Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) ولو عطس فقال لہ المصلی: الحمد للّٰہ لا تفسد؛ لأنہ لیس بجواب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷، زکریا دیوبند)
ویشکل علی ہذا کلہ ما مر من التفصیل فیمن سمع العاطس فقال: ’’الحمد للّٰہ‘‘ تأمل واستفید أنہ لو لم یقصد الجواب بل قصد الثناء والتعظیم لا تفسد، لأن نفس تعظیم اللّٰہ تعالیٰ والصلاۃ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا ینافي الصلاۃ، کما في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص73
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امامت ِ نماز ایک اہم اور عظیم منصب ہے اس کے لیے صحیح العقیدہ حنفی امام متعین کیا جائے تاکہ نماز اس کے پیچھے سبھی مقتدیوں کی درست اور صحیح ہوجائے(۲) اور ایسے فاسد العقیدہ امام کو معزول کردینا چاہئے۔(۳)
الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
(۳) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص135
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بحالت مجبوری اپاہج نماز پڑھا سکتا ہے بہتر یہ ہے کہ اس کو مستقل امام نہ بنایا جائے ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس لائق نہ ہو کہ نماز پڑھا سکے تو اس کی امامت شرعاً درست ہے۔(۲)
(۲) قال الحصکفي وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج وأبرص شاع برصہ، …قال ابن عابدین قولہ: ومفلوج وأبرص شاع برصہ وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولی تاتارخانیۃ وکذا أجذم بیرجندي ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہرا۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدرالمختار: ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲، ۳۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص231
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرمذکورہ امام مالک نصاب نہیں ہے تو حسب ضرورت زکوٰۃ کی رقم لینا اس کے لیے جائز ہے؛ لیکن بلا ضرورت ایسا نہ کریں اور اس امام کی اقتداء میں نماز امیر وغریب سب مقتدیوں کی جائز اور درست ہے۔(۲)
(۲) لا یجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصابا أي مال کان دراہم أو سوائم أو عروضا للتجارۃ أو لغیر التجارۃ فاضلا عن حاجتہ في جمیع السنۃ ہکذا في الزاہدي والشرط أن یکون فاضلا عن حاجتہ الأصلیۃ، وہي مسکنۃ، وأثاث مسکنہ ثیابہ وخادمہ، ومرکبہ وسلاحہ، ولا یشترط النماء إذ ہو شرط وجوب الزکاۃ لا الحرمان کذا في الکافی۔ ویجوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب، وإن کان صحیحا مکتبا، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہندیۃ، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الزکوۃ: الباب السابع في المصارف‘‘: ج۱، ص: ۱۸۹، ط: دار الفکر)
باب المصرف أي مصرف الزکاۃ والعشر وأما خمس المعدن فمصرفہ کالغنائم (ہو فقیر وہو من لہ أدنیٰ شيء) أي دون نساب أو قدر نصاب غیر نام مستغرق في الحاجۃ …(ومسکین من شيء لہ) علی المذہب؛ لقولہ تعالی: (أو مسکینا ذا متربۃ) (البلد ۱۳) وآیۃ السفینۃ للترحم (وعامل) یعم الساعی والعاشر (فیعطی) ولو غنیا لا ہاشمیا، لأنہ فرع نفسیہ لہذا العمل (فیحتاج إلی الکفایۃ والغني لا یمنع من تناولہا عند الحاجۃ کابن السبیل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الزکاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد پُر ہو جائے اور گھر مسجد سے اس درجہ متصل ہو کہ مسجد اور گھر کے درمیان دو صف کا فاصلہ نہ ہو اور مائک کے ذریعہ امام کی نقل وحرکت کا علم ہو رہا ہو، تو مسجد کے امام کی اقتدا گھر میں کرنا درست ہے۔اور اگر گھر مسجد سے فاصلہ پر ہے توجمعہ اور جماعت کی اقتداء گھر میں رہتے ہوئے کرنا درست نہیں ہے؛(۱) نیز جمعہ اور جماعت کا تقاضا اجتماعیت کا ہے او راس کا اظہار اسی وقت ہوگا جب کہ مقتدی امام کے ساتھ مسجد میں ہوں، امام مسجد میں اور مقتدی حضرات گھر میں ہوں تو اجتماعیت کا اظہار نہیں ہوسکے گا،نیز جمعہ و جماعت کو اسی طرح قائم کرنا چاہیے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے متوارث چلا آرہا ہے، گھر میں رہ کر مسجد کے امام جمعہ کی اقتداء سنت متوارثہ کے بھی خلاف ہے۔
(۱) عند اتصال الصفوف أي في الطریق أو علی جسر النہر فإنہ مع وجود النہر أو الطریق یختلف المکان، وعند اتصال الصفوف یصیر المکان واحداً حکماً فلا یمنع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص458
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: طلوع شمس، غروب اور استواء (زوال) ان تینوں اوقات میں نماز پڑھنا جائز نہیں، البتہ غروب شمس کے وقت اس روز کی عصر کی نماز (اگر کسی وجہ سے رہ گئی ہو) پڑھنا جائز ہے دوسری کسی نماز کی اجازت نہیں ہے۔(۱)
(۱) کرہ تحریماً وکل ما لا یجوز مکروہ صلاۃ مطلقا ولو قضاء أو واجبۃ أو نفلا أو علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو لا شکر قنیۃ، مع شروق۔۔۔۔ واستواء وغروب۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰تا ۳۲)
ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ، ولا صلاۃ الجنازۃ، ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۸، مکتبہ: فیصل، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد‘‘ تک بھی پڑھنا سنت ہے اور پورا درود شریف اور اس کے بعد کی دعاء مستحب ہے، پڑھنے پر ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) وسننہا … والصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو ہو قول عامۃ السلف والخلف والدعاء۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فإذا أتم التشہد إلی قولہ عبدہ ورسولہ یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہي سنۃ في الصلوٰۃ عندنا وعند الجمہور۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۲۹۰، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وإذا فرغ من قراء ۃ التشہد ینظر بفکرہ إن علم أنہ إن زاد علیہ یثقل علی القوم لا یزید الدعوات الماثورۃ، وفي تخصیصہ الدعوات إشارۃ إلی أنہ یزید الصلوٰۃ علی ما قدمناہ إلا أنہ یقتصر فیہا علی قولہ: ’’اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد‘‘ لأنہ ہو المفروض عند الشافعي، وبہ تتأدی السنۃ عندنا فلا یزید إلی تمامہا إن کان یثقل علیہم۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۳۵۴، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص374
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تشہد پڑھتے وقت ’’أن‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھانا اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر گرا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جو مسنون ہے اس کے خلاف کرنے والے کا قول بالکل غلط ہے۔
’’کان عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا جلس في الصلاۃ وضع یدیہ علیٰ رکبتیہ وأشار بإصبعہ وأتبعہا بصرہ، ثم قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لہی أشد علی الشیطان من الحدید، یعني السبابۃ‘‘(۱)
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا، ولا یحرکہا‘‘(۲)
(۱) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’مسند عبداللّٰہ بن عمر‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۰۴، رقم: ۶۰۰۰۔
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم:۹۸۹)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص73
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بزرگوں کے ناموں کی منت ماننا اور پھر ان کے ناموں سے بکرے ذبح کرنا اور ان کا کھانا یہ سب باتیں حرام اور ناجائز ہیں ۔ {ولا تأکلوا مما لم یذکراسم اللہ علیہ} اور {ما أہل لغیراللّٰہ} پس اس شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ وہ شخص گناہگار ہے۔(۱)
(۱) فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عبادین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: زید اگرلنگڑا ہے؛ لیکن رکوع سجدہ کرنے پر قادر ہے رکوع سجد ہ اشارہ سے نہیں کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، تاہم دوسرے حضرات اگر امامت کے اہل موجود ہوں جو امامت کے فرائض سے اچھی طرح واقف ہوں تو ان کی امامت مکروہ ہے۔ بہتر ہے کہ دوسرے شخص کو امام بنادیا جائے یعنی افضلیت میں کراہت ہے جواز میں نہیں۔
’’وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ، فالاقتداء بغیرہ أولی‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۲، ۳۰۱۔
ولا قادر علی رکوع وسجود بعاجز عنہما؛ لبناء القوي علی الضعیف (قولہ بعاجز عنہما) أي بمن یومیٔ بہما قائماً أو قاعداً ۔۔۔۔۔ کما سیأتي، قال: والعبرۃ للعجز عن السجود، حتی لو عجز عنہ وقدر علی الرکوع أومأ۔ (أیضًا: ’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ص: ۳۲۴)
وصح اقتداء قائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولٰی۔ (أیضًا: ’’مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ص: ۳۳۶، ۳۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص232