نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لوگ اگر امام سے بغیر وجہ شرعی کے ناراض ہوں، تو شرعاً امامت بلاکراہت درست ہے اور اگر کسی شرعی وجہ سے ناراض ہوں، تو وہ وجہ تحریر کی جائے اس کے بعد جواب تحریر کیا جا سکتا ہے۔(۱)

(۱) ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داؤد، لایقبل صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لاوالکراہۃ علیہم۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص58

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) کرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع، فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط، صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد؛ لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۹)
ونکاح المنکوحۃ لایحل احد من الادیان۔ (أیضاً: ج۱۰، ص: ۱۶۳)
فصل ومنہا: أن لاتکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالیٰ: ’’والمحصنات من النساء‘‘ والمحصنات معطوفا علی قولہ عز وجل حرمت علیکم أمہاتکم إلی قولہ من النساء وہن ذوات الأزواج وسواء کان زوجہا مسلماً أو کافراً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب النکاح، فصل أن لاتکون منکوحۃ الغیر، عدم جواز منکوحۃ الغیر‘‘: ج۲، ص:۵۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص186

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہو جاتی ہے، مگر دل کو بھی صاف کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص275

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو محلہ کی مسجد ہی میں جمعہ پڑھنا چاہئے اور اختلافات کو حکمت عملی سے محلہ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؛ البتہ جو نمازیں دوسری مسجدوں میں جاکر پڑھی ہیں وہ درست ہو گئی ہیں۔(۱)

(۱) في الجامع الصغیر إذا کان إمام الحي زانیاً أو آکل الربا لہ أن یتحول إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۲۲۸، مکتبہ رشیدیہ، پاکستان)
رجل یصلی في الجامع لکثرۃ الجمع ولایصلي في مسجد حیّہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، مکتبہ رشیدیہ، پاکستان)
لأن لمسجد منزلہ حقاً فیؤد حقہ۔ (فتاویٰ قاضي خاں علی ہامش، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، مکتبہ حقانیہ)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص379

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:وقت سے پہلے اذان دینا درست نہیں ہے، وقت کے داخل ہونے سے قبل اذان غلطی سے دی گئی ہو یا جان بوجھ کر دونوں صورتوں میں اگر نماز نہیں ہوئی ہے تو اذان کا اعادہ کرنا پڑے گا؛ البتہ اذان کے لوٹائے بغیر ہی اگر وقت پر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ہو جائے گی لیکن سنت کو ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہوگا؛ اس لیے کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے اذان نماز کے لیے سنت مؤکدہ ہے، نماز کے لئے شرط نہیں ہے، جیسا کہ امام سرخسی نے مبسوط میں لکھا ہے:
’’وإن أذن قبل دخول الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت) لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلا لا إعلاما‘‘(۱)
’’لأنہ سنۃ  للصلاۃ‘‘(۲)
نیز وہ اذان جو وقت سے قبل شروع ہوئی اور وقت کے داخل ہونے کے بعد ختم ہوئی ہو، تو اس صورت میں وہ اذان تو ہو گئی؛ لیکن یہ احتیاط کے خلاف ہے اور اگر وقت کے دخول سے کچھ دیر قبل ختم ہوئی، تو اس اذان کو بھی لوٹانا چاہئے ورنہ مؤذن گناہگار ہوگا۔
’’فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ۔ تنویر مع الدر۔ قال الشامي رحمہ اللّٰہ تعالی: قولہ: (وقع بعضہ) وکذا کلہ بالأولی‘‘(۳)
علامہ ابن نجیم نے البحرالرائق میں لکھا ہے:
’’قولہ: (ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ) أي في الوقت إذا أذن قبلہ، لأنہ یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر ۔‘‘(۴)
فتاوی تاتارخانیہ میں لکھا ہے:
’’إذا أذن قبل الوقت یکرہ الأذان والإقامۃ ولا یؤذن لصلاۃ قبل الوقت … وأجمعوا أن الإقامۃ قبل الوقت لا یجوز‘‘(۵)
علامہ کاسانی  ؒنے بدائع الصنائع میں بیان کیا ہے:
’’حتی لو أذن قبل دخول الوقت لا یجزئہ ویعیدہ إذا دخل الوقت في الصلوات کلہا في قول أبي حنیفۃ ومحمد (رحمہما اللّٰہ)‘‘(۱)

(۱) السرخسي، المبسوط ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۹، زکریا، دیوبند۔
(۳) ابن عابدین، مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان: مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۔
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶، ۴۵۷۔
(۵) عالم بن علاء، فتاویٰ تاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الأذان نوع آخر في بیان الصلوات التي لہا أذان والتي لا أذان لہا، وفي بیان في أي حال یوتی بہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان وقت الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص163

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں عصر اور فجر کی نماز کے بعد رخ پھیر کر بیٹھنا جائز ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تھے تو اپنا رخِ انور مقتدیوں کی طرف کر لیا کرتے تھے۔ تاہم دائیں طرف رخ کر کے بیٹھنا اولیٰ اور افضل ہے مگر اس پر مداومت نہ کی جائے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف مڑ کر امام کو بیٹھنا چاہئے تاکہ عوام دائیں رخ کر کے بیٹھنے کو ضروری نہ سمجھ لیں ایسے ہی اگر کوئی مقتدی نماز نہ پڑھ رہا ہو تو اس صورت میں مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے۔
’’عن سمرۃ بن جندب، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی صلاۃ  أقبل علینا بوجہہ‘‘(۱)
’’عن البراء قال: کنا إذا صلّینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ؛ یقبل علینا بوجہہ۔ قال: فسمعتہ یقول: ’’ربّ قني عذابک یوم تبعث أو تجمع عبادک‘‘(۲)
’’وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل (الناس) إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل؛ لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ، وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ جعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ، وہذا أولٰی؛ لما في مسلم: کنا إذا صلّینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ … الخ‘‘(۳)
’’و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولٰی لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ‘‘(۴)

(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ ا سلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب یمین الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۷۰۹۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷۔
(۴) أیضاً: ص: ۱۱۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص431

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت میں نفل نماز نہ توڑے اور جس نے قرآن پاک بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا اس کو یہ کام آہستہ کرنا چاہئے تاہم نفلی نماز والے کو بھی اپنی نماز نہ توڑنی چاہئے کہ گناہگار وہ شخص ہے جو بلند آواز سے پڑھتا ہے نفل نماز نہ توڑنے والا گناہگار نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) وفي حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ إلخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ و مایکرہ فیہا، مطلب في رفع الصوت بالذکر‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص229

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قضاء واجب کے اسقاط کو کہتے ہیں سنت نمازیں وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے نفل ہو جاتی ہیں اور سنت ونوافل کی قضاء نہیں ہے، اس لیے فجر کی سنت کی بھی قضاء نہیں ہے، ہاں اگر فجر کی نماز کے ساتھ سنت بھی فوت ہو جائے تو زوال سے پہلے پہلے فرض کے ساتھ سنت کی قضاء کرنے کا حکم تبعاً للفرض ہے اور اگر زوال کے بعد فجر کی قضاء کرے تو صرف فجر کی قضاء ہے سنت کی قضاء نہیں ہے اسی طرح اگر صرف فجر کی سنت رہ گئی ہے تو امام محمد نے طلوع شمس کے بعد زوال سے پہلے پہلے سنت کی قضاء کو بہتر کہا ہے۔
’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۱)
’’وإذا فاتتہ رکعتا الفجر لا یقضیہما قبل طلوع الشمس لأنہ یبقی نفلا مطلقا وہو مکروہ بعد الصبح ولا بعد ارتفاعہا عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی وقت الزوال‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) المرغیناني، ھدایۃ، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲۔   أي لا یقضي سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، لکراہۃ النفل بعد الصبح، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما۔ وقال محمد: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال کما في الدرر۔ قیل ہذا قریب من الاتفاق، لأن قولہ: أحب إلي دلیل علی أنہ لو لم یفعل لا لوم علیہ، وقالا: لایقضي، وإن قضی فلا بأس بہ، کذا في الخبازیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب ادراک الفریضۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲)
ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال، وقال محمد: تقضی منفردۃ بعد الشمس قبل الزوال فلا قضاء لہا قبل الشمس، ولا بعد الزوال إتفاقا،ً وسواء صلی منفرداً أو بجماعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص356

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایات میں فرض نمازوں کے بعد دعاء کی تاکید وترغیب آئی ہے؛ اس لیے فرض نمازوں کے بعد دعاء کا اہتمام ہونا چاہیے اور جب سب لوگ اس کا اہتمام کریں گے تو اجتماعی دعاء کی ہیئت ہو جائے گی، لیکن دعاء کو لازم وضروری سمجھنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ سلام پر نماز ختم ہو جاتی ہے، دعاء نماز کا حصہ نہیں ہے؛ اس لیے اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ جو صاحب نماز کے بعد مطلقاً دعاء سے منع کرتے ہیں، وہ غلط ہے؛ اس لیے کہ نماز کے بعد دعاء حدیث سے ثابت ہے۔
عن معاذ بن جبل: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ، وقال: یامعاذ واللّٰہ  إني لأحبک واللّٰہ إني لأحبک، فقال: أوصیک یا معاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک وأوصی بذلک معاذ الصنابحی وأوصی بہ الصنابحی أبا عبد الرحمن۔
حدثنا محمد بن سلمۃ المرادی ثنا ابن وہب عن اللیث بن سعد أن حنین بن أبي حکیم حدثہ عن علي بن رباح اللخمي۔
عن عقبۃ بن عامر رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أقرأ بالمعوذات ]في[ دبر کل صلاۃ۔(۱)
حدثنا محمد بن یوسف قال: حدثنا سفیان عن عبد الملک بن عمیر عن وراد کاتب المغیرۃ بن شعبۃ قال أملی علی المغیرۃ بن شعبۃ في کتاب إلی معاویۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ (لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت، ولا معطی لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد)۔ وقال شعبۃ عن عبد الملک بن عمیر، بہذا، وعن الحکم، عن القاسم بن مخیمرۃ، عن وراد بہذا۔ وقال الحسن الجد: غنیً۔
حدثنا عبید اللّٰہ بن معاذ، قال: ثنا أبي ثنا عبد العزیز بن أبي سلمۃ، عن عمہ الماجشون بن أبي سلمۃ، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع۔
عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال ’’اللہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت‘‘۔(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۵، رقم: ۸۴۴۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في صلاۃ اللیل وقیامہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸، رقم: ۷۷۱۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص383

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر حافظ صاحب کی عمر پورے پندہ سال ہے اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہے تو وہ حافظ صاحب بالغ ہیں اور شرعی اصول کے تحت ان کے پیچھے نماز تراویح درست ہے، چوں کہ اگر کوئی علامت احتلام وغیرہ سے ظاہر نہ ہو، تو عمر کا پندرہ سال ہونا بلوغت کے لیے شرعاً کافی ہے؛ پس ایسی صورت میں ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور شک نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) فإن لم یوجد شيء مما ذکرنا فیعتبر البلوغ بالسن وقد اختلف العلماء في أدنی السن التي یتعلق بہا البلوغ قال أبو حنیفۃؒ ثماني عشر سنۃ في الغلام وسبع عشرۃ في الجاریۃ وقال أبو یوسف ومحمد والشافعي رحمہم اللّٰہ خمس عشرۃ سنۃ في الجاریۃ والغلام جمیعاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان ما یرفع الحجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲)
 
 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبندج 5 ص:34