نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی رکعت میں کسی سورہ کا بعض حصہ اور دوسری رکعت میں کسی دوسری سورہ کا بعض حصہ پڑھنا درست نامناسب ہے اور اس حکم میں قرآن پاک کی تمام سورتیں شامل ہیں کیوں کہ یہ حکم مطلقاً ہے۔
’’الأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ وسورۃ کاملۃ في المکتوبۃ … ولو قرأ في رکعۃ من وسط سورۃ أو من آخر سورۃ وقرأ في الرکعۃ الأخری من وسط سورۃ أخری أو من آخر سورۃ أخری، لا ینبغي لہ أن یفعل ذلک علی ماہو ظاہر الروایۃ، ولکن لو فعل ذلک لا بأس بہ۔ کذا في الذخیرۃ‘‘(۲)
اور اسی طرح مستحب یہ ہے کہ ہر رکعت میں پوری سورہ پڑھی جائے خواہ چھوٹی سورہ پڑھے یا بڑی سورہ پڑھے تاہم اگر کسی وجہ سے ایسا کرلیا گیا تب درست ہے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔
’’والأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ سورۃ فاتحۃ ولو قرأ بعض السورۃ في رکعۃ وباقیہا في رکعۃ قیل یکرہ والصحیح أنہ لا یکرہ الخ‘‘(۱)

(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶۔
(۱) الحلبي، غنیۃ المتملي: ص: ۴۶۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو سنت مؤکدہ ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق مواظبت ثابت ہیں ان کو ترک کرنے کی عادت بنا لینا باعث گناہ ہے، البتہ کبھی اگر اتفاقاً چھوٹ جائیں تو حرج نہیں ہے،(۱) ظہر سے قبل چار رکعت سنت مؤکدہ ہیں ان کو چھوڑنے سے گناہ ہوگا،(۲) جو سنن غیر موکدہ ہیں وہ نفل کے درجہ میں ہیں ان کو ترک کرنے سے کوئی گناہ لازم نہیں آتا ہے۔

(۱) قلت: لکن کونہ سنۃ مؤکدۃ لا یستلزم الإثم بترکہ مرۃ واحدۃ بلا عذر، فیتعین تقیید الترک بالاعتیاد والإصرار توفیقاً بین کلامہم کما قدمناہ، فإن الظاہر أن الحامل علی الإصرار علی الترک ہو الاستخفاف بمعنی التہاون وعدم المبالاۃ، لا بمعنیٰ الاستہانۃ والاحتقار۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار: ’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب في قولہم الاسائۃ دون الکراہۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، زکریا دیوبند)
الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل لا یأثم، والصحیح أنہ یأثم۔ (الحصکفي، رد المحتار  مع الدرالمختار: کتاب الطہارۃ ’’سنن الوضوء: مطلب في السنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰)
و یجاب عنہ بأن السنۃ المؤکدۃ بمنزلۃ الواجب في الإثم بالترک کما صرحوا بہ کثیرا۔ وصرح بہ في المحیط ہنا وأنہ لا یجوز ترک السنن المؤکدۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ والسلام: من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص359

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر لائق امامت ہو تو اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل،… والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸،۷۷، مکتبہ عطاظ دیوبند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان، وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث صلو خلف کل برو فاجر۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص61

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: (۱) مجبوری میں غلط کام کرکے پھر توبہ کرلی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲) جو لوگ سودی کاروبار میں ملوث ہوں ان کو امام نہ بنایا جائے امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اور متقی ہو اور معاشرہ میں نیک نام ہو اس لیے اگر ایسے لوگ امام کے منصب پر ہوں تو ان کو جلد از جلد توبہ کرلینی چاہئے اور اگر توبہ نہ کریں اور سودی کاروبار نہ بند کریں تو ان کی جگہ دوسرے کو امام بنادیا جائے۔(۱)

(۱) {یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
عن جابر قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ) ہم سواء۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساقات، باب لعن آکل الربا مؤکلہ‘‘: ج۳، ص: ۱۲۱۹، رقم: ۱۵۹۸)
عن ابن سیرین قال: کل شيء فیہ قمار فہو من المیسر۔
 (أخرجہ ابن أبي شیبہ،  في مصنفہ، ’’کتاب البیوع والأقضیۃ‘‘: ج۴، ص: ۴۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص191

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مردوں کے لیے بغیر کسی عذر کے گھر پر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، حضرات فقہا نے فرض نماز جماعت کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کو حکماً واجب لکھا ہے؛ اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ مسجد کی جماعت ترک نہ ہو پائے، لیکن اگر کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد کی جماعت چھوٹ جائے تو گھر والوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا درست ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے جب واپس آئے تو جماعت ہو چکی تھی اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ جیسا کہ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے:
’’ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں مرد اپنی بیوی اور بچوں کو نماز جماعت سے پڑھانا چاہے تو وہ پڑھا سکتا ہے، لیکن جب گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اس وقت صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد خود آگے کھڑا ہوجائے یعنی امام بنے، پہلی صف میں بچے (لڑکے) کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا جو گھر کی خواتین ہوں، کھڑی ہوں۔ اور اگر ایک بچہ ہو تو وہ مرد کے دائیں طرف کھڑا ہو اور باقی خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔
نیز گھر میں جماعت کرتے وقت اذان واقامت کہنا ضروری نہیں ہے، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، تاہم افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ  جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت شوہر کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو اذان بھی شوہر دے یا اگر کوئی سمجھ دار بچہ ہو تو وہ اذان دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(وکرہ ترکہما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وکذا ترکہا) لا ترکہ لحضور الرفقۃ (بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (وفي بیتہ بمصر) أو قریۃ لہا مسجد؛ فلایکرہ ترکہما إذ أذان الحی یکفیہ‘‘(۲)
’’(قولہ: في بیتہ) أي فیما یتعلق بالبلد من الدار والکرم وغیرہما، قہستاني، وفي التفاریق: وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفی بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریبًا وإلا فلا۔ وحد القرب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ إسماعیل۔ والظاہر أنہ لایشترط سماعہ بالفعل، تأمل‘‘
’’(قولہ: لہا مسجد) أي فیہ أذان وإقامۃ، وإلا فحکمہ کالمسافر صدر الشریعۃ‘‘
’’أن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’(ویقف الواحد) ولو صبیاً، أما الواحدۃ فتتأخر (محاذیاً) أي مساویاً (لیمین إمامہ) علی المذہب، ولا عبرۃ بالرأس بل بالقدم، فلو صغیراً فالأصح ما لم یتقدم أکثر قدم المؤتم لاتفسد، فلو وقف عن یسارہ کرہ (اتفاقاً وکذا) یکرہ (خلفہ علی الأصح)؛ لمخالفۃ السنۃ، (والزائد) یقف (خلفہ) فلو توسط اثنین کرہ تنزیہاً، وتحریماً لو أکثر‘‘(۲)
’’(وإن أم نساء، فإن اقتدت بہ) المرأۃ (محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ، فلا بد) لصحۃ صلاتہا (من نیۃ إمامتہا) لئلایلزم الفساد بالمحاذاۃ بلا التزام (وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ) فقیل: یشترط، وقیل: لا کجنازۃ إجماعًا، وکجمعۃ وعید علی الأصح خلاصۃ وأشباہ، وعلیہ إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتہا وإلا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲،ص: ۲۸۸۔            (۲) وفیہ أیضاً۔
(۱) أخرجہ النسائي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۸۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلوۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲،ص: ۳۰۷۔            (۳) أیضاً۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص384

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کو بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھائی۔
انبیاء علیہم السلام جب صفیں درست کرچکے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امامت کے لیے آگے بڑھادیا اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے قریب حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے تھے اور داہنی جانب حضرت اسماعیل علیہ السلام کھڑے تھے اوربائیں جانب حضرت اسحاق علیہ السلام کھڑے تھے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر تمام انبیاء علیہم السلام کھڑے ہوئے تھے۔(۱)
(۱)  فحانت الصلوٰۃ فأممتہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ج۱ ، ص:۹۶ ، رقم: ۲۷۸)
ولعل المراد بہا صلوۃ التحیۃ أو یراد بہا صلوٰۃ المعراج۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفضائل والشمائل: باب في المعراج الأول‘‘: ج۱۰، ص:۵۷۱، رقم: ۵۸۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام کا اذان پڑھنا درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے روایات سے ایک ہی شخص کا اذان دینا اور نماز پڑھانا ثابت ہے۔(۳)

(۳) عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربک من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن للصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہ عز وجل: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم للصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبد، وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجۃ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰، رقم: ۱۲۰۳)
عن عقبۃ بن عامر قال: کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامنی عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، فيمصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر، مؤسسۃ علوم القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص168

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی مخصوص طریقہ پر پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر دوام اور استمرار درست نہیں؛ اس لیے غیر لازم چیز کو لازم سمجھنا شرعاً جائز نہیں(۱) آیت کریمہ (مذکورہ فی السوال) کے سنتے ہی درود فرض نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیرًا علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین،  رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ولو قرأ القرآن فمر علی إسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵،ص: ۳۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں جان بوجھ کر دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔ البتہ اگر بھول  سے ایسا ہوا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرصورت نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ ہی نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔ اور نوافل میں ایک ہی سورت دو رکعتوں میں پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
’’لا بأس أن یقرأ سورۃً ویعیدہا في الثانیۃ۔ (قولہ: لا بأس أن یقرأ سورۃً إلخ) أفاد أنہ یکرہ تنزیہا، وعلیہ یحمل جزم القنیۃ بالکراہۃ، ویحمل فعلہ علیہ الصلاۃ والسلام لذلک علی بیان الجواز، ہذا إذا لم یضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولیٰ: {قل أعوذ برب الناس} أعادہا في الثانیۃ إن لم یختم، نہر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص232

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرأت میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے، تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہر صورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو، تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)
قالوا: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوساً أثم، لکن لا یلزمہ سجود السہو؛ لأن ذلک من واجبات القرائۃ لا من واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي، ردالمحتار مع الدرالمختار، باب صفۃ الصلاۃ، ’’مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص360