مختلف في غلظتھا و خفتھا الخ۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الابحر،کتاب الاشربہ، ج۴، ص:۲۴۴)؛ و أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیر او جری علیہ الماء طھر مطلقا بلا شرط عصر و تجفیف و تکرار غمس ھو المختار، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۴۲-۵۴۳) ؛ ولو أن ثوباً أصابتہ النجاسۃ وھی کثیرۃ فجفت و ذھب أثرھا وخفی مکانھا غسل جمیع الثوب۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، فصل في بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل، حکم العذرات والأوراث، ج۱، ص:۲۳۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص419

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: دہ در دہ حوض کا پانی جاری پانی کے حکم میں ہوتا ہے؛ اس  لیے اس پانی میں جب تک ناپاکی کا اثر محسوس نہ ہو، تو وہ پانی پاک ہے۔ اسی طرح اگر نجاست کے گرنے سے پانی کے رنگ، یا بو ،یا مزہ، میں فرق نہ آئے، تو حوض کا پانی ناپاک نہ ہوگا؛ لہٰذا اس مذکورہ صورت میں بھی حوض کا پانی ناپاک نہ ہوگا۔(۱)

(۱)إن الغدیر العظیم کالجاري لا یتنجس إلا بالتغیر من غیر فصل، ھکذا في ’’فتح القدیر‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول ما یجوز بہ التوضوء، النوع الثاني الماء الراکد،ج ۱، ص:۷۰)؛ و بتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً، أما القلیل فینجس و إن لم یتغیر۔(ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب حکم سائر المائعات کالماء في الأصح ، ج۱، ص:۳۳۲)؛ و الغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر (المرغینانی،ہدایۃ، کتاب الطہارۃِ باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج۱، ص:۳۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص466

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر وضو قرآن کریم کو چھونا جائز نہیں؛ البتہ بغیر چھوئے قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے۔ {لایمسہ إلا المطہرون}(۳)

(۳)قال الطیبی بیان لقولہ تعالیٰ لا یمسہٗ الا المطھرون (الواقعہ:۷۹) ، فإن المراد في الناس عن مسہ إلا علی الطھارۃ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب مخالطۃ الجنب، الفصل الثاني،‘‘ ج۲، ص:۱۵۱، مکتبۃ فیصل دیوبند)،  لا یمسہٗ إلا المطھرون و قول النبي لا یمس القرآن إلا طاھرٌ   بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص136

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: انجکشن لگوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے؛ ہاں اگر انجکشن لینے سے خون نکل جائے اور نکل کر بہہ جائے، تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔ (و ینقضہ خروج) کل خارج (نجس) بالفتح و یکسر (منہ) أي من المتوضیٔ الحئي معتاداً أو لا، من السبیلین أولا (إلی ما یطھر) بالبناء للمفعول أي یلحقہ حکم التطھیر(۱) القراد إذا مص عضو إنسان فامتلأ دما، إن کان صغیرا لا ینقض وضوئہ کما لو مصت الذباب أوالبعوض، و إن کان کبیرا ینقض۔ و کذا العلقۃ إذا مصت عضو إنسان حتی امتلأت من دمہ انتقض وضوء ہ، کذا في محیط السرخسی۔(۲)

(۱) ابن عابدین، درمختار، کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۰
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من السبیلین،‘‘ ج ۱، ص:۶۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص236

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ہاتھ دھونا ضروری تو نہیں، لیکن اگر برہنہ عضو پر ہاتھ لگایا ہے تو احترام قرآن کا تقاضا ہے کہ بغیر ہاتھ دھوئے قرآن کو مس نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) عن جابر قال : سمعت قیس بن طلق الحنفی، عن أبیہ، قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ سئل عن مس الذکر فقال: لیس فیہ وضوء إنما ھو منک و في روایۃ جزء منک۔  (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ج۱، ص:۳۷)؛
والمنع أقرب إلی التعظیم کما في البحر : أي والصحیح المنع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال، ج۱، ص:۴۸۸ )


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص420

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:تین دن سے ناپاک مانا جائے گا اور تین دن کی نمازوں کا اعادہ کیا جائے گا۔(۲)

(۲) و یحکم بنجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم، و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ ولم یتفسخ، و ھذا في حق الوضوء والغسل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج ۱، ص:۳۷۵)، و تنجسھا أي البئر من وقت الوقوع إن علم و إلا فمنذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ، و إن انتفخ أو تفسخ فمنذ ثلاثۃ أیام و لیالیھا۔ (محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام، فصل بئر دون عشر في عشر وقع فیھا نجس،ج ۱، ص:۲۶)؛ و  إن لم ینتفخ الواقع أو لم یتفسخ و من ثلاثہ أیام ولیالیھا إن اننتفخ أو تفسخ۔ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، کتاب الطہارۃ، فصل تنزح البئر لوقوع نجس، ج۱، ص:۵۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص467

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکرو اذکار بلا وضو جائز ہے؛ مگر بہتر اور افضل یہ ہے کہ یہ اذکار ووظائف بھی وضو کے ساتھ کرے، تاکہ اجرو ثواب میں اضافہ ہو، نیز شیطانی وساوس سے باوضو شخص کی حفاظت ہوتی ہے تاکہ یہ بھی نصیب ہو جائے۔(۱)

(۱)و یجوز لہ الذکر والتسبیح والدعاء۔ (ابراہیم بن محمد،  مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر ،فصل، ج۱، ص:۴۳)؛ و الحائض أوالجنب إذا قال: الحمد للّٰہ علی قصد الثناء لا بأس بہ۔ (علی بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، طہارۃ، ’’باب الحیض والنفاس،‘‘ج۱،ص:۷۹)(شاملۃ)؛ و أما الأذکار فلم یر بعضھم بمسہ باساً۔ والأولیٰ عند عامۃ المشائخ لا یمس إلا بحائل کما في غیرہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ،’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والاستحاضہ،فروع فیما یکرہ للحائض والجنب‘‘،ج۱،ص:۶۵۰)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص137