Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق : اگر مسواک کرتے وقت خون نکلتا ہے اور وہ تھوک پر غالب آجاتاہے، تو ایسی صورت میں وضو درست نہیں ہوگا، آپ کو چاہیے کہ مسواک نہ کریں، ا س کے بجائے آہستگی سے دانتوں پر انگلی پھیرلیا کریں؛ یہ انگلی پھیرنا مسواک کے قائم مقام ہوجائے گا۔
و ینقضہ دم مائع من جوف أو فم غلب علی بزاق(۱) لا ینقضہ المغلوب بالبزاق(۲) و علامۃ کون الدم غالباً أو مساویاً أن یکون البزاق أحمر، و علامۃ۔ کونہ مغلوباً أن یکون أصفر۔(۳) من خشي من السواک تحریک القئ ترکہ(۴) و عندہ فقدہ أو فقد أسنانہ، تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ۔ (۵)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱ ص:۲۶۷
(۲)ایضاً: (۳)ایضاً:
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني في سنن الوضوء و منھا السواک،‘‘ ج۱، ص:۵۷(مکتبہ فیصل دیوبند)
(۵) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج ۱، ص:۲۳۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص205
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک پکڑنے اور کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو دائیں ہاتھ سے اِس طرح پکڑا جائے کہ سب سے چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے رکھ کر اُس کے برابر والی تینوں انگلیوں کو مسواک کے اوپر رکھا جائے اور انگوٹھا مسواک کے سر کی طرف نیچے رکھا جائے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے: ’’والسنۃ في کیفیۃ أخذہ أن یجعل الخنصر أسفلہ والإبہام أسفل رأسہ وباقي الأصابع فوقہ، کما رواہ ابن مسعود‘‘(۱)
اس کے بعد اوپر والے دانتوں کو دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کرے پھر بائیں طرف والے دانتوں کو، اسی طرح نیچے والے دانتوں کو پہلے دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کرے، اس کے بعد بائیں طرف والے دانتوں کو صاف کرے اور تین مرتبہ پانی میں بھگو کر یہی عمل کیا جائے گا ایسے ہی مسواک سے زبان اور گلے کو صاف کرنا بھی مسنون ہے؛ اس لئے کہ حدیث پاک میں ہے: مسواک کرنا منہ کی صفائی اور اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کا سبب ہے۔
’’وأقلہ ثلاث في الأعالی وثلاث في الأسافل (بمیاہ) ثلاثۃ، (و) ندب إمساکہ (بیمناہ) وکونہ لیناً، مستویاً بلا عقد، في غلظ الخنصر وطول شبر۔ ویستاک عرضاً لا طولاً‘‘(۲)
’’(قولہ: في الأعالی) ویبدأ من الجانب الأیمن ثم الأیسر وفي الأسافل کذلک بحر۔ (قولہ: بمیاہ ثلاثۃ) بأن یبلہ في کل مرۃ‘‘(۱)
نیز مسواک فصاحت میں اضافہ کرتی ہے، مسواک کرنا بیماری کے لیے شفاء ہے۔ صاحب کنز العمال نے مسواک کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’علیکم بالسواک، فنعم الشيء السواک، یذھب بالجفر، وینزع البلغم، ویجلوالبصر ویشد اللثۃ، ویذھب بالبخر، ویصلح المعدۃ، ویزید في درجات الخیر ویحمد الملائکۃ ویرضی الرب، ویسخط الشیطان‘‘(۲)
مسواک کو لازم پکڑو کیونکہ مسواک بہت عمدہ چیز ہے۔ جسم کی بو زائل کرتی ہے، بلغم کو ختم کرتی ہے، بینائی کو تیز کرتی ہے، مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے، منہ کی بدبو کو زائل کرتی ہے، معدہ کو درست کرتی ہے، نیکی کے درجات میں اضافہ کرتی ہے، ملائکہ کو خوش کرتی ہے، رب تعالیٰ کو راضی کرتی ہے اور شیطان کو ناراض کرتی ہے۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني: في سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۷۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في من منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴-۲۳۵۔
(۱) أیضًا
(۲) علاؤ الدین علي بن حسام الدین، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال: ج ۹، ص: ۳۱۴، رقم: ۲۶۱۸۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص206
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک کی موٹائی اور لمبائی کے سلسلے میں علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:
’’(و) ندب إمساکہ (بیمناہ) وکونہ لینا، مستویا بلا عقد، في غلظ الخنصر وطول شبر۔ ویستاک عرضا لا طولا‘‘(۱)
یعنی مسواک کن انگلی کے بقدر موٹی ہو اور ایک بالشت لمبی ہو، کسی خاص درخت کا ہونا ضروری نہیں ہے، انار اور ببول وغیرہ کے درخت سے بھی مسواک کی جاسکتی ہے؛ لیکن پیلو یا زیتون کے درخت کی مسواک زیادہ اولیٰ ہے۔ جیسا کہ علامہ بدر الدین العینی نے ’’البنایہ والنہایہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’فیما یستاک بہ وما لا یستاک بہ، وفي ’’الدرایۃ‘‘: ویستحب أن یستاک بعود من أراک یابس قد ندي بالماء ویکون لینا، وقد مر في حدیث أبي سبرۃ الاستیاک بالأراک وذکرنا أیضا عن الطبراني من حدیث معاذ نعم السواک الزیتون الحدیث‘‘(۲)
ایسے ہی مسواک پہلے دائیں جانب اوپر نیچے، پھر بائیں جانب اوپر نیچے پھر ان دانتوں پر مسواک کرے جو ان کے درمیان ہیں کم از کم تین مرتبہ اوپر اور تین مرتبہ نیچے، تین مرتبہ پانی لے کر مسواک کرنی چاہئے۔
مسواک کرنا وضو کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ گھر میں داخل ہونے سے قبل تلاوت قرآن اور مجمع عام میں جانے سے پہلے بھی مسواک کرنی سنت ہے، اس کے علاوہ اور بھی اوقات ہیں جن میں مسواک کرنا مسنون ہے، نیز مسواک کرنے سے منہ کی صفائی اور رب کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔ رہا برش وغیرہ سے دانت صاف کرنا تو اس سے طہارت وپاکیزگی کی سنت تو ادا ہوجاتی ہے؛ لیکن خاص لکڑی سے مسواک کرنے کی سنت حاصل نہیں ہوتی۔
’’قال في إمداد الفتاح: ولیس السواک من خصائص الوضوء، فإنہ یستحب في حالات منہا: تغیر الفم، والقیام من النوم وإلی الصلاۃ، ودخول البیت، والاجتماع بالناس، وقراء ۃ القرآن؛ لقول أبي حنیفۃ: إن السواک من سنن الدین فتستوی فیہ الأحوال کلہا۔ وفي القہستاني: ولا یختص بالوضوء کما قیل، بل سنۃ علی حدۃ علی ما في ظاہر الروایۃ۔ وفي حاشیۃ الہدایۃ أنہ مستحب في جمیع الأوقات، ویؤکد استحبابہ عند قصد التوضؤ فیسن أو یستحب عند کل صلاۃ‘‘(۱)
’’ومن منافعہ: أنہ شفاء لما دون الموت، ومذکر للشہادۃ عندہ۔ وعند فقدہ أو فقد أسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ، کما یقوم العلک مقامہ للمرأۃ مع القدرۃ علیہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم ما لم یجد السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
(۲) أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص208
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 861 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:موبائل کی اسکرین پر اگر قرآنی آیات کھلی ہوں تو ان کو چھونا درست نہیں ہے۔ جب تک قرآنی آیات میموری کے اندر ہیں اسکرین پر ہاتھ لگانا یا موبائل چھونا منع نہیں ہے؛ لیکن جب الفاظ اسکرین پر نظر آئیں تو ان کا قرآنی آیات کا سا احترام لازم ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا رکھا جائے عرضا زمین پر نہ رکھا جائے۔ ’’ولایضعہ بل ینصبہ والا فخطر الجنون‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص210
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1966/44-1900
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر آپ کے علاقہ میں مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے اور آپ کے بقول بچنا دشوار ہے ، تو اگر بعینہ نجاست نظر نہ آتی ہو یعنی نجاست کا اثر واضح نہ ہو تو آپ کے حق میں وہ پانی ناپاک نہیں سمجھاجائے گا، تاہم اسے دھوکر ہی نماز پڑھنا بہتر ہے۔ اور اگر بعینہ نجاست نظر آجاتی ہوتو پھر اس کو دھوکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔
اقول والعفو مقید بما اذا لم یظھر فیہ اثر النجاسۃ کما نقلہ فی الفتح عن التجنیس، وقال القھستانی انہ الصحیح لکن حکی فی القنیۃ قولین وارتضاھما فحکی عن ابی نصر الدیوسی انہ طاھر الا اذا رای عین النجاسۃ وقال وھو صحیح من حیث الروایۃ وقریب من حیث النصوص۔ (ردالمحتار 1/324، کتاب الطھارۃ، مطلب فی العفو عن طین الشارع سعید کراچی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2287/44-3441
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو ممکن تھا آپ نے کیا اور ظاہری نجاست کو دھودیا تو اب آپ کا موبائل پاک ہوگیا۔ اس کو استعمال کرنا اس میں دیکھ کر قرآن کریم پڑھنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں مسواک کرنا عورتوں کے لئے بھی سنت ہے جیسے مردوں کے لئے؛ لیکن اگر عورتوں کے مسوڑھے مسواک کے متحمل نہ ہوں اور اس میں تکلیف ہو، تو عورت کے لیے دنداسہ (جو ایک قسم کا رنگین اور ذائقہ دار ہوتا ہے) مسواک کے قائم مقام ہے اور نیت کے ساتھ دنداسہ سے بھی سنت ادا ہوجائے گی۔
جیسا کہ اسی مفہوم کو علامہ بدر الدین العینی نے’’ البنایہ شرح الہدایۃ‘‘ میں لکھا ہے:
’’العلک للمرأۃ یقوم مقام السواک؛ لأنہا تخاف سقوط أسنانہا؛ لأن سنہا ضعیف، والعلک مما ینقی الأسنان ویشد اللثۃ‘‘(۲)
مسواک کا ذکر کئی احادیث متواترہ میں آیا ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر مسواک کا مذاق اڑائے یا مطلقاً سرے سے اس کا انکار ہی کردے تو گویا کہ اس نے احادیث متواترہ کا مذاق اڑایا اور اس کا انکار کیا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، کیونکہ تواتر کا منکر کافر ہوتا ہے جیسا کہ کتب فقہ میں اس کا ذکر موجود ہے:
’’قیل ھذا استخفاف بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، وأنہ کفر … وکذلک في سائر السنن خصوصا في سنۃ ھي معروفۃ و ثبوتھا بالتواتر کالسواک وغیرہ‘‘(۱)
’’ومنہا ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام من لم یقر ببعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر‘‘(۲)
’’والسواک سنۃ، واعتقاد سنیتہ فرض، وتحصیل علمہ سنۃ، وجحودہا کفر،وجہلہ حرمان، وترکہ عتاب أو عقاب‘‘(۳)
’’(قولہ: کما یقوم العلک مقامہ) أي في الثواب إذا وجدت النیۃ، وذلک أن المواظبۃ علیہ تضعف أسنانہا فیستحب لہا فعلہ‘‘(۴)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم من لم یجد السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶۔
(۱) عالم بن العلاء، الفتاوی التاتارخانیۃ، ’’ ‘‘: ج ۵،ص: ۴۸۲۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۳۔
(۳) الکشمیري، في إکفار الملحدین في ضروریات الدین، ج۱، ص: ۶۔
(۴) ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص210
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1771/43-1502
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو ان کو پاک ہی سمجھاجائے گا۔ غیرمسلم کا بدن بھی پاک ہے تو اس کا کپڑا بھی پاک شمار ہوگا الا یہ کہ اس کے کپڑے یا بدن پر کوئی نجاست ہو تو اب ان کی ناپاکی کا حکم لگے گا۔
" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب."--------- )"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)
وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)
’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً(‘‘.الفتاوى الهندية (5/ 347)
’’شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ.‘‘(الاشباہ و النظائر،صفحہ 61،مطبوعہ کراچی) ’’ولو شک فی نجاسۃ ماء أو ثوب أو طلاق أو عتق لم یعتبر) در مختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(
’’قولہ:(ولو شک)فی التاتر خانیۃ: من شک فی انائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فھو طاھر ما لم یستیقن،و کذا لآبار والحیاض والحباب الموضوعۃ فی الطرقات و یستقی منھا الصغار و الکبار والمسلمون والکفار )رد المحتار مع الدر المختار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند