Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: وہ بھنگی جس کو عرف عام میں حلال خور مسلمان کہتے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنا درست ہے اور ان کے بچہ کے کان میں اذان پڑھنا بھی درست ہے لہٰذا اس پر اعتراض نہ کیا جائے مذکورہ شخص کی امامت بھی درست اور جائز ہے۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ثم (الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن۔ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اہل حدیث کی نماز حنفی امام کی اقتداء میں بلاشبہ درست ہے، نیز اہل حدیث، احناف کی مسجد میں حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو صرف اہل حدیث ہونے کی وجہ سے اس کو منع کرنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۴۹)
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِھَاط اُولٰٓئِک مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ۵ط لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌہ۱۱۴} (سورۃ البقرۃ: ۱۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص459
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر اسی وقت جنازہ آیا ہو، تو پڑھ سکتے ہیں مکروہ نہیں ہے۔ پہلے آیا ہو تو تا خیر کرکے زوال کے وقت پڑھنا ممنوع ہے۔(۲)
(۲) وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ تلیت الآیۃ في کامل وحضرت الجنازۃ قبل لوجوبہ کاملاً فلا یتأدی ناقصاً فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أي تحریماً۔ وفي التحفۃ: الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۴)
أما لو وجبتا في ہذ الوقت وأدیتا فیہ جاز، لأنہا أدیت ناقصۃ کما وجبت۔۔۔۔ وفي صلاۃ الجنازۃ التأخیر مکروہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص105
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی عذر نہ ہو، تو سجدے میں جاتے ہوئے، پہلے گھٹنے رکھے، پھر دونوں ہاتھ رکھے، یہ سنت طریقہ ہے، بلاعذر اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ البتہ اگر کوئی عذر ہو جیسے بڑھاپا یا بدن بھاری ہو اور پہلے گھٹنے رکھنے میں تکلیف ہو، تو اس صورت میں، پہلے ہاتھ رکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ جیسا کہ مرقی الفلاح میں لکھا ہے:
’’ثم کبر کل مصل خاراً للسجود۔۔۔۔ ثم وضع رکبتیہ ثم یدیہ إن لم یکن بہ عذر یمنعہ من ہذہ الصفۃ‘‘(۱)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۵۔
عن وائل بن حجر -رضي اللّٰہ عنہ- قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذا نہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲، رقم: ۸۳۸)
أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في وضع الیدین قبل الرکبتین في السجود‘‘: ج ۱، ص:۶۱، رقم: ۲۶۸؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ:، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، السجود‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶، رقم: ۸۸۲۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃؓ‘‘: ج ۵، ص: ۵۱۵، رقم: ۸۹۵۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص374
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں شراب یا پیشاب کی شیشی کے جیب میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی نماز درست نہیں ہوئی، اعادہ ضروری ہوگا۔
’’بخلاف ما لو حمل قارورۃ مضمومۃ فیہا بول فلا تجوز صلاتہ لأنہ في غیر معدنہ کما في البحر عن المحیط‘‘(۳)
’’رجل صلی وفي کمہ قارورۃ فیہا بول لا تجوز الصلاۃ سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن لأن ہذا لیس في مظانہ ومعدنہ‘‘(۴)
(۳) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۴، زکریا دیوبند۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ومما یتصل بذلک مسائل تحت شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص74
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 40/883
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عالم کی بات درست ہے، اسے سترہ سمجھنے کی صورت میں نمازی کو اسی تک نگاہ رکھنی چاہئے، نگاہ آگے نہ بڑھائے توجہ محدود رکھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال ایسے شخص کی امامت درست ہے۔(۱)
(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولٰی تاترخانیۃ وکذا أجذم، بیر جندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص233
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال معقول شرعی عذر کا ہونا ضروری ہے مذکورہ لوگوں کی دلیل درست نہیں اس لیے ان کی بات معتبر نہیں ہے۔(۱)
(۱) ومن حکمہا نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم، قال الشامي: نظام الألفۃ بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۲)
ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قومًا وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص337
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے بعد مقتدی نے بھی سجدہ کرلیا اس لیے نماز واقتدا درست ہوگئی ’’کما لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أومعاقبا وشارکہ فیہ أو بعد مارفع منہ الخ‘‘(۱) لیکن امام کو اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے کہ مقتدی اس کے ساتھ شامل نہ ہوپائے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص : ۱۶۶۔
نعم تکون المتابعۃ فرضا؛ بمعنی أن یأتی بالفرض مع إمامہ أو بعدہ، کما لو رکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقبا وشارکہ فیہ أو بعد ما رفع منہ، فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص459
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک اور عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ ان دونوں وقتوں میں قضائے عمری پڑھنا اور سجدہ تلاوت کرنا درست وجائز ہے؛ لیکن سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت قضاء نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔(۱)
(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل ومافی معناہا لا الفرائض، ہکذا في النہایۃ والکفایۃ۔ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان، منہا: ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔۔۔۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ الفجر قبل طلوع الشمس۔۔۔۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التی لاتجوز الصلاۃ فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹، زکریا، دیوبند)
ولو سنۃ الفجر، بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر ولو المجموعۃ بعرفۃ لا یکرہ قضاء فائتۃ ولو وترا أو سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ وکذا الحکم من کراہۃ نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ بعد طلوع فجر سوی سنتہ … وفیہ جواب عما أوردہ من أن قولہ علیہ السلام: لا صلاۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس، رواہ الشیخان یعم النفل وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص106