Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص امامت کے تقاضے پورا کرتا ہے تو اس کی امامت درست ہے صرف ہاتھ کی کچھ انگلیوں کا نہ ہونا، پیر کا کٹا ہوا ہوناامامت کی صحت کے لیے مضر نہیں، امامت بلا کراہت صحیح ہے۔(۱)
(۱) ولو کان قادرا علی بعض القیام دون تمامہ یؤمر بأن یقوم قدر ما یقدر … ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
قید بتعذر القیام أي جمیعہ لأنہ لو قدر علیہ متکئا أو متعمداً علی عصاً أو حائط لا یجزئہ إلا کذلک خصوصا علی قولہما فإنہما یجعلان قدرۃ الغیر قدرۃ لہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا دیوبند)
(برکوع وسجود وإن قدر علی بعض القیام) ولو متکئا علی عصا أو حائط (قام) لزوماً۔ (الحصکفي، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص230
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عصر ومغرب کے درمیان تغیر شمس سے قبل سجدہ تلاوت، نماز جنازہ، فرض اور وتر کی قضاء جائز ہے، نوافل وسنن ممنوع ہیں اور تغیر شمس کے وقت یہ سب چیز یں ممنوع ہیں۔
’’تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان۔ومنہا ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ ہکذا في النہایۃ‘‘(۱)
’’ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الثالث في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹۔ (۲) أیضاً، ص: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص103
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان واقامت میں بھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی آئے تو بھی درود شریف پڑھنا چاہئے یعنی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی اذان کا جواب دے رہا ہو تو اس کو ’’أشہد أن محمد رسول اللّٰہ‘‘ کے جواب میں صرف یہ ہی جملہ کہنا چاہئے اذان کے بعد دعاء اور اس کے بعد درود شریف پڑھنی چاہئے۔(۳)
(۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا ثم سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ الجماعۃ في المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص239
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے نماز میں اس کا چھپانا فرض ہے، لیکن مذکورہ صورت میں راجح قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوئی۔(۲)
(۲) انکشاف ما دون الربع معفو إذا کان في عضو واحد وإن کان في عضوین أو أکثر وجمع وبلغ ربع أدنیٰ عضو منہا یمنع جواز الصلاۃ، کذا في شرح المجمع لابن الملک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵)
والرکبۃ إلی آخر الفخذ عضو واحد، حتی لو صلی والرکبتان مکشوفتان والفخذ مغطی، جازت صلاتہ، وہو الأصح، ہکذا في التجنیس۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۱۱۶)
وفي الظہیریۃ حکم العورۃ في الرکبۃ أخف منہ في الفخذ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص72
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امور بدعات ورسومات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔ ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … ومبتدع أي صاحب بدعۃ …… وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۲) الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص135
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: امام کا عالم دین ہونا اور مسائل نماز سے واقف ہونا، نماز کے درست ہونے کے لیے کافی ہے، آنکھ سے کانا ہونا یا روزانہ کپڑے بدلنا، سرمہ وغیرہ لگانا امامت کے عدم جواز کی دلیل نہیں ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت شرعاً در ست ہے۔(۱)
(۱) قید کراھۃ إمامۃ الأعمی في المحیط وغیرہ بأن لا یکون أفضل القوم فإن کان أفضلھم فھو أولی (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار ج۲، ص:۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص231
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال معاملہ جب تک شرعی طریقہ پر ثابت نہ ہوجائے تو امام صاحب کو خطا وار قرار دینا شرعاً درست نہیں ہے اور شرعی ثبوت کے بغیر محض اس بات کو سن کر امام صاحب سے ناراض ہونا اور الگ جماعت کرنا بھی درست نہیں ہے، سب حضرات کو آپس میں اتفاق کرنا چاہئے اور سب کو ایک ہی جماعت میں نماز پڑھنی چاہئے نیز امام پر لازم ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے بستی میں انتشار پیدا ہو۔ اگر بدفعلی کے شرعی گواہ نہ ہوں اور امام صاحب قسم کھا کر انکار کردیں تو امام صاحب خطاوار نہیں ہیں اور اگر قسم نہ کھائیں تو وہ مجرم ہوں گے اور ان کو امامت سے سبکدوش کرنا لازم ہوگا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوا خلف کل بر وفاجر‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ قال فضل الجماعۃ … أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي‘‘(۱)
(۱) سنن دار قطني، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ مع‘‘: ج۱، ص:۲۴۰، رقم: ۱۷۶۸۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، زکریا دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص334
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: زوال کے وقت سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد تک نماز موقوف رکھیں، گھڑی کو صحیح ٹائم کے ساتھ ملاکر رکھیں۔
’’وفي شرح النقایۃ للبرجندي وقد وقع في عبارات الفقہاء أن الوقت المکروہ ہو عندانتصاف النہار إلی أن تزول الشمس۔‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۱۔
عند الانتصاف إلی أن تزول۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، مکتبہ: فیصل، دیوبند)
وفي القنیۃ واختلف في وقت الکراہۃ عند الزوال فقیل من نصف النہار إلی الزوال لروایۃ أبي سعید عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نھي عن الصلاۃ نصف النہار حتی تزول الشمس۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۱، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں چوں کہ مؤذن صاحب نے قسم کھائی ہے اس لیے ان کو متہم نہیں کیا جاسکتا(۱) اور ان کی اذان، اقامت و امامت درست ہے۔ بغیر شرعی ثبوت کے کسی کو متہم کرنا جائز نہیں ہے۔(۲)
(۱) لکن البینۃ علی المدعي والیمین علی من أنکر قال النووي: ہذا الحدیث قاعدۃ شریفۃ کلیۃ من قواعد أحکام الشرع ففیہ أنہ لا یقبل قول الإنسان فیما یدعیہ بمجرد دعواہ بل یحتاج إلی بینۃ أو تصدیق المدعي علیہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإماراۃ والقضاء، باب الأقضیۃ والشہادات، الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۲۹۰، رقم: ۳۷۵۸)
(۲) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: البہتان علی البراء أثقل من السموات۔ (علي متقي، کنز العمال: ج ۳، ص: ۸۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص240
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آمین بالجہر یا بالسر کا مسئلہ اعتقادی نہیں ہے؛ نیز اس میں اختلاف او لویت اور غیر اولویت کا ہے، بعض ائمہ بالجہر کہنے کو افضل کہتے ہیں، بعض آہستہ کہنے کو افضل کہتے ہیں۔ آمین بالجہر کہنے پر امام کا مذکورہ فعل مطلقاً ناجائز ہے۔(۱)
(۱) ویخفونہا لما روینا من حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ ولأنہ دعاء فیکون مبناہ علی الإخفاء۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
اختلفوا في تأمین المأموم إذا کان الإمام في السریۃ وسمع المأموم تأمینہ، منہم من قال: یقولہ ہو کما ہو ظاہر الکتاب، منہم من قال: لا لأن ذلک الجہر لا عبرۃ بہ بعد الاتفاق علی أنہ لیست من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل ہو في اللغۃ في مابین الشیئین: ج ۱، ص: ۵۴۸، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص373