نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں میں امام کا ایک سانس میں سورۂ فاتحہ پڑھنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اور اس کی عادت ڈال لینا ناپسندیدہ ہے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا جو حضرات اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اچھا نہیں سمجھتے  وہ لوگ اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ترتیل کے ساتھ معانی میں تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔(۲)

(۲) عن یعلی بن مملک، أنہ سأل أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن قراء ۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وصلاتہ، فقالت: مالکم وصلاتہ، کان یصلي، ثم ینام قدر ماصلی، ثم یصلي قدر مانام، ثم ینام قدر ما صلی حتی یصبح۔ ثم نعتت قرائتہ فإذا ہی تنعت …قرائۃ مفسرۃ حرفاً حرفاً۔ وقال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: کیف کانت قراء ۃ النبي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۲۹۲۳)
عن أبي حمزۃ قال: قلت لابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: إني سریع القرآن إني أقرأ القرآن في ثلاث، قال: لئن أقرأ البقرۃ في لیلۃ أتدبرہا وارتلہا أحب إلی أن أقرأ کما تقرأ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان، فصل في أومان تلاوۃ القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۸۸۲)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقال لصاحب القرآن: إقرأ وارتق، ورتل کما کنت ترتل في الدنیا؛ فإن منزلک عند آخر آیۃ تقرأہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶، رقم: ۱۴۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص227

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کبھی کبھار ترک ہو جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن ترک پر اصرار کرنا گناہ کا باعث ہے  اور چھوڑ نے کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے۔ سنت مؤکدہ کے ترک پر بہت سی احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص ظہر کی پہلی چار سنت مؤکدہ چھوڑ دے اس کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی،(۱) اور مؤکدہ سنتوں کا پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے، طبرانی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سفر وحضر یا مرض وصحت میں کبھی فجر کی سنتیں چھوڑی ہوں،(۲) ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعت سنت اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت اور عشاء کے بعد دو رکعت سنت اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے۔(۳) ان روایات سے سنن مؤکدہ کے پڑھنے کی تاکید اور چھوڑنے پر گناہ معلوم ہوتا ہے، سنت مؤکدہ کیوں مشروع ہوئیں؟ اس کی وضاحت فرمائی کہ فرض نماز سے پہلے شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے جب انسان فرض سے پہلے سنت پڑھتا ہے تو شیطان یہ تصور کرتا ہے کہ جس نے فرض سے کم درجہ کی چیز سنت نہیں چھوڑی تو وہ فرض بدرجہ اولیٰ نہیں چھوڑے گا اور بہکانا بند کر دیتا ہے اور جب انسان فرض نماز ادا کرتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ کوتا ہی ضرور ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ عبادت اس کی شایان شان نہیں ہو پائی تو بعد والی سنتوں سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز روزہ وزکوٰۃ کا فریضہ جب پورا نہ ہو تواس کو تطوع (سنت) سے پورا کیا جائے گا، جمہور علماء ومفتیان کے نزدیک یہ ہی وضاحت ہے،(۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے سنت مؤکدہ کا تذکرہ نہ کرنے سے سنت مؤکدہ کی تاکید کم نہیں ہوتی۔

(۱) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ و السلام من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) وفي أوسط الطبراني عنہا أیضاً: لم أراہ ترک الرکعتین قبل صلاۃ الفجر في سفر ولا حضر ولا صحۃ ولا سقم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۳، ۸۴)
(۳) عن عبد اللّٰہ بن شقیق قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من التطوع فقالت: کان یصلي قبل الظہر أربعاً في بیتي الخ۔ (أخرجہ ابوداؤد،… في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، دار الکتاب دیوبند)
(۴) لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
(قولہ لجبر النقصان) أي لیقوم في الآخرۃ مقام ما ترک منہا لعذر کنسیان، وعلیہ یحمل الخبر الصحیح أن فریضۃ الصلاۃ والزکاۃ وغیرہما إذا لم تتم تکمل بالتطوع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا دیوبند)
وفي التنجیس والنوازل والمحیط: رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقاً فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً، وإن رأی حقاً منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353


 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1663/43-1274

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مسجد میں جماعت اولی کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی  وجہ سے  جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ  گھر میں جماعت  کرلی جائے جیسا کہ  ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔  حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر ۹۳۸۰" میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے "مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳" میں ذکر فرمائی ہے)۔

عن أبی ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ہممت أن آمر فتیتي فیجمعوا لي حزماً من حطب ثم آتي قوما یصلون فی بیوتہم لیست بہم علة فأحرقہا علیہم“ (أبوداوٴد: ۱/۸۰، ط: اشرفی دیوبند) صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم (619

قال فی الشامی: (قولہ: وتکرار الجماعة) لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعة“ (شامی: ۲/ ) المرأة إذا صلت مع زوجہا فی البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعة، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلة تقع رأس المرأة فی السجود قِبَل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرة للقدم ۔ (درمختار مع الشامی: ۱/۵۷۲، کراچی) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھتے رہیں، ہر نماز کے بعد ایک سو گیارہ مرتبہ ’’یا فتاح‘‘ پڑھ کر دعاء کریں (۲) نیز روزانہ سونے سے قبل یا مغرب کے بعد سورہ واقعہ ضرور پڑھا کریں، اسی طرح ہر نماز کے بعد ’’یا لطیف‘‘ ایک سو گیارہ مرتبہ اور ’’یا سبوح، یا قدوس‘‘ ۲۵؍ مرتبہ پڑھا کریں۔ حدیث میں ایک دعاء ہے اس کو بھی کثرت سے پڑھیں: ’’اللہم أکفني بحلالک عن حرامک واغنني بفضلک عمن سواک‘‘ (۱) اے اللہ مجھے حلال روزی عنایت فرما، حرام روزی سے حفاظت فرما اور اپنے علاوہ سب سے بے نیاز کردے۔

(۲) صدیق أحمد باندوي، مجربات صدیق، ’’باب‘‘ ۱۲، ص: ۱۱۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵، رقم: ۳۵۶۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص379

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکور ہ فی السوال جرم کی اگر شرعی شہادت نہیں ہے، توجرم ثابت نہیں ہوتا، نیزجب تک جرم ثابت نہ ہو، اس کو زبانوں پر لانا اورالزام تراشی کرنا شرعاً گناہ کبیرہ ہے۔(۱) جن لوگوں نے الزام لگایا وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں تاہم اس امام کو بھی انتہائی احتیاط لازم ہے جرم ثابت ہونے سے قبل اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۲)

(۱) {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَہلا ۴ } (سورۃ النور: ۴)
لایرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر إلا إذا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۱۱)
(۲) {وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۵)
{لَوْلَا جَآئُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَج فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَہ۱۳} (سورہ النور: ۱۳)
وفیہ لو أم قوماً وہم لہ کارہون، فہو من ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ، یکرہ، وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لا یکرہ لہ التقدم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص57

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بلا وجہ شرعی کسی کو گولی مارنا اور زخمی کرنا یہ گناہ کبیرہ موجب فسق ہے؛ اس لیے مذکورہ امام گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ جو نمازیں اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں یا پڑھی جائیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز مذکورہ گناہ کبیرہ کی وجہ سے توبہ و استغفار اور آئندہ ایسی حرکت سے باز رہنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصباً مجمع الأنہر الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
الأعلم بشرط اجتنابہ الخ کذا في الدرایۃ عن المجتبی وعبارۃ الکافي وغیرہ، قولہ بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ، ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال  فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص185

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی گنجائش ہے، کیوں کہ مسجد میں دینے والوں کا مقصد مسجد اور مصالح مسجد میں دینا ہے۔(۲)

(۲) کالإمام للمسجد والمدرس للمدرسۃ یصرف إلیہم إلی قدر کفایتہم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح أي قولہ: أي مصالح المسجد یدخل فیہ المؤذن والناظر ویدخل تحت الإمام الخطیب الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب یبداء بعد العمارۃ بما ہو أقرب إلیہا‘‘: ج۴، ص: ۳۲۷؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، الاستدانۃ لأجل العمارۃ في الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص274

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ شخص نے اگر راضی ہوکر نسبندی کرائی ہے، تو وہ گناہگار ہے(۱) مگر جماعت میں شامل ہوکر نماز اس کی درست ہے، دوسروں کو اعتراض کرنے کا حق شرعاً نہیں ہے۔(۲)

(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ ط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
روي عن أنس وعکرمۃ أن معنی تغییر خلق اللّٰہ ہو الإخصاء وقطع الآذان۔ (فخر الدین الرازي، تفسیر کبیر: ج ۱۱، ص: ۳۹)
أما خصاء الآدمي فحرام۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر، قالوا وما العذر، قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی۔ (سلیمان بن الأشعث،  سنن أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۱، رقم: ۵۵۱)
الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبریٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص379

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان سنت ہے جماعت کے لیے شرط نہیں ہے اور بغیر اذان جماعت درست ہوجاتی ہے لیکن بغیر اذان جماعت نہیں کرنی چاہئے اذان کی سنت کو چھوڑ دینا اور سنت سے محرومی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما  ولوترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: : ج۱، ص: ۱۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص162

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں صورتیں (دائیں بائیں اور پشت قبلہ رخ کر کے بیٹھنا) جائز ہیں، البتہ دائیں بائیں رخ کرنا اولیٰ ہے۔(۲)

(۲) عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا،   وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ اسلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو ورد۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأمامًا وخلفاً وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب ’’أن یستقبل بعدہ‘‘ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل ’’الناس‘‘ إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح  نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ج ۱، ص:۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430