نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: گاہے گاہے جمعہ کی رکعت اولیٰ میں سورہ اعلیٰ اور ثانیہ میں سورۂ غاشیہ پڑھنا سنت ہے۔ اور کبھی کبھی رکعت اول میں سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون پڑھنا بھی مسنون ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ کے امام صاحب کرتے ہیں اور اس کو مسنون بتلاتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے، کچھ  اماموں نے اس کو سنت سمجھ کر اس طرح پڑھنے کی عادت بنالی ہے جو درست نہیں ہے، لیکن اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔(۱)(۱) عن ابن أبي رافع، قال: استخلف مروان أبا ہریرۃ علی المدینۃ،… وخرج إلی مکۃ، فصلی لنا أبو ہریرۃ الجمعۃ، فقرأ بعد سورۃ الجمعۃ، في الرکعۃ الآخرۃ: إذا جائک المنافقون، قال: فأدرکت أبا ہریرۃ حین انصرف، فقلت لہ: إنک قرأت بسورتین کان علي بن أبي طالب یقرأ بہما بالکوفۃ، فقال أبو ہریرۃ: إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقرأ بہما یوم الجمعۃ۔عن النعمان بن بشیر، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في العیدین، وفي الجمعۃ بسبح اسم ربک الأعلی، وہل أتاک حدیث الغاشیۃ، قال: وإذا اجتمع العید والجمعۃ، في یوم واحد، یقرأ بہما أیضا في الصلاتین۔عن عبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ، قال: کتب الضحاک بن قیس إلی النعمان بن بشیر یسألہ: أي شيء قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ، سوی سورۃ الجمعۃ؟ فقال: کان یقرأ ہل أتاک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب قراء ۃ القرآن في الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۷، رقم: ۸۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 165

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ، پھر فرض کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ، پھر دو رکعت سنت، یعنی نماز جمعہ کے بعد مفتی بہ قول کے مطابق چھ رکعت مؤکدہ ہیں۔(۱)(۱) وأما السنۃ قبل الجمعۃ وبعدہا فقد ذکر في الأصل: وأربع قبل الجمعۃ، وأربع بعدہا، وکذا ذکر الکرخي، وذکر الطحاوي عن أبي یوسف أنہ قال: یصلي بعدہا ستاً، وقیل: ہو مذہب علي رضي اللّٰہ عنہ وما ذکرنا أنہ کان یصلي أربعاً مذہب ابن مسعود، وذکر محمد في کتاب الصوم: أن المعتکف یمکث في المسجد الجامع مقدار ما یصلي أربع رکعات، أو ست رکعات، أما الأربع قبل الجمعۃ؛ فلما روي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یتطوع قبل الجمعۃ بأربع رکعات؛ ولأن الجمعۃ نظیر الظہر، ثم التطوع قبل الظہر أربع رکعات کذا قبلہا۔     …وأما بعد الجمعۃ فوجہ قول أبي یوسف: إن فیما قلنا جمعا بین قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین فعلہ؛ فإنہ روي أنہ أمر بالأربع بعد الجمعۃ، وروي أنہ صلی رکعتین بعد الجمعۃ، فجمعنا بین قولہ وفعلہ، قال أبو یوسف: ینبغي أن یصلي أربعاً، ثم رکعتین، کذا روي عن علی رضي اللّٰہ عنہ کي لایصیر متطوعاً بعد صلاۃ الفرض بمثلہا، وجہ ظاہر الروایۃ ما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من کان مصلیاً بعد الجمعۃ فلیصل أربعاً۔ وما روي من فعلہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلیس فیہ ما یدل علی المواظبۃ، ونحن لانمنع من یصلي بعدہا کم شاء، غیر أنا نقول: السنۃ بعدہا أربع رکعات لا غیر؛ لما روینا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الصلاۃ المسنونۃ، بیان ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۸، ۶۳۹)(وسن) مؤکدا (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعۃ و) أربع (بعدہا بتسلیمۃ) فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنۃ، ولذا لو نذرہا لایخرج عنہ بتسلیمتین، وبعکسہ یخرج (ورکعتان قبل الصبح وبعد الظہر والمغرب والعشاء) شرعت البعدیۃ لجبر النقصان، والقبلیۃ لقطع طمع الشیطان۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۱، ۴۵۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 164

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کی اذان ثانی حنفیہ کے نزدیک مسجد کے ممبر کے پاس ہونی چاہئے یہی توارث امت ہے اور یہی سنت ہے ’’ویؤذن ثانیا بین یدي الخطیب‘‘(۱) بعض حضرات کو اس سے اختلاف ہے؛ انہیں میں سے مولانا عبدالحی صاحب کو تصور کیا جائے لیکن عند الاحناف مسئلہ یہی ہے۔اگر اس کی ضرورت ہو کہ دونوں مسجدوں میں نماز جمعہ ہو کہ لوگوں (نمازیوں) کی کثرت ہو یا مقتدیوں کی اسی میں سہولت ہو تو دونوں مسجدوں میں درست ہے۔’’(وتؤدی في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذہب، وعلیہ الفتویٰ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶۔ ویؤذن ثانیاً بین یدیہ أي الخطیب … إذا جلس علی المنبر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۹)(وإذا صعد الإمام علی المنبر جلس وأذن المؤذنون بین یدي المنبر) بذلک جری التوارث۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 163

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف رحمہم اللہ کے یہاں جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کی نماز کا ہے، لہٰذا احناف کے نزدیک زوال سے پہلے اذان دینا درست نہیں ہے جس کو لوٹا لینا بہتر ہے اگر آپ دوسرے ملک مثلاً سعودیہ وغیرہ میں ہیں تو اس دران آپ سنتیں نہ پڑھیں اگر پڑھ لی گئی تو لوٹانی پڑے گی اور پڑھی ہوئی نماز نفل ہو جائے گی۔’’تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصحیح لا یجوز اتفاقاً وکذا في الصحیح عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح مجمع البحرین لابن الملک وعلیہ الفتوی، ہکذا في التتار خانیہ ناقلا عن الحجۃ‘‘(۱)’’وبالجملۃ فہذا الأذان کان قبل التأذین بین یدي الخطیب وکان في أول وقت الظہیر متصلاً بالزوال‘‘(۲)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۰۔(۲) البنوري، معارف السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۹۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 162

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ جمعہ کے روز اذان ثانی امام کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر دینا ہی سنت متوارثہ ہے، تاہم تھوڑا بہت دائیں بائیں ہٹ کر اذان کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، مگر اس کی عادت بنا لینا درست نہ ہوگا۔’’فکونہ بین یدیہ عام شامل لما قام في محاذاتہ أو شیئاً إلی الیمین أو الشمال أو یکون علی الأرض أو الجدار الخ‘‘(۲)(۲) خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الصلاۃ: باب الفداء یوم الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 161

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احادیث میں مطلق اذان کا جواب دینا مسنون قرار دیا ہے جس میں جمعہ کی اذان ثانیہ کی کوئی تخصیص معلوم نہیں ہوتی ہے، تاہم خطیب کے خروج کے بعد صلوٰۃ وکلام ممنوع قرار دیا ہے، مگر بعض فقہاء اسے کلام الناس پر محمول کرتے ہیں رہی تسبیح وغیرہ ان کو ممنوع نہیں کہا ہے، مگر احترامِ خطبہ میں دل ہی دل میں پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں پھر بھی خاموش رہ کر خطبہ سماعت کرنا افضل ہے، لہٰذا مذکورہ دعاء سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔’’قال بعضہم إنما یکرہ الکلام الذي ہو من کلام الناس وأما التسبیح واتباعہ فلا وقال بعضہم کل ذلک والأول أصح، کذا في المبسوط فخر الأسلام …… وذکر في المصفی عن العون أن المراد بالکلام فی ہذین الوقتین أي بعد الفراغ من الخطبۃ قبل شروع الصلاۃ وقبلہا إجابۃ المؤذن أما غیرہ من الکلام فیکرہ إجماعاً‘‘(۲)’’وینبغي أن لا یجیب بلسانہ اتفاقا الخ‘‘(۱)(۲) اللکھنوي، تاوی للکھنوي، ’’کتاب الصلاۃ: ما یتعلق بالجمعۃ‘‘:ص: ۳۵، بیروت۔(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۷۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 160

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف رحمہم اللہ کے نزدیک جمعہ کی اذان ثانی امام کے سامنے مسجد میں ہونی چاہئے، صف اول کا ہونا ضروی نہیں ہے، دوسری، تیسری صف میں بھی دی جا سکتی ہے۔’’قال في شرح المنیۃ واختلفوا في المراد بالأذان الأول فقیل الأول باعتبار المشروعیۃ وہو الذي بین یدي المنبر لأنہ الذي کان أولاً في زمنہ علیہ الصلاۃ والسلام وزمن أبي بکر وعمر حتی أحدث عثمان رضي اللّٰہ عنہ الأذان الثاني علی الزوراء حین کثر الناس والأصح أنہ الأول باعتبار الوقت وہو الذي یکون علی  المنارۃ بعد الزوال، والزوراء بالمد اسم موضع في المدینۃ‘‘(۱)(۱) الحصکفي عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸؛ وہکذا في فتاوی الرحیمۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 159

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح ہو کہ اکثر فقہاء اذان اول کے بعد سے ہی ہر قسم کے معاملات ترک کرنے کے قائل ہیں، لیکن بعض فقہاء جیسے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ وصاحب فتاوی عتابی وغیرہ نے ترک معاملات میں اذان ثانی ہی کو جو خطیب کے سامنے ہوتی ہے اسی کو معتبر قرار دیا ہے، لہٰذا عند الضرورۃ دوسرے قول پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔’’قال صاحب الہدایۃ: قیل المعتبر في وجوب السعي وحرمۃ البیع ہو الأذان الأصلي الذي کان علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بین یدی المنبر ہو مذہب الطحاوي … وفي فتاویٰ العتابي ہو المختار، وبہ قال الشافعي رحمہ اللّٰہ وأحمد وأکثر الفقہاء الأمصار، ونص المرغیناني أنہ الصحیح‘‘(۱)’’وفي الرد: حاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت أذان الأول الخ‘‘(۲)(۱) بدرالدین العینی، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب المشي إلی الجمعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۶۲، ۶۳۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 158

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جمعہ کی اذان اول کے بعد سے چوںکہ اجماعاً سعی الی الجمعۃ میں مخل ہونے والا ہر کام ناجائز ہے، لہٰذا نکاح پڑھانا بھی جائز نہیں ہوگا، تاہم جمعہ کی اذان اول کے بعد کیا جانے والا نکاح منعقد ہو جائے گا۔’’في المحلی یصح البیع إلا أن بعد الصلاۃ ولا یصح بخروج الوقت ولو کان بین کافرین ولا یحرم نکاح ولا اجازۃ ولا مسلم‘‘(۱)’’وفي الرد، وحاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت أذان الأول … وقولہ وترک البیع) أراد بہ کل عمل ینافي السعي وخصہ اتباعا للآیۃ‘‘(۲)(۱) بدرالدین عینی، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج۳، ص: ۱۰۶۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 157

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بروز جمعہ مذکورہ گھنٹہ بجانا کیوں کہ صرف جمعہ کے دن کی یاد دہانی کے لئے ہی ہوتا ہے اس کو دین اور عبادت سمجھ کر نہیں کیا جاتا ہے، لہٰذا مذکورہ عمل کے جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔’’بأنہا البدعۃ: ما أحدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دینا قویماً وصراطاً مستقیماً‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 157