طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مذکورہ ایسی مجبوری ہے کہ جس سے بچنا ممکن نہیں اس لئے مذکورہ میت پر نماز جنازہ اور غسل اور تدفین سب درست ہوگا۔(۱)

(۱)  و إذا غسل المیت ثم خرج من شيء لا یعاد الغسل ولا وضوء عندنا ۔۔۔ و إذا سأل منہ شيء بعد الغسل قبل أن یکفن غسل ما سال و إن سال بعد ما کفن لا یغسل۔(عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ج۳، ص:۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص380

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو نماز کے لیے شرط ہے، وقتِ نماز کے لیے نہیں، ہاں معذورین کا مسئلہ الگ ہے؛ لہٰذا وقت سے پہلے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ ہر وقت باوضو رہنا مستحسن ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اکثر باوضو رہا کرتے تھے اور پہلے وضو سے دوسرے وقت کی نماز بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے:
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینتظرون العشاء حتی تخفق رؤسہم ثم یصلون ولا یتوضؤن رواہ أبوداود والترمذي‘‘(۱)
’’عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد ومسح علی خفیہ، فقال لہ عمر لقد صنعت الیوم شیئاً لم تکن تصنعہ قال عَمَداً صنعتہ یا عمر‘‘
’’الشرح في ہذا الحدیث أنواع من العلم، منہا جواز المسح علی الخف وجواز الصلوات المفروضات والنوافل بوضوء واحد ما لم یحدث وہذا جائز باجماع من یعتد بہ‘‘(۲)

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یوجب الوضوء‘‘: ج ۱،ص: ۴۱، رقم: ۳۱۷۔(مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند)
(۲) النووي، حاشیۃ النووي علی مسلم، ’’کتاب الطہارۃ: باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص186

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی (ناپاک) اور حائضہ ونفساء عورت کے لیے مسجد کے اندر جانا جائز نہیں ہے(۲) کیونکہ مسجد کعبۃ اللہ کا ایک نمونہ ہے، اور ذکر الٰہی کی جگہ ہے، قرآن میں وارد ہے ’’وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَإنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ‘‘ (۳)

(۲) یحرم بالحدث الأکبر دخول مسجد۔ (ابن عابدین، الدر المحتار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: یوم عرفۃ أفضل من یوم الجمعۃ، ج۱،ص:۳۱۱) ؛ ولا تدخل المسجد و کذا الجنب لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: فإنی لا أحل المسجد لحائض ولا جنب۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۶۸)            (۳) سورۃ الحج:۳۲
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص381

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1017/41-172

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ۱:۔ پیشاب کے قطروں سے حفاظت کے لئے ٹیشو پیپر کا استعمال کرنا درست ہے، اور اس قدر اہتمام سے بھی عذاب قبر سے نجات ہوگی ان شا٫ اللہ۔۲:۔  اگر قطرہ نکلنے کا شبہ ہوا تو  کھول کر دیکھنا ضروری ہوگا، دیکھنے کے بعد تسلی ہوگئی ، اب پھر شبہ ہوا تو اب اسی میں نماز پڑھے جب تک نکلنے کا غالب گمان نہ ہوجائے۔ اور اس صورت میں اگر سوراخ کی جانب ٹیشو پیپر پر تری نظر نہیں آتی ہے تو پاک سمجھاجائے گا، اور اسی میں نماز ہوجائے گی۔ ۳:۔ اگر نماز کے بعد ٹیشو پیپر کھول کر دیکھا تو سوراخ سے چپکاہوا تھا لیکن اس کے علاوہ ٹیشو کے دوسرے حصے گیلے نہیں ہوئے تھے تو بھی نماز ہوگئی۔

قلت: ومن كان بطيء الاستبراء فليفتل نحو ورقة مثل الشعيرة ويحتشي بها في الإحليل، فإنها تتشرب ما بقي من أثر الرطوبة التي يخاف خروجها، وينبغي أن يغيبها في المحل ؛لئلا تذهب الرطوبة إلى طرفها الخارج (الدر المختار  مع رد المحتار، فروع فی الاستبراﺀ 1/345)

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل، وإن متسفلة عنه لا ينقض (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت، فإن رطبه انتقض، وإلا لا. (الدرالمختار مع رد المحتار، باب سنن الوضوﺀ 1/148)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1946/44-1861

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر ناپاکی کا یقین ہو تو پھر چاہے بو یا ذائقہ محسوس نہ ہو  توبھی کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔ اور اگر چھینٹیں ناپاک ہیں یا پاک ہیں اس بارے میں شک ہو اور نجاست کا کوئی اثر ظاہر نہ ہو تو پھر ان کو پاک ہی شمار کیا جائے گا اور ان کپڑوں  میں نماز درست ہوگی۔

"فتاوی شامی" (1/ 324) میں ہے : "مطلب في العفو عن طين الشارع: قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.

أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.

والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس
". 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مذکورہ میں بہتر ہے کہ کر رونا کٹ پہننے سے قبل وضو کر لیا جائے اور نماز با وضو ادا کی جائے، کٹ پہننے کے بعد اگر وضو ٹوٹ جائے، تو نماز سے قبل نیا وضو کرنا ہی ضروری ہوگا، جس طرح کٹ پہننے کی حالت میں استنجا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح وضو بھی کیا جا سکتا ہے، بے وضو نماز ادا کرنا جائز نہیں اس صورت میں نماز ادا نہ ہوگی، نیز مسئولہ صورت میں چوں کہ تیمم کے جائز ہونے کے اسباب میں سے کوئی سبب بھی نہیں پایا جاتا ہے، لہٰذا تیمم کی بھی اجازت نہ ہوگی۔
’’عن مصعب بن سعد، قال: دخل عبد اللّٰہ بن عمر علی ابن عامر یعودہ وہو مریض، فقال: ألا تدعو اللّٰہ لي یا ابن عمر؟ قال: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا تقبل صلاۃ بغیر طہور ولا صدقۃ من غلول، وکنت علی البصرۃ‘‘(۱)
’’ثم الشرط ہي ستۃ طہارۃ بدنہ من حدث بنو عیہ وقدمہ لأنہ أغلط وخبث‘‘(۲)
’’ہي طہارۃ بدنہ من حدث وخبث وثوبہ ومکانہ أما طہارۃ بدنہ من الحدث فبآیۃ الوضوء والغسل ومن الخبث فبقولہ علیہ السلام تنزہوا من البول فإن عامۃ عذاب القبر‘‘(۳)

(۱)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۱۹، رقم: ۲۲۴۔
(۲)  ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۔
(۳)  ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص188

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نفاس کے لئے چالیس دن پورے کرنے ضروری نہیں ہے، جب خون نفاس بند ہو جائے تو نفاس ختم ہو گیا، اب وہ عورت غسل کرے نماز پڑھے، ورنہ تو عورت گنہگار ہوگی، اور نماز اس کے ذمہ پر باقی رہے گی، جب تک قضا نہ کرے، یہ عقیدہ غلط ہے کہ چالیس دن پورے کرنے ضروری ہیں۔(۱)
 ’’روی الطبراني وابن ماجہ عن انس رضی اللہ عنہ أنہ صلی اللہ علیہ وسلم وقّت للنفساء اربعین یوماً إلا أن تری الطہر قبل ذالک۔(۲)

(۱)والنفاس دم یعقب الولد، وحکمہ حکم الحیض، ولا حدّ لأقلہ (ولا حدّ لأقلہ) وھو مذھب الأئمۃ الثلاثۃ و أکثر أھل العلم و قال الثوري: أقلہ ثلاثۃ أیام، و قال المزني: أربعۃ أیام، و قال شیخ الاسلام: اتفق أصحابنا علی أن أقل النفاس ما یوجد، فإنھا کما ولدت إذا رأت الدم ساعۃ، ثم انقطع عنھا الدم، فإنھا تصوم و تصلي (ابراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’باب الحیض‘‘ج۱، ص:۸۲، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في حکم وطیٔ المستحاضۃ‘‘ ج۱، ص: ۴۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص382

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بدن پر ٹیٹو بنوانا نا جائز اور حرام ہے، حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ‘‘(۱)
ٹیٹو مختلف قسم کا ہوتا ہے اور اس کی تمام قسمیں ناجائز ہیں اگر کسی نے ٹیٹو بنوا لیا ہے، اسے توبہ واستغفار کے ساتھ حتی المقدور اس کو چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ٹیٹو کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل کا مسئلہ ٹیٹو کی مختلف اقسام کے اعتبار سے یہ ہے۔
اگر وہ جلد کو گدوا کر بنایا گیا ہے، تو وہ جلد ہی کے حکم میں ہوگا؛ لہٰذا اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسلِ واجب درست ہو جائے گا۔
اگر رنگ لگا کر بنوایا ہے جس سے مہندی کی طرح بدن پر تہہ یا پرت نہیں بنتی، تو اس کے ہوتے ہوئے بھی وضو اور غسلِ واجب درست ہو جائے گا۔
اور اگر ایسے رنگ سے بنوایا ہے جس کی تہہ اور پرت بن جاتی ہو، تو وضو اور غسلِ واجب کے وقت اس کا چھڑانا ضروری ہے اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسلِ واجب صحیح نہیں ہوگا۔
اگر کوشش کے باوجود یہ پرت والا ٹیٹو کسی صورت نکل نہ رہا ہو اور نماز فوت ہونے کا خطرہ ہو، تو بدرجہ مجبوری وضو اور غسل درست ہو جائے گا۔
’’وإن کان علی ظاہر بدنہ جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف فاغتسل ولم یصل الماء إلی ما تحتہ لا یجوز‘‘(۲)
’’والمراد بالأثر اللون والریح فإن شق إزالتہما سقطت‘‘(۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب المستوشمۃ‘‘:  …ج ۲، ص: ۸۸۰، رقم: ۵۹۴۷۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني: في الغسل، الفصل الأول في فرائضہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱،ص: ۴۱۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص189

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں تیسری بار جب تیس دن۳۰؍ میں خون بند ہوگیا، تو وہ غسل کرکے نماز پرھے اور رمضان ہو تو روزہ رکھے، لیکن صحبت مکروہ ہے، البتہ ۳۵؍ دن کے بعد صحبت درست ہو جائے گی؛ کیونکہ یہ اس کی عادت ہے(۱)’’لوانقطع دمہا دون عادتہا، یکرہ قربانہا، و إن اغتسلت حتی تمضي عادتہا، وعلیہا أن تصلي وتصوم للاحتیاط ہکذا في التبیین‘‘ ۔(۲)

(۱)و إن انقطع لدون أقلہ تتوضأ و تصلي في آخر الوقت، و إن لأقلہ فإن لدون عادتھا لم یحل، و تغتسل و تصلي و تصوم احتیاطاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المختار، ’’باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ج ۱، ص:۴۸۹)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع في أحکام الحیض الخ، و منھا، وجوب الاغتسال، عند الانقطاع‘‘ ج ۱، ص:
۹۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص382

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں آنکھ کے اندرونی حصے کا دھونا ضروری نہیں ہے اس لیے کہ اس میں حرج اور مشقت ہے، درمختار میں ہے۔
’’ولا یجب غسل ما فیہ حرج کعین، وقال الشامي … لأن في غسلہا من الحرج ما لا یخفی لأنہا شحم لا تقبل الماء‘‘(۱)
بدائع میں ہے:
’’لأن داخل العینین لیس بوجہ لأنہ لا یواجہ إلیہ ولأن فیہ حرجاً‘‘(۲)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ولا یجب إیصال الماء إلی داخل العینین کذا في محیط السرخسي‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: أرکان الوضوء، غسل الوجہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائضہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص190