نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں امام کی نماز تو درست ہوگئی لیکن مقتدیوں کی نماز باطل ہو گئی؛ اس لیے کہ دو رکعت امام کی فرض ہوئی اور دو رکعت نفل ہوئی، تو آخر کی دو رکعتوں میں فرض نماز پڑھنے والوں نے نفل پڑھنے والے کی اتباع کی اور یہ جائز نہیں ہے امام کی نماز بھی اس صورت میں درست ہوئی جب کہ اس نے قعد ہ اولیٰ کر لیا ہو اور سجدہ سہو بھی کرلیا ہو اگر سجدہ سہو نہیں کیا، تو فرض تو ذمہ سے ساقط ہوگیا؛ البتہ نمازواجب الاعادہ رہی۔ مقتدیوں کو نماز کا دوہرانا لازم ہے ان کو اس کی اطلاع کی جائے۔(۱)

(۱) تنبیہ یؤخذ من ہذا أنہ لو اقتدی مقیمون بمسافر وأتم بہم بلا نیۃ إقامۃ وتابعوہ فسدت صلاتہم لکونہ متنفلا في الأخریین، نبہ علی ذلک العلامۃ الشرنبلالي في رسالتہ في المسائل الأثنی عشریۃ؛ وذکر أنہا وقعت لہ ولم یرہا، في کتاب۔ قلت: وقد نقلہا الرملي في باب المسافر عن الظہیریۃ، وسنذکرہا ہناک أیضاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدۃ؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۷)فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدۃ (الأولیٰ تم فرضہ و) لکنہ (أساء) لو عامدا لتأخیر السلام وترک واجب) القصر وواجب تکبیرۃ افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وہذا لایحل کما حررہ القہستاني، بعد أن فسر أساء۔ بأثم واستحق النار (وما زاد نفل) کمصلی الفجر أربعا (وإن لم یقعد بطل فرضہ) وصار الکل نفلًا لترک القعدۃ المفروضہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۹، ۶۱۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 243

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) صورت مسئولہ میں نماز واجب الاعادہ ہے۔ دوبارہ نماز پڑھی جائے۔

(۲) سورہ فاتحہ کی مکمل آیت چھوٹ جائے اور سجدہ سہو بھی نہ کرے، تو نماز واجب الاعادہ ہے؛ اس لئے کہ پوری سورہ فاتحہ کا پڑھنا نماز میں واجب ہے۔(۱)

(۱) ثم واجبات الصلاۃ أنواع) (منہا) قراء ۃ الفاتحۃ والسورۃ إذا ترک الفاتحۃ في الأولیین أو إحداہما یلزمہ السہو، وإن قرأ أکثر الفاتحۃ ونسي الباقي لا سہو علیہ، وإن بقي الأکثر کان علیہ السہو إماما کان أو منفردا، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)(و ہي قراء ۃ فاتحۃ الکتاب) فیسجد للسہو بترک أکثرہا لا أقلہا؛ ولکن في المجتبی یسجد بترک آیۃ منہا وہو أولیٰ قولہ: (بترک أکثرہا) …… وفي القہستاني أنہا بتمامہا واجبۃ عندہ وأما عندہما فأکثر ہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، ۱۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 242

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی اس لیے کہ مطلقاً قرأت تو فرض ہے لیکن سورہ فاتحہ کو مقدم اور ضم سورۂ کو مؤخر کرنا واجب ہے اورترک واجب سے سجدۂ سہو لازم آتا ہے۔(۱)

(۱) ومن سہا عن فاتحۃ الکتاب في الأولی أو في الثانیۃ وتذکر بعد ما قرأ بعض السورۃ یعود فیقرأ بالفاتحۃ ثم بالسورۃ قال الفقیہ أبو اللیث: یلزمہ سجود السہو وإن کان قرأ حرفا من السورۃ، وکذلک إذا تذکر بعد الفراغ من السورۃ أو في الرکوع أو بعد ما رفع رأسہ من الرکوع، فإنہ یأتي بالفاتحۃ ثم یعید السورۃ ثم یسجد للسہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو، واجبات الصلاۃ أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶)(وتقدیم الفاتحۃ علی کل السورۃ) وکذا ترک تکریرہا قبل سورۃ الأولیین۔ قولہ: (علی کل السورۃ) حتی قالوا لو قرأ حرفا من السورۃ ساہیا ثم تذکر یقراء الفاتحۃ ثم السورۃ، ویلزمہ سجود السہو بحر، وہل المراد بالحرف حقیقتہ أو الکلمۃ، یراجع ثم رأیت في سہو البحر قال۔ بعد ما مر: وقیدہ في فتح القدیر بأن یکون مقدار ما یتأدی بہ رکن۔ اہـ۔أي لأن الظاہر أن العلۃ ہي تأخیر الابتداء بالفاتحۃ والتأخیر الیسیر، وہو ما دون رکن معفو عنہ تأمل۔ ثم رأیت صاحب الحلیۃ أید ما بحثہ شیخہ في الفتح من القید المذکور بما ذکروہ من الزیادۃ علی التشہد في القعدۃ الأولیٰ الموجبۃ للسہو بسبب تأخیر القیام عن محلہ، … وأن غیر واحد من المشایخ قدرہا بمقدار أداء رکن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل شفع من النفل صلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱، ۱۵۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 241

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں سورۂ فاتحہ کی تین آیات سے زائد اگر جہرا پڑھ دی امام ہو یا منفرد، نماز سری ہو یا جہری بہر صورت سجدہ سہو واجب ہوگا اور سجدہ سہو نہ کرنے پر نماز کا اعادہ ضروری ہے۔(۱)

(۱) قولہ والجہرو الإسرار فیما یجہر ویسر) فالحاصل أن الإخفاء في صلاۃ المخافۃ واجب علی المصلي إماما کان، أو منفرداً، ہي صلاۃ الظہر والعصر والرکعۃ الثالثۃ من المغرب والأخریان من صلاۃ العشاء وصلاۃ الکسوف والاستسقاء، وہو واجب علی الإمام اتفاقاً وعلی المنفرد علی الأصح الخ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۷)وضم سورۃ أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار نحو:… … {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثاً قصارا۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 241

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی سجدہ سہو کی کوئی وجہ نہیں؛ اس لیے سجدہ سہو لازم نہیں۔(۱)

(۱) لو ذکر آیۃ مکان آیۃ، إن وقف وقفاً تاماً ثم وابتدأ بآیۃ أخریٰ أو بعض آیۃ لا تفسد صلاۃ کما لو قراء والعصر، إن الإنسان، ثم قال: {إن الابرار لفي نعیم} أو قرأ {والتین} إلی قولہ: {وہذا البلد الأمین} ووقف ثم قرأ {لقد خلقنا الإنسان في کبد} أو قرأ {إن الذین آمنوا وعملوا الصلحت} ووقف ثم قال: {أولئک ہم شر البریۃ} لا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلا، الفصل الخامس: في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸)(ولا یتعین بشيء من القرآن لصلاۃ علی طریق الفرضیۃ) بل تعین الفاتحۃ علی وجہ الوجوب۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 240

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جلسہ کو طویل نہ کیا جائے ہاں اگر دعاء ماثورہ جلسہ میں پڑھی جائے تو یہ بھی بہتر ہے خاموش رہ کر جلسہ کو طویل کرنا فساد نماز کا باعث ہوسکتا ہے جلسہ کی دعاء فرض ونفل سب نمازوں میں پڑھی جاسکتی ہے اور اگر امام جلسہ میں دعاء پڑھنا چاہے تو مقتدیوں کا خیال کرے اگر مقتدی نماز کے لمبا ہونے کی وجہ سے تنگی میں مبتلاء ہوسکتے ہوں تو وہ جلسہ میں دعاء نہ پڑھے بہر حال سجدہ سہو جلسہ میں تاخیر ہوجانے پر لازم نہیں ہے نیز اس کو جلسہ بین السجدتین کہتے ہیں۔

’’ولیس بینہما ذکرمسنون … وما ورد محمول علی النفل … ثم الحمل المذکور صرح بہ المشائخ في الوارد في الرکوع والسجود … وقال إن ثبت في المکتوبۃ فلیکن في حالۃ الإنفراد أوالجماعۃ والمأمون محصورون لا یقتلون بذلک الخ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۲۔قولہ: (بلا اعتماد إلخ) أي علی الأرض، قال في الکفایۃ: أشار بہ إلی خلاف الشافعي في موضعین: أحدہا یعتمد بیدیہ علی رکبتیہ عندنا وعندہ علی الأرض۔ والثاني الجلسۃ الخفیفۃ۔ قال شمس الأئمۃ الحلواني: الخلاف في الأفضل حتی لو فعل کما ہو مذہبنا لا بأس بہ عند الشافعي، ولو فعل کما ہو مذہبہ لا بأس بہ عندنا کذا في المحیط۔ اہـ۔ قال في الحلیۃ: والأشبہ أنہ سنۃ أو مستحب عند عدم العذر، فیکرہ فعلہ تنزیہا لمن لیس بہ عذر۔ اہـ۔ وتبعہ في البحر وإلیہ یشیر قولہم: لا بأس فإنہ یغلب فیہا  …ترکہ أولیٰ۔ أقول: ولا ینافي ہذا ما قدمہ الشارح في الواجبات حیث ذکر منہا ترک قعود ثانیۃ ورابعۃ لأن ذاک محمول علی القعود الطویل۔ ولذا قیدت الجلسۃ ہنا بالخفیفۃ تأمل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۳، ۲۱۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز شرعاً درست ہوگئی سجدہ سہو یا اعادہ اس پر لازم نہیں لیکن اس کی عادت نہ بنانی چاہئے۔(۱)

(۱) (ثم یسلم عن یمینہ ویسارہ) حتی یری بیاض خدّہ، قال ابن عابدین: قولہ: (حتی یری بیاض خدہ) أي حتی یراہ من یصلي خلفہ أفادہ ح۔ وفي البدائع: یسن أن یبالغ في تحویل الوجہ في التسلیمتین، ویسلم عن یمینہ حتی یری بیاض خدہ الأیمن وعن یسارہ حتی یری بیاض خدہ الأیسر … قال الحصکفي: وتنقطع بہ التحریمۃ بتسلیمۃ واحدۃ … ولا یخرج المؤتم بنحو سلام الإمام بل بقہقہتہ وحدثہ عمداً لانتفاء حرمتہا … قال ابن عابدین: قولہ: ولا یخرج المؤتم) أي عن حرمۃ الصلاۃ فعلیہ أن یسلم، حتی لو قہقہ قبلہ انتقض وضوئہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في خلف الوعید وحکم الدعاء بالمغفرۃ للکافر ولجمیع المؤمنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۸، ۲۳۹، ۲۴۰)ثم یسلم تسلیمتین: تسلیمۃ عن یمینہ وتسلمۃ عن یسارہ ویحول في التسلیمۃ الأولیٰ وجہہ عن یمینہ حتی یری بیاض خدہ الأیمن وفي التسلیمۃ الثانیۃ عن یسارہ حتی یری بیاض خدہ الأیسر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ، وآدابہا وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز میں قرأت کے دوران سورتوں کی ترتیب کی رعایت رکھنا قرأت کے واجبات میں سے ہے، نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے۔ فرض نمازوں میں  قصدا ترتیب کے خلاف قرأت کرنا مکروہ تحریمی ہے، صورت مسئولہ میں پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ کوثر پڑھی گئی، تو قصداً پڑھنے کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز اداء ہو جائے گی اور اگر سہوا یا غلطی سے ترتیب کے خلاف پڑھا تو نماز بلا کرات درست ہو جائے گی؛ لیکن دونوں صورتوں میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور نہ نماز کا اعادہ لازم ہوگا؛ کیوں کہ ترتیب واجبات قرأت میں سے ہے نہ کہ واجبات نماز میں سے اور نفل نماز میں قصداً قرآنی ترتیب کے خلاف کرنا مکروہ نہیں ہے تاہم ترتیب سے پڑھنا بہتر ہے۔

’’ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوسا إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ، وفي القنیۃ قرأ في الأولیٰ الکافرون وفيالثانیۃ ألم تر، أو تبت ثم ذکر یتم وقیل: یقطع ویبدأ ولا یکرہ في النفل شيء من ذلک قولہ: (وأن یقرأ منکوسا)، بأن یقرأ في الثانیۃ سورۃ أعلیٰ مما قرأ في الأولي لأن ترتیب السور في القرأۃ من واجبات التلاوۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقران فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔

قالوا: یجب الترتیب في سورۃ القرآن فلو قرأ منکوساً أثم لکن لایلزمہ سجود السہو؛ لأن ذلک من واجبات القرء ۃ لامن واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸)

(بترک) متعلق یجب (واجب) مما مر في صفۃ الصلاۃ (سہواً)۔ قولہ: (بترک واجب) أي من واجبات الصلاۃ الأصلیۃ لاکل واجب إذ لو ترک ترتیب السور لایلزمہ شيء مع کونہ واجبا۔ (أیضاً:، ’’کتاب الصلاۃ: باب السجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ سہو کرے۔(۲)

(۲) وفي الوالجیۃ: الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض، وسنۃ، وواجب، ففي الأول: أمکنہ التدارک بالقضاء یقضي وإلا فسدت صلاتہ، وفي الثاني لاتفسد لأن قیامہا بأرکانہا وقد وجدت، ولایجبر بسجدتي السہو، وفي الثالث: إن ترک ساہیا یجبر بسجدتي السہو وإن ترک عامداً، لا، کذا التتارخانیۃ۔ وظاہر کلام الجم الغفیر أنہ لا یجب السجود في العمد، وإنما تجب الإعادۃ جبراً لنقصانہ، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)ولا یجب السجود إلا یترک واجب أو تأخیرہ أو تأخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت، وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب، کذا في الکافي۔ (أیضاً: ج ۴، ص: ۱۰۲)(والسہو في صلاۃ العید والجمعۃ والمکتوبۃ والتطوع سواء) والمختار عند المتأخرین عدمہ في الأولیین لدفع الفتنۃ کما في جمعۃ البحر وأقرہ المصنف و بہ جزم في الدرر۔ (قولہ: عدمہ في الأولیین) الظاہر أن الجمع الکثیر فیما سواہما کذلک کما بحثہ بعضہم ط،کذا بحثہ الرحمتی، وقال: خصوصا في زماننا وفي جمعہ حاشیۃ أبي السعود عن العزمیۃ أنہ لیس المراد عدم جوازہ، بل الأولیٰ ترکہ لتلا یقع الناس في فتنۃ۔ اہـ۔ (قولہ: وبہ جزم في الدرر) لکنہ قیدہ محشیہا الواني بما إذا حضر جمع کثیر وإلا فلا داعي إلی الترک۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 235

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں امام مسبوق و مدرک سب کی نماز درست ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) إذا ظن الإمام أنہ علیہ سہواً فسجد للسہو وتابعہ المسبوق في ذلک …ثم علم أن الإمام لم یکن علیہ سہو، فیہ روایتان: واختلف المشائخ لاختلاف الروایتین وأشہرہا أن صلاۃ المسبوق یفسد، وقال الإمام أبوحفص الکبیر: لا یفسد … أخرجہ في واقعاتہ وإن لم یعلم الإمام أن لیس علیہ سہو لم یفسد صلاۃ المسبوق عندہم جمیعاً۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ: قبل الفصل السادس عشر: في السہو‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 234