Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام و مقتدیوں سب کی نماز درست ہوگئی ہے۔(۱)
(۱) إذا ظن الإمام أنہ علیہ سہواً فسجد للسہو وتابعہ المسبوق في ذلک ثم علم أن الإمام لم یکن علیہ سہو، فیہ روایتان: واختلف المشائخ لاختلاف الروایتین وأشہرہا أن صلاۃ المسبوق یفسد، وقال الإمام أبوحفص الکبیر: لا یفسد …… أخرجہ في واقعاتہ وإن لم یعلم الإمام أن لیس علیہ سہو لم یفسد صلاۃ المسبوق عندہم جمیعاً۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ: قبل الفصل السادس عشر: في السہو‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 234
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ایک رکن کے بقدر تاخیر ہوئی تو رکوع (جو فرض ہے) میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہے۔(۲)
(۲) لاتجزي صلاۃ الرجل حتی یقیم ظہرہ في الرکوع والسجود۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ من لا یقم صلبہ في الرکوع والسجو‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸، رقم: ۸۵۵)ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیر رکن، أو تقدیمہ، أو تکرارہ أو تغییر واجب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 233
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک یا دو سجدے کرنے میں اگر شک ہو جائے، تو اس صورت میں اگر کسی ایک طرف گمان غالب ہو، تو اس پر عمل کرے اور اگر گمان غالب نہ ہو، تو ایک اور سجدہ کرلے اور نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلے، صورت مسئولہ میں جب شک ہوا اور ایک سجدہ مزید کر لیا، تو درست کیا اور آخر میں سجدہ سہو واجب ہے، تاہم نماز دھیان سے پڑھنی چاہئے اور شک کو جگہ نہیں دینی چاہئے۔
’’(وجب علیہ سجود السہو في) جمیع (صور الشک) سواء عمل بالتحري أو بنی علی الأقل، فتح لتأخیر الرکن لکن في السراج أنہ یسجد للسہو في أخذ الأقل مطلقاً، وفي غلبۃ الظن إن تفکر قدر رکن‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:… باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۲۔وإن کثر شکہ عمل بغالب ظنہ إن کان لہ ظن للحرج وإلا أخذ بالأقل لتیقنہ وقعد في کل موضع توہمہ موضع قعودہ۔ (الحصکفي، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۱)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 232
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ظن غالب ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھ لی ہے، تو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، پھر بھی پڑھ لی تو فاتحہ مکرر ہوگئی اور سجدۂ سہو واجب ہوا؛ البتہ اگر سورہ فاتحہ کے بعد بقدر واجب قرأت کرنے کے بعد سورہ فاتحہ کو دوبارہ پڑھ لیا، تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔
’’ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ أو تاخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب، کذا في الکافي … ولو کررہا في الأولیین یجب علیہ سجود السہو بخلاف ما لو أعادہا بعد السورۃ أو کررہا في الأخریین کذا في التبیین‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔ولو قرأ الفاتحۃ مرتین یجب علیہ السجود لتأخیر السورۃ، کذا في الذخیرۃ وغیرہا، وذکر قاضیخان وجماعۃ أنہا إن قرأہا مرتین علی الولاء وجب السجود وإن فصل بینہما بالسورۃ لا یجب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 231
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شامی میں ہے کہ ایسی صورت پیش آجائے تو مسبوق اپنی نماز کے اخیر میں سجدہ سہو کرے تاکہ نماز مکمل طور پر صحیح ہوجائے؛ البتہ جان کر اس نے اگر ایسا کیا یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کیا، تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی اسے از سر نو نماز پڑھنی ہوگی۔
’’فإن سلم فإن کان عامداً فسدت وإلا لا‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶۔قولہ: (والمسبوق یسجد مع إمامہ) قید بالسجود لأنہ لا یتابعہ في السلام، بل یسجد معہ ویتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم، فإن کان عامدا فسدت، وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہوا قبل الإمام أو معہ؛ وإن سلم بعدہ لزمہ لکونہ منفردا حینئذ بحر، وأراد بالمعیۃ المقارنۃ وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ۔ وفیہ: ولو سلم علی ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶، ۵۴۷)(قولہ ولو سلم ساہیا) قید بہ لأنہ لو سلم مع الإمام علی ظن أنہ علیہ السلام معہ فہو سلام عمد فتفسد کما في البحر عن الظہیریۃ، قولہ: (لزمہ السہو) لأنہ منفرد في ہذہ الحالۃ ح۔ قولہ: (وإلا لا) أي وإن سلم معہ أو قبلہ لا یلزمہ لأنہ مقتد في ہاتین الحالتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما أتی بالرکوع والسجود الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 230
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسبوق مقتدی سجدہ سہو کے سلام میں امام کی اقتدا نہ کرے کہ اس کی نماز کا وسط ہے اور امام و مدرک مقتدیوں کی نماز کا آخر ہے، رہا مخالفت کا شبہ وہ اس لیے نہیں ہے کہ شریعت کا ایسا ہی حکم ہے تاہم اگر مسبوق نے امام کے سلام سہو میں بھولے سے شرکت کرلی تب بھی مسبوق کی نماز درست ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
’’والمسبوق یسجد مع إمامہ قید بالسجود لأنہ لا یتابعہ في السلام؛ بل یسجد معہ ویتشہد فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶۔
والمسبوق یتابع الإمام في سجود السہو ثم یقوم إلی قضاء ما سبق بہ، ولا یعید في آخر صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸)
(ویسجد المسبوق مع إمامہ) لالتزام متابعتہ (ثم یقوم لقضاء ما سبق بہ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 230
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بوجہ شبہ سجدہ سہو کیا گیا ہے پس نماز درست ہوگئی۔ سجدہ سہو واجب نہ تھا اس کی باوجود شبہ کے بناء پر سجدہ سہو کرلیا جائے تو نماز بلاشبہ صحیح ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) (وضم) أقصر (سورۃ) کالکوثر أو ما قام مقامہا، ہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثم نظر المدثر: ۲۱ ثم عبس وبسر المدثر: ۲۲ ثم أدبر واستکبر المدثر: ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصارا ذکرہ الحلبی (فيالاولیین عن الفرض) وہل یکرہ في الآخریین؟ المختار لا (و) في (جمیع) رکعات (النفل) لأن کل شفع منہ صلاۃ (و) کل (الوتر) احتیاطاً۔(قولہ تعدل ثلاثا قصارا) أي مثل ثم نظر (المدثر: ۲۱) إلخ وہی ثلاثون حرفا، فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفا یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات، لکن سیأتي في فصل یجہر الإمام أن فرض القراء ۃ آیۃ وأن الآیۃ عرفا طائفۃ من القرآن مترجمۃ أقلہا ستۃ أحرف ولو تقدیرا کلم یلد إلا إذا کانت کلمۃ فالأصح عدم الصحۃ اہـ ومقتضاہ أنہ لو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثمانیۃ عشر حرفا یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات۔وقد یقال: إن المشروع ثلاث آیات متوالیۃ علی النظم القرآنی مثل ثم نظر المدثر: ۲۱ إلخ ولا یوجد ثلاث متوالیۃ أقصر منہا، فالواجب إما ہي أو ما یعدلہا من غیرہا لا ما یعدل ثلاثۃ أمثال أقصر آیۃ وجدت في القرآن، ولذا قال تعدل ثلاثا قصارا ولم یقل تعدل ثلاثۃ أمثال أقصر آیۃ۔ علی أن في بعض العبارات تعدل أقصر سورۃ فلیتأمل وسنذکر في فصل الجہر زیادۃ في ہذا البحث (قولہ ذکرہ الحلبي) أي في شرحہ الکبیر عن المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصارا أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ المذکورۃ یعني کراہۃ التحریم۔ قال الشارح في شرحہ عن الملتقی: ولم أرہ لغیرہ وہو مہم فیہ یسر عظیم لدفع کراہۃ التحریم۔ اہـ۔قلت: قد صرح بہ في الدرر أیضا حیث قال: وثلاث آیات قصار تقوم مقام الصورۃ وکذا الآیۃ الطویلۃ۔ اہـ ومثلہ في الفیض وغیرہ۔ وفي التتارخانیۃ: لو قرأ آیۃ طویلۃ کآیۃ الکرسي أو المداینۃ البعض في رکعۃ والبعض في رکعۃ اختلفوا فیہ علی قول أبي حنیفۃ، قیل لا یجوز لأنہ ما قرأ آیۃ تامۃ في کل رکعۃ، وعامتہم علی أنہ یجوز لأن بعض ہذہ الآیات یزید عن ثلاث قصار أو یعدلہا فلا تکون قراء تہ أقل من ثلاث آیات۔ اہـ۔ وہذا یفید أن بعض الآیۃ کالآیۃ في أنہ إذا بلغ قدر ثلاث آیات قصار یکفی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 228
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ عنہا میں قعدۂ اولیٰ چھوڑ کر کھڑے ہوجانے کی صورت میں مقتدی کے لقمہ دینے کے بعد لوٹ کر بیٹھنا نہیں چاہئے تھا کہ فرض (قیام تیسری رکعت کا) چھوڑ کر واجب (قعدۂ اولیٰ) کی طرف لوٹنا اچھا نہیں ہے تاہم سجدہ سہو کر لینے سے نماز درست اور صحیح ہوگئی۔(۱)
(۱) وإلا أي وان استقام قائماً (لا) یعود لاستغالہ بفرض القیام (وسجد للسہو) لترک الواجب (فلو عاد إلی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض مما لیس بفرض، وصححہ الزیلعي وقیل: لا تفسد، لکنہ یکون مسیئا ویسجد لتاخیر الواجب (وھو الأشبہ) کما حققہ الکمال وہو الحق بحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۹، ۵۴۸، مکتبہ زکریا دیوبند)(سہا عن القعود الأول من الفرض ثم تذکرہ عاد إلیہ) وتشہد ولا سہو علیہ في الاصح (مالم یستقم قائماً) في ظاہر المذہب وہو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام (وسجد للسہو) لترک الواجب (فلو عاد إلی العقود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ)… … لرفض الفرض مما لیس بفرض وصححہ الزیلعي (وقیل لا) تفسد لکنہ یکون مسیئا ویسجد لتاخیر الواجب (وہو الأشبہ) کما حققہ الکمال۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، ۵۴۸، ۵۴۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 227
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا بغیر سجدہ سہو کے نماز درست ہوگئی۔(۱)
(۱) فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفاً یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹)ثم یضم إلی الفاتحۃ سورۃ أو ثلاث آیات ہکذا في شرح المنیۃ لابن أمیر الحاج، والآیۃ الطویلۃ تقوم مقامہا، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلا: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ،الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ، وآدابہا، وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 227
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں تھا بغیر سجدہ سہو کے بھی نماز مکمل ہوجاتی مگر جب کہ سجدہ سہو کرلیا تو بھی نماز صحیح ہوگئی ہے، مسئلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز میں کوئی نقص نہیں آتا۔(۱)
(۱) وفي أظہر الروایات لایجب لأن القراء ۃ فیہما مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لاواجب۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰)وإن قرأ الفاتحۃ في إحدی الأخر بین مرتین أو ضم فیہما سورۃ أو قرأ التشہد مرتین في القعدۃ الأخیرۃ أو تشہد قائماً أو راکعاً أو ساجداً ألا سہو علیہ۔ (إبراہیم، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في سجود السہو‘‘: ص: ۳۹۷، دار الکتاب، دیوبند)وحدیث أبي قتادۃ أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الرکعتین الأولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وفي الاخریین بفاتحۃ الکتاب۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ج ۳، ص: ۲۶۱، رقم: ۳۷۴۱)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 226