Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس والی عورت سے وطی بالکل حرام ہے(۱) غسل میں نیت ضروری نہیں؛ بلکہ ناک میں پانی داخل کرنا، حلق میں پانی داخل کرنا اور پورے بدن پر پانی بہانا ضروری ہے(۲) متعدد وطی سے ایک ہی غسل کافی ہے، علیحدہ علیحدہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔
(۱)ویسألونک عن المحیض قل ھو أذ ی فاعتزلوا النساء في المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن فإذا تطھرن فأتوھن من حیث أمرکم اللّٰہ إن اللّٰہ یحب التوابین و یحب المتطھرین۔ (سورۃ البقرہ: الآیہ:۲۲۲) ؛ وعن أبي ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: من أتی حائضاً أو إمرأۃً في دبرھا أو کاھناً فقد کفر بما أنزل علی محمد۔ (أخرجہ الترمذی فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في کراھیۃ إتیان الحائض‘‘ج۱، ص:۳۵، رقم :۱۲۵؛ و عن ابن عباس عن النبي ﷺ في الذي یأتي امرأتہ وھي حائضٌ قال: یتصدق بدینار، أو بنصف دینار (أخرجہ ابو دائود، فی سننہ، ’’کتاب النکاح، باب في کفارۃ من أتی حائضاً‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛و وطؤھا في الفرج عالما بالحرمۃ عامداً مختاراً کبیرۃ لا جاھلا ولا ناسیا ولا مکرھاً فلیس علیہ إلا التوبۃ والاستغفار (زین الدین إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ج۱، ص:۳۴۲)
(۲) و فرض الغسل غسل فمہ و أنفہ و بدنہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ آلہ تطہیر ونظافت ہے؛ اس لیے متوضی کو چاہئے کہ ابتداء وضو میں ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کا خلال کرے، تاکہ اچھی طرح نظافت حاصل ہو جائے، تاہم سنّت یہ ہے کہ کہنیوں تک ہاتھ دھوتے وقت خلال کرے۔
’’أن التخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۱)
’’وتخلیل الأصابح من الید والرجلین بعد التثلیث‘‘(۲)
’’والتخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۸۔
(۲) علی حیدر خواجہ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔(شاملۃ)
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص183
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس سے پاکی حاصل کرتے وقت اگر زیر ناف صاف کرے تو گناہ گار نہیں ہوگی، دو تین دن بعد اگر صاف کرے تب بھی گناہ گار نہیں ہوگی، بلکہ چالیس دن کے اندر اندر جس وقت چاہے صاف کر لے کوئی ممانعت نہیں۔(۳)
(۳)حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہٌ و کذا قص الأظافیر (جماعۃ من علماء الہند، …الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار الخ‘‘ ج۵، ص:۴۱۴)؛ و قص الأظفار ھو إزالۃ ما یزید علی ما یلابس رأس الإصبع من الظفر بمقص أو سکین أو غیرھما و یکرہ … في حالۃ الجنابۃ، و کذا إزالۃ الشعر لما روی خالد مرفوعا من تنور قبل أن یغتسل جائتہ کل شعرۃ فتقول یارب سلہ لم ضیعنی ولم یغسلنی۔ (طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1834/43-1668
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خشک نجاست کے ذرات اگر جوتے چپل میں آجائیں تو ان کو جھاڑ کر صاف کردیں، اور نماز ادا کرلیں، البتہ اگرنجاست گیلی ہو اور پیروں میں لگ جائے تو اس کو دھونا ضروری ہے۔ نیز اگر راستہ پر کیچڑ ہو اور اس کی پاکی و ناپاکی کا یقین نہ ہو تو چھینٹیں ناپاک نہیں سمجھی جائیں گی اور ان کپڑوں میں نماز درست ہوجائے گی، اور اگر ناپاکی کا غالب گمان یا یقین ہو تو ناپاک سمجھ کر دھولینا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو ایک اہم ضرورت اور عبادت ہے، اس کے لیے مناسب درجہ کے پانی کا نظم کیا جانا چاہئے، سورج کی تپش سے جو پانی معمولی درجہ میں گرم ہو اس کے استعمال میں تو حرج نہیں ہے؛ لیکن جب پانی بہت زیادہ گرم ہو جائے، تو اس کا استعمال مضر ہوتا ہے، طبعی طور پر بھی اس کے استعمال سے آدمی کو وحشت ہوتی ہے، اگر مجبوری ایسی ہو کہ اس کے علاوہ کوئی پانی نہ ہو اور اس سے وضو کی جاسکتی ہو، تو اس سے وضو کی جائے؛ لیکن دوسرے مناسب پانی کا نظم کیا جا سکتا ہو، تو مناسب پانی کا نظم کیا جانا چاہئے، اس گرم پانی کا استعمال کراہت سے خالی نہیں ہے۔
’’منہا الماء المسخن بالشمس فإنہ یکرہ استعمالہ في الوضوء والغسل بشرطین: الشرط الأول: أن یکون موضوعاً في إناء مصنوع من نحاس أو رصاص أو غیرہما من المعادن غیر الذہب والفضۃ أما الماء الموضوع في إناء من ذہب أو فضۃ فإنہ إذا سخن بالشمس لا یکرہ الوضوء منہ، الشرط الثاني: أن یکون ذلک في بلد حار فإذا وضع الماء المطلق في إناء من نحاس ووضع في الشمس حتی سخن فإنہ یکرہ الوضوء منہ والاغتسال بہ‘‘(۱)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم الماء الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص184
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایام حیض میں مذکورہ عذر کی وجہ سے قرآن پاک تلاوت کی اجازت نہیں ہوگی(۱) اگر بھولنے کا خطرہ ہے تو ایسا کرے۔ قرآن پاک کو کسی کپڑے وغیرہ سے پکڑ کر کھولے اور قرآن میں دیکھ کر دل ہی دل میں یاد کرتی رہے، زبان سے حروف والفاظ کی ادائیگی نہ کرے۔ کوئی تلاوت کر رہا ہو، تو اس کے پاس بیٹھ کر سنتی رہے، ان شاء اللہ یاد کیا ہوا یاد رکھنا آسان ہو جائے گا۔
(۱)عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما عن النبي ﷺ قال لا تقرء الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن۔ (أخرجہ الترمذی، فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في الجنب والحائض، و منھا لا یقرأالقرآن‘‘ج۱، ص:ـ۳۴، رقم:۱۳۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛ ومنھا حرمۃ قراء ۃ القرآن: لا تقرأ الحائض والنفساء والجنب شیئا من القرآن، والآیۃ وما دونھا سواء في التحریم علی الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ومنھا حرمۃ قراء ۃ القرآن‘‘ج۱، ص:۳۷) و منھا أن لا تقرأ القرآن عندنا (عالم بن العلاء،فتاویٰ تاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع آخر فی الأحکام التي تتعلق بالحیض‘‘ج۱، ص:۴۸۰مکتبۃ زکریا دیوبند) و قراء ۃ القرآن أي یمنع الحیض قراء ۃ القرآن، و کذا الجنابۃ لقولہ ﷺ لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن، ولا فرق بین الآیۃ ومادونھا في روایۃ الکرخیّ، و في روایۃ الطحاوی یباح لھما قراء ۃ ما دون الآیۃ… ھذا إذا قرأہ علی قصد التلاوۃ، و أما إذا قرائہ علی قصد الذکر والثناء الخ (لایمسہ إلا المطھرون) و لقولہ ﷺ لا یمس المصحف إلا طاھرٌ قال رحمہ اللّٰہ (و منع الحدث المسّ) أي مسّ القرآن لما تقدم قال (ومنعھما الجنابۃ والنفاس) أي منع من القراء ۃ والمسّ الجنابۃ والنفاسُ۔(فخرالدین عثمان بن علی، تبیین الحقائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج۱، ص:۶۴-۱۶۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص379
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ اس لیے اس وضو سے فرض ہو یا نفل ہر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
’’عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد ومسح علیٰ خفیہ، فقال لہ عمر: لقد صنعتہ الیوم شیئاً لم تکن تصنعہ …؟ قال عمداً صنعتہ یا عمر … قال الإمام النووي … وجواز الصلوات المفروضات والنوافل بوضوء واحد ما لم یحدث وہذا جائز بإجماع من یعتد بہ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵۔ (کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء أنہ یصلی الصلوات بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الطہارۃ: باب کفایۃ الوضوء الواحد لصلوات متعددۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴۔(مکتبۃ أشرفیہ، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص185
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت حیض میں عورت کے لیے نماز وتلاوت قرآن منع ہے، مگر دیگر وظائف اور کلمہ طیبہ پڑھ سکتی ہے؛ بلکہ بہتر ہے کہ حائضہ عورت نماز کا وضو بنا کر مصلی پر بیٹھ کر نماز کی مقدار تسبیحات پڑھے مثلاً ’’سبحانک أستغفر اللّٰہ الذی لا إلہ إلا ہو الحی القیوم‘‘ تو اس کے نامہ اعمال میں ہزاروں کتابوں کے برابر ثواب لکھا جاتا ہے ستر ہزار گناہوں کی معافی ہوتی ہے۔(۱)
(۱)لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (واقعۃ:۷۹) یمنع صلٰوۃ ۔۔۔إلی۔۔۔ و قراء ۃ قرآن و قال فی رد المحتار: یستحب لھا أن تتوضأ لکل صلاۃ و تقعد علی مصلاھا تسبح و تھلل و تکبر بقدر أدائھا، کي لا تنسی عادتھا، و في روایۃ: یکتب لھا ثواب أحسن صلاۃ کانت تصلي۔( ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ج۱،ص:۴۸۴، مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛(و لیس للحائض والجنب والنفساء قراء ۃ القرآن) لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص380
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1832/43-1667
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں جب کہ عضو پر پیشاب بالکل بھی نہیں لگا ہے، شرمگاہ کو دھونا لازم نہیں ہے۔ البتہ دھولینا بہتر ہے۔
وعفا لشارع عن قدر درہم وإن کرہ تحریمًا فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہا فیسن وفوقہ مبطل فیفرض (درمختار) وفي الشامیة: وقدر الدرہم لا یمنع ویکون سیئًا وإن قل فالأفضل أن یغسلہا ولا یکون سیئًا (شامي: ۱/۵۲۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو یا غسل کرتے وقت صرف خشک رہ جانے والے اعضاء کو دھو لینا کافی ہے، اعضاء کے خشک ہونے سے پہلے بھی یہی حکم ہے اور خشک ہونے کے بعد بھی از سر نو وضو یا غسل ضروری نہیں ہے۔
’’ولو ترکہا أي ترک المضمضۃ أو الاستنشاق أو لمعۃ من أي موضع کان من البدن ناسیاً فصلی، ثم تذکر ذلک یتمضمض أو یستنشق او یغسل اللمعۃ ویعید ما صلی إن کان فرضا لعدم صحتہ‘‘(۱)
’’نسي المضمضۃ أو جزء اً من بدنہ فصلی ثم تذکر فلو نفلاً لم یعد لعدم صحۃ شروعہ (قولہ لعدم صحۃ شروعہ) أي والنفل إنما تلزم إعادتہ بعد صحۃ الشروع فیہ قصداً وسکت عن الفرض لظہور أنہ یلزم الإتیان بہ مطلقاً‘‘(۲)
(۱) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، ’’فرائض الغسل‘‘: ص: ۴۴۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص186