Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں ایک فرض تو یہ ہے کہ پورے بدن کو اس طرح دھویا جائے کہ بال برابر بھی سوکھا نہ رہ جائے، ناف کا دھونا فرض ہے، ڈاڑھی مونچھ اور ان کے نیچے کی کھال کا دھونا فرض ہے، سرکے بالوں کا دھونا فرض ہے، انگوٹھی اگر تنگ ہو اور کان کے سراخوں میں بالیاں ہوں، تو ان کو حرکت دینا اورہلانا تاکہ پانی پہونچ جائے؛ فرض ہے۔ غرضیکہ ان میں پانی پہونچانا فرض ہے، تاہم مذکورہ تمام فرائض ان تین میںآجاتے ہیں:
(۱) پورے بدن پر اچھی طرح پانی بہانا۔(۲) کلی کرنا۔(۳) ناک میں پانی ڈالنا۔(۱)
(۱) و فرض الغسل غسل فمہ و أنفہ و بدنہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۸۶ دارالکتاب دیوبند)؛ و یجب أي یفترض غسل کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و سرۃ و شارب و حاجب و أثناء لحیۃ و شعر رأس الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج۱، ص:۲۸۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص285
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مہندی کا رنگ پانی کا ہاتھ لگ جانے سے مانع نہیں مہندی لگے ہوئے بھی پانی ہاتھ تک بلاشبہ چلا جاتا ہے، اس لیے مذکورہ ایام میں مہندی لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے بعد جو غسل مہندی لگائے ہوئے کیا جائے وہ غسل بھی درست ہے۔(۱)
(۱)جنبٌ اختضب واختضبت امرأتہ بذالک الخضاب قال ابویوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب العشرون في الزینۃ و اتخاذ الخادم للخدمۃ‘‘ ج۵، ص:۴۱۵) ؛ و بل یطھر ما صبح او خضب بنجس بغسلہ ثلاثا۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب الأنجاس‘‘ج۱، ص:۳۲۹)؛ و المرأۃ التي صبغت أضبعھا بالحناء أوالصرام أوالصباع قال کل ذالک سواء یخرجھم و ضوء ھم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء: الفرض الثاني: غسل الیدین‘‘ ج۱، ص:۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص385
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر لوٹے میں گرد وغبار یا گندگی گرنے کا اندیشہ ہو، تو لوٹے کو الٹا رکھنا مناسب ہے اور اگر کوئی اندیشہ نہ ہو، تو سیدھا رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے،مگر سیدھا رکھنے کی صورت میں بھی اس پر کچھ رکھ دینا چاہئے۔
حدیث میں ہے:
’’عن جابر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال أغلق بابک واذکر اسم اللّٰہ فإن الشیطان لا یفتح باباً مغلقا وأطف مصباحک واذکر اسم اللّٰہ وخمر إناء ک ولو بعود وتعرضہ علیہ واذکر اسم اللّٰہ وأوکِ سقاء ک واذکر اسم اللّٰہ‘‘(۱)
’’وقد یقال إن الضرورۃ في البئر متحققۃ بخلاف الأواني لأنہا تخمر‘‘(۲)
(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب في إیکاء الآنیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، رقم: ۳۷۳۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص193
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ ہی سنت اور نہ مباح؛ بلکہ بدعت ہے، جو سجاد نشین اس بدعت کو ترک کرے گا،وہ مستحق اجر وثواب ہوگا۔(۲)
(۲) فإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ،ج ۲، ص:۶۳۵،رقم:۴۶۰۷)؛ و عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ ﷺ من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، باب تعظیم حدیث رسول اللّٰہ، ج۱، ص:۳، رقم ۱۴(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص286
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دس دن کے اندر اندر خون آتا رہا، تو تمام کا تمام حیض شمار ہوگا، اور اگر دس دن سے آگے بڑھے گا، تو ایام عادت یعنی پانچ دن حیض، اور باقی استحاضہ شمار ہوگا۔(۱)
(۱)و إذا زاد الدم علی العادۃ فإن جاوز العشرۃ فالزائد کلہ استحاضۃ و إلا فحیض۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۸۱، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) و إن جاوز العشرۃ ففي المبتدأۃ حیضھا عشرۃ أیام و في المعتادۃ معروفتھا في الحیض حیض والطھر طھر۔ ھکذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الدول: في الحیض و منھا تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹)؛ و لنا ما روي أبوأمامۃ الباھلي رضی اللہ عنہ عن النبي ﷺ أنہ قال أقل ما یکون الحیض للجاریۃ الثیب و بکر جمیعا ثلاثۃ أیام، و أکثر ما یکون من الحیض عشرۃ أیام، و مازاد علی العشرۃ فھو استحاضۃ۔(الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في تفسیر الحیض، النفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۵۴ مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص385
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس طرح واش بیسن میں چہرہ اور ہاتھ دھونے اور ناک صاف کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور اس کو کوئی برا نہیں سمجھتا اسی طرح پیر دھونے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے؛ تاہم جب لوگوں کو اعتراض ہو، تو احتیاط کرنی چاہئے اور کوئی متبادل تلاش کرنا چاہئے، آفس والوں کے ساتھ اختلاف اچھی بات نہیں ہے، اب ایک شکل تو یہ ہے کہ آپ بوتل میں پانی لے کر پیر کسی اور جگہ دھو لیا کریں؛ دوسری شکل یہ ہے کہ خفین پہن کر آفس جائیں اور خفین پر مسح کر لیا کریں؛ البتہ صرف لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے پانی کے موجود ہوتے ہوئے پیروں پر مسح یا تیمم کی اجازت نہیں ہوگی۔
’’قال تعالیٰ: {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا}(۱)
’’لقولہ علیہ السلام: یمسح المقیم یوماً ولیلۃ والمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۲)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص194
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص پر غسل واجب ہے اور وہ شخص سخت گناہ گار ہے، اس کو اس فعلِ بد سے توبہ لازم ہے؛ ایسا عمل شریعت کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مؤاخذہ ہے۔(۱)
(۱) یفترض الغسل بواحد من سبعۃ أشیاء أولھا خروج المنی إلی ظاھر الجسد… و منھا إنزال المني بوطئ میتۃ أو بھیمۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل ما یوجب الاغتسال،‘‘ ج۱، ص:۹۶-۹۸ ، دارالکتاب دیوبند) و قیدنا بکونہ في قبل إمرأۃ لأن التواري في فرج البھیمۃ لا یوجب الغسل إلا بالإنزال۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۹)؛ و الإیلاج في البھیمۃ لا یوجب الغسل بدون الإنزال (عالم بن العلاء، لفتاویٰ التاتارخانیہ، بیان أسباب الغسل، ج۱، ص:۲۷۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی عورت جو مستقل ماہواری کی پریشانی میں ہو اور حیض بند نہ ہوتا ہو، تو ہرماہ دس دن حیض کے شمار ہوں گے، اور باقی استحاضہ یعنی بیماری کے ہوں گے، حیض کے دنوں میں بیوی سے نہ ملے، اس کے علاوہ کے دنوں میں یعنی استحاضہ کے باوجود اپنی بیوی سے صحبت کرنا درست ہے۔ ’’فالعشرۃ من أول ما رأت حیض والعشرون بعدذلک طھرھا‘‘(۲) البتہ استحاضہ جو شرعی وطبعی عذر ہے، محض اس کی وجہ سے طلاق دینا بہتر نہیں ہے، ایسی حالت میں دوسری شادی کرنا بھی جائز ہے۔(۱)
(۲) الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل: في تفسیر الحیض، والنفاس، والاستحاضۃ، دم الحامل لیس بحیض‘‘ ج۱، ص:۱۶۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص386
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تعلیم وتربیت کے نقطۂ نظر سے نابالغ بچے کو ہاتھ میں قرآن کریم یا سپارے دینے سے قبل والدین کو وضو کرانا چاہئے تاکہ بچے کو وضو کا طریقہ معلوم ہو سکے؛ البتہ بچے احکامِ شرع کے مکلف نہیں ہیں، نماز، روزہ، وضو اور غسل وغیرہ بھی ان پر فرض نہیں ہے؛ اس لیے بچوں کو بے وضو قرآن کریم چھونے کی شریعت نے رخصت دی ہے، والدین یا اساتذہ اگر بے وضو ان کے ہاتھ میں قرآن کریم یا سپارے دے دیں تو ان پر کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا۔
بچوں کے بے وضوقرآن پکڑنے پر والدین اور اساتذہ کے گنہگارنہ ہونے کے بارے میں علامہ ابن عابدینؒ لکھتے ہیں:
’’إن الصبي غیر مکلف والظاھر أن المراد لا یکرہ لولیہ أن یترکہ یمس‘‘(۱)
نابالغ کوبے وضوقرآن چھونے کی اجازت کے بارے میں مجمع الانہر میں ہے:
’’ولا مس صبي لمصحف ولوح لأن في تکلیفہم بالوضوء حرجا بہا وفي تأخیرہ إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فرخص للضرورۃ‘‘(۲)
تبیین الحقائق میں ہے:
’’وکرہ بعض أصحابنا دفع المصحف واللوح الذي کتب فیہ القرآن إلی الصبیان ولم یر بعضھم بہ بأسا وھو الصحیح لأن في تکلیفھم بالوضوء حرجا بھم وفي تأخیرھم إلی البلوغ تقلیل حفظ القرآن فیرخص للضرورۃ‘‘(۳)
ہمارے بعض اصحاب نے قرآن پاک اور وہ تختی جس پر قرآن لکھا ہو،بچوں کو دینے کو مکروہ قرار دیا ہے اوربعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ بچوں کو وضو کا مکلف بنانے میں حرج ہے اور اگر ان کے بالغ ہونے تک قرآن انہیں نہ دیا جائے، تو حفظِ قرآن میں کمی واقع ہوگی؛ لہٰذا بوجہ ضرورت بچوں کو قرآن پاک دینے کی رخصت دی گئی ہے۔
(۱) ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطھارۃ:… باب سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنھر، ’’کتاب الطھارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۔
(۳) عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الطھارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص195
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے غسل خانے میں جس کی دیواریں بڑی بڑی ہوں، بے پردگی نہ ہوتی ہو، وہاں برہنہ غسل کرنا جائز ہے؛ البتہ اولیٰ اور کمال حیا یہ ہے کہ ننگا ہوکر غسل نہ کرے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو، تو کر سکتا ہے۔(۱)
(۱) عن یعلی أن رسول اللّٰہ ﷺ رأی رجلا یغتسل بالبراز فصعد المنبر فحمد اللّٰہ و أثنی علیہ ثم قال: إن اللّٰہ عز و جل حیيّ ستیر یحب الحیاء والستر، فإذا اغتسل أحدکم فلیستتر۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’کتاب الحمام، باب النھي عن التعري‘‘ج۱، ص:۵۵۷)؛ و قال ابن حجر: حاصل حکم من اغتسل عاریا أنہ إن کان بمحل خال لا یراہ أحد ممن یحرم علیہ نظر عورتہ حل لہ ذلک لکن الأفضل الستر حیاء من اللّٰہ تعالی (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الغسل، الفصل الثالث،‘‘ ج۲، ص:۱۳۸، مکتبۃ فیصل دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص287