Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعد نماز فجر دعاء دائماً بالجہر خلاف سنت نبوی ہے، خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھنا مکروہ ہے اور خطبہ کو اتنا لمبا کرنا جس سے لوگوں کو پریشانی ہو اور لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے تو اس میں دینی حرج ہے؛ اس لیے شرعاً درست نہیں ہے اور اگر مقتدی اس پر راضی ہوں، تو طویل خطبہ میں کوئی حرج نہیں اور خطبہ نکاح کا مذکورہ طریقہ بھی خلاف سنت ماثورہ ہے۔ نماز جنازہ کے بعد دعا اور فاتحہ منقول نہیں ہے اور گیارہویں، بارھویں میں شریک ہونااس لیے جائز نہیں کہ اس کا ثبوت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ کرامؓ سے ہے نیز یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ امام کے اگر ایسے حالات ہوں تو وہ مشعل راہ نہیں ہیں امام کو چاہئے کہ شریعت کا پابند رہے حتی کہ تہمت کی جگہوں اور افعال سے بھی پرہیز کرے اور یہ شخص اگر اس طریقہ کو نہ چھوڑے تو امام بدل دیا جائے۔(۱)
(۱) وکرہ إمامۃ المبتدع، بارتکابہ ما أخذت علی خلاف الحق الملتقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم وعمل أو مال بنوع شبہۃ أو استحسان، وروی محمد عن أبي حنیفۃؒ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے بلا شرعی ضرورت کے سود پر پیسے لے کر کاروبار شروع کیا ہے تو وہ کمائی حلال نہیں ہے، ان کا یہ عمل غلط ہے، اس کاروبار کو فورا ترک کردینا چاہئے اور توبہ کرنی چائیے، بعد توبہ کے امام صاحب کی امامت درست ہوگی، اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ ہے، نیز اگر تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہو کہ کل آمدنی یا غالب آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں ان کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اور بھی کاروبار یا آمدنی ہے جو حلال طریقہ سے کمائی ہوئی ہے اس حلال پیسے سے دعوت کرے تو ایسی صورت میں دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وفاسق، من الفسق وھو الخروج عن الاستقامۃ۔ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر‘‘(۱)
’’وأماالفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بأنہ لا یھتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بھم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال‘‘(۱)
’’وکسبہ حرام فالمیراث حلال ثم رمز وقال لا ناخذ بھذہ الروایۃ وھو حرام مطلقا علی الورثۃ‘‘(۲)
(۱) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:ص: ۲۹۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج۹، ص:۴۴۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص181
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2750/45-2750
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ باب درست ہے کہ مقتدی کی اقتداء پہلے سلام کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا امام کے دوسرے سلام کی تکمیل سے پہلے مقتدی اپنا دوسرا سلام پھیر سکتا ہے تاہم بلا کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔
’’وتنقطع التحريمة بتسليمة واحدة ........ وتنقضى قدوة بالأول قبل عليكم بالمشهور قال في التنجيس الامام اذا فرغ من صلاته فلما قال السلام جاء رجل واقتدى به قبل أن يقول عليكم لا يصير داخلا في صلاته‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار’’كتاب الصلاة‘‘: ج 2، ص: 126 اور 239)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی اگر پہلی رکعت کے رکوع میں یا رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا ہو اور اگر رکعت چھوٹ گئی اور اس نے امام کے بعد کھڑے ہوکر اس رکعت کو پورا کرلیا تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ لیکن ایسا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) قطع العبادۃ الواجبۃ بعد الشروع فیہا بلا مسوغ شرعي غیر جائز باتفاق الفقہاء لأن قطعہا بلا مسوغ شرعي عبث یتنافی مع حرمۃ العبادۃ وورد النہي عن إفساد العبادۃ، قال تعالیٰ: ولا تبطلوا أعمالکم۔ أما قطعہا بمسوغ شرعي فمشروع فتقطع الصلوۃ لقتل حیۃ ونحوہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج۳۴، ص:۵۰، ۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص5518
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان دینے کے وقت مؤذن کا کانوں میں انگلیوں کو ڈالنا لازم اور ضروری نہیں ہے؛ البتہ اذان کا مقصد دور تک آواز پہونچانا ہے اور آواز کو بلند کرنے کے لیے عموماً دیکھا گیا ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ آواز بلند اور سانس لمبی ہو، اس بات کی تائید حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کے وقت انگلیوں کو کانوں میں ڈال کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ آواز بلند ہو؛ اس لیے اذان دینے کے وقت کانوں میں انگلی رکھنے کو فقہاء نے مستحب لکھا ہے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ وقال: إنہ أرفع لصوتک‘‘ (۱)
’’وأخرج البخاري تعلیقاً: ویذکر عن بلال أنہ جعل إصبعیہ في أذنیہ، وکان ابن عمر لا یجعل إصبعیہ في أذنیہ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ، لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبلال رضي اللّٰہ عنہ: ’’إجعل إصبعیک في أذنیک فإنہ أرفع صوتک‘‘(۳)
’’ویجعل ندباً إصبعیہ في صماخ أذنیہ، فأذانہ بدونہ حسن وبہ أحسن‘‘(۴)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘ ص: ۵۲، رقم: ۱۰۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب: ہل یتتبع المؤذن فاہ ہہنا وہہنا؟‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۸؛ وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص158
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی اقتداء تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر سلام تک ہے۔ سلام کے بعد امام اور اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، دعا میں اقتداء ضروری نہیں ہے، نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے، اس لیے دعا کا اہتمام ہونا چاہئے اور جب سب ہی لوگ کریں گے تو اجتماعی صورت پیدا ہو جائے گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن یہ نماز والی اقتداء نہیں ہے نہ ہی اس کو لازم سمجھنا درست ہے۔(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ أني لأحبک فقال: أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)
(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم، قال أبو عیسیٰ ہذا الحدیث أصح شيء في ہذا الباب۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۵، رقم: ۳)
عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، رقم: ۸۴۴)
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار‘‘: ج۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۵۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص427
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز بکراہت تنزیہی ادا ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بھول سے ایسا ہوگیا تو نماز بلا کراہت ادا ہوگئی ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر، وقال بعضہم: لایکرہ إذا کانت السورۃ طویلۃ کما لوکان بینہما سورتان قصیرتان۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
وإذا جمع بین سورتین بینہما سور أو سورۃ واحدۃ في رکعۃ واحدۃ … یکرہ وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت ظہر اگر شروع کردی اور جماعت شروع ہوگئی ہے، تو دو رکعت پر سلام پھیر دے(۲) لیکن اگر جماعت کے چھوٹنے کا خطرہ ہو، تو سنت ظہر چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے اور بعد میں سنت ظہر ادا کرلے۔(۳)
(۲) أو شرع في سنۃ فأقیمت الجماعۃ سلم بعد الجلوس علی رأس رکعتین کذا روي عن أبي یوسف والإمام وہو الأوجہ لجمعہ بین المصلحتین ثم قضیٰ السنۃ أربعاً لتمکنہ منہ بعد أداء الفرض مع ما بعدہ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج ، ص: ۴۵۱؛ وفتح القدیر، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹، زکریا دیوبند)
(۳) بخلاف سنۃ الظہر حیث یترکہا في الحالین، لأنہ یمکنہ أداؤہا في الوقت بعد الفرض ہو الصحیح۔ (مرغیناني، ھدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند؛ و ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص351
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1756/43-1466
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسبوق کو اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں یاد تھیں، لیکن اس کو مسئلہ معلوم نہیں تھا اس وجہ سے اس نے امام کے ساتھ سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوگی اور ازسرنو نماز پڑھنی ہوگی۔ اور اگر اس کو رکعتوں کا چھوٹنا یاد نہیں تھا اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرنے میں شریک ہوگیا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھ لینے سے نماز درست ہوجائے گی۔
يفسدها السلام للصلاة عمدا وأما غيره فإن كان على ظن أن الصلاة تامة فغير مفسد وإن كان ناسيا للصلاة فمفسد ولو سلم على رجل تفسد مطلقا. كذا في شرح أبي المكارم.
المسبوق إذا سلم على ظن أن عليه أن يسلم مع الإمام فهو سلام عمد يمنع البناء. كذا في الخلاصة في مما يتصل بمسائل الاقتداء مسائل المسبوق وهكذا في فتاوى قاضي خان في فصل فيمن يصح الاقتداء به.
ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الھندیۃ الفصل الاول فیما یفسدھا 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر گنجے کے سر میں زخم وغیرہ نہیں جس سے خون بہتا ہو تو امامت اس کی بلاکراہت درست ہے کوئی وجہ عدم جواز یا کراہت کی نہیں۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ والعقل، والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار، کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ والثلثغ وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸- ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54