Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سورہ فاتحہ کے بجائے تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھ دی تو نمازدرست ہوگئی سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔(۱)(۱) ولو قرأ في الأخریین الفاتحۃ و السورۃ لا یلزمہ السہو وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶)(واکتفی) المفترض (فیما بعد الأولیین بالفاتحۃ) فإنہا سنۃ علی الظاہر ولو زاد لا بأس بہ (قولہ: (ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إلیہا سورۃ لابأس بہ لأن القراء ۃ في الأخریین مشروعۃ من غیر تقدیر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: مہم في عقد الأصابع أو التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۱)وتجب قراء ۃ الفاتحۃ وضم السورۃ أو ما یقوم مقامہا من ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ في الأولیین بعد الفاتحۃ کذا في النہر الفائق وفي جمیع رکعات النفل والوتر ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني: في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸)ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ أو تاخیرہ أو تاخیر رکن أوتقدیمہ أو تکرارہ أو تغیر واجب بأن یجہر فیما یخافت وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب، کذا في الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)وإن ترکہا في الأخریین لایجب إن کان في الفرض وإن کان في النفل أو الوتر وجب علیہ۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۱۸۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 253
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوگئی نماز میں جو کمی آئی تھی وہ سجدہ سہو سے پوری ہوگئی۔(۲)(۲) کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تعاد أي وجوباً في الوقت وأما بعدہ فندب۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۰)تنبیہ یؤخذ من لفظ الإعادۃ ومن تعریفہا بما مرأت ینوي بالثانیۃ الفرض لأن مافعل أولاً وہو الفرض فإعادتہ فعلہ ثانیاً؛ أما علی القول بأن الفرض یسقط بالثانیۃ فظاہر وأما علی القول الأخر فلان المقصود من تکریرہا ثانیاً جبر نقصان الأولیٰ فالأولیٰ فرض ناقص والثانیۃ فرض کامل مثل الأولیٰ ذاتاً مع زیادۃ وصف الکمال، ولو کانت الثانیاً لفظاً لزم أن تجب القراء ۃ في رکعاتہا الأربع وأن لاتشرع الجماعۃ فیہا ولم یذکروہ ولا یلزم من کونہا فرض کامل مثل الأولیٰ ذاتاً مع زیادۃ وصف الکمال، ولو کانت الثانیاً لفظاً لزم أن تجب القراء ۃ في رکعاتہا الأربع وأن لا تشرع الجماعۃ فیہا ولم یذکروہ ولا یلزم من کونہا فرض عدم سقوط الفرض بالأولیٰ؛ لأن المراد أنہا تکون فرضاً بعد الوقوع أما قبلہ فالفرض ہو الأولیٰ۔سہا عن الوقود الأول من الفرض ولو عملیاً أما النفل فیعود مالم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ وتنہر، ولا سہو)، علیہ في الأصح (مالم یستقم قائماً) في ظاہر المذہب وہو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) یعود لاشتفالہ لافرض القیام (وسجد السہو) لترک الواجب (فلو عاد إلی قعود) یعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض وصححہ الزیلغی (وقیل: لا) تفسد لکنا یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب (وہو الأشبہ) کما حققہ الکمال وہو الحق بحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 252
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: تکبیر انتقالیہ کے دوبارہ (مکرر) کہہ دینے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا؛ اس لیے نماز درست ہوگئی۔(۱)(۱) ولا یجب السجود إلا بترک واجب، أو تأخیرہ، أو تأخیر رکن، أو تقدیمہ، أو تکرارہ، أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت، وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 251
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سجدہ سہو تو لازم نہیں لیکن ایسا کرنا نہیں چاہئے۔(۱)(۱) وثانی عشر با التکبیرات التی یؤتی بہا في خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع من والنہوض من السجود أو القعود إلی (القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہي مشتملا علی ست سان کا تری۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۳)ولایجب السجود إلا بترک واجب إلی قولہ ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلاۃ العید۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶)ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساء ۃ لو عامدا غیر مستخف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 251
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور اگر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس صورت میں سجدہ سہو کے وجوب میں حضرات فقہاکا اختلاف ہے، اصولی طور پر سجدہ سہو واجب ہونا چاہیے اس لیے کہ واجب میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے پہلی رکعت میں تشہد یہ ثنا کی جگہ میں ہے اس لیے وہاں واجب میں تاخیر نہیں ہوئی لیکن دوسری رکعت میں واجب میں تاخیر ہوئی ہے اسی لیے بعض فقہاء نے اس صورت میں بھی سجدہ سہو کو واجب قرار دیا ہے چناں چہ طحطاوی میں ہے: ’’ولو قرأ التشہد مرتین في القعدۃ الأخیرۃ أو تشہد قائماً أو راکعاً أو ساجداً الجواب و باللہ التوفیق: اگر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور اگر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس صورت میں سجدہ سہو کے وجوب میں حضرات فقہاکا اختلاف ہے، اصولی طور پر سجدہ سہو واجب ہونا چاہیے اس لیے کہ واجب میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے پہلی رکعت میں تشہد یہ ثنا کی جگہ میں ہے اس لیے وہاں واجب میں تاخیر نہیں ہوئی لیکن دوسری رکعت میں واجب میں تاخیر ہوئی ہے اسی لیے بعض فقہاء نے اس صورت میں بھی سجدہ سہو کو واجب قرار دیا ہے چناں چہ طحطاوی میں ہے: ’’ولو قرأ التشہد مرتین في القعدۃ الأخیرۃ أو تشہد قائماً أو راکعاً أو ساجداً
(۱) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۱۔(۲) النہر الفائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۴۔(۳) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۲۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 249
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص مدرک تھا اور غلطی سے اس نے اپنے آپ کو مسبوق سمجھ کر امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوگیا تو جب تک اس نے رکعت پوری نہیں کی ہے اس کو چاہیے کہ واپس تشہد میں بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے اپنی نماز پوری کرے اور اگر کھڑے ہونے کے بعد ایک رکعت پوری کر چکا ہے تو اسے چاہیے کہ دوسری رکعت بھی مکمل کرلے اور سجدہ سہو کرکے نماز کو پوری کرے؛ لیکن اگر ایک رکعت پر ہی بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے نماز کو مکمل کرلیا تو بھی نماز ہوجائے گی۔’’(وإن قعد في الرابعۃ) مثلاً قدر التشھد (ثم قام عاد وسلم) (وإن سجد للخامسۃ سلموا) (وضم إلیھا سادسۃ) لو في العصر وخامسۃ في المغرب ورابعۃ في الفجر، بہ یفتی (لتصیر الرکعتان لہ نفلاً) والضم ھنا آکد، ولا عھدۃ لو قطع، ولو بأس بإتمامہ في وقت کراھۃ علی المعتمد (وسجد للسھو) في الصورتین لنقصان فرضہ بتأخیر السلام في الأولی وترکہ في الثانیۃ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳، ۵۵۴۔وإذا قعد المصلي في صلاتہ وتشہد ثم شک أنہ صلی ثلاثاً أو أربعاً حتی شغلہ ذلک عن التسلیم ثم استیقن أنہ صلی أربعا فأتم صلاتہ فعلیہ سجدتا السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 228
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ایک رکن کی مقدار کے بعد یاد آئے تو از سرِ نو نماز پڑھے اور اگر ایک رکن کی مقدار سے پہلے یاد آئے تو کھڑے ہوکر نماز پوری کرے اور فرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرے۔(۲)(۲) ولو سلم علی رأس الرکعتین علی ظن أنہا رابعۃ فإنہ یمضی علی صلاتہ ویسجد للسہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ ما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)(إلا السلام ساہیاً)، للتحلیل: أي للخروج من الصلاۃ (قبل إتمامہا علی ظن إکمالہا) فلا یفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ…وما یکرہ فیہا، مطلب: في الفرق بین السہو والنسیان‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۲)أما إن طال تفکرہ بأن کان مقدار مایمکنہ أن یؤدی فیہ رکناً من أرکان الصلاۃ… کالرکوع والسجود … وفي الاستحسان علیہ السہو … وجہ الاستحسان، أن الفکر الطویل في ہذہ الصلاۃ مما یؤخر الأرکان عن أوقاتہا فیوجب تمکن النقصان في الصلاۃ فلا بد من جبرہ بسجدتي السہو۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو، وسببہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 247
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بھولے سے ایسا ہوا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا ورنہ اعادہ لازم ہے۔(۱)
(۱) (وإن کثر) شکہ (عمل بغالب ظنہ إن کان) لہ ظن للخرج (وإلا أخذ بالأقل) لیتقنہ … قولہ: (وإلا) … ولو شک أنہا الثانیۃ أو الثالثۃ أتمہا وقعد ثم صلی أخری وقعد ثم الرابعۃ وقعد، وتمامہ في البحر، وسیذکرعن السراج أنہ یسجد للسہو۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 246
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسبوق مقتدیوں کی نماز بھی صحیح قول کے مطابق صحیح ہے۔(۱)(۱) قولہ: (کما صلی) أشار بالکمیۃ إلی أن الشک في العدد، فلو في الصفۃ کما لو شک في ثانیۃ الظہر أنہ في العصر، وفی الثالثۃ أنہ في التطوع وفي الرابعۃ أنہ في الظہر، قالوا: یکون في الظہر، ولا عبرۃ بالشک، وتمامہ في البحر۔ قولہ: (استأنف بعمل مناف إلخ) فلا یخرج بمجرد النیۃ، کذا قالوا۔ وظاہرہ أنہ لا بد من العمل، فلو لم) یأت بمناف وأکملہا علی غالب ظنہ لم تبطل إلا أنہا تکون نقلاً ویلزمہ أداء الفرض، ولو کانت نفلاً ینبغي أن یلزمہ قضاؤہ وإن أکملہا؛ لوجوب الاستئناف علیہ، بحر، وأقرہ في النہر والمقدسي۔قولہ: (وإن کثر شکہ) بأن عرض لہ مرتین في عمرہ علی ما علیہ أکثرہم، أو في صلاتہ علی ما اختارہ فخر الإسلام۔ وفي المجتبی: وقیل: مرتین في سنۃ، ولعلہ علی قول السرخسي، بحر ونہر۔قولہ: (للحرج) أي في تکلیفہ بالعمل بالیقین۔قولہ: (وإلا) أي وإن لم یغلب علی ظنہ شيء، فلو شک أنہا أولیٰ الظہر أو ثانیتہ یجعلہا الأولیٰ ثم یقعد لاحتمال أنہا الثانیۃ ثم یصلي رکعۃ ثم یقعد لما قلنا، ثم یصلي رکعۃ ویقعد لاحتمال أنہا الرابعۃ، ثم یصلي أخری ویقعد لما قلنا، فیأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وہما الثالثۃ والرابعۃ، وقعدتان واجبتان؛ ولو شک أنہا الثانیۃ أو الثالثۃ أتمہا وقعد ثم صلی أخری وقعد ثم الرابعۃ وقعد، وتمامہ في البحر وسیذکر عن السراج أنہ یسجد للسہو۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 245
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا اس لیے بغیر سجدہ سہو کے نماز صحیح اور درست ہوگئی ہے۔’’وفي أظہر الروایات لا یجب سجود السہو لأن القراء فیہما مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لا واجب‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰۔کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یقراء في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین یطول في الأولیٰ ویقصر في الثانیۃ ویسمع الآیۃ أحیانا وکان یقراء في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین وکان یطول في الأولیٰ وکان یطول في الرکعۃ الأولیٰ من صلاۃ الصبح ویقصر في الثانیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱: ص: ۱۰۵، رقم: ۷۵۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 245