طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جب پانی کم ہو یا پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو، تو ابتداء وضو سے ہی کفایت کر کے وضو کا پانی استعمال کرنا چاہئے تاکہ وضو کے درمیان پانی ختم نہ ہو جائے، بہر حال اگر اعضائے وضو دھونے سے قبل پانی بالکل ختم ہو جائے اور اس جگہ یا اس کے قریب پانی موجود نہ ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر پانی کے استعمال پر وہ قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تیمم کرنا درست ہے؛ لیکن مکمل تیمم کیا جائے گا مثلاً جس طرح تیمم میں چہرہ اور ہاتھ کا مسح کیا جاتا ہے اسی طرح دونوں اعضاء کا مسح کیا جائے گا اگر اس نے چہرہ دھو لیا تھا تو مسح میں صرف ہاتھ پر اکتفا کرنا جائز نہیں؛ اس لیے کہ اصل اور بدل کا اجتماع درست نہیں ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:
{فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیْکُمْ مِّنْہُط}(۲)
تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین کی جنس پر سے مار کر پھیر لیا کرو۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ولو کان مع المحدث ما یکفی لغسل بعض أعضاء الوضوء فإنہ یتیمم من
غیر غسلہ ہکذا في شرح الوقایۃ‘‘(۱)

(۲) سورۃالمائدہ: ۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الرابع في التیمم الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘: ج ۱، ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص369

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ہاتھ کہنی سے نیچے کٹا ہے، تو کہنی تک تیمم کرنا ضروری ہے، اگر کہنی سے کٹا ہے، تو اس جگہ بھی تیمم ضروری ہے ورنہ نماز درست نہیں ہوگی، ہاں اگر کندھے کے پاس سے ہی ہاتھ کٹا ہوا ہو، تو پھر اس جگہ تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’قلت: أرأیت رجلا مقطوع الیدین من المرفقین فأراد أن یتیمم ہل یمسح علی وجہہ ویمسح علی موضع القطع؟ قال: نعم، قلت: فإن مسح وجہہ وترک موضع القطع؟ قال: لا یجزیہ قلت: فإن صلی ہکذا أیاماً؟ قال: علیہ أن یمسح موضع القطع ویستقبل الصلاۃ، قلت: فإن کان القطع في الیدین من المنکب؟ قال: علیہ أن یمسح وجہہ ولیس علیہ أن یمسح موضع القطع الخ‘‘(۱)
(۱) الإمام محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم بالصعید‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔ (بیروت: دارابن حزم، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص370

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تیمم میں اعضائے تیمم پر غبار آلود ہاتھ پھیرنا فرض ہے اعضائے تیمم پر غبار کا نظر آنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب؛ کیونکہ مٹی کو ضرورتاً پانی کا بدل قرار دیا ہے؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد پھونک مارتے تھے تاکہ اعضاء پر غبار نظر نہ آئے اور اگر عضو کا کوئی حصہ چھوٹ جائے، تو اس حصہ پر ہاتھ پھیر دے تیسری ضرب کی الگ سے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
’’عن عمار بن یاسر قال قام المسلمون فضربوا باکفہم التراب ولم یقبضوا من التراب شیئاً‘‘(۲)
’’وضرب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیدہ إلی الأرض ثم نفخ فیہا ومسح بہا وجہہ وکفیہ الخ‘‘ (۱)
’’ثم عندہما أي عند أبي حنیفۃ ومحمد الشرط في صحۃ التیمم مجرد المس … ولا یشترطان علوق شيء منہما‘‘(۲)
’’وأما رکنہ ضربتان ضربۃ للوجہ وضربۃ للذراعین‘‘ (۳)
’’أما رکنہ قال اصحابنا ہو ضربتان‘‘ (۴)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۳۱۹(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۶، رقم: ۳۲۴۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في التیمم‘‘: ج۱،ص: ۶۷۔
(۳) إبراھیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في التیمم‘‘ ج۱، ص۶۷۰
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في التیمم، أرکان التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص371


 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1565/43-1086

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ مسئلہ دونوں صورتوں میں ہے کہ نماز ہوجاتی ہے، تاہم اگر نماز سے پہلے معلوم ہوجائے تومعفو عنہ مقدار  نجاست کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے۔ اور اگر کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی اور نماز کے بعد معلوم ہوا کہ  اس قدر نجاست لگی تھی تو کراہت نہیں آئے گی۔ بہر حال نماز سے قبل شرائط نماز پر ایک بار توجہ کرلینی چاہئے تاکہ ایسی غلطی نہ ہو۔

"قلت: فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه؟ قَالَ: لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ. قلت: فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ؟ قَالَ: إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة". (المبسوط للسرخسی 1/60)

(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطلُ فیفرض والصلاة مکروہة مع ما لا یمنع، حتی قیل لو علم قلیل النجاسة علیہ فی الصلاة یرفضہا ما لم یخف فوت الوقت أو الجماعة(شامی، زکریا 1/520)

   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1568/43-1083

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی بلا وضو ہو تو بلا وضو قرآن پاک کی تلاوت کرنا جائز ہے، البتہ قرآن پاک چھونا جائز نہیں ہے۔  اور اگر  کسی پر غسل فرض ہے تو ایسا شخص  قرآن کریم  کی تلاوت بھی نہیں کرسکتاہے، اور قرآن کریم کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں ہے۔اس لئےجنبی،اور حیض و نفاس والی عورت کسی کے لئے بھی قرآن کریم میں سے کچھ بھی پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی آیت بطور دعا کے پڑھیں تو اس کی گنجائش ہے۔

و) يحرم به (تلاوة قرآن) ولو دون آية المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الاصح،حتى لو قصد بالفاتحة الثناء في الجنازة لم يكره إلا إذا قرأ المصلي قاصدا الثناء فإنها تجزيه لانها في محلها، فلا يتغير حكمها بقصده (الدر المختار 1/29)
(قوله: فلو قصد الدعاء) قال في العيون لأبي الليث: قرأ الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم يرد القراءة لا بأس به. وفي الغاية: أنه المختار واختاره الحلواني، لكن قال الهندواني: لا أفتي به وإن روي عن الإمام واستظهره في البحر تبعا للحلية في نحو الفاتحة؛ لأنه لم يزل قرآنا لفظا ومعنى معجزا متحدى به، بخلاف نحو – الحمد لله – ونازعه في النهر بأن كونه قرآنا في الأصل لا يمنع من إخراجه عن القرآنية بالقصد، نعم ظاهر التقييد بالآيات التي فيها معنى الدعاء يفهم أن ما ليس كذلك كسورة أبي لهب لا يؤثر فيها قصد غير القرآنية، لكن لم أر التصريح به في كلامهم. اهـ. مطلب يطلق الدعاء على ما يشمل الثناء أقول: وقد صرحوا بأن مفاهيم الكتب حجة، والظاهر أن المراد بالدعاء ما يشمل الثناء؛ لأن الفاتحة نصفها ثناء ونصفها الآخر دعاء، فقول الشارح أو الثناء من عطف الخاص على العام.
(
قوله: أو افتتاح أمر) كقوله بسم الله لافتتاح العمل تبركا بدائع. (شامی 1/172)

وقال قوم معناه لا يمسه إلا المطهرون من الأحداث والجنابات وظاهر الآية نفي ومعناها نهي قالوا لا يجوز للجنب ولا للحائض ولا للمحدث حمل المصحف ولا مسه (تفسیر الخازن، سورۃ الواقعہ 80، 4/242) (تفسیر ابن کثیر العلمیۃ سورۃ الواقعۃ 75، 8/32)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1567/43-1087

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حالت حمل میں بھی بیوی سے صحبت کرنا جائز ہے بشرطیکہ کسی مضرت کا اندیشہ نہ ہو۔ تاہم اگرصحبت کرنا طبی اعتبار سے مضر ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

"بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا". (شامی 2/399)

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز، تأمل". (شامی 2/399) "في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه". و في الرد: "(قوله: ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه" (شامی 4/27)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 901/41-13B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چیٹنگ کرتے ہوئے شہوت کی وجہ سے جو پانی نکلتا ہے اس کو مذی کہتے ہیں، اس سے صرف وضو واجب ہوتا ہے ، اس میں غسل کی ضرورت نہیں۔

 (وليس في المذي والودي غسل وفيهما الوضوء) (فتح القدیر 1/67) وليس في المذي والودي غسل وفيهما الوضوء " لقوله عليه الصلاة والسلام: " كل فحل يمذي وفيه الوضوء " (الھدایۃ 1/20)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر سر پر مہندی لگی ہو اور وہ خشک ہوگئی، یا جم گئی ہو، تو اس صورت میں سر پر مسح کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ سر پر مہندی خشک ہونے یا جم جانے کی وجہ سے پانی کی تری سر پر پہنچنے سے مانع ہے؛ البتہ اگر مہندی گیلی ہو اور پانی کی تری بالوں تک پہونچنے میں کوئی مانع نہ ہو یا مہندی دھولی گئی ہو اور سر پر صرف مہندی کا رنگ باقی ہو، تو اس پر مسح کرنا درست ہوگا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’والخضاب إذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل، کذا في السراج الوہاج ناقلًا عن الوجیز‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’(ولا یمنع) الطہارۃ (ونیم) أي خرء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ (وحناء) ولو جرمہ بہ یفتی، قولہ: (بہ یفتی) صرح بہ في المنیۃ عن الذخیرۃ في مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ، قال في شرحہا: ولأن الماء ینفذہ لتخللہ، وعدم لزوجتہ وصلابتہ والمعتبر في جمیع ذلک نفوذ الماء ووصولہ إلی البدن‘‘(۲)
نیز آج کل جو مارکیٹ اور بازاروں میں مہندی دستیاب ہے، اگر اس کو استعمال کرنے سے تہ جم جاتی ہو، مثلاً نیل پالش اس کی تہ جم جاتی ہے اس لیے نیل پالش لگانے والی عورت کا وضو اور غسل درست نہیں ہوتا اسی طرح اگر وہ مہندی (جو مارکیٹ میں دستیاب ہے) جسم تک پانی پہنچنے سے مانع ہو، تو ایسی مہندی لگانے سے وضو اور غسل درست نہیں ہوتا ہے۔
اور اگر کیمیکل والی مہندی کی تہ نہیں جمتی، یا تہ جمتی ہے؛ لیکن ایسی نہیں جو جلد تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہو؛ بلکہ کیمیکلز کی وجہ سے کھال ہی تہ وپپڑیوں کی شکل میں اترتی ہے، اگر یہی صورتحال ہے  تو ایسی مہندی لگانا جائز ہے۔ اور اس کی پہچان کے لیے فتاویٰ میں دو طریقے لکھے گئے ہیں:
(۱) کیمیکل والی مہندی جسم کے کسی بھی حصے پر لگائیں، سوکھنے کے بعد اسے اتاردیں اور دیکھیں کہ جلد پر مہندی کے کلر سے پسینہ نکلتاہے یا نہیں؟ اگر پسینہ نکلتا ہے، تو یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ تو ایسی مہندی کا استعمال کرنا جائز ہے۔
(۲) کیمیکل والی مہندی کو کسی کاغذ پر لگائیں، سوکھنے کے بعد اسے اتاردیں، کاغذ پر جو کلر آیا ہے، اس پر پانی کے چند قطرے ڈال کردیکھیں کہ پانی کی تری کاغذ کی دوسری سمت میں آتی ہے یا نہیں، اگرپانی جذب ہوکر دوسری سمت میں آجا تا ہے یا اس کی تری آجاتی ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس طرح کی مہندی کا استعمال بھی درست ہے۔
’’إن بقی من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز وإن تلطخ یدہ بخمیر أو حناء جاز‘‘(۱)
’’إمرأۃ اغتسلت وقد کان الشان بقی في أظفارہا عجین قد جف لم یجز غسلہا وکذا الوضوء لا فرق بین المرأۃ والرجل لأن في العجین لزوجۃ وصلابۃ تمنع نفوذ الماء، وقال بعضہم: یجوز الغسل لأنہ لا یمنع،والأول أظہر‘‘(۲)
’’و ’’الثالث‘‘ زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد ’’لحرمۃ الحائل‘‘ کشمع وشحم ’’قید بہ لأن بقاء دسومۃ الزیت ونحوہ لا یمنع لعدم الحائل‘‘(۳)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۸۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي المعروف الحلبي الکبیري، ’’في بیان فضیلۃ المسواک، (فروع)‘‘: ج۱، ص: ۴۲۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: شروط صحۃ الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص174

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جو پانی وضو یا غسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر چونکہ اب ماء مستعمل (استعمال شدہ پانی) ہو چکا ہے؛ لہٰذا اس سے دو بارہ وضو اور غسل جائز نہیں ہے۔
’’والماء المستعمل لا یجوز استعمالہ في طہارۃ الأحداث والماء المستعمل: ہو ماء أزیل بہ حدث أو استعمل فی البدن علی وجہ القربۃ‘‘(۱)
فقہاء نے اس کی وضاحت کی ہے کہ استعمال شدہ پانی سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس پانی کی دو قسمیں ہیں:
ایک استعمال شدہ پانی ایسا ہے کہ جس سے کوئی نجاست یعنی گندگی دھوئی جائے۔ یہ پانی نجس ہو جاتا ہے۔
دوسری قسم یہ کہ جسم پاک ہو لیکن قرب الٰہی کے لیے استعمال کیا جائے جیسے وضو کا پانی۔ یہ پانی تو پاک ہوتا ہے؛ لیکن اس سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
پہلی قسم کا ماء مستعمل نجس ہوتا ہے یعنی ناپاک ہوتا ہے۔ دوسری قسم کا ماء مستعمل ناپاک نہیں ہوتا مگر اس سے جسم کو پاک نہیں کیا جا سکتا ہے یعنی دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسے پانی کے قطرے کپڑوں پر گر جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کپڑے کو ناپاک کرتا ہے۔
’’(وہو طاہر) ولو من جنب وہو الظاہر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیہاً للاستقذار، وعلی روایۃ نجاستہ تحریماً (و) حکمہ أنہ (لیس بطہور) لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہو طاہر إلخ) رواہ محمد عن الإمام وہذہ الروایۃ، ہي المشہورۃ عنہ، واختارہا المحققون، قالوا: علیہا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث۔ واستثنی الجنب في التجنیس إلا أن الإطلاق أولی وعنہ التخفیف والتغلیظ، ومشایخ العراق نفوا الخلاف، وقالوا: إنہ طاہر عند الکل۔ وقد قال المجتبی: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاہر غیر طہور، فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ، نہر، وقد أطال في البحر في توجیہ ہذہ الروایات، ورجح القول بالنجاسۃ من جہۃ الدلیل لقوتہ‘‘(۱)

(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: مدخل‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص177

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:بوتلوں وغیرہ میں جو پانی ہے ظاہر ہے کہ وہ تھوڑا پانی ہے اور ماء قلیل یعنی تھوڑے پانی میں شراب پینے والا منہ ڈالے، تو دو صورتیں ہیں، اگر اس نے شراب پیتے ہی پانی میں منہ ڈالا تو شراب جو کہ ناپاک ہے اس کا اثر پانی میں آ گیا اور پانی ناپاک ہو گیا اس سے وضو نہیں ہوگا اور اگر کچھ دیر رکا رہا کہ لعاب کے ذریعے منہ سے شراب کے اجزاء ختم ہو گئے پھر اس نے بوتل سے منہ لگا کر پانی پیا، تو اس پانی کا استعمال مکروہ ہے۔
’’الماء الذي شرب منہ شارب الخمر کأن وضع الکوز الذي فیہ الماء أو القلۃ علی فمہ وشرب منہ بعد أن شرب الخمر وإنما یکرہ الوضوء من ذلک الماء بشرط واحد وہو: أن یشرب منہ بعد زمن یتردد فیہ لعابہ الذي خالطہ الخمر کأن یشرب الخمر ثم یبتلعہ أو یبصقہ ثم یشرب من الإناء الذي فیہ الماء أما إذا شرب باقي الخمر وبقي في فمہ ولم یبتلعہ أو یبصقہ ثم شرب من کوز أو قلۃ فیہا ماء فإن الماء الذي بہا ینجس ولا یصح استعمالہ‘‘(۱)
’’(وشارب خمر فور شربہا) أي بخلاف ما إذا مکث ساعۃ ابتلع ریقہ ثلاث مرات بعد لحس شفتیہ بلسانہ وریقہ ثم شرب فإنہ لا ینجس‘‘(۲)

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم الماء الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص178