Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2234/44-2375
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحراء میں جمعہ کی نماز درست نہیں، اس لئے آپ لوگ صحراء میں ظہر کی نماز ادا کریں۔ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ قصبہ، بڑے گاؤں، شہر یا فنائے شہر میں ادا کی جائے۔
إعلاء السنن: (1/8، ط: ادارۃ القرآن)
عن علی رضی الله تعالی عنه قال : لا جمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا اضحي الا في مصر جامع أو مدينة عظيمة.
رد المحتار: (537/1، ط: سعید)
"وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق،.... وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة".
و فيه أيضًا: (138/2، ط: سعید)
"لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات".
بدائع الصنائع: (260/2، ط: سعید)
"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح"
الھندیة: (145/1)
ولا جمعۃ بعرفات اتفاقاً کذا في الکافي۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: (۱، ۲) اقتداء کے لیے ضروری ہے کہ مقتدی کو امام کے احوال سے واقفیت ہو تاکہ مقتدی حضرات ارکان میں امام کی مکمل اتباع کرسکیں اسی لیے پہلے جب کہ مائک وغیرہ کا نظم نہیں ہوتا تھا، تو مسجدکی دوسری منزل پہ نماز کے لیے پہلی منزل کی چھت کے سامنے کا حصہ کھلا رکھاجاتا تھا تاکہ امام صاحب کی آواز اس کھلے حصے سے اوپر آجائے اور مقتدی حضرات ارکان میں امام کی پیروی کرسکیں اس کے علاوہ کھلا حصہ رکھنے کا بظاہر کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا ہے؛ اب جب مائک کے ذریعہ آواز دوسری منزل میں پہونچ جاتی ہے، تو وہ حصہ کھلا رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اوپر کا حصہ مکمل بند ہوجائے او رمقتدی حضرات کو امام کے احوال کا علم ہوجائے، تو نماز بلا کراہت ہوجائے گی۔(۱)
(۳) اقتداء کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط امام او رمقتدی کے مکان کا متحد ہوناہے۔ یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو۔ مثلاً مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے؛ لیکن مسجد میں امام صاحب ہوں اور دوسرے مکان میں مقتدی ہو، تو اگر چہ اسپیکر کے ذریعہ آواز پہونچ رہی ہو لیکن اقتدا درست نہیں ہے ہاں! اگر مسجد میں جگہ پرُ ہوجائے اور مسجد سے متصل جگہ میں لوگ نماز پڑھیں اور درمیان میں گاڑی وغیرہ گزرنے کے بقدر فاصلہ نہ ہو، تو نماز درست ہے۔(۱)
(۴) اپنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد پیچھے راستہ ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؛ لیکن کھڑے ہوکر مسجد سے نکلنے کا انتظار کرنا مناسب نہیں؛ اس لیے کہ اس سے سامنے والے کی نماز میں خلل واقع ہوتاہے۔
(۵) عمل کثیر اور عمل قلیل کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں، اکثر علما کے نزدیک راجح تعریف یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص نمازی کو اس عمل کی وجہ سے یقین یا غالب گمان کے درجہ میں یہ سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں، نماز سے باہر ہے تو وہ عمل کثیر ہے، اور اگر اسے محض شک ہو یا شک بھی نہ ہو؛ بلکہ اس عمل کے باوجود دیکھنے والا اسے نماز ہی میں سمجھے تو وہ عمل قلیل ہے۔(۲)
(۶) عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(۳)
(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۴-۳۳۳)
(۱) قد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵)
من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۰۵)
(۲) والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید إن کان لایشک أنہ في غیر الصلاۃ فہو کثیر مفسد، وإن شک فلیس بمفسد، وہذا ہو الأصح، ھکذا في التبیین، وھو أحسن کذا محیط السرخسي، وھو اختیار العامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان والخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۵۶) وفیہ أقوال، أصحہا مالایشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیھا فقلیل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۵، ط مکتبہ زکریا دیوبند)
(۳) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص:۳۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص462
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اوقات ثلاثہ میں پڑھی ہوئی قضاء نمازیں واجب الاعادہ ہیں(۲)؛ کیوں کہ ان تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے(۳) خواہ فرض نماز ہو یا نفل، اداء نماز ہو یا قضا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:
’’ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)
(۲) ولو قضی فیہا فرضا أي صلوٰۃ مفروضۃ یعیدہا أي یلزمہ إعادتہا لعدم صحتہا لما قدمناہ من أنہا وجبت بسبب کامل فلا تتأدی بالسبب الناقص۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۰۸)
(۳) وکرہ تحریماً وکل ما لا یجوز مکروہ صلاۃ مطلقا ولو قضاء أو واجبۃ أو نفلاً أو علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو لا شکر، قنیۃ مع شروق… وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ تلیت الآیۃ في کامل وحضرت الجنازۃ قبل لوجوبہ کاملاً فلا یتأدی ناقصا فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أي تحریماً وفي التحفۃ: الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۰- ۳۵)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا: ج ۱، ص: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص108
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز شروع کرنے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء کے بعد تعوذ و تسمیہ سنت ہے؛ لیکن یہ سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ اس کی صراحت مجھے نہیں ملی؛ البتہ فقہاء کی تعبیرات سے معلوم ہوتاہے کہ بسم اللہ پڑھنا سنت مؤکدہ ہے؛ اس لیے کہ بہت سے فقہاء نے اسے واجب قرار دیا ہے اگر چہ ترجیح سنت کو دی ہے؛ لیکن واجب کا قول اس کے سنت مؤکدہ ہونے کی طرف مشیر ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘(۲)
’’وکما تعوذ سمی سراً في أول کل رکعۃ وذکر في ’’المصفی‘‘ أن الفتوی علی قول أبي یوسف أنہ یسمي في أول کل رکعۃ ویخفیہا‘‘(۱)
’’فتجب في ابتداء الذبح، و في ابتداء الفاتحۃ في کل رکعۃ قیل ہو قول الأکثر؛ لکن الأصح أنہا سنۃ، قال العلامۃ ظفر أحمد العثماني: نقلا عن الشرنبلالي و تسن التسمیۃ أول رکعۃ قبل الفاتحۃ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘(۲)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوٰۃ: باب من رأي الجہر ببسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، کتب خانہ اشرفی دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب لفظ الفتویٰ أکدو أبلغ ، ج ۲، ص: ۲۹۱، ۲۹۲، زکریا دیوبند؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’والثناء والتعوذ والتسمیۃ والتأمین سراً‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۸، زکریا دیوبند
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’مقدمۃ الکتاب: عنوان، تقدیم المؤلف حول البسملۃ والحمد لہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص378
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عمل کثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ مفتی بہ اورراجح قول یہ ہے کہ نماز میں ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ یہ نماز میں نہیں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جو کام عام طور پر دوہاتھوں سے کیا جاتا ہے مثلاً عمامہ باندھنا ایسا کام کرنا عمل کثیر شمار ہوتا ہے اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عمل قلیل ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکات متوالیہ یعنی تین بار سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل۔
اگر کسی شخص نے ایک رکن (قعدہ، سجدہ، یا تشہد) میں تین بار حرکت کی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہاں اگر ہردفعہ حرکت کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور تینوں حرکات متوالیہ ہوں یعنی ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین دفعہ سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا مالایشک بسبہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل‘‘(۱)
’’الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل وقیل یفوض إلی رأي المصلي إن استکثرہ فکثیر وإلا فلا وعامۃ المشائخ علی الأول وقال الحلواني: إن الثالث أقرب علی مذہب أبي حنیفۃ لأن مذہبہ التفویض إلی رأي المبتلی بہ في کثیر من المواضع ولکن ہذا غیر مضبوط وتفویض مثلہ إلی رأي العوام مما لاینبغي وأکثر الفروع أو جمیعہا مخرج علی أحد الطریقین الأولین والظاہر أن ثانیہا لیس خارجا عن الأول لأن ما یقام بالیدین عادۃ یغلب ظن الناظر أنہ لیس في الصلاۃ وکذا قول من اعتبر التکرار إلی الثلاث متوالیۃ في غیرہ فإن التکرار یغلب الظن بذلک فلذا اختارہ جمہور المشائخ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار’’باب ما یفسد الصلاۃ و مایکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵)۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلی، ’’مطلب في التعریف بالعمل الکثیر وحکمہ‘‘: ج۲، ص: ۳۷۵)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص 79
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں زید کو چاہئے کہ وتر بھی باجماعت ادا کرے اس میں ثواب زیادہ ہے تاہم اگر اس نے بوقت تہجد وتر تنہا پڑھ لیا تو ادا ہوگیا اس لیے کہ ایسا کرنا بھی ثابت ہے۔(۱)
(۱) ویوتر بجماعۃ) استحباباً (في رمضان فقط) علیہ إجماع المسلمین؛ لأنہ نفل من وجہ والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہۃ، فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي، أما لو اقتدی واحد بواحد أو اثنان بواحد لایکرہ، وإذا اقتدی ثلاثۃ بواحد اختلف فیہ، وإن اقتدی أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (وصلاتہ) أي الوتر (مع الجماعۃ في رمضان أفضل من أدائہ منفرداً آخر اللیل في اختیار قاضي خان ، قال قاضي خان رحمہ اللّٰہ: (ہو الصحیح) لأنہ لما جازت الجماعۃ کان أفضل ولأن عمر رضي اللّٰہ عنہ کان یؤمہم في الوتر (وصححہ غیرہ) أي غیر قاضي خان۔ (أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و أحکامہ‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اقتداء درست ہے؛ البتہ پردہ کا معقول نظم اور پورا اہتمام ضروری ہے ورنہ بے پردگی کا سخت گناہ ہوگا۔ تاہم اگر مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں کوئی عورت امام کی محرم نہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما إذا کان معہن واحد عن ذکر أو أمہن في المسجد لا یکرہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷۔
ولو أمہن رجل فلا کراہۃ إلا أن یکون في بیت لیس معہن فیہ رجل أو محرم من الإمام أو زوجتہ فإن کان واحد ممن ذکر معہن فلا کراہۃ کما لو کان في المسجد مطلقاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص464
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حدیث میں ہے کہ ’’إن الشمس تطلع بین قرنی الشیطان‘‘(۲) کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اس وقت نماز پڑھنے سے شیطان کی عبادت کا شائبہ پیدا ہوتا ہے نیز ان اوقات میں مشرکین شیطان کی پرستش کرتے ہیں؛ لہٰذا اس تشبہ سے بچنے کا حکم فرماکر ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع قرار دیا۔
’’لا تجوز الصلوٰۃ عند طلوع الشمس ولا عند قیامہا في الظہیرۃ ولا عند غروبہا لحدیث عقبۃ بن عامر قال ثلثۃ أوقات نہانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نصلی وأن نقبر فیہا موتانا عند طلوع الشمس حتی ترتفع وعند زوالہا حتی تزول وحین تضیف للغروب حتی تغرب‘‘(۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب: ما جاء في الساعات التي تکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ص: ۸۸، رقم: ۱۲۵۳۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات التي تکرہ فیہا الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، ۸۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)
(۱) والتنحنح بحرفین بلا عذر إما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدی إمامہ أو للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح۔۔۔۔۔ والتأوہ ہو قولہ آہ بالمد التأفیف أف أو تف والبکاء بصوت یحصل بہ حروف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۶-۳۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز وتر کا اصل وقت فرائض عشاء کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اس لیے جو وتر کی نماز فرائض عشاء کی ادائیگی سے پہلے پڑھی ہے وہ ادا نہیں ہوئی البتہ وتر کے بعد جو نماز عشاء ادا کی وہ درست ہوگئی اور وتر بعد میں پھر ادا کرے۔(۱)
(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ کذا في الکافي۔ ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب، لا لأن وقت الوتر لم یدخل، حتی لو صلی الوتر قبل العشاء ناسیاً، أو صلاہما فظہر فساد العشاء دون الوتر، فإنہ یصح الوتر، ویعید العشا، وحدہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ؛ لأن الترتیب یسقط بمثل ہذا العذر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت‘‘: ج ۱، ص:۱۰۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302