طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال صورت میں اس عورت کا قول درست نہیں ہے، اس کو چاہئے کہ صحیح مسئلہ پر عمل کرے،احناف کے نزدیک حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیںجب کہ زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں اوراس عورت کو چاہئے کہ بہشتی زیور وغیرہ کا مطالعہ کرے تاکہ صحیح معلومات حاصل ہوں اور جتنے روز حیض آئے اتنے ہی روزوں کی قضا لازم ہے۔(۱)

(۱)عن أبي أمامۃ الباھلي قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: لا یکون الحیض للجاریۃ والثیب التي قد أیست من الحیض أقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام فھي مستحاضۃ، فما زاد علی أیام أقرائھا قضت و دم الحیض أسود خاثر تعلوہ حمرۃ و دم المستحاضۃ أصفر رقیق۔ (أخرجہ دار قطنی، في سننہ، ’’کتاب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۰۷، رقم :۸۳۳، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) … أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ج۱، ص:۶۲)؛ فإن لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض، سواء کانت مبتدأۃ أو معتادۃ إن جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ أیام و في المعتادۃ معروفتھا في الحیض حیض والطھر طھر۔ (جماعۃ من علماء الہند، فتاوی ہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول: في الحیض و منھا : تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹۱ (مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص375

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2251/44-2400

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انگور، کشمش اور کھجور  سے یعنی شراب سے بنا ہوا الکحل حرام ہے اس کا استعمال  دواؤں میں  جائز نہیں ہے۔  لیکن ہماری معلومات  کے مطابق ہومیوپیتھک دواؤں میں جو الکحل استعمال ہوتاہے وہ  دوسری چیزوں سے بناہوتاہے، اس لئے میو پیتھک  دواؤں کے  استعمال  کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 2۔ وضو کرنے کے بعد اگر ہومیوپیتھک دوا کھائی تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ نماز سے پہلے اچھی طرح کلی کرلینا بہتر ہے تاکہ اس میں جو ایک قسم کی بدبو ہوتی ہے وہ زائل ہوجائے۔

 وإن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویة والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیع الخمر من کتاب البیوع، وحینئذٍ ہناک فسحة في الأخذ بقول أبي حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عند عموم البلویٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملة فتح الملہم، کتاب الأشربة / حکم الکحول المسکرة ۳/۶۰۸ مکتبة دار العلوم کراچی،حاشیہ فتاوی دار العلوم: ۱۶/ ۱۲۹)

"(و) ينقضه (إغماء) ومنه الغشي (وجنون وسكر) بأن يدخل في مشيه تمايل ولو بأكل الحشيشة.  (الدر المختار: (نواقض الوضو، ج: 1، ص: 143، ط: ایچ ایم سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اے سی کے پائپ سے نکلنے والاپانی پاک ہے، اس سے وضو اور غسل جائز ہے؛ اس لیے کہ یہ ماء مطلق کے حکم میں ہے۔
’’(یرفع الحدث) مطلقا (بماء مطلق) ہو ما یتبادر عند الإطلاق (کماء سماء وأودیۃ وعیون وآبار وبحار وثلج مذاب) بحیث یتقاطر وبرد وجمد وندا، ہذا تقسیم باعتبار ما یشاہد وإلا فالکل من السماء {ألم تر أن اللّٰہ أنزل من السماء ماء} (سورۃ الحج: ۶۳)‘‘(۱)
’’وأما الماء الذي یقطر من الکرم فیجوز التوضی بہ لأنہ ماء یخرج من غیر علاج ذکرہ في جوامع أبي یوسف رحمہ اللّٰہ وفي الکتاب إشارۃ إلیہ حیث شرط الاعتصار‘‘(۲)
’’وقد استدل علی جواز الطہارۃ بماء الثلج والبرد بما ثبت في الصحیحین عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یسکت بین تکبیرۃ الإحرام والقراء ۃ سکتۃ یقول فیہا أشیاء منہا اللہم اغسل خطایای بالماء والثلج والبرد وفي روایۃ بماء الثلج والبرد ولا یجوز بماء الملح، وہو یجمد في الصیف، ویذوب في الشتاء عکس الماء‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳۔
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ:باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: الوضوء بماء السماء‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص180

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خفین کے اوپر جو کچھ بھی پہنا یا باندھا جائے اس پر مسح درست ہونے کے لئے متعدد شرائط ہیں:
(۱) خفین کے اوپر جو پہنا ہے وہ چمڑے کا ہی ہو، وہ ٹخنوں تک ہو اور بغیر باندھے رک جائے اس پر مسح درست ہے، اگر وہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن مسح کے وقت پانی کا اثر نیچے پہنے ہوئے خفین تک پہونچ جائے، تو بھی مسح درست ہے اور اگر نہ چمڑے کا ہو اور نہ ہی مسح کے وقت خفین تک پانی کا اثر پہونچے، تو مسح درست نہیں ہے۔
(۲) خفین کے اوپر جو پہنا ہے، وہ چمڑے کے علاوہ کسی چیز کا ہو؛ لیکن اتنا موٹا اور سخت ہو کہ اس سے پانی نہ چھنے، بغیر باندھے پیر پر رک جائے اور صرف اسے پہن کر تین چار میل چلنے سے وہ نہ پھٹے، تو اس پر مسح درست ہے، اگر وہ ایسا نہ ہو، تو اس پر مسح درست نہیں ہے، ہاں اگر پانی کا اثر خفین تک پہونچ جائے، تو مسح درست ہے۔
(۳) اوپر والا موزہ وغیرہ اس وقت پہنا ہو جب تک وہ طہارت باقی ہو جس پر خفین پہنے تھے یعنی خفین کے بعد حدث لاحق ہونے سے پہلے ہی اوپر والا موزہ وغیرہ پہن لیا ہو۔
’’الحنفیۃ اشترطوا في صحۃ المسح علی الأعلٰی ثلاثۃ شروط: أحدہا أن یکون جلداً فإن لم یکن جلداً ووصل الماء إلی الخف الذي تحتہ کفی وإن لم یصل الماء إلی الخف لا یکفی، ثانیہا أن یکون الأعلی صالحاً للمشی علیہ منفرداً فإن لم یکن صالحاً لم یصح المسح علیہ إلا إذا وصل البلل إلی الخف الأسفل، ثالثہا: أن یلبس الأعلیٰ علی الطہارۃ التي لبس علیہا الخف الأسفل بحیث یتقدم لبس الأعلیٰ علی الحدث والمسح علی الأسفل‘‘ (۱)
’’یجوز المسح علیہ لو کان ثخینا بحیث یمکن أن یمشي معہ فرسخاً من غیر تجلید ولاتنعیل وإن کان رقیقاً فمع التجلید أو التنعیل‘‘ (۲)

 

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ،: ج ۱، ص: ۱۳۲۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص278

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ڈھائی ماہ کا حمل ساقط ہونے کے بعد جو خون آیا وہ نفاس نہیں ہے ’’والسقط إن ظہر بعض خلقہ ولد (کنز الدقائق) وقال تعلیقاً علیہ في البحر لا یستبین خلقہ إلا في مائۃ وعشرین یوماً۔ والمراد نفخ الروح و إلا فالمشاہد ظہور خلقتہ قبلہا، قید بقولہ: إن ظہر لأنہ لو لم یظہر من خلقہ شيء فلا یکون ولداً، ولا تثبت ہذ الأحکام فلا نفاس لہا‘‘(۱) اور مذکورہ عورت چوںکہ معتادہ ہے اس لیے آنے والے خون میں سے عادت کے موافق حیض وطہر کے ایام کی تعیین کی جائے گی ’’و إن کانت صاحبۃ عادۃ فعادتہا في الحیض حیضہا وعادتھا في الطہر طہر ہا‘‘ و تکون مستحاضۃ في أیام طھرھا۔(۲)

(۱)ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۷۹(دارالکتاب دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول: في الحیض، و منھا:  تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹۱
 علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع، فی ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: في تفسیر الحیض، والنفاس، والاستحاضۃ، دم الحامل لیس بحیض‘‘ ج۱، ص:۱۶۱مکتبۃ زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص376

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کے بعد دعا کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا جائز ہے اور حدیث شریف میں اس کا ثبوت موجود ہے؛ البتہ شہادت کی انگلی اٹھانے کی روایت نہیں ملتی ہاں حضرات فقہاء احناف نے اس کا بھی تذکرہ کیا ہے؛ اس لیے اس عمل کی بھی گنجائش ہے ،تا ہم یہ عمل سنت یا ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے۔
’’حدثنا الحسین بن عیسی قال ثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقرئ عن حیوۃ بن شریح عن أبي عقیل عن ابن عمہ عن عقبۃ بن عامر الجہني عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم یذکر أمر الرعایۃ قال عند قولہ فأحسن الوضوء ثم رفع نظرہ إلی السماء، فقال وساق الحدیث یعنی حدیث معاویۃ‘‘(۱)
’’ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبّابتہ حین النظر إلی السماء‘‘(۲)
’’وزاد في المنیۃ: وأن یقول بعد فراغہ سبحانک اللہم وبحمدک، أشہد أن لا إلہ إلا أنت، أستغفرک وأتوب إلیک، وأشہد أن محمدا عبدک ورسولک ناظرا إلی السماء‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یقول الرجل إذا توضأ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲)  طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل، من آداب الوضوء أربعۃ عشر شیئاً‘‘: ص: ۷۷۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في بیان ارتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص181

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جوتا ٹخنوں سمیت پورے قدم کو ڈھانپ لیتا ہے، تو اس پر مسح کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ اس وقت وہ جوتا ’’خف‘‘ کے حکم میں ہے اور موزوں پر مسح کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ کم از کم ان میں تین میل مسلسل چلا جا سکے، بغیر رکاوٹ کے پاؤں پر رکے رہیں اور ان میں سے پاؤں تک پانی (چھن کر) نہ پہنچے اگر یہ مذکورہ شرائط جوتوں میں بھی پائی جاتی ہیں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے ایسے ہی اگرجوتا پاؤں کے اتنے حصے کو نہیں ڈھانپتا جسے وضو میں دھونا لازمی ہے یعنی ٹخنوں سمیت پورا قدم تو ایسی حالت میں جمہور علماء کرام کے یہاں اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔

’’وأما المسح علی الجوارب فلایخلو: إما إن کان الجوارب رقیقاً غیر منعل، وفي ہذا الوجہ لایجوز المسح بلا خلاف، وأما إن کان ثخیناً منعلاً وفي ہذا الوجہ یجوز المسح بلا خلاف، لأنہ یمکن قطع السفر، وتتابع المشي علیہ فکان بمعنی الخف۔ والمراد من الثخین: إن کان یستمسک علی الساق من غیر أن یشد بشيئٍ، ولایسقط، فأما إذا کان لایستمسک ویسترخي، فہذا لیس بثخین ولایجوز المسح علیہ‘‘(۱)
’’(قولہ: شرط مسحہ) أي مسح الخف المفہوم من الخفین، وأل فیہ للجنس الصادق بالواحد والإثنین، ولم یقل مسحہما لأنہ قدیکون واحدا لدی رجل واحد (قولہ: ثلاثۃ أمور الخ) زاد الشر نبلالي: لبسہما علی طہارۃ، وخلو کل منہما عن الخرق المانع، واستمساکہما علی الرجلین من غیرشد، ومنعہما وصول الماء إلی الرجل، وأن یبقی من القدم قدر ثلا ثۃ أصابع‘‘(۲)

(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’الفصل السادس في المسح علی الخفین بیان ما یجوز علیہ المسح من الخفاف وما بمعناہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹۔(مکتبہ شاملہ)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص279

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کی اصل مدت تین دن تین رات ہے، دو روز خون آکر موقوف ہو گیا، پھر ایک روز آکر بند ہو گیا، یہ حیض نہیں استحاضہ ہے(۱) لہٰذا عورت کو جب تک باقاعدہ تین مرتبہ حیض نہ آجائے، عدت ختم نہ ہو گی(۲) اور دوسرے سے نکاح بھی درست نہ ہوگا؛ البتہ عورت کا آئسہ ہونا متحقق ہو جائے تو تین ماہ کے بعد کیا ہوا نکاح درست ہوگا۔(۳)

(۱)أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ۔ (المرغینانی، ہدایہ، ’’کتاب الطہارات، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۶۲، مکتبۃ الاتحاد دیوبند)؛ و عن أبی أمامۃ الباھلي قال: قال رسول اللّٰہ: لایکون الحیض للجاریۃ والثیب التي قد أیست من الحیض اقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام فھي مستحاضۃ الخ (أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۰۷،رقم:۸۳۳)
(۲)  وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوٓئٍ الخ۔ (سورۃ البقرہ:۲۲۹)
(۳) وَاللَّائِيْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَائِکُمْ إنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ أشْھُرٍ۔ (سورۃ البقرہ، آیت۲۲۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص377

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احناف کے نزدیک پورے سرکا مسح فرض نہیں ہے؛ بلکہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا مسح سنت ہے؛ اس لیے وضو کرنے والے کو چاہئے کہ پورے سر کا مسح کرے تاکہ فرض وسنت دونوں پر عمل ہو جائے۔
’’ومفروض في مسح الرأس مقدار الناصیۃ وہو ربع الرأس عندنا‘‘(۱)
’’ومسح ربع الرأس مرۃ‘‘(۲)
’’ومسح کل رأسہ مرۃ مستوعبۃ … قولہ (مستوعبۃ) ہذا سنۃ أیضاً کما جزم بہ في الفتح‘‘(۳)
’’واستیعاب جمیع الرأس في المسح … بماء واحد‘‘(۴)

(۱) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیر، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الوضوء‘‘: ص: ۱۶۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في معنی الاشتقاق وتقسیمہ إلی ثلاثۃ أقسام‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تصریف قولہم معزیا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۳۔
(۴) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیر: ص: ۲۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص182

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں آپ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ تین دن تین رات خفین پر مسح کرتے رہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
’’أما إذا سافر قبل أن یستکمل یوماً ولیلۃ فلہ أن یصلی بذلک المسح حتی یستکمل ثلاثۃ أیام ولیالیہا من الساعۃ التي أحدث فیہا وہو مقیم‘‘(۱)

(۱) الإمام محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔ (دارابن حزم، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص280