نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں نماز دونوں کی صحیح اور درست ہوگئی ہے کیوں کہ امام کے لیے مقتدیوں کی نہ نیت ضروری ہے اور نہ زور سے تکبیر کہنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) بیان ذلک أن الإمام لایصیر إماما إلا إذا ربط المقتدي صلاتہ بصلاتہ فنفس ہذا الارتباط ہو حقیقۃ الإمامۃ وہو غایۃ الاقتداء الذي ہو الربط۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص461

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عصر کی نماز پڑھنے کے بعد نفل و سنت نماز پڑھنا مکروہ ہے چوں کہ فرض عصر کی ادائیگی کے بعد غروب آفتاب تک کا پورا وقت فرض میں شمار ہوتا ہے پس اگر نفل نماز پڑھی جائے گی تو اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ پر اکتفاء کرنا لازم آئے گا، اس لیے نوافل کو مکروہ قرار دیا ہے لیکن اگر کسی نے نفل نماز پڑھی، تو کراہت کے ساتھ نفل ادا ہوگئی۔(۱)

(۱) والتطوع في ہذہ الأوقات یجوز ویکرہ، کذا في الکافي وشرح الطحاوي حتی لو شرع في التطوع عند طلوع الشمس أو غروبہا … ولو أتمہ خرج عن عہدۃ ما لزمہ بذلک الخ۔۔۔۔  وقد أساء ولا شيء علیہ، کذا في شرح الطحاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸، ۱۰۹)
وینعقد نفل بشروع فیہا بکراہۃ التحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج ۱، ص: ۳۴، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص107

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ فرض وشرط ہے اور دیگر تکبیرات مسنون ہیں صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی، لیکن ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہنا ہی مسنون ہے۔(۲)

(۲) فرائض الصلاۃ ستۃ التحریمۃ لقولہ تعالیٰ: {وربک فکبر} (المدثر: ۳) والمراد تکبیرۃ الافتتاح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰)
وإذا اطمأن راکعا رفع رأسہ وقال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ولم یرفع یدیہ فیحتاج فیہ إلی بیان المفروض والمسنون۔
أما المفروض فقد ذکرناہ وہو الانتقال من الرکوع إلی السجود لما بینا أنہ وسیلۃ إلی الرکن، فأما رفع الرأس وعودہ إلی القیام فہو تعدیل الانتقال وأنہ لیس بفرض عند أبي حنیفۃ ومحمد بل ہو واجب أو سنۃ عندہما وعند أبي یوسف والشافعي فرض علی ما مر۔
وروي عن أبي حنیفۃ مثل قولہما، احتجوا بما روي عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إذا رفع رأسہ من الرکوع قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد‘‘ وغالب أحوالہ کان ہو الإمام، وکذا روي أبو ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ؛ ولأن الإمام منفرد في حق نفسہ والمنفرد یجمع بین ہذین الذکرین فکذا الإمام، ولأن التسمیع تحریض علی التحمید فلا ینبغي أن یأمر غیرہ بالبر وینسي نفسہ کي لا یدخل تحت قولہ تعالی: {أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم وأنتم تتلون الکتاب} (البقرۃ: ۴۴) (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹) (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص377

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  نماز درست ہوگئی عمداً ایسا کرنا غلط ہے نیز صحیح ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) السنۃ في تسبیح الرکوع سبحان ربي العظیم، إلا إذا کان لایحسن الظاء فیبدل بہ الکریم، لئلا یجری علی لسانہ العزیم، فتفسد بہ الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ و السورۃ حسن ‘‘: ج۲، ص: ۱۹۸)
لو قرأ في الصلاۃ الحمد للّٰہ بالہاء مکان الحاء أو کل ہواللّٰہ أحد بالکاف مکان القاف والحال أنہ لایقدر علی غیرہ کما في الأتراک وغیرہم تجوز صلاتہ ولاتفسد۔ (إبراہیم الحلبي،  الحلبي الکبیري: ص: ۴۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ کبھی کبھی کوئی دوسری سورت پڑھ لیں تاکہ التزام نہ ہو کیوں کہ التزام بدعت ہے۔ البتہ سنت طریقہ یہ ہے کہ وتر کی نماز میں سورۂ اعلی، سورہ کافرون اوراخلاص پڑھی جائے۔(۲)

(۲) والسنۃ السور الثلاث، أي؛ الأعلی: والکفرون: والإخلاص: لکن في النہایۃ أن التعیین علی الدوام یفضي إلی اعتقاد بعض الناس أنہ واجب، وہو لایجوز، فلو قرأ بما ورد بہ الآثار أحیاناً بلا مواظبۃ یکون حسناً۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار،’’باب الوتر والنوافل، مطلب في منکر الوتر الخ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۱، زکریا)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وقل یٰأیہا الکافرون، وقل ہو اللّٰہ أحد۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء ما یقرأ في الوتر‘‘: ج۱، ص:۱۰۶ ، رقم:۴۶۲؛ و أخرجہ النسائي ، في سننہ،ج۳، ص۱۱۸رقم: ۱۷۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص300

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1316/42-680

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگر کوئی منافئ صلوۃ کام نہیں کیا بلکہ اسی جگہ نماز کی ہیئت پر رہتے ہوئے استغفراللہ پڑھتے ہوئے یاد آیا اور سجدہ سہو کرلیا تو سجدہ سہو معتبر ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی۔  لیکن اگر کوئی عمل کثیر کرلیا تھا یا اور کوئی منافئ نماز کام کرلیا تو پھر سجدہ سہو کی بناء درست نہیں ہوگی اور وقت کے اندرنماز لوٹانی ہوگی۔  

ویسجد للسہو ولو مع سلامہ ناویا للقطع لأن نیة تغییر المشروع لغو ما لم یتحول عن القبلة أو یتکلم۔۔۔ (شامی 2/558) "ويسجد للسهو" وجوبا "وإن سلم عامدا" مريدا "للقطع" لأن مجرد نية تغيير المشروع لا تبطله ولا تعتبر مع سلام غير مستحق وهو ذكر فيسجد للسهو لبقاء حرمة الصلاة "ما لم يتحول عن القبلة أو يتكلم" لإبطالهما التحريمة وقيل التحول لا يضره ما لم يخرج من المسجد أو يتكلم (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب سجود السھو  1/472)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2234/44-2375

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحراء  میں جمعہ کی نماز درست نہیں، اس لئے آپ لوگ صحراء میں ظہر کی نماز ادا کریں۔  جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ قصبہ، بڑے گاؤں، شہر یا فنائے شہر میں ادا کی جائے۔

إعلاء السنن: (1/8، ط: ادارۃ القرآن)
عن علی رضی الله تعالی عنه قال : لا جمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا اضحي الا في مصر جامع أو مدينة عظيمة.
رد المحتار: (537/1، ط: سعید)
"
وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق،.... وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة".
و فيه أيضًا: (138/2، ط: سعید)
"
لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات".
بدائع الصنائع: (260/2، ط: سعید)
"
عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح"
الھندیة: (145/1)
ولا جمعۃ بعرفات اتفاقاً کذا في الکافي۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱، ۲) اقتداء کے لیے ضروری ہے کہ مقتدی کو امام کے احوال سے واقفیت ہو تاکہ مقتدی حضرات ارکان میں امام کی مکمل اتباع کرسکیں اسی لیے پہلے جب کہ مائک وغیرہ کا نظم نہیں ہوتا تھا، تو مسجدکی دوسری منزل پہ نماز کے لیے پہلی منزل کی چھت کے سامنے کا حصہ  کھلا رکھاجاتا تھا تاکہ امام صاحب کی آواز اس کھلے حصے سے اوپر آجائے اور مقتدی حضرات ارکان میں امام کی پیروی کرسکیں اس کے علاوہ کھلا حصہ رکھنے کا بظاہر کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا ہے؛ اب جب مائک کے ذریعہ آواز دوسری منزل میں پہونچ جاتی ہے، تو وہ حصہ کھلا رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اوپر کا حصہ مکمل بند ہوجائے او رمقتدی حضرات کو امام کے احوال کا علم ہوجائے، تو نماز بلا کراہت ہوجائے گی۔(۱)
(۳) اقتداء کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط امام او رمقتدی کے مکان کا متحد ہوناہے۔ یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو۔ مثلاً مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے؛ لیکن مسجد میں امام صاحب ہوں اور دوسرے مکان میں مقتدی ہو، تو اگر چہ اسپیکر کے ذریعہ آواز پہونچ رہی ہو لیکن اقتدا درست نہیں ہے ہاں! اگر مسجد میں جگہ پرُ ہوجائے اور مسجد سے متصل جگہ میں لوگ نماز پڑھیں اور درمیان میں گاڑی وغیرہ گزرنے کے بقدر فاصلہ نہ ہو، تو نماز درست ہے۔(۱)
(۴) اپنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد پیچھے راستہ ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؛ لیکن کھڑے ہوکر مسجد سے نکلنے کا انتظار کرنا مناسب نہیں؛ اس لیے کہ اس سے سامنے والے کی نماز میں خلل واقع ہوتاہے۔
(۵) عمل کثیر اور عمل قلیل کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں، اکثر علما کے نزدیک راجح تعریف یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص نمازی کو اس عمل کی وجہ سے یقین یا غالب گمان کے درجہ میں یہ سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں، نماز سے باہر ہے تو وہ عمل کثیر ہے، اور اگر اسے محض شک ہو یا شک بھی نہ ہو؛ بلکہ اس عمل کے باوجود دیکھنے والا اسے نماز ہی میں سمجھے تو وہ عمل قلیل ہے۔(۲)
(۶) عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(۳)

(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۴-۳۳۳)
(۱) قد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵)
من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۰۵)
(۲) والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید إن کان لایشک أنہ في غیر الصلاۃ فہو کثیر مفسد، وإن شک فلیس بمفسد، وہذا ہو الأصح، ھکذا في التبیین، وھو أحسن کذا محیط السرخسي، وھو اختیار العامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان والخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۵۶)  وفیہ أقوال، أصحہا مالایشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیھا فقلیل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۵، ط مکتبہ زکریا دیوبند)
(۳) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص:۳۸۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص462

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اوقات ثلاثہ میں پڑھی ہوئی قضاء نمازیں واجب الاعادہ ہیں(۲)؛ کیوں کہ ان تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے(۳) خواہ فرض نماز ہو یا نفل، اداء نماز ہو یا قضا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:
’’ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)

(۲) ولو قضی فیہا فرضا أي صلوٰۃ مفروضۃ یعیدہا أي یلزمہ إعادتہا لعدم صحتہا لما قدمناہ من أنہا وجبت بسبب کامل فلا تتأدی بالسبب الناقص۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۰۸)
(۳) وکرہ تحریماً وکل ما لا یجوز مکروہ صلاۃ مطلقا ولو قضاء أو واجبۃ أو نفلاً أو علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو لا شکر، قنیۃ مع شروق… وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ تلیت الآیۃ في کامل وحضرت الجنازۃ قبل لوجوبہ کاملاً فلا یتأدی ناقصا فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أي تحریماً وفي التحفۃ: الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۰- ۳۵)
(۱)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا: ج ۱، ص: ۱۰۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص108

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز شروع کرنے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء کے بعد تعوذ و تسمیہ سنت ہے؛ لیکن یہ سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ اس کی صراحت مجھے نہیں ملی؛ البتہ فقہاء کی تعبیرات سے معلوم ہوتاہے کہ بسم اللہ پڑھنا سنت مؤکدہ ہے؛ اس لیے کہ بہت سے فقہاء نے اسے واجب قرار دیا ہے اگر چہ ترجیح سنت کو دی ہے؛ لیکن واجب کا قول اس کے سنت مؤکدہ ہونے کی طرف مشیر ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘(۲)

’’وکما تعوذ سمی سراً في أول کل رکعۃ وذکر في ’’المصفی‘‘ أن الفتوی علی قول أبي یوسف أنہ یسمي في أول کل رکعۃ ویخفیہا‘‘(۱)
’’فتجب في ابتداء الذبح، و في ابتداء الفاتحۃ في کل رکعۃ قیل ہو قول الأکثر؛ لکن الأصح أنہا سنۃ، قال العلامۃ ظفر أحمد العثماني: نقلا عن الشرنبلالي و تسن التسمیۃ أول رکعۃ قبل الفاتحۃ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘(۲)

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوٰۃ: باب من رأي الجہر ببسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، کتب خانہ اشرفی دیوبند۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب لفظ الفتویٰ أکدو أبلغ ، ج ۲، ص: ۲۹۱، ۲۹۲، زکریا دیوبند؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’والثناء والتعوذ والتسمیۃ والتأمین سراً‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۸، زکریا دیوبند
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’مقدمۃ الکتاب: عنوان، تقدیم المؤلف حول البسملۃ والحمد لہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص378