طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دودھ پاک ہے؛ لہٰذا دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیوںکہ ناپاک چیز کے جسم سے نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے؛ البتہ اگر نماز میں ہو، بچہ دودھ پی لے اور دودھ نکل آئے، تو نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے کہ دودھ پلانا عمل کثیر ہے اور اگر دودھ نہ نکلے، تو نماز فاسد نہ ہوگی۔
و ینقضہ خروج کل خارج منہ(۳) و ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس منہ  أو مص ثدیھا ثلاثا أو مرۃ و نزل لبنھا أو مسھا بشھوۃ أو قبلھا بدونھا فسدت۔ وفي المحیط إن خرج اللبن فسدت لأنہ یکون إرضاعا۔(۴) المرأۃ إذا ارضعت ولدھا في الصلوٰۃ تفسد صلاتھا ولو جاء الصبي وارتضع من ثدیھا وھي کارھۃ فنزل لبنھا فسدت صلاتھا، و إن مص مصۃ أو مصتین ولم ینزل لبنھا لم تفسد صلاتھا۔ صبي مص ثدي امرأۃ مصلیۃ إن خرج اللبن فسدت و إلا فلا۔(۱)


(۳) ابن عابدین رد المحتا ر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ج۱، ص:۲۶۰
(۴)  ابن عابدین ،ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و مایکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ،‘‘ ج ۲، ص:۳۹۰

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، النوع الثاني، في الأفعال المفسدۃ للصلاۃ،‘‘ ج ۱، ص:۱۶۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص237

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا احتیاط کے خلاف ہے۔ بعض صورتوں میں ناپاکی کا اندیشہ ہے؛ اس لیے پہلے ڈبہ کو دھو لینا چاہیے۔ اگر غالب گمان فرش کی ناپاکی کا ہو، تو بالٹی کا پانی ناپاک ہوجائے گا۔(۱)

(۱) ولا بأس بالوضوء والشرب من حب یوضع کوزہ في نواحي الدار مالم یعلم تنجسہ ۔۔۔ إلی: مالم یتیقن النجاسۃ۔ (احمد بن اسماعیل الحنفي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، قبیل: فصل في بیان السؤر،ص:۲۸)؛ والکوز الذي یوضع في نواحي البیت لیغترف بہ من الحب فإن لہ أن یشرب و یتوضأ منہ مالم یعلم أن بہ قذراً (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص420

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر کنواں شرعی حوض کی طرح دہ در دہ نہ ہواور وہ ناپاک ہو جائے، تو ایک ہی دفعہ میں سارا پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، اگر تھوڑا تھوڑا پانی کر کے کئی مرتبہ میں پانی نکالا جائے اور اندازے کے مطابق پورا پانی نکل جائے، تو کنواں پاک ہو جا ئے گا اور پورا پانی جب تک نہ نکلے، اس وقت اس پانی سے دھوئے ہوئے کپڑے اور برتن ناپاک ہوں گے اور ان کپڑوں کو پہن کر جو نماز پڑھی گئی ہے، وہ نماز بھی لوٹائی جائے گی۔(۱)

(۱)و لو نزح بعضہ ثم زاد في الغد نزح قدر الباقي في الصحیح خلاصۃ قولہ ’’خلاصۃ‘‘ و مثلہ في الخانیۃ، وھو مبني علی أنہ لا یشترط التوالي وھو المختار: (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر،ج ۱، ص:۳۶۹)؛ و لا یشترط التوالي في النزح حتی لو نزح في کل یوم دلو، جاز۔(ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۰۹)؛  وکذلک اختلفوا في التوالي في النزح، فبعضھم شرطوا التوالي، و بعضھم لم یشترطوا، ثم علی قول من لم یشترط التوالي إذا نزح بعض الماء في الیوم، ثم ترکوا النزح، ثم جاؤوا من الغد فوجدوا الماء قد ازداد فعند بعضھم ینزح کل ما فیہ، و عند بعضھم مقدار ما بقي عند ترک النزح من الأمس، وفي الفتاویٰ العتابیۃ: ھو الصحیح۔ (عالم بن علاؤ الدین الحنفي،الفتاویٰ التارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بھا، ج۱، ص:۳۲۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص468

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کا متفقہ اصول یہ ہے کہ اگر تفسیر کی عبارت و الفاظ زیادہ ہوں، تو بغیر وضو چھونا جائز ہے اور اگر قرآن کی عبارت و الفاظ تفسیر سے زیادہ ہوں، تو اس کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا معارف القرآن اور جلالین جیسی کتابوں کو بغیر وضو چھونا جائز ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ وضو کے ساتھ چھوا جائے۔(۱)

(۱) (ولو قیل بہ) أي بھذا التفصیل بأن یقال۔ إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ و إن کان القرآن أکثر یکرہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص:۳۲۰)؛ و قال الحلواني۔ إنما قلت ھذا العلم بالتعظیم فإني ما أخذت الکاغذ إلا بطھارۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض،‘‘ ج۱، ص:۳۵۰) ؛  و  قد جوز بعض أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث ولم یفصلوا بین کون الأکثر تفسیراً ولو قیل بہ إعتباراً للغالب لکان حسناً۔ (طحطاوی، حاشیہ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۴۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص138

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹخنے سے نیچے پائجامہ رکھنا سخت گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ اس لیے کہ وضو کسی چیز کے نکلنے سے ٹوٹتاہے۔ عن أبي ھریرۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر اللّٰہ یوم القیامۃ إلیٰ من جر إزارہ بطرا۔
و عن أبي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار۔(۲)عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ :من جر ثوبہ من الخیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ۔ (۳)عن أبي أمامۃ الباھلي۔۔۔ فقلت الوضوء یارسول اللّٰہ؟ و قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إنما علینا الوضو مما یخرج لیس مما یدخل۔(۴)

(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین ففی النار،‘‘ ج۲، ص:۸۶۱
(۳)أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم جر الثوب خیلاء،‘‘ ج۲، ص:۱۹۵
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۹

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص238

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ناپاک کپڑے سے نجاست کو زائل کر دیا جائے، تو وہ پاک ہو جاتا ہے، اصل مقصود نجاست کو بالکلیہ زائل کرنا ہے، اگر کوئی نجاست ایسی ہو جو کھرچنے سے زائل ہو جاتی ہو اور اس کا اثر بالکل ختم ہو جاتا ہو، تو صرف کھرچنے سے بھی کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایسی ہی نجاست کا ذکر ہے(۲) اور جو نجاست کھرچنے سے ختم نہ ہوتی ہو اس کو ختم کرنے کے لیے کپڑے کا دھونا ضروری ہوتا ہے ،عام طور پر تین مرتبہ دھونے سے نجاست ختم ہو جاتی ہے اس لیے کپڑے کو تین مرتبہ دھونا چاہیے۔
واشنگ مشین یا بالٹی میں ایک کپڑا یا متعدد کپڑے ڈالے جائیں، پھر ان کو نکال لیا جائے اور اس پانی کو بہا دیا جائے، پھر دوسرا پانی لیا جائے اور اس میں کپڑے ڈالے جائیں اس طرح تین مرتبہ پانی میں کپڑے ڈالے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کپڑا پانی میں ڈال کر نکال لیا اور پھر اسے نچوڑا اور پھر اسی پانی میں دوسرا کپڑا ڈال دیا جائے نیز ہر مرتبہ کپڑے نچوڑنا بھی ضروری ہے۔ اگر واشنگ مشین میں پانی کم ہو، تو احتیاط اس میں ہے کہ دو بارہ پانی ڈالیں یا بالٹی میں کپڑے کو ڈال کر پاک کر لیا جائے۔(۱)


(۲) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: ربما فرکتہ من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ بیدي، (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ابواب الطہارۃ وسننھا، باب في فرک المني من الثوب،ج۱،ص:۴۱)؛ و یطھر البدن والثوب والخف و إذا أصابہ مني بفرکہ إن کان یابسا وبغسلہ إن کان رطباً۔ (ابن نجیم،البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۳۸۹)
(۱)و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا و لو بمرۃ علی الصحیح ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ و غیر المرئیۃ بغسلھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ … و یطھر المني الجاف بفرکہ عن الثوب والبدن و یطھر الرطب بغسلہ ( الشرنبلالي، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا،ص:۵۳-۵۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص421

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:وہ پانی طاہر ہے، اس سے کھانا بنانے نہانے کی گنجائش ہے اور مطہر نہیں ہے، اس لیے بہشتی زیور میں کراہت لکھی گئی ہے؛ لہٰذا کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے۔(۱)

(۱) اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ أن الماء المستعمل لیس بطھور، حتی لا یجوز التوضي بہ، فلا یجوز غسل شيء من النجاسات بہ… واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللہ: وھو طاھر غیر طھور، وھو روایۃ عن أبي حنیفہؒو علیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بہا، ج۱،ص:۳۴۴)؛  و ھو (أي الماء المستعمل) طاھر، ولو من جنب، وھو الظاھر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھاً للاستقذار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲)؛ و اتفق أصحابنا رحمھم اللہ: أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللّٰہ : ھو طاہر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ و علیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثانی فیما لایجوز بہ التوضوء، ج ۱،ص:۷۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص469

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ووٹ ایک طرح کی شہادت ہے، جہاں تک ممکن ہو ووٹ ضرور ڈالنا چاہیے(۲) ووٹ ڈالنے کے بعد انگلی پر جو سیاہی لگائی جاتی ہے، وہ جلدی ختم نہیں ہوتی؛ اس لیے اس کے رہتے ہوئے وضو درست ہوگا۔(۳)

(۲)قال النووي۔۔۔ رحمہ اللہ تعالیٰ: أجمعوا علی أن من وعد انساناً شیئا  لیس بمنھی عنہ فینبغي أن  یفي بوعدہ۔ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب، باب المزاح،‘‘ج۹، ص:۱۱۴)

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص138

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گلوکوز چڑھانے کی وجہ سے اگر سرنچ کی نلکی میں اس قدر خون آجائے کہ اگر وہ سرنچ میں نہ ہوتا، تو باہر بہہ جاتا؛ اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر اس قدر خون نہیں ہے یا بالکل بھی نہیں ہے، تو گلوکوز چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ الوضوء مما خرج ولیس مما دخل(۱) القراد إذا مص عضو انسان فامتلأ دما، إن کان صغیرا لا ینقض وضوؤہ، کما لو مصت الذباب أو البعوض، و إن کان کبیرا ینقض، وکذا العلقۃ إذا مصت عضو إنسان حتی امتلأت من دمہ انتقض وضوؤہ (۲)

(۱) الزیلعي، نصب الرایہ ، ’’باب ما یوجب القضاء والکفارۃ،‘‘ ج۲، ص:۴۵۴
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من غیر السبیلین،‘‘ ج ۱، ص:۶۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص239

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جس زمین پر پیشاب کیا گیا ہو؛ اگر وہ زمین خشک ہوجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پیشاب کی بدبو نہ ہو، تو وہ زمین پاک ہے۔(۲)

(۲) و إذا ذھب أثر النجاسۃ (أي ریحھا و لونھا)عن الأرض و جفت جازت الصلوۃ علیھا دون التیمم منھا۔ (الشرنبلالی، نورالایضاح،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا ،ص:۵۴)؛ وتطھر الأرض المتنجسۃ بالجفــاف إذا ذھــب أثر النجــاسۃ فتجــوز الصلوۃ علیھا۔(ابن نجیم، البحر الرائق،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۳۹۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص422