طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1051

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب سے پہلے نجاست کو دور کیجیے۔ پھر کپڑے کو تین بار دھوییے اور ہر باراچھی طرح  نچوڑیے۔ اس طرح تین بار دھونے سے  اور ہر بار نچوڑنے سے آپ کا کپڑا پاک ہوجاءے گا۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اولاً دیکھا جائے کہ اس سانپ میں بہنے والا خون ہے کہ نہیں، اگر بہنے والا خون ہے، تو اس کے مرنے اور گلنے سڑنے سے کنواں ناپاک ہو جائے گا، لہٰذا پانی کا اندازہ کر کے اس کو نکال دیا جائے۔ اور اگر ثابت ہو جائے کہ ایسے سانپ میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، تو اس سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا اور اگر یہ سانپ خشکی کا نہیں ہے؛ بلکہ پانی کا ہے، تو اس کے مرنے سے  پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’أو مات فیہا حیوان دموی غیر مائي لما مر وانتفخ أو تمعط أو تفسخ ینزح کل مائہا الذي کان فیہا وقت الوقوع بعد إخراجہ … وانتفخ ولا فرق بین الصغیر والکبیر کالفارۃ والأدمي والفیل لأنہ تنفصل بلتہ وہي نجسۃ مائعۃ فصارت کقطرۃ خمر‘‘(۱)
’’وإن ماتت فیہا شاۃ أو کلب أو آدمي نزح جمیع ما فیہا من الماء فإن انتفخ الحیوان فیہا أو تفسخ نزح جمیع ما فیہا صغر الحیوان أو کبر لانتشار البلۃ في أجزاء الماء‘‘(۲)
’’فیفسد في الأصح کحیۃ بریۃ إن لہا دم وإلا لا … کحیۃ بریۃ أما المائیۃ فلا تفسدہ مطلقا‘‘(۳)
’’ومثلہ لو ماتت حیۃ بریۃ لادم فیہا في إناء لا ینجس وإن کان فیہا دم ینجس‘‘(۴)
’’أما المائیۃ فلا تفسد مطلقاً کما علم مما مر‘‘(۵)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۷، ۳۶۸۔
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۱۔
(۴) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل فی الغسل باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۵) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص67

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت جنابت میںمرجانے سے اس کے غسل دینے میں کچھ فرق نہیں ہوگا، جس طرح دیگر میتوں کو غسل دیا جاتا ہے، اسی طرح جنبی میت کو بھی غسل دیا جائے گا(۱)

(۱) و یجرد من ثیابہ کما مات و یوضأ من یؤمر بالصلاۃ بلا مضمضۃ و استنشاق للحرج و قیل یفعلان بخرقۃ و علیہ العمل ولو کان جنبا أو حائضا أو نفساء۔۔۔۔ أي في شرح القدوري من أن الجنب یمضمض و یستنشق غریب مخالف لعامۃ الکتب۔ قلت: و قال الرملی: اطلاق المتون والشروح والفتاوی یشمل من مات جنبا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في القراء ۃ عند المیت،‘‘ ج ۳، ص:۸۶-۸۷)؛ و قول المصنف بلا مضمضۃ واستنشاق: ھذا لو کان طاھرا أما لو کان جنبا أو حائضا أو نفساء فعلا تتمیما للطاھرۃ کما في الإمداد عن شرح المقدسي، و في حاشیۃ الرملي إطلاق المتون والشروح یشمل من مات جنبا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز، تلقین الشھادۃ للمحتضر،‘‘ ج۲، ص:۳۰۱دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص289

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ والتوفیق:حاملہ عورت کا حمل وقت سے پہلے ضائع ہونے کی صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضا میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر، انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو، تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا؛ لیکن اگر بچے کے اعضا میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو، تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔
بچے کے اعضا کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے؛ تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا؛ لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے، تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا ہوگا۔ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (کم از کم پندرہ دن پاکی) بھی گزر چکا ہو، تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا؛ لیکن اگر تین دن سے کم ہو یا اس سے پہلے پندرہ دن پاکی نہ رہی ہو، تو پھر یہ خون استحاضہ (بیماری) کا شمار ہوگا۔
’’(ظہر بعض خلقہ کید أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولایستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً (ولد) حکماً (فتصیر) المرأۃ (بہ نفساء والأمۃ أم ولد ویحنث بہ) فی تعلیقہ وتنقضی بہ العدۃ، فإن لم یظہر لہ شیء  فلیس بشیء، والمرئی حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’فإن رأت دما قبل إسقاط السقط ورأت دما بعدہ، فإن کان مستبین الخلق فما رأت قبلہ لا یکون حیضاً وہي نفساء فیما رأتہ بعدہ وإن لم یکن مستبین الخلق فما رأتہ بعدہ حیض إن أمکن‘‘(۲)

 

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: أقل النفاس‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص389

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو وغسل اور کپڑوں وغیرہ کو پاک کرنے کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے، بڑے تالاب میں جو رکا ہوا پانی ہوتا ہے وہ فی نفسہ پاک ہے، اس کے اندر زندہ مچھلیاں رہنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اسی طرح اگر اس میں کچھ مچھلیاں مر جائیں، تو بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، اس لئے کہ وہ حیوان جس کا مردار حلال ہے جیسے مچھلی وہ موت وحیات دونوں حالتوں میں پاک ہے، مچھلیوں میں حقیقت میں خون نہیں ہوتا وہ پانی ہی میں پیدا ہوتی اور اسی میں مرتی رہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’ہو الطہور مائہ الحل میتتہ‘‘(۱)
مچھلی پالن کرنے والے لوگ مچھلیوں کو کھلانے کے لیے مرے ہوئے جانور بیل، بھینس یا دیگر گلی سڑی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالتے ہیں، اگر ایسی ناپاک چیزیں تالاب میں ڈالی گئی ہوں، تو پھر دو صورتیں ہیں، اگر تالاب دہ در دہ سے کم ہے، تو نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا اور اگر بڑا تالاب ہے اور نجاست کی وجہ سے پانی کے اوصاف ثلاثہ رنگ، بو اور ذائقہ میں سے کوئی وصف بدل گیا  تو وہ تالاب ناپاک کہلائے گا اور اس سے وضو وغسل اسی طرح کپڑے پاک کرنا درست نہیں ہوگا۔

’’الماء إذا وقعت فیہ نجاسۃ فإن تغیر وصفہ لم یجز الانتفاع بہ بحال‘‘ (۱)
’’إن تغیرت أوصافہ لا ینتفع بہ من کل وجہ کالبول‘‘ (۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۶۹۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مسئلۃ البئر جحط‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني فیما لا یجوز بہ التوضئ، ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص70

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہم اللہ کے قول کے مطابق اس صورت میں غسل واجب ہے، اور اسی میں احتیاط ہے(۲) ’’وإن رأی بللا إلا أنہ لم یتذکر الاحتلام فإن تیقن أنہ ودي لا یجب الغسل، وإن تیقن أنہ مني یجب الغسل، و إن تیقن أنہ مذي لا یجب الغسل، و إن شک أنہ مني أو مذي قال أبو یوسف رحمہ اللّٰہ: لا یجب الغسل حتی یتقین بالاحتلام، وقالا یجب ہکذا ذکرہ شیخ الإسلام‘‘(۱)

(۲) إذا استیقظ فوجد علی فخذہ أو علی فراشہ بللا علی صورۃ المذي ولم یتذکر الإحتلام فعلیہ الغسل في قول أبي حنیفۃ و محمد، و عند أبي یوسف لایجب، و أجمعوا أنہ لو کان منیا أن علیہ الغسل۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع،’’کتاب الطہارۃ، أحکام الغسل،‘‘ ج۱، ص:۱۴۸)؛ واستیقظ فوجد بفخذہ و ثوبہ بللا ولم یذکر الاحتلام فإن تیقن أنہ مذي أو ودي لا غسل۔۔۔۔ و إن شک أنہ مني أو مذي یجب عندھما خلافا لہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ،’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل، إنزال المني من موجبات الغسل،‘‘ ج۱، ص:۳۳۱مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 (۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثانی في الغسل، الفصل الثالث في المعانی،‘‘ج۱، ص: ۶۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص289

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورتوں کے لیے حیض اور نفاس کے ایام میں اپنے خاص مقام پر کوئی ایسی چیز رکھنا ثابت شدہ ہے جو کپڑوں کو ملوث ہونے سے بچائے رکھے، اب یہ کپڑا ہو روئی ہو یا موجودہ دور میں خاص اسی مقصد سے بنائے گئے پیڈ ہوں، سب کا استعمال شرعاً جائز اور درست ہے۔
’’وضع الکرسف مستحب للبکر فی الحیض وللثیب فی کل حال وموضعہ موضع البکارۃ ویکرہ في الفرج الداخل الخ، وفي غیرہ أنہ سنۃ للثیب حالۃ الحیض مستحبۃ حالۃ الطہر ولو صلتا بغیر کرسف جاز‘‘(۱)
’’عن أم سعد امرأۃ زید بن ثابت قالت: سمعت رسول اللّٰہ یأمر بدفن الدم إذا احتجم۔ رواہ الطبراني في الأوسط‘‘(۲)
’’قال العلامۃ الحصکفیؒ: کل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ کشعر عانتہ وشعر رأسھا وعظم ذراع حرّۃ میتۃ وساقھا وقلامۃ ظفر رجلھا دون یدھا وان النظر الٰی ملاء ۃ الاجنبیۃ بشھوۃ حرام‘‘(۳)

اسلام نے طہارت وپاکی پر بڑا زور دیا ہے اس میں ظاہری طہارت بھی شامل ہے اور باطنی طہارت بھی، ظاہری طہارت سے دہن کی صفائی، بدن کی صفائی، لباس کی صفائی اور حال وماحول کی صفائی وغیرہ جیسے امور مراد ہیں، انسان فطری طور پر پاکی وصفائی کو پسند کرتا ہے ظاہری نظافت وپاکیزگی خود انسان کے لیے جہاں فرحت بخش ہوتی ہے وہیں اس میں دوسروں کی رعایت بھی ہے فرد کی نظافت وطہارت کے حکم میں فرد کے ساتھ سماج میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی کس قدر رعایت ملحوظ ہے اس تعلق سے بھی مزاج شریعت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، طہارت ونفاست ایک تہذیب یافتہ اور مثقف قوم کا امتیاز ہے، ایک انسان جس کا دہن پاک نہ ہو، بدن صاف ستھرا نہ ہو، لباس میلا کچیلا ہو نظافت پسند طبیعتیں اس کو نا پسند کرتی ہیں، ان تمام کی پاکی ونظافت کے ساتھ رہن سہن پاک صاف ہو، مکانات کی صفائی کے ساتھ گلی کوچوں اور محلوں کو بالخصوص مسلم آبادیوں کو طہارت وپاکی صفائی ونظافت کا مظہر ہونا چاہئے، عفونت وگندگی ہر اعتبار سے ناپسندیدہ ہے، خواہ وہ کہیں ہو لباس وبدن میں ہو، رہائش گاہوں میں، گلی کوچوں میں ہو یا بستیوں میں یہی وجہ ہے کہ اسلام نے طہارت ونظافت کے خصوصی احکام دئیے ہیں، کتب حدیث وفقہ میں طہارت کا ایک مستقل باب قائم ہے  اس میں وہ سارے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں جن کا خاص طہارت وپاکی سے تعلق ہوتا ہے فرد کی نظافت بھی اسلام میں مطلوب ہے اور اجتماعی اعتبار سے بھی پاکی اور نظافت کی بڑی اہمیت ہے، طہارت ونظافت کو اسلام نے اس قدر اہمیت دی ہے کہ اس کو نصف ایمان قرار دیا ہے، جیسا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے: ’’الطہور شطر الإیمان‘‘(۱)
خلاصۂ کلام:
حیض کو جذب کرنے کے لیے استعمال شدہ کپڑے، سینیٹری پیڈ، کرسف وغیرہ کو کھلے عام پھینکنا درست نہیں، تہذیب اور حیا کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو چھپاکر ایسی جگہوں پر پھینکا جائے جہاں عام لوگوں کی نگاہ نہ پڑے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں بہتر یہی ہے کہ خواتین اپنے غیر ضروری کاٹے ہوئے بال، حیض کے کپڑے، ٹشو وغیرہ کسی مناسب جگہ میں ضائع کردیں، آج کل بلدیہ کی جانب سے نجاست وغلاظت ڈالنے کے لیے جگہ جگہ مناسب نظم ہوتا ہے بہتر ہے کہ اس میں ڈال دیا جائے، اگر یہ عمل مشکل ہو، تو اس پہلو کی رعایت کے ساتھ ضائع کرنا چاہئے؛ البتہ ایسی جگہ پھینکناجو گندگی یا بیماری  یا بے حیائی پھلانے کا سبب ہو، مکروہ ہے۔
’’یدفن أربعۃ: الظفر، والشعر، وخرقۃ الحیض والدم‘‘ (۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفن ذلک الظفر والشعر المجزوز فإن رمی بہ فلا بأس وإن ألقاہ في الکنیف أو في المغتسل یکرہ ذلک لأن ذلک یورث داء کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ یدفن أربعۃ الظفر والشعر وخرقۃ الحیض والدم کذا في الفتاویٰ العتابیۃ‘‘(۱)
 

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳۔
(۲) نور الدین الہیثمي، مجمع الزوائد، ’’باب دفن الدم‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۸، رقم: ۸۳۴۱۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في النظر، مطلب في سترۃ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب فضل الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۲۲۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظفار الخ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۲۔
(۱)أیضًا:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص391

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں آپ کی بات درست ہے، کپڑا تین مرتبہ پاک کر لیا گیا، تو اب وہ کپڑا پاک ہو گیا، صرف کپڑا پانی میں بھکو دینے سے پانی مستعمل نہیں کہلاتا؛ اس لیے مذکورہ صورت میں بالٹی میں جو پانی تھا اس سے وضو درست ہوگئی اور جب وضو درست ہوئی، تو اس سے نماز بھی درست ہو گئی؛ لیکن اس سے بہتر پانی ہوتے ہوئے طبعی کراہت کی وجہ سے ایسے پانی سے وضو نہیں کرنی چاہئے۔

’’قلت: أرأیت ثوبا نجسا غسل في إجانۃ بماء نظیف ثم عصر ولم یہرق ذلک الماء ثم غسل في إجانۃ أخری بماء نظیف ثم عصر ولم یہرق ذلک الماء ثم غسل في إجانۃ أخری بماء نظیف ثم عصر ما حکم الثوب، قال: قد طہر قلت فہل یجزی من توضأ بالماء الأول أو الثاني أو الثالث؟ قال: لا قلت: فإن توضأ رجل من ذلک وصلی؟ قال یعید الوضوء والصلاۃ۔ قلت: أرأیت إن غسل ذلک الثوب في إجانۃ أخری بماء طاہر ہل یجزی من توضأ بذلک الماء الرابع؟ قال: قلت: نعم: قلت: لم؟ قال: لأنہ لما غسل في الإجانۃ الثالثۃ فقد صار طاہرا ثم غسل في الإجانۃ الرابعۃ وہو طاہر فلا بأس بأن یتوضأ بذلک الماء الرابع لأنہ طاہر‘‘(۱)

(۱) محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب البئر وما ینجسہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص71

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کیے بغیر بھی غسل ہو جائے گا۔(۲)

(۲) یفترض في الاغتسال… و منہ الفرج الخارج لأنہ کالفم لا الداخل لأنہ کالحلق۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي،’’کتاب الطہارۃ، فصل بیان فرائض الغسل‘‘ج۱،ص: ۱۰۲)
لا یجب غسل فرج داخل۔ ولا تدخل إصبعھا في قبلھا أي لا یجب ذلک۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۸۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص290

طہارت / وضو و غسل

الجواب باللّٰہ التوفیق:بندر کا جھوٹا ناپاک ہے، عام طور پر ٹینکوں میں موجود پانی ماء راکد قلیل (ٹھہرا ہوا تھوڑا پانی) ہوتا ہے، بندر کے جھوٹا کرنے کی وجہ سے ٹنکی میں موجود پانی کو نکال دے، پانی نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف سے پانی داخل کیا جائے اور دوسری طرف سے نکال دیا جائے جب ٹینک سے پانی نکل جائے گا تو ٹنکی اور پائپ سب پاک ہو جائیں گے ’’وسؤر خنزیر و کلب وسبع بھائم نجس‘‘(۱)
’’وقال أبوجعفر الھندواني: یطھر بمجرد الدخول من جانب والخروج من جانب وإن لم یخرج مثل ما کان فیہ، وھو أي قول الھندواني اختار الصدر الشہید حسام الدین لأنہ حینئذ یصیر جاریًا والجاری لا ینجس ما لم یتغیر بالنجاسۃ‘‘(۲)
نیز ٹنکی میں اگر بندر بول وبراز (گندگی) کردے تو اس صورت میں پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نجاست اور ٹنکی میں موجود پانی کو اولاً نکالا جائے گا اور اگر ٹنکی زیادہ بڑی ہو یا کسی وجہ سے مکمل خالی کرنا بہت مشکل ہو، تو اس میں ایک طرف سے پانی ڈالا جائے اورایک طرف سے جاری کردیا جائے، (یعنی مسلسل اس میں پاک پانی آتارہے اور ناپاک پانی نکلتا رہے) یہاں تک کہ پانی کے تینوں اوصاف (رنگ، مزہ، بو) اپنی اصلی حالت پر آجائیں، تو ٹنکی پاک ہو جائے گی؛ البتہ مسجد کے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ٹنکی کو بہتر طریقہ سے ڈھک دیں یا جال وغیرہ لگا دیں تاکہ بندر پانی کو ناپاک نہ کر سکیں۔
’’یجب أن یعلم أن الماء الراکد إذا کان کثیراً فہو بمنزلۃ الماء الجاري لا یتنجس جمیعہ بوقوع النجاسۃ في طرف منہ إلا أن یتغیر لونہ أو طعمہ أو ریحہ۔ علی ہذا اتفق العلماء، وبہ أخذ عامۃ المشایخ، وإذا کان قلیلاً فہو بمنزلۃ الحباب والأواني یتنجس بوقوع النجاسۃ فیہ وإن لم تتغیر إحدی أوصافہ‘‘ (۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۲۔
(۲) إبراہم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) برہان الدین، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الرابع: في المیاہ التي یجوز التوضوء، في الحیاض والعذران والعیون‘‘: ج ۱، ص: ۹۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص73