نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(۱)اس وقت متعدد جنتریاں دائمی اوقات صلوۃ کے نام سے شائع ہیں، جن میں صحیح اوقات نماز درج ہیں، ان کی رہنمائی میں آپ دائمی اوقات صلوۃ مرتب کرسکتے ہیں۔   مثلا ادارہ اشاعت دینیات دہلی نے 'اوقات الصلوۃ' کے نام سے ایک جنتری شائع کی ہے۔  یہ جنتری علماء کی مصدقہ ہے۔ (۲) محترم انس صاحب کی دائمی اوقات پر بھی علماء کی تصدیقات ہیں، انہوں نے جدید علم ہیئت کی مدد سے یہ جنتری شائع کی ہے، جس میں ہندوستان بھر کے ۲۸ سو شہروں کے اوقات دئے گئے ہیں ان کی رہنمائی میں بھی جنتری مرتب کرسکتے ہیں،  (۳) پرانی کتابوں میں صبح صادق  ۱۸/ ڈگری پر ہی لکھا ہے، لیکن یہ غلط ہے، مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ صبح صادق ۱۵/ ڈگری پر ہے،  اس لئے کلینڈر ۱۵/ ڈگری کے اعتبار سے مرتب کیا جائے۔ (۴) یہ طے کرنا بہت مشکل ہے اس لئے کہ اس کا تعلق طول البلد اور عرض البلد سے  جڑا ہوا ہے ، دائمی اوقات صلوۃ کلینڈر میں دیکھ کر یا انٹرنیٹ پر طول البلد اور عرض البلد دیکھ کر ہر شہر کا ٹائم ٹیبل مرتب کیاجائےگا۔ (۵) جنتری مرتب کرنے والے صاحب کو حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی  کا رسالہ 'صبح صادق'  ضرور مطالعہ کرنا چاہئے  اس میں جنتری  مرتب کرنے والوں کو ہدایات بھی دی گئی ہیں ؛ یہ رسالہ احسن الفتاوی جلد دوم میں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1315/42-681

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ سے چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھنا بھی درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔افضل  طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے ، تشہد پڑھے، پھر تیسری رکعت پڑھے اور نماز پوری کرے۔

وأما وجوب القعدة بعد قضاء الأوليين من الركعتين اللتين سبق بهما فنقول القياس أن يقضي الركعتين ثم يقعد إلا أنا استحسنا وتركنا القياس بالأثر وهو ما روي أن جندبا ومسروقا ابتليا بهذا فصلى جندب ركعتين ثم قعد وصلى مسروق ركعة ثم قعد ثم صلى ركعة أخرى فسألا ابن مسعود عن ذلك فقال كلاكما أصاب ولو كنت أنا لصنعت كما صنع مسروق، وإنما حكم بتصويبهما لما أن ذلك من باب الحسن – الی - وأما حكم القراءة في هذه المسألة فنقول: إذا أدرك مع الإمام ركعة من المغرب ثم قام إلى القضاء يقضي ركعتين ويقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة. (بدائع، فصل الکلام فی مسائل السجدات یدور علی اصول 1/249)

ثم قضى أي المأموم الركعتين بتشهدين، لما قدمنا من أن المسبوق يقضي آخر صلاته من حيث الأفعال، فمن هذه الحيثية ما صلاه مع الإمام آخر صلاته، فإذا أتى بركعة مما عليه كانت ثانية صلاته فيقعد ثم يأتي بركعة ويقعد (ردالمحتار، واجبات الصلوۃ-  1/466)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ امام کی اقتداء بلا کراہت درست ہے، کراہت کی کوئی شرعی وجہ موجود نہیں ہے، تاہم کسی دوسرے شخص کو امام بنانا بہتر ہے۔(۱)

(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولیٰ تاترخانیۃ، وکذا أجذم، بیرجندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۲)
ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز وغیرہ أولٰی کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص234

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذمہ داران مسجد اور امام صاحب کے درمیان جو ذمہ داریاں امام نے خوشی سے قبول کرلی ہیں اور وعدہ کر لیا کہ ان فرائض کو پورا کروں گا تو ان کا امام صاحب کے ذمہ پورا کرنا ضروری ہے تب ہی وہ تنخواہ کا مستحق ہوگا۔(۱)
اور جن باتوں کو طے نہیں کیا گیا ان کو کرنا امام صاحب کے ذمہ ضروری نہیں ہے، اگر امام صاحب وہ کام کر دیں تو ان کا احسان اور تبرع ہے اور اس کا اجر وثواب اس کو ملے گا، اس صورت میں صرف امامت اس کی ذمہ داری ہوگی۔ بہتر یہ ہے کہ امام کو صرف امامت کے عہدے پر تقرر کیا جائے اور دیگر کاموں کے لیے دوسرا آدمی رکھ لیا جائے، کیوں کہ منصب عظیم ہے، اس کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے(۲) اگر امام مذکورہ کام کرے، تو اس کی امامت درست ہے۔(۳)

(۱) والثاني وہو الأجیر الخاص ویسمیٰ أجیر وحد وہو من یعمل لواحد عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل الخ۔ اعلم أن الأخیر للخدمۃ أو لرعی الغنم إنما یکون یکون أجبراً خاصاً إذا شرط علیہ أن لا یخدم غیرہ أو لا یرعیٰ لغیرہ أو ذکر المدۃ أولا نحو أن یستأجر راعیاً شہراً لیرعیٰ لہ غنماً مسماۃ بأجر معلوم فإنہ أجیر خاص بأول الکلام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج۹، ص: ۹۴)
(۲) لأن مبنی الإمامۃ علی الفضیلۃ، ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ وکذا کل واحد من الخلفاء الراشدین رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم فی عصرہ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
(۳) فرع: أراد رب الغنم أن یزید فیہا ما یطیق الراعي لہ ذلک لو خاصاً لأنہ في حق الرعي بمنزلۃ العبد ولہ أن یکلف عبدہ من الرعي ما یطیق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج ۹، ص: ۹۴)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص339

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں نماز دونوں کی صحیح اور درست ہوگئی ہے کیوں کہ امام کے لیے مقتدیوں کی نہ نیت ضروری ہے اور نہ زور سے تکبیر کہنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) بیان ذلک أن الإمام لایصیر إماما إلا إذا ربط المقتدي صلاتہ بصلاتہ فنفس ہذا الارتباط ہو حقیقۃ الإمامۃ وہو غایۃ الاقتداء الذي ہو الربط۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص461

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عصر کی نماز پڑھنے کے بعد نفل و سنت نماز پڑھنا مکروہ ہے چوں کہ فرض عصر کی ادائیگی کے بعد غروب آفتاب تک کا پورا وقت فرض میں شمار ہوتا ہے پس اگر نفل نماز پڑھی جائے گی تو اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ پر اکتفاء کرنا لازم آئے گا، اس لیے نوافل کو مکروہ قرار دیا ہے لیکن اگر کسی نے نفل نماز پڑھی، تو کراہت کے ساتھ نفل ادا ہوگئی۔(۱)

(۱) والتطوع في ہذہ الأوقات یجوز ویکرہ، کذا في الکافي وشرح الطحاوي حتی لو شرع في التطوع عند طلوع الشمس أو غروبہا … ولو أتمہ خرج عن عہدۃ ما لزمہ بذلک الخ۔۔۔۔  وقد أساء ولا شيء علیہ، کذا في شرح الطحاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸، ۱۰۹)
وینعقد نفل بشروع فیہا بکراہۃ التحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج ۱، ص: ۳۴، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص107

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ فرض وشرط ہے اور دیگر تکبیرات مسنون ہیں صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی، لیکن ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہنا ہی مسنون ہے۔(۲)

(۲) فرائض الصلاۃ ستۃ التحریمۃ لقولہ تعالیٰ: {وربک فکبر} (المدثر: ۳) والمراد تکبیرۃ الافتتاح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰)
وإذا اطمأن راکعا رفع رأسہ وقال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ولم یرفع یدیہ فیحتاج فیہ إلی بیان المفروض والمسنون۔
أما المفروض فقد ذکرناہ وہو الانتقال من الرکوع إلی السجود لما بینا أنہ وسیلۃ إلی الرکن، فأما رفع الرأس وعودہ إلی القیام فہو تعدیل الانتقال وأنہ لیس بفرض عند أبي حنیفۃ ومحمد بل ہو واجب أو سنۃ عندہما وعند أبي یوسف والشافعي فرض علی ما مر۔
وروي عن أبي حنیفۃ مثل قولہما، احتجوا بما روي عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إذا رفع رأسہ من الرکوع قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد‘‘ وغالب أحوالہ کان ہو الإمام، وکذا روي أبو ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ؛ ولأن الإمام منفرد في حق نفسہ والمنفرد یجمع بین ہذین الذکرین فکذا الإمام، ولأن التسمیع تحریض علی التحمید فلا ینبغي أن یأمر غیرہ بالبر وینسي نفسہ کي لا یدخل تحت قولہ تعالی: {أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم وأنتم تتلون الکتاب} (البقرۃ: ۴۴) (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹) (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص377

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  نماز درست ہوگئی عمداً ایسا کرنا غلط ہے نیز صحیح ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) السنۃ في تسبیح الرکوع سبحان ربي العظیم، إلا إذا کان لایحسن الظاء فیبدل بہ الکریم، لئلا یجری علی لسانہ العزیم، فتفسد بہ الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ و السورۃ حسن ‘‘: ج۲، ص: ۱۹۸)
لو قرأ في الصلاۃ الحمد للّٰہ بالہاء مکان الحاء أو کل ہواللّٰہ أحد بالکاف مکان القاف والحال أنہ لایقدر علی غیرہ کما في الأتراک وغیرہم تجوز صلاتہ ولاتفسد۔ (إبراہیم الحلبي،  الحلبي الکبیري: ص: ۴۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ کبھی کبھی کوئی دوسری سورت پڑھ لیں تاکہ التزام نہ ہو کیوں کہ التزام بدعت ہے۔ البتہ سنت طریقہ یہ ہے کہ وتر کی نماز میں سورۂ اعلی، سورہ کافرون اوراخلاص پڑھی جائے۔(۲)

(۲) والسنۃ السور الثلاث، أي؛ الأعلی: والکفرون: والإخلاص: لکن في النہایۃ أن التعیین علی الدوام یفضي إلی اعتقاد بعض الناس أنہ واجب، وہو لایجوز، فلو قرأ بما ورد بہ الآثار أحیاناً بلا مواظبۃ یکون حسناً۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار،’’باب الوتر والنوافل، مطلب في منکر الوتر الخ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۱، زکریا)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وقل یٰأیہا الکافرون، وقل ہو اللّٰہ أحد۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء ما یقرأ في الوتر‘‘: ج۱، ص:۱۰۶ ، رقم:۴۶۲؛ و أخرجہ النسائي ، في سننہ،ج۳، ص۱۱۸رقم: ۱۷۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص300

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1316/42-680

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگر کوئی منافئ صلوۃ کام نہیں کیا بلکہ اسی جگہ نماز کی ہیئت پر رہتے ہوئے استغفراللہ پڑھتے ہوئے یاد آیا اور سجدہ سہو کرلیا تو سجدہ سہو معتبر ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی۔  لیکن اگر کوئی عمل کثیر کرلیا تھا یا اور کوئی منافئ نماز کام کرلیا تو پھر سجدہ سہو کی بناء درست نہیں ہوگی اور وقت کے اندرنماز لوٹانی ہوگی۔  

ویسجد للسہو ولو مع سلامہ ناویا للقطع لأن نیة تغییر المشروع لغو ما لم یتحول عن القبلة أو یتکلم۔۔۔ (شامی 2/558) "ويسجد للسهو" وجوبا "وإن سلم عامدا" مريدا "للقطع" لأن مجرد نية تغيير المشروع لا تبطله ولا تعتبر مع سلام غير مستحق وهو ذكر فيسجد للسهو لبقاء حرمة الصلاة "ما لم يتحول عن القبلة أو يتكلم" لإبطالهما التحريمة وقيل التحول لا يضره ما لم يخرج من المسجد أو يتكلم (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب سجود السھو  1/472)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند