طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:منی بہر صورت ناپاک ہے۔ اگر کپڑے پر لگ جائے  تورگڑ کر صاف کرنے سے کپڑا پاک نہیں ہوگا؛ بلکہ اس ناپاک کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔(۱) البتہ گاڑھی اور سوکھی منی کے ذرات رگڑنے سے بالکل ختم ہوجائیںتو بھی کپڑا پاک ہوجائے گا۔(۲)

(۱)عن جابر بن سمرۃ قال: سأل رجل النبي ﷺ أصلي في الثوب  الذي آتی فیہ أھلي قال: نعم إلا أن ترا فیہ شیئا فتغلسہ۔ (موارد الظمان إلی زوائد ابن حبان، تحقیق: محمد عبدالرزاق حمزہ، باب ما جاء فی الثوب الذی یجامع فیہ،ج۱، ص:۸۲)؛ و عن عمر و بن میمون بن مہران سمعت سلیمان بن یسار یقول: سمعت عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا تقول: إنھا کانت تغسل المني من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ قالت: ثم أراہ فیہ بقعۃ أو بقعاً (سنن أبي داؤد، باب المنی یصیب الثوب، ج۱، ص:۵۳)؛  ولو أن ثوباً أصابتہ النجاسۃ وھی کثیرۃ فجفت و ذھب أثرھا و خفی مکانھا غسل جمیع الثوب۔ ( علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،فصل و أما بیان المقدار الذی یصیر بہ المحل،ج۱، ص:۸۱)
(۲) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: ربما فرکتہ من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ بیدی (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ابواب الطہارۃ و سننھا،باب في فرک المني من الثوب، ج۱، ص:۴۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص417

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ چھپکلی جس میں خون ہوتا ہے، کنویں میں گر جائے اور پھولے پھٹے نہیں، مردہ نکل آئے، تو تیس ڈول پانی نکالے جائیں گے، اگر پھول پھٹ گئی، تو اس کو نکال کر کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا؛ لیکن اگر کنویں کا پانی اس قدر ہے کہ اس کا نکالنا بھی مشکل ہے، تو تین سو ڈول نکال لیے جائیں، اس طرح کنواں پاک ہو جائے گا۔چڑیا اور چوہے کا بھی یہی  حکم ہے، اگر پھول پھٹ گیا ہو اور اگر پھولا پھٹا نہ ہو، تو بیس سے تیس ڈول تک نکالا جائے گا۔جوتا چپل اگر نجس ہے، تو سارا پانی ناپاک ہو گیا، اس کو پاک کرنے کا وہی طریقہ ہے، جو اوپر مذکور ہوا۔ اگر جوتا چپل ناپاک نہیں تھا، تو کنویں کا پانی پاک ہے، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) لو کان للضفدع دم سائل یفسد أیضا، و مثلہ لو ماتت حیۃ بریۃ لا دم فیھا في إناء لاینجس، و إن کان فیھا دم ینجس۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطھارۃ، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز،ج۱، ص:۹۰)؛ و إن ماتت فیھا فارۃ أو عصفورۃ أو سودانیۃ أو صعوۃ أوسام ابرص نزح منھا عشرون دلوا إلی ثلاثین بحسب کبر الدلو و صغرھا؛ یعني بعد إخراج الفارۃ لحدیث انس رضي اللہ تعالیٰ الخ۔ إلی فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح جمیع ما فیھا۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳-۴۲)؛ ینزح کل مائھا بعد إخراجہ لا إذا تعذر کخشبۃ أو خرقۃ متنجسۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار،  کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص464

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یعنی: اگر پیروں کی پھٹن کو سی دیا جائے، تو اب پانی اندر پہونچے یا نہ پہونچے؛ بہرصورت وضو درست ہوگا۔(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثالث: غسل الرجلین،ج۱، ص:۵۴
(۲) وعلل في الدرر بأن محل الفرض استتر بالحائل، و صار بحال لا یواجہ الناظر إلیہ، فسقط الفرض عنہ، و تحول إلی الحائل۔(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق و تقسیمہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص134

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء احناف کے نزدیک فرائض وضو چار ہیں: چہرہ دھونا دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کا دھونا، سر کا مسح کرنا، فرض الوضوء أربعۃ أشیاء (۱) غسل الوجہ۔ (۲) والیدین (۳)والرجلین (۴) و مسح ربع الرأس۔(۱)
جب کہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا اور وضو کی نیت کرنا بھی فرض ہے امام احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راہویہؒ کے نزدیک مضمضہ (کلی کرنا) اور استنشاق (ناک میں پانی لینا) بھی فرض ہے ۔
و عند أہل الحدیث ثمانیۃ أشیاء؛ ہذہ الأربعۃ، و أربعۃ آخری۔ فقد قال مالکؒ والشافعيؒ: التسمیۃ والنیۃ فریضتان في الوضوء۔ وقال أحمد بن حنبل و اسحاق بن راہویہؒ: المضمضۃ والاستنشاق في الوضوء۔ (۲)

(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۶ تا ۷۲
(۲) أبو الحسن علي بن محمد السغدي الحنفي، النتف في الفتاوی،’’ کتاب الطھارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۴

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص234

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1167/42-420

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، کرسکتے ہیں۔ شرعا اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ البتہ طبی اعتبار سے بیٹھ کر نہانا زیادہ مفید ہے.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دیگ میں جتنا شوربا ہے، اتنا ہی پانی اس میں ڈال کر پکایا جائے؛ تاکہ زائد پانی جل جائے؛ اس طرح تین مرتبہ کرنے سے دیگ پاک ہو جائے گی۔ یہی قول امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور یہی مفتی بہ ہے۔(۱)
    ’’ویطہر لبن و عسل ودبس ودہن یغلیٰ ثلاثاً، وفي رد المحتار علی الدر المختار ولو تنجس العسل فتطہیرہ أن یصب فیہ ماء بقدرہ فیغلیٰ حتی یعود إلی مکانہ، والدہن یصب علیہ الماء فیغلیٰ فیعلو الدہن الماء فیرفع بشیئ ہکذا ثلث مرات، وہذا عند أبي یوسف رحمہ اللہ خلافا لمحمد رحمہ اللہ وہو أوسع وعلیہ الفتویٰ۔ (۲)’’الدہن النجس یغسل ثلاثاً، بأن یلقیٰ في الخابیۃ، ثم یصب فیہ مثلہ ماء، ویحرک، ثم یترک حتی یعلو الدہن، فیؤخذ أو یثقب أسفل الخابیۃ حتی یخرج الماء، ہکذا ثلاثاً فیطہر۔‘‘(۳) ’’وفي المجتبی: تنجس العسل یلقی في قدر ویصب علیہ الماء ویغلیٰ حتی یعود إلی مقدارہ الأول ہکذا ثلاثاً قالوا وعلی ہذا الدبس۔(۴)

(۱)إمداد الفتاویٰ جدید، کتاب الطہارۃ باب الأنجاس وتطہیرہا،ج۱، ص:۴۳۳ ، ایضاً: ۷۲۳)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في تطہیر الدہن والعسل‘‘ ج۱، ص:۵۴۳
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس،ج۱، ص: ۹۷)
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، ج۱، ص: ۴۱۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص411

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں وہ کنواں تین دن تین رات سے ناپاک سمجھا جائے گا اور جن لوگوں نے اس مدت میں اس کے پانی سے وضوء کیا یا نہاکر نماز پڑھی ہے، ان کو اپنی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا اور کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا، اگر سارا پانی ممکن نہ ہو، تو تین سو ڈول کا نکالنا واجب ہوگا، اس کے بعد کنواں پاک ہو جائے گا۔(۲)

(۲) فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح ما فیھا صغر الحیوان أو کبر لانتشار البلۃ في أجزاء الماء۔ (المرغیناني الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)،  و إن کانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلوۃ ثلثۃ أیام و لیالیھا۔ (المرغیناني، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۳)،؛ و (متنفخ) ینجسھا من ثلاثۃ أیام و لیالیھا إن لم یعلم وقت وقوعہ۔ (احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل آبار، ص:۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص465

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گردن پر مسح کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، اس باب میں جو احادیث ملتی ہیں، ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے؛ اس لیے احناف کے نزدیک گردن پر مسح کرنا سنت نہیں ہے؛ ہاں مستحب ہے؛ کبھی کرلے اور کبھی چھوڑدے؛ اس کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱)و مستحبہ التیامن و مسح الرقبۃ قولہ (و مسح الرقبۃ) ھو الصحیح، و قیل: إنہ سنۃ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر، ’’کتاب الطہارۃ،  مطلب لا فرق بین المندوب، والمستحب والنفل والتطوع، ج۱، ص:۲۴۶)؛  و قال ظفر أحمد التھانوی بعد ما ساق أحادیث المسح علی الرقبۃ: دلّت ھذہ الأحادیث علی استحباب مسح الرقبۃ، ولا یمکن القول بسنیتہ لعدم نقل المواظبۃ (ظفر احمد عثماني، إعلاء السنن، کتاب الطہارۃ، باب استحباب مسح الرقبۃ، ج۱، ص:۶۶)؛ و في الظھیریۃ: قیل : مسح الرقبۃ مستحب۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول، فيالوضوء، المسح علی الرقبۃ والاختلاف فیہ‘‘، ج ۱،ص:۲۲۶)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص135

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اونٹ کا گوشت استعمال کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا    سوال میں مذکورہ خیال غلط ہے؛ البتہ کلی کرکے اچھی طرح منہ صاف کرکے نماز پڑھنا بہتر ہے، تاکہ منھ کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف نہ پہونچے۔ عن أبي أمامۃ الباھلي ۔۔۔ فقلت: الوضوء یارسول اللّٰہ، فقال صلی اللہ علیہ وسلم : إنما علینا الوضوء مما یخرج لیس مما یدخل(۱)

(۱) علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۹
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص235

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:گوبر نجس ہے، صرف سوکھنے سے وہ پاک نہیں ہوتا، اس  پر پیر رکھا جائے اور وہ پیر پر نہ لگے، تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن اگر گیلے پیر ہیں اور وہ پیروں پر لگ جائے تو پیر ناپاک ہو جائیں گے۔(۱)

(۱) و إذا جعل السرقین في الطین فطین بہ السقف، فیبس، فوضع علیہ مندیل مبلول لا یتنجس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ،الفصل الثانی: في الأعیان النجسۃ ، ج۱، ص:۱۰۲)؛ و إذا فرش علی النجاسۃ الیابسۃ فإن کان رقیقا یشف ما تحتہ او توجد منہ رائحۃ النجاسۃ علی تقدیر أن لھا رائحۃ لا تجوز الصلوۃ علیہ، و إن کان غلیظا بحیث لا یکون کذلک جازت الخ۔ (ابن عابدین، حاشیہ ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ بأھل الکتاب، ج۲، ص:۳۸۷)؛  و إذا أراد أن یصلی علی الأرض علیھا نجاسۃ، فکبسھا بالتراب، ینظر: إن کان التراب قلیلا بحیث لو استشمہ یجد رائحۃ النجاسۃ، لا یجوز، و إن کان کثیرا لا یجد الرائحۃ، یجوز ھکذا في ’’التاتارخانیۃ‘‘ و إذا کان علی الثوب المبسوط نجاسۃ و فرش علیہ التراب لا یجوز، ھکذا في ’’السراج الوھاج‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الثالث:في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني طہارۃ ما یستر بہ العورۃ وغیرہ، ج۱، ص:۱۱۹، و ہکذا في الفتاویٰ التاتارخانیہ، ج۱، ص:۲۳۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص418