نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی عذر نہ ہو، تو سجدے میں جاتے ہوئے، پہلے گھٹنے رکھے، پھر دونوں ہاتھ رکھے، یہ سنت طریقہ ہے، بلاعذر اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ البتہ اگر کوئی عذر ہو جیسے بڑھاپا یا بدن بھاری ہو اور پہلے گھٹنے رکھنے میں تکلیف ہو، تو اس صورت میں، پہلے ہاتھ رکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ جیسا کہ مرقی الفلاح میں لکھا ہے:
’’ثم کبر کل مصل خاراً للسجود۔۔۔۔ ثم وضع رکبتیہ ثم یدیہ إن لم یکن بہ عذر یمنعہ من ہذہ الصفۃ‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘:  ج۱، ص: ۱۰۵۔
عن وائل بن حجر -رضي اللّٰہ عنہ- قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذا نہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲، رقم: ۸۳۸)
أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في وضع الیدین قبل الرکبتین في السجود‘‘: ج ۱، ص:۶۱، رقم: ۲۶۸؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ:، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، السجود‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶، رقم: ۸۸۲۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃؓ‘‘: ج ۵، ص: ۵۱۵، رقم: ۸۹۵۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص374

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں شراب یا پیشاب کی شیشی کے جیب میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی نماز درست نہیں ہوئی، اعادہ ضروری ہوگا۔
’’بخلاف ما لو حمل قارورۃ مضمومۃ فیہا بول فلا تجوز صلاتہ لأنہ في غیر معدنہ کما في البحر عن المحیط‘‘(۳)
’’رجل صلی وفي کمہ قارورۃ فیہا بول لا تجوز الصلاۃ سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن لأن ہذا لیس في مظانہ ومعدنہ‘‘(۴)

(۳) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۴، زکریا دیوبند۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ومما یتصل بذلک مسائل تحت شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص74

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/883

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عالم  کی بات درست ہے، اسے سترہ سمجھنے کی صورت میں نمازی کو اسی تک نگاہ رکھنی چاہئے، نگاہ آگے نہ بڑھائے توجہ محدود رکھے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال ایسے شخص کی امامت درست ہے۔(۱)

(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولٰی تاترخانیۃ وکذا أجذم، بیر جندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص233

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال معقول شرعی عذر کا ہونا ضروری ہے مذکورہ لوگوں کی دلیل درست نہیں اس لیے ان کی بات معتبر نہیں ہے۔(۱)

(۱) ومن حکمہا نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم، قال الشامي: نظام الألفۃ بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۲)
ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قومًا وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص337

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے بعد مقتدی نے بھی سجدہ کرلیا اس لیے نماز واقتدا درست ہوگئی ’’کما لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أومعاقبا وشارکہ فیہ أو بعد مارفع منہ الخ‘‘(۱) لیکن امام کو اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے کہ مقتدی اس کے ساتھ شامل نہ ہوپائے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص : ۱۶۶۔
نعم تکون المتابعۃ فرضا؛ بمعنی أن یأتی بالفرض مع إمامہ أو بعدہ، کما لو رکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقبا وشارکہ فیہ أو بعد ما رفع منہ، فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (أیضًا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص459

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک اور عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ ان دونوں وقتوں میں قضائے عمری پڑھنا اور سجدہ تلاوت کرنا درست وجائز ہے؛ لیکن سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت قضاء نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔(۱)

(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل ومافی معناہا لا الفرائض، ہکذا في النہایۃ والکفایۃ۔ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان، منہا: ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔۔۔۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ الفجر قبل طلوع الشمس۔۔۔۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التی لاتجوز الصلاۃ فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹، زکریا، دیوبند)
ولو سنۃ الفجر، بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر ولو المجموعۃ بعرفۃ لا یکرہ قضاء فائتۃ ولو وترا أو سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ وکذا الحکم من کراہۃ نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ بعد طلوع فجر سوی سنتہ … وفیہ جواب عما أوردہ من أن قولہ علیہ السلام: لا صلاۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس،  رواہ الشیخان یعم النفل وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص106

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واقعی طور پر جمعہ کے دن نماز فجر میں مذکورہ سورتیں مسنون ومستحب ہیں، مگر اس پر دوام ثابت نہیں ہے؛ اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ اس پر دوام نہ کرے؛ بلکہ گاہے گاہے اس کو چھوڑ کر دوسری سورتوں کو بھی پڑھے۔
در مختار میں ہے ’’ویکرہ التعیین کالسجدۃ وہل أتی الإنسان لفجر کل جمعۃ بل یندب قراء تہما أحیاناً‘‘(۱) اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ان مذکورہ سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، ۲۶۶۔
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقرأ في الجمعۃ في صلوٰۃ الفجر ألم تنزیل (السجدۃ) وہل أتی علی الإنسان۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما یقرأ في صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، رقم: ۸۹۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص376

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز باطل ہو جائے گی۔(۱)

(۱) ومنہا النوم ینقضہ النوم مضطجعا فی الصلاۃ وفی غیرہا، بلا خلاف بین الفقہاء وکذا النوم متورکا بأن نام علی أحد ورکیہ، ہکذا في البدائع وکذا النوم مستلقیا علی قفاہ کذا فی البحر الرائق۔ ولو نام قاعدا واضعا إلیتیہ علی عقبیہ شبہ المنکب لا وضوء علیہ، وہو الأصح، کذا فی محیط السرخسی۔ ولو نام مستندا إلی ما لو أزیل عنہ لسقط۔ إن کانت مقعدتہ زائلۃ عن الأرض نقض بالإجماع، وإن کانت غیر زائلۃ فالصحیح أن لا ینقض، ہکذا في التبیین۔ ولا ینقض نوم القائم والقاعد ولو فی السرج أو المحمل، ولا الراکع ولا الساجد مطلقا إن کان في الصلاۃ، وإن کان خارجہا فکذلک إلا فی السجود فإنہ یشترط أن یکون علی الہیئۃ المسنونۃ لہ، بأن یکون رافعا بطنہ عن فخذیہ، مجافیا عضدیہ عن جنبیہ، وإن سجد علی غیر ہذہ الہیئۃ انتقض وضوء ہ کذا فی البحر الرائق ثم فی ظاہر الروایۃ: لا فرق بین غلبتہ وتعمدہ، وعن أبی یوسف: النقض فی الثانی، والصحیح: ما ذکر فی ظاہر الروایۃ، ہکذا فی المحیط۔ واختلفوا فی المریض إذا کان یصلي مضطجعا فنام، فالصحیح أن وضوء ہ ینتقض، ہکذا فی المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۳)
عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا نعس أحدکم وہو یصلی فلیرقد حتی یذہب عنہ النوم؛ فإن أحدکم إذا صلی وہو ناعس لا یدري لعلہ یستغفر، فیسب نفسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم و من لم یر من النعسۃ الخ ‘‘: ج ۱، ص:۳۴، رقم: ۲۱۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص75

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میںجو تکبیر ترک ہوئی ہے اس کے بارے میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک واجب ہے اس لیے اس کا اہتمام کرنا ضروری ہے لیکن راجح یہ ہے کہ وہ تکبیرات انتقالیہ میں سے ہے جن کو مسنون قرار دیا گیا ہے اس ترک سے نماز وتر کی ادائیگی میں کوئی نقصان نہیں آیا نماز ادا ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ علم ہونے کے بعد ترک نہ کرنا چاہئے جان بوجھ کر سنت کا ترک کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)

(۱) ویکبر أي وجوبا، وفیہ قولان، کما مر في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب الوتر والنوافل، ج۲، ص: ۴۴۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص299