نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پڑھ سکتا ہے۔(۲)

(۲) وأنہ یجوز الصلاۃ خلفہ وإن لم ینو الإمامۃ لأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم شرع في صلاتہ منفردا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۵)
وأما إذا لم ینو الإمام إمامتہا لم تکن داخلۃ في صلاتہ فلا تفسد الصلاۃ علی أحد بالمحاذاۃ عندنا، وقال زفر رحمہ اللّٰہ تعالٰی: یصح اقتداؤہا بہ۔ وإن لم ینو إمامتہا، والقیاس ما قالہ زفر:  فإن الرجل صالح لإمامۃ الرجال والنساء جمیعا، ثم اقتداء الرجال بالرجل صحیح، وإن لم ینو الإمامۃ، فکذلک اقتداء النساء، واستدل بالجمعۃ والعیدین، فإن اقتداء المرأۃ بالرجل صحیح فیہما، وإن لم ینو إمامتہا۔ (للسرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الحدث في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۸۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص460

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: استواء شمس (نصف النہار) کے وقت کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اس وقت کو عام لوگ زوال سے تعبیر کرتے ہیں۔(۱)

(۱) وکرہ تحریماً وکل ما لا یجوز مکروہ صلاۃ مطلقا ولو قضاء أو واجبۃ أو نفلاً أو علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو لا شکر، قنیۃ۔ مع شروق، واستواء۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰،۳۱، زکریا، دیوبند)
ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند إحمرارہا إلی أن تغیب، إلا عصر یومہ ذلک، فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب … والتطوع في ہذہ الأوقات یجوز ویکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیھا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص107

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کے لیے عذر کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے، البتہ اگر عذر نہ ہو تو پہلے ہاتھ رکھنا مکروہ ہوگا۔
’’ثم وضع رکبتیہ ثم یدیہ إن لم یکن بہ عذر من ہذہ الصفۃ‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۵۴۔
عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اسجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذا نہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲، رقم: ۸۳۸؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في وضع رکبتین قبل الیدین‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، رقم: ۲۶۸؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، السجود‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۸۸۲۔
ومن سنن الانتقال أن یکبر مع الانحطاط ولا یرفع یدیہ؛ لما تقدم، ومنہا أن یضع رکبتیہ علی الأرض ثم یدیہ وہذا عندنا، ولنا عین ہذا الحدیث؛ لأن الجمل یضع یدیہ أولا وروي عن عمر وابن مسعود رضي اللّٰہ عنہما مثل قولنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سنن حکم التکبیر أیام التشریق‘‘: ج۲، ص: ۱۴۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص376

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی وضاحت علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں کی ہے کہ: اگر نمازی قرآن پاک دیکھ کر پڑھے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی نماز فاسد ہوجائے گی امام صاحب ؒ کے نزدیک اس کی دو وجہ ہیں، ایک تو یہ کہ قرآن پاک کا اٹھانا، اوراق کا پلٹنا اور اس میں دیکھنا یہ مجموعہ نماز کی جنس سے خارج اور عمل کثیر ہے جس کی نماز میں کوئی گنجائش نہیں ہے؛ لہٰذا اس سے نماز فاسد ہوجائے گی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ نمازی قرآن پاک سے سیکھ رہا ہے اس لیے کہ قرآن پاک سے پڑھنے والے کو متعلّم کہا جاتا ہے تو یہ استاذ سے سیکھنے کے مترادف ہوگیا اور اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس علت کی بنیاد پر دونوں صورتیں مفسد ہوں گی خواہ قرآن اٹھاکر اوراق پلٹتا رہے خواہ قرآن سامنے رکھ کر بغیر اوراق کے پلٹے ہوئے پڑھے۔
’’لو قرأ المصلي من المصحف فصلاتہ فاسدۃ عند أبي حنیفۃ۔۔۔۔ ولأبي حنیفۃ طریقتان:إحداہما أن ما یوجد من حمل المصحف و تقلیب الأوراق والنظر فیہ أعمال کثیرۃ لیست من أعمال الصلاۃ، ولا حاجۃ إلی تحملہا في الصلاۃ فتفسد الصلاۃ والطریقۃ الثانیۃ : أن ہذا یلقن من المصحف فیکون تعلما منہ، ألا تری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلما فصار کما لو تعلم من معلم؛ وذا یفسد الصلاۃ کذا ھذا، وہذہ الطریقۃ لا توجب الفصل بین ما إذا کان حاملا للمصحف مقلبا للأوراق، وبین ما إذا کان موضوعا بین یدیہ ولا یقلب الأوراق۔‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’وذکروا لأبي حنیفۃ في علۃ الفساد وجہین : إحداہما أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر والثاني أنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ، وعلی الثاني لا فرق بین الموضوع والمحمول عندہ، وعلی الأول افترقا وصحح الثاني في الکافي تبعاً لتصحیح السرخسي، وعلیہ لو لم یکن قادراً علی القراء ۃ إلا من المصحف فصلی بلا قراء ۃ ذکر الفضلي أنہا تجزیہ وصححہا في الظہیریۃ عدمہ والظاہر أنہ مفرع علی الوجہ الأول الضعیف بحر‘‘(۲)
جب کہ صاحبین رحمہا اللہ کا قول اس سلسلے میں یہ ہے کہ نماز تام ہوجائے گی لیکن تشبہ کی بنا پر مکروہ ہوگی اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے؛ اہل کتاب بھی نماز میں تورات اور انجیل دیکھ کر پڑھتے ہیں اور یہود کی مشابہت سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں لکھا ہے کہ: امام ابویوسفؒ ومحمدؒ کے نزدیک نماز تام ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے۔
’’وعند أبي یوسف ومحمد تامۃ ویکرہ۔۔۔۔۔۔۔ وقال إلا أنہ یکرہ عندہما لأنہ تشبہ بأہل الکتاب‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فسادِ نماز کے قائل ہیں، صاحبین رحمہما اللہ کراہت کے قائل ہیں؛ لہٰذا نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا مفسد نماز ہے، اس لیے کہ حالتِ نماز میں مصحف اٹھاکر قرأت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلوا کما رأیتموني أصلي‘‘(۱) نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل و حکم دوران نماز ہاتھ کو باندھنے کا ہے جب کہ مصحف کو اٹھانے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کی بجائے ہاتھ میں مصحف تھامے رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کوسیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری‘‘(۲) پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔ اور حکم کو نقل کرتے ہوئے سیدنا سہل بن سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔
’’کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلاۃ‘‘(۳)
مذکورہ روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنہوں نے آپ کو مسئلہ بتایا ہے وہ صحیح ہے اور حنفی مسلک میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، صاحبین رحمہما اللہ اگرچہ کراہت کے قائل ہیں؛ لیکن مفتی بہ قول امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’ فصل: وأما بیان حکم الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع سمع المصلی إسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۴)۔
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل وأما بیان حکم الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر، ج۱، ص۸۸، رقم۶۳۱)۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری بعد تکبیرۃ الإحرام‘‘: ج۱، ص:۱۷۳، رقم: ۴۰۱)۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲، رقم: ۷۴۰)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص76


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے یہاں وتر کی تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ ہیں دو سلام کے ساتھ نہیں ہیں۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلاۃ اللیل مثنی مثنی، فإذا خشي أحدکم الصبح صلی رکعۃ واحدۃ توتر لہ ما قد صلی۔ (أخرجہ البخاری، في صحیحہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء في الوتر‘‘: ج۱، ص: ۱۳۶، رقم:۹۹۰)
والوتر ثلاث رکعات لا یفصل بینہن بسلام۔ (جماعۃ من علماء الہند،…… الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص300

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/876

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمین شریفین میں عصر کی نماز باجماعت اول وقت میں ہی ادا کرنا افضل ہے، البتہ حرمین شریفین کے علاوہ میں حنفی وقت پر ہی حنفی لوگوں کو نماز ادا کرنی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(۱)اس وقت متعدد جنتریاں دائمی اوقات صلوۃ کے نام سے شائع ہیں، جن میں صحیح اوقات نماز درج ہیں، ان کی رہنمائی میں آپ دائمی اوقات صلوۃ مرتب کرسکتے ہیں۔   مثلا ادارہ اشاعت دینیات دہلی نے 'اوقات الصلوۃ' کے نام سے ایک جنتری شائع کی ہے۔  یہ جنتری علماء کی مصدقہ ہے۔ (۲) محترم انس صاحب کی دائمی اوقات پر بھی علماء کی تصدیقات ہیں، انہوں نے جدید علم ہیئت کی مدد سے یہ جنتری شائع کی ہے، جس میں ہندوستان بھر کے ۲۸ سو شہروں کے اوقات دئے گئے ہیں ان کی رہنمائی میں بھی جنتری مرتب کرسکتے ہیں،  (۳) پرانی کتابوں میں صبح صادق  ۱۸/ ڈگری پر ہی لکھا ہے، لیکن یہ غلط ہے، مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ صبح صادق ۱۵/ ڈگری پر ہے،  اس لئے کلینڈر ۱۵/ ڈگری کے اعتبار سے مرتب کیا جائے۔ (۴) یہ طے کرنا بہت مشکل ہے اس لئے کہ اس کا تعلق طول البلد اور عرض البلد سے  جڑا ہوا ہے ، دائمی اوقات صلوۃ کلینڈر میں دیکھ کر یا انٹرنیٹ پر طول البلد اور عرض البلد دیکھ کر ہر شہر کا ٹائم ٹیبل مرتب کیاجائےگا۔ (۵) جنتری مرتب کرنے والے صاحب کو حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی  کا رسالہ 'صبح صادق'  ضرور مطالعہ کرنا چاہئے  اس میں جنتری  مرتب کرنے والوں کو ہدایات بھی دی گئی ہیں ؛ یہ رسالہ احسن الفتاوی جلد دوم میں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1315/42-681

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ سے چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھنا بھی درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔افضل  طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے ، تشہد پڑھے، پھر تیسری رکعت پڑھے اور نماز پوری کرے۔

وأما وجوب القعدة بعد قضاء الأوليين من الركعتين اللتين سبق بهما فنقول القياس أن يقضي الركعتين ثم يقعد إلا أنا استحسنا وتركنا القياس بالأثر وهو ما روي أن جندبا ومسروقا ابتليا بهذا فصلى جندب ركعتين ثم قعد وصلى مسروق ركعة ثم قعد ثم صلى ركعة أخرى فسألا ابن مسعود عن ذلك فقال كلاكما أصاب ولو كنت أنا لصنعت كما صنع مسروق، وإنما حكم بتصويبهما لما أن ذلك من باب الحسن – الی - وأما حكم القراءة في هذه المسألة فنقول: إذا أدرك مع الإمام ركعة من المغرب ثم قام إلى القضاء يقضي ركعتين ويقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة. (بدائع، فصل الکلام فی مسائل السجدات یدور علی اصول 1/249)

ثم قضى أي المأموم الركعتين بتشهدين، لما قدمنا من أن المسبوق يقضي آخر صلاته من حيث الأفعال، فمن هذه الحيثية ما صلاه مع الإمام آخر صلاته، فإذا أتى بركعة مما عليه كانت ثانية صلاته فيقعد ثم يأتي بركعة ويقعد (ردالمحتار، واجبات الصلوۃ-  1/466)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ امام کی اقتداء بلا کراہت درست ہے، کراہت کی کوئی شرعی وجہ موجود نہیں ہے، تاہم کسی دوسرے شخص کو امام بنانا بہتر ہے۔(۱)

(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولیٰ تاترخانیۃ، وکذا أجذم، بیرجندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۲)
ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز وغیرہ أولٰی کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص234

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذمہ داران مسجد اور امام صاحب کے درمیان جو ذمہ داریاں امام نے خوشی سے قبول کرلی ہیں اور وعدہ کر لیا کہ ان فرائض کو پورا کروں گا تو ان کا امام صاحب کے ذمہ پورا کرنا ضروری ہے تب ہی وہ تنخواہ کا مستحق ہوگا۔(۱)
اور جن باتوں کو طے نہیں کیا گیا ان کو کرنا امام صاحب کے ذمہ ضروری نہیں ہے، اگر امام صاحب وہ کام کر دیں تو ان کا احسان اور تبرع ہے اور اس کا اجر وثواب اس کو ملے گا، اس صورت میں صرف امامت اس کی ذمہ داری ہوگی۔ بہتر یہ ہے کہ امام کو صرف امامت کے عہدے پر تقرر کیا جائے اور دیگر کاموں کے لیے دوسرا آدمی رکھ لیا جائے، کیوں کہ منصب عظیم ہے، اس کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے(۲) اگر امام مذکورہ کام کرے، تو اس کی امامت درست ہے۔(۳)

(۱) والثاني وہو الأجیر الخاص ویسمیٰ أجیر وحد وہو من یعمل لواحد عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل الخ۔ اعلم أن الأخیر للخدمۃ أو لرعی الغنم إنما یکون یکون أجبراً خاصاً إذا شرط علیہ أن لا یخدم غیرہ أو لا یرعیٰ لغیرہ أو ذکر المدۃ أولا نحو أن یستأجر راعیاً شہراً لیرعیٰ لہ غنماً مسماۃ بأجر معلوم فإنہ أجیر خاص بأول الکلام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج۹، ص: ۹۴)
(۲) لأن مبنی الإمامۃ علی الفضیلۃ، ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ وکذا کل واحد من الخلفاء الراشدین رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم فی عصرہ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
(۳) فرع: أراد رب الغنم أن یزید فیہا ما یطیق الراعي لہ ذلک لو خاصاً لأنہ في حق الرعي بمنزلۃ العبد ولہ أن یکلف عبدہ من الرعي ما یطیق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج ۹، ص: ۹۴)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص339