Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سورہ کافرون و سورہ اخلاص مذکورہ سنتوں میں نہیں پڑھی ہیں؛ بلکہ کبھی کبھی کافرون و اخلاص اور کبھی قولو آمنا باللہ اور قل یا اہل الکتاب تعالو الآیۃ پڑھی ہیں، البتہ اگر کوئی شخص مذکورہ سنتوں میں یہ دونوں صورتیں مستحب سمجھ کر پڑھتا ہے تو کراہت نہیں ہے اگر لازم سمجھ کر پڑھتا ہے تو مکروہ وبدعت ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ کبھی کبھی بدل کر دوسری سورتیں و آیات بھی پڑھے تاکہ التزام باقی نہ رہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في رکعتي الفجر {قل یا أیہا الکافرون} و {قل ہو اللّٰہ أحد}۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۶)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: رمقت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشرین مرۃ یقرأ في الرکعتین بعد المغرب، وفي الرکعتین قبل الفجر {قل یا أیہا الکافرون} و{قل ہو اللّٰہ أحد} (أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الافتتاح: القراء ۃ في الرکعتین بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۹۹۲)
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بـ سبح اسم ربک الأعلی، وقل یا أیہا الکافرون وقل ہو اللہ أحد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب ما جاء فیما یقرأ في الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۱۱۷۱)
کان یقرأ في الرکعتین قل ہو اللّٰہ أحد، وقل یا أیہا الکافرون۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحج، باب حجۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص:۳۹۵، رقم: ۱۲۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص228
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں فرض کے بعد بلا تاخیر سنتیں پڑھ لینی چاہئیں، اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو وقت کے اندر اندر سنتیں پڑھ لینی چاہئیں، وقت کے بعد سنتوں کی قضاء نہیں ہے۔(۱)
(۱) (قولہ إلا بقدر اللہم الخ) لما رواہ مسلم والترمذي عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یقعد إلا بمقدار ما یقول ’’اللہم أنت السلام ومنک السلام، تبارکت یا ذا الجلال والإکرام‘‘ وأما ما ورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
ویکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر ’’اللہم أنت السلام الخ‘ وقال الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد واختارہ الکمال۔ قال الحلبي: إن أرید بالکراہۃ التنزیہیۃ ارتفع الخلاف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۴۶، ۲۴۷ زکریا ،دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص355
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38/870
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:اگر امام نے قرات شروع کردی تو مقتدی ثناء نہ پڑھے،چاہے مدرک ہو یا مسبوق۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1487/42-944
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نمازی کو چھینکنے پر الحمد للہ یا کسی کو یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہئے بلکہ خاموش رہنا چاہئے۔تاہم اگر چھینکے والے نے الحمدللہ کہہ دیایا اپنے لئے یرحمک اللہ کہہ دیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر کسی نے جواب میں یرحمک اللہ کہا تو جواب دینے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اسی طرح کسی نے یرحمک اللہ کہنے پر آمین کہہ دیا تو اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔
رجل عطس فقال المصلي: يرحمك الله تفسد صلاته. كذا في المحيطين ولو قال العاطس يرحمك الله وخاطب نفسه لا يضره. كذا في الخلاصة۔ ولو عطس في الصلاة فقال: آخر يرحمك الله فقال المصلي: آمين تفسد. كذا في منية المصلي وهكذا في المحيط. ولو عطس فقال له المصلي الحمد لله لا تفسد؛ لأنه ليس بجواب وإن أراد به جوابه أو استفهامه فالصحيح أنها تفسد هكذا في التمرتاشي ولو قال العاطس لا تفسد صلاته وينبغي أن يقول في نفسه والأحسن هو السكوت. كذا في الخلاصة فإن لم يحمد فهل يحمد إذا فرغ؟ فالصحيح أنه يحمد فإن كان مقتديا لا يحمد سرا ولا علنا في قولهم. كذا في التمرتاشي. رجلان يصليان فعطس أحدهما فقال رجل خارج الصلاة: يرحمك الله فقالا جميعا: آمين تفسد صلاة العاطس ولا تفسد صلاة الآخر لأنه لم يدع له. (الھندیۃ، الفصل الاول فیما یفسدھا 1/98) ج1 ص157 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیطان کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلاء جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے؛ اس لیے اگر گھر میں اٹیچ بیت الخلاء ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت الخلاء دعا پڑھ کر جاتے ہیں، وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث)۔ فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا، (۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي: یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ عز وجل {کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ہ۲۸}(۲) أي: یصیب منہ صاحبہ۔
مالک عن یحیي بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل: فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتي لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن۔ (۳)
(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میںداخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالی کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’عن أبي أمامۃ الباہلي، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتَّی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی
اللّٰہ سبحانہ وتعالی حدیث حسن،(۱) ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالی: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشیئ، کما یقال: تَامِرٌ، ولاَبنٌ: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا۔
وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشّیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء۔ (۲)
(۳) بیت الخلاء کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہوتے ہیں۔
(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو۔ گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی منزل اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ تو بہتر ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں انشاء اللہ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔
(۱) ابن بطال شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲) سورۃ القمر: ۲۸۔ (۳) ابن عبد البر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب فضل الغزو‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۷، رقم: ۱۱۳۲۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ۔ ’’کتاب الأذکار للنووي‘‘: ج ، ص: ۲۴، رقم: ۱۳۱۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص381
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امامت کی اہلیت ہے، تو مستقل امام بننا یا کبھی کبھی امام بننا یا صرف تراویح میں امام بننا جائز اور کارِ ثواب ہے۔(۱)
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: لوگ اگر امام سے بغیر وجہ شرعی کے ناراض ہوں، تو شرعاً امامت بلاکراہت درست ہے اور اگر کسی شرعی وجہ سے ناراض ہوں، تو وہ وجہ تحریر کی جائے اس کے بعد جواب تحریر کیا جا سکتا ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داؤد، لایقبل صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لاوالکراہۃ علیہم۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) کرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع، فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط، صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد؛ لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۹)
ونکاح المنکوحۃ لایحل احد من الادیان۔ (أیضاً: ج۱۰، ص: ۱۶۳)
فصل ومنہا: أن لاتکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالیٰ: ’’والمحصنات من النساء‘‘ والمحصنات معطوفا علی قولہ عز وجل حرمت علیکم أمہاتکم إلی قولہ من النساء وہن ذوات الأزواج وسواء کان زوجہا مسلماً أو کافراً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب النکاح، فصل أن لاتکون منکوحۃ الغیر، عدم جواز منکوحۃ الغیر‘‘: ج۲، ص:۵۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص186
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہو جاتی ہے، مگر دل کو بھی صاف کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص275
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو محلہ کی مسجد ہی میں جمعہ پڑھنا چاہئے اور اختلافات کو حکمت عملی سے محلہ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؛ البتہ جو نمازیں دوسری مسجدوں میں جاکر پڑھی ہیں وہ درست ہو گئی ہیں۔(۱)
(۱) في الجامع الصغیر إذا کان إمام الحي زانیاً أو آکل الربا لہ أن یتحول إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۲۲۸، مکتبہ رشیدیہ، پاکستان)
رجل یصلی في الجامع لکثرۃ الجمع ولایصلي في مسجد حیّہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، مکتبہ رشیدیہ، پاکستان)
لأن لمسجد منزلہ حقاً فیؤد حقہ۔ (فتاویٰ قاضي خاں علی ہامش، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، مکتبہ حقانیہ)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص379