نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ سہو میں دو سجدے واجب ہیں، اس لیے کہ ایک سجدہ کرنے پر واجب کا ترک لازم آتاہے اور ترک واجب کی صورت میں نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے وقت کے اندراس کا اعادہ واجب اور وقت کے بعد اس کا اعادہ مستحب ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں بہتر ہے کہ نماز کا اعادہ کرلیا جائے،جو مسبوق حضرات ہیں ان کا حکم بھی وہی ہے جو دیگر مقتدیوں کا ہے۔

’’یجب لہ بعد سلام واحد عن یمینہ فقط سجدتان(۱) وکذا کل صلاۃ أدّیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا، وفي الشامي: وأن النقص إذا دخل في صلاۃ الإمام ولم یجبر وجبت الإعادۃ علی المقتدی‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، ۵۴۱۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷۔(یجب بعد سلام واحد عن یمینہ فقط) لأنہ المعہود، وبہ یحصل التحلیل وہو الأصح بحر عن المجتبی۔ وعلیہ لو أتی بتسلیمتین سقط عنہ السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز…  وکرہ تنزیہا۔ وعند مالک قبلہ في النقصان وبعدہ في الزیادۃ، فیعتبر القاف بالقاف والدال بالدال (سجدتان)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، ۵۴۱)یجب بعد السلام سجدتان بتشہد وتسلیم لترک واجب وإن تکرر) بیان لأحکام الأول وجوب سجدتي السہو، وہو ظاہر الروایۃ لأنہ شرع لرفع نقص تمکن في الصلاۃ ورفع ذلک واجب، وذکر القدوري أنہ سنۃ کذا في المحیط، وصحح في الہدایۃ وغیرہا الوجوب، لأنہا تجب لجبر نقصان تمکن في العبادۃ فتکون واجبۃ کالدماء في الحج ویشہد لہ من السنۃ ما ورد في الأحادیث الصحیحۃ من الأمر بالسجود، والأصل في الأمر أن یکون للوجوب ومواظبۃ النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وأصحابہ علی ذلک وفي معراج الدرایۃ، إنما جبر النقصان في باب الحج بالدم وفي باب الصلاۃ بالسجود لأن الأصل أن الجبر من جنس الکسر وللمال مدخل في باب الحج فیجبر نقصانہ بالدم ولا مدخل للمال في باب الصلاۃ فیجبر النقصان بالسجدۃ۔ اہـ۔ لکل سہو سجدتان بعد السلام۔وفي صحیح‘‘ في سنن أبي داؤد أنہ علیہ الصلاۃ السلام قال البخاري في باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان في حدیث قال فیہ: إذا شک أحدکم في صلاتہ فلیتحر الصواب فلیتم علیہ ثم لیسلم ثم لیسجد سجدتین فہذا تشریع عام قولي بعد السلام عن سہو الشک‘‘ والتحري ولا قائل بالفصل بینہ وبین تحقق الزیادۃ والنقص۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو: ص: ۴۶۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اسی وقت اس نماز کا اعادہ کر لے اگر نہیں کر سکا اور وقت گزر گیا، تو قضاء واجب ہوگی۔(۱)

(۱) وإعادتہا بترکہ عمدا أي ما دام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان وکراہۃ التحریم ویکون فاسقا آثما، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولی لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ، ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۲۴۷)(لہا واجبات) لا تفسد بترکہا، وتعاد وجوباً في العمد والسہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا یکون فاسقا آثما، وکذا کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا۔ والمختار أنہ جابر للأول۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷، ۱۴۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، بلکہ بغیر سلام پھیرے امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہو جائے اور اگر غلطی سے امام کے ساتھ مسبوق نے سلام پھیر دیا اور سجدہ سہو امام کے ساتھ کر لیا، تو اس غلطی سے مسبوق کی نماز میں کوئی فساد نہیں آئے گا اور نہ بعد میں مسبوق پر کوئی سجدہ سہو لازم آئے گا۔(۲)

(۲) والمسبوق یسجد مع إمامہ قید بالسجود؛ لأنہ لا یتابعہ في السلام؛ بل یسجد معہ ویتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلیٰ القضا، فإن سلم فإن کان عامدا فسدت وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ، وإن سلم بعدہ لزمہ لکونہ حینئذ منفرداً بحر، وأراد بالمعیۃ المقارنۃ وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ: وفیہا ولو سلم علی ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، ۵۴۶)ثم قال: فعلی ہذا یراد بالمعیۃ حقیقتہا، وہو نادر الوقوع قلت: بشیر إلیٰ أن الغالب لزوم السجود لأن الأ غلب عدم المعیۃ وہذا مما یغفل عنہ کثیر من الناس فلیتنبہ لہ۔ (أیضا: ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 210

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سجدہ سہو نہیں کیا، تو اعادہ ضروری ہوگا۔(۱)

(۱) وإعادتہا بترکہ عمداً أي ما دام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہہ التحریم، ویکون فاسقاً آثما، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالاولیٰ؛ لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ، ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۲۴۸)ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ، أو تاخیر رکن، أو تقدیمہ أو تکرارہ…  … ولو أخر الفاتحۃ عن السورۃ فعلیہ السہو، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، ۱۸۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 209

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قعدہ اولی میں ’’اللہم صل علی محمد‘‘ تک پڑھ دیا، تو سجدہ سہو لازم ہوگا اور اگر اس سے کم پڑھا، تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) و کذا لو زاد علی التشہد الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … یجب علیہ سجود السہو … بقولہ اللہم صلی علی محمد … وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)ولا یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الأولی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا ولا یستفتح إذا قام إلی الثالثۃ منہا، وفي البواقي من ذوات الأربع یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في لفظۃ ثمان‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۶، ۴۵۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 209

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قعدہ اولیٰ ترک کرنے کا یقین ہو، تو سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، کیوں کہ اس صورت میں واجب ترک ہو رہا ہے۔(۱)

(۱) ومن سہا عن القعدۃ الأولی ثم تذکر وہو إلی حالۃ القعود أقرب عاد، وقعد، وتشہد؛ لأن ما یقرب من الشيء یأخذ حکمہ ثم قیل: یسجد للسہو للتأخیر، والأصح أنہ لا یسجد، کما إذا لم یقم، ولو کان إلی القیام أقرب لم یعد لأنہ کالقائم معنیً، ویسجد للسہو لأنہ ترک الواجب۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹، مکتبہ ملت، دیوبند)(سہا عن القعود الأول من الفرض) ولو عملیا، أما النفل فیعود ما لم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ) … (ما لم یستقم قائما) في ظاہر المذہب، وہو الأصح ’فتح‘ (وإلا) أي وإن استقام قائما (لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام، وسجد للسہو لترک الواجب، فلو عاد إلی القعود بعد ذلک تفسد صلاتہ لرفض الفرض۔ وصححہ الزیلعي: (وقیل: لا) تفسد لکنہ یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب (وہو الأشبہ) کما حققہ الکمال وہو الحق بحر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، ۵۴۸، ۵۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں چوں کہ سجدہ سہو نہیں کیا گیا جب کہ سجدہ سہو لازم تھا؛ اس لیے نماز اس کی واجب الاعادہ ہے امام پر لازم ہے کہ اس وقت کے شرکاء مقتدیوں میں اعلان کر دے کہ اپنی اپنی نماز کا اعادہ کر لیں۔(۱)

(۱) (وإعادتہا بترکہ عمدا) أي ما دام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقا آثما، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ، ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا، فصل: في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸)قولہ: (وتعاد وجوبا) أي بترک ہذہ الواجبات أو واحد منہا: وما في الزیلعي والدرر والمجتبی من أنہ لو ترک الفاتحۃ یؤمر بالإعادۃ لا لو ترک السورۃ، ردہ في البحر بأن الفاتحۃ… وإن کانت آکد في الوجوب للاختلاف في رکنیتہا دون السورۃ، لکن وجوب الإعادۃ حکم ترک الواجب مطلقا لا الواجب المؤکد، وإنما تظہر الآکدیۃ في الإثم لأنہ مقول بالتشکیک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 207

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو چھٹی رکعت ملالینی چاہیے تھی کہ چار رکعت فرض ہو جاتی اور دو رکعت نفل ہو جاتی اب اس صورت میںاس کی پانچویں رکعت باطل ہو گئی اور سجدہ سہو کر لینے کی وجہ سے چار کعت فرض اداء ہو گئیں۔(۱)

(۱) رجل صلی الظہر خمسا وقعد في الرابعۃ قدر التشہد، إن تذکر قبل أن یقید الخامسۃ بالسجدۃ أنہا الخامسۃ عاد إلی القعدۃ وسلم، کذا في المحیط ویسجد للسہو، …کذا في السراج الوہاج، وإن تذکر بعدما قید الخامسۃ بالسجدۃ أنہا الخامسۃ لا یعود إلی القعدۃ ولا یسلم بل یضیف إلیہا رکعۃ أخری حتی یصیر شفعا ویتشہد ویسلم، ہکذا في المحیط۔

ویسجد للسہو استحسانا، کذا في الہدایۃ، وہو المختار، کذا في الکفایۃ ثم یتشہد ویسلم، کذا في المحیط، والرکعتان نافلۃ ولا تنوبان عن سنۃ الظہر علی الصحیح، کذا في الجوہرۃ النیرۃ قالوا في العصر لا یضم إلیہا سادسۃ وقیل: یضم وہو الأصح، کذا في التبیین، وعلیہ الاعتماد؛ لأن التطوع إنما یکرہ بعد العصر إذا کان عن اختیار وأما إذا لم یکن عن اختیار فلا یکرہ، کذا في فتاوی قاضي خان … ویضم إلیہا رکعۃ سادسۃ ولو لم یضم فلا شيء علیہ، کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو، فصل: سہو الإمام یوجب علیہ وعلی من خلفہ السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸، ۱۸۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 206

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اس شخص پر سجدہ سہو لازم ہے، سجدہ سہو کرنے سے نمازصحیح ہو جائے گی اور اگر سجدہ سہو نہ کیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوگی۔(۲)

(۲) وسجد للسہو … (وإن قعد في الرابعۃ) مثلا قدر التشہد (ثم قام عاد وسلم)۔ قولہ: (عاد وسلم)۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳)(وإن کثر) شکہ (عمل بغالب ظنہ إن کان) لہ ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل) لتیقنہ (وقعد في کل موضع توہمہ موضع قعودہ) ولو واجبا لئلا یصیر تارکا فرض القعود أو واجبہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۱)(وإن قعد) في الرکعۃ (الرابعۃ) مثلاً قدر التشہد، (ثم قام عاد وسلم)، ولو سلم قائماً صح، ولا یتبعہ القوم في الأصح، بل ینتظرونہ فإن عاد یتبعوہ، وإن سجد سلموا، (مالم یسجد) للخامسۃ  الخ۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 205

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب ہے اور سجدہ سہو کر لیا تو نماز ہو گئی اور اگر نہیں کیا تو نماز کا لوٹانا واجب ہوگا۔(۱)

(۱) لو قرأ آیۃ في الرکوع أو السجود أو القومۃ فعلیہ السہو، ولو قرأ…في القعود إن قرأ قبل التشہد في القعدتین فعلیہ السہو لترک واجب الابتداء بالتشہد أول الجلوس۔ (أحمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۱، دار الکتاب، دیوبند)وإذا قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو، وکذلک إذا قرأ الفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 205