نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واقعی طور پر جمعہ کے دن نماز فجر میں مذکورہ سورتیں مسنون ومستحب ہیں، مگر اس پر دوام ثابت نہیں ہے؛ اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ اس پر دوام نہ کرے؛ بلکہ گاہے گاہے اس کو چھوڑ کر دوسری سورتوں کو بھی پڑھے۔
در مختار میں ہے ’’ویکرہ التعیین کالسجدۃ وہل أتی الإنسان لفجر کل جمعۃ بل یندب قراء تہما أحیاناً‘‘(۱) اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ان مذکورہ سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، ۲۶۶۔
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقرأ في الجمعۃ في صلوٰۃ الفجر ألم تنزیل (السجدۃ) وہل أتی علی الإنسان۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما یقرأ في صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، رقم: ۸۹۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص376

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز باطل ہو جائے گی۔(۱)

(۱) ومنہا النوم ینقضہ النوم مضطجعا فی الصلاۃ وفی غیرہا، بلا خلاف بین الفقہاء وکذا النوم متورکا بأن نام علی أحد ورکیہ، ہکذا في البدائع وکذا النوم مستلقیا علی قفاہ کذا فی البحر الرائق۔ ولو نام قاعدا واضعا إلیتیہ علی عقبیہ شبہ المنکب لا وضوء علیہ، وہو الأصح، کذا فی محیط السرخسی۔ ولو نام مستندا إلی ما لو أزیل عنہ لسقط۔ إن کانت مقعدتہ زائلۃ عن الأرض نقض بالإجماع، وإن کانت غیر زائلۃ فالصحیح أن لا ینقض، ہکذا في التبیین۔ ولا ینقض نوم القائم والقاعد ولو فی السرج أو المحمل، ولا الراکع ولا الساجد مطلقا إن کان في الصلاۃ، وإن کان خارجہا فکذلک إلا فی السجود فإنہ یشترط أن یکون علی الہیئۃ المسنونۃ لہ، بأن یکون رافعا بطنہ عن فخذیہ، مجافیا عضدیہ عن جنبیہ، وإن سجد علی غیر ہذہ الہیئۃ انتقض وضوء ہ کذا فی البحر الرائق ثم فی ظاہر الروایۃ: لا فرق بین غلبتہ وتعمدہ، وعن أبی یوسف: النقض فی الثانی، والصحیح: ما ذکر فی ظاہر الروایۃ، ہکذا فی المحیط۔ واختلفوا فی المریض إذا کان یصلي مضطجعا فنام، فالصحیح أن وضوء ہ ینتقض، ہکذا فی المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۳)
عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا نعس أحدکم وہو یصلی فلیرقد حتی یذہب عنہ النوم؛ فإن أحدکم إذا صلی وہو ناعس لا یدري لعلہ یستغفر، فیسب نفسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم و من لم یر من النعسۃ الخ ‘‘: ج ۱، ص:۳۴، رقم: ۲۱۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص75

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میںجو تکبیر ترک ہوئی ہے اس کے بارے میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک واجب ہے اس لیے اس کا اہتمام کرنا ضروری ہے لیکن راجح یہ ہے کہ وہ تکبیرات انتقالیہ میں سے ہے جن کو مسنون قرار دیا گیا ہے اس ترک سے نماز وتر کی ادائیگی میں کوئی نقصان نہیں آیا نماز ادا ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ علم ہونے کے بعد ترک نہ کرنا چاہئے جان بوجھ کر سنت کا ترک کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)

(۱) ویکبر أي وجوبا، وفیہ قولان، کما مر في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب الوتر والنوافل، ج۲، ص: ۴۴۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص299

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1718/43-1388

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عام حالات میں مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنا مردوں کے لئے حکماً واجب ہے۔ بلاعذر جماعت ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید وارد ہے۔ بلاعذر جماعت ترک کرنےپر اصرارکرنےوالا  گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہے۔

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلاً فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال. وفي رواية: لايشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقًا سمينًا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء". رواه البخاري ولمسلم نحوه) "وَعنِ ِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ فَلَمْ یَمْنَعْه مِن اتِّبَاعِه عُذْرٌ، قَالُوْا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضَ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه الصَّلاة الَّتِي صَلَّی(أبوداؤد والدارقطني)

"قلت دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ...".( اعلاء السنن،4/186 باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة) ۔ ۔ ۔ "قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم" (اعلاء السنن، 4/188)

قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا" (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (3 / 385)

والجماعة سنة موٴکدة للرجال … وأقلھا اثنان، …وقیل: واجبة و علیہ العامة أي: عامة مشایخنا وبہ جزم في التحفة وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاة بالجماعة من غیر حرج، (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۲۸۷- ۲۹۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ قولہ:”من غیر حرج“ قید لکونھا سنة موٴکدة أو واجبة فبالحرج یرتفع الإثم ویرخص في ترکھا الخ ونقل عن الحلبي أن الوجوب عند عدم الحرج وفي تتبعھا فی الأماکن القاصیة حرج لا یخفی (رد المحتار)۔ قولہ: ”وسن موٴکداً“:أي: استنانا موٴکداً بمعنی أنہ طلب طلباً موٴکداً زیادة علی بقیة النوافل، ولھذا کانت السنة الموٴکدة قریبة من الواجب في لحوق الإثم کما فی البحر، ویستوجب تارکھا التضلیل واللوم کما فی التحریر، أي: علی سبیل الإصرار بلا عذر کما في شرحہ (المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۵۱)۔

فی التلویح: ترک السنة الموٴکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة اھ ومقتضاہ أن ترک السنة الموٴکدة مکروہ تحریماً لجعلہ قریباً من الحرام، والمراد بھا سنن الھدی کالجماعة والأذان والإقامة؛ فإن تارکھا مضلل ملوم کما فی التحریر، والمراد الترک علی وجہ الإصرار بلا عذر (المصدر السابق، أول کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۸۷)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1918/43-1805

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس  غلطی سے معنی میں کوئی ایسی خرابی پیدا نہیں ہوئی جو مفسد صلوۃ ہو، اس لئے نماز فاسد نہیں ہوئی ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  


 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کی امامت درست ہے؛ اس لیے کہ امام صاحب ارکان کو مکمل طور پر ادا رکرتے ہیں، اشارہ سے رکن کو ادا نہیں کرتے ہیں تاہم دوسرے کو امام بنانا بہتر ہے۔(۱)

(۱) ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز وغیرہ أولٰی کذا في التبیین۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲)
وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولٰی تاترخانیۃ، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص234

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بلاوجہ اور بغیر شرعی ثبوت کے کسی کو برا بھلا کہنا درست نہیں ہے، برا بھلا کہنے والا گنہگار ہوگا جب کہ اسلام اور مسلم معاشرہ میں امام اور امامت ایک معزز منصب ہے اس پر فائز رہنے والے حضرات عام وخاص ہر طبقہ میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، وہ مسلمانوں کے مقتدیٰ اور پیشوا ہوتے ہیں، اس لیے جن لوگوں نے امام صاحب کو برا کہا ہے ان کو چاہئے کہ اللہ سے توبہ کریں اور امام صاحب سے معافی مانگیں کیوں کہ دین کے جاننے والے کی اہانت سے سلبِ ایمان کا بھی اندیشہ ہے؛ لہٰذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے، البتہ برا کہنے والے لوگوں کی نماز اس امام کے پیچھے ادا ہو گئی اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وفي النصاب: من أبغض عالماً بغیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ وفي نسخۃ الخسرواني: رجل یجلس علی مکان مرتفع ویسألون منہ مسائل بطریق الاستہزاء، وہم یضربونہ بالوسائد ویضحکون یکفرون جمیعاً‘‘(۱)
’’(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم فی الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک: أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقاً لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو اثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ‘‘(۲)
’’(من تقدم) أي للإمامۃ الصغری أو الکبری (قوماً): وہو في الأصل مصدر قام فوصف بہ، ثم غلب علی الرجال (وہم لہ کارہون) أي لمذموم شرعي، أما إذا کرہہ البعض فالعبرۃ بالعالم ولو انفرد، وقیل: العبرۃ بالأکثر، ورجحہ ابن حجر، ولعلہ محمول علی أکثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرۃ بکثرۃ الجاہلین، قال تعالی: {وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ}(۳)
’’(ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً؛ لحدیث أبی داود: لا یقبل اللہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون‘‘ (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم‘‘(۱)
’’رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ۔ ہکذا في المحیط‘‘(۲)

(۱) لسان الحکام: ص: ۴۱۵۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۹۔
(۳) سورۃ الأنعام: ۳۷؛ وفیہ أیضاً: ج ۳، ص: ۸۶۶۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص337

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پڑھ سکتا ہے۔(۲)

(۲) وأنہ یجوز الصلاۃ خلفہ وإن لم ینو الإمامۃ لأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم شرع في صلاتہ منفردا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۵)
وأما إذا لم ینو الإمام إمامتہا لم تکن داخلۃ في صلاتہ فلا تفسد الصلاۃ علی أحد بالمحاذاۃ عندنا، وقال زفر رحمہ اللّٰہ تعالٰی: یصح اقتداؤہا بہ۔ وإن لم ینو إمامتہا، والقیاس ما قالہ زفر:  فإن الرجل صالح لإمامۃ الرجال والنساء جمیعا، ثم اقتداء الرجال بالرجل صحیح، وإن لم ینو الإمامۃ، فکذلک اقتداء النساء، واستدل بالجمعۃ والعیدین، فإن اقتداء المرأۃ بالرجل صحیح فیہما، وإن لم ینو إمامتہا۔ (للسرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الحدث في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۸۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص460

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: استواء شمس (نصف النہار) کے وقت کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اس وقت کو عام لوگ زوال سے تعبیر کرتے ہیں۔(۱)

(۱) وکرہ تحریماً وکل ما لا یجوز مکروہ صلاۃ مطلقا ولو قضاء أو واجبۃ أو نفلاً أو علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو لا شکر، قنیۃ۔ مع شروق، واستواء۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰،۳۱، زکریا، دیوبند)
ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند إحمرارہا إلی أن تغیب، إلا عصر یومہ ذلک، فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب … والتطوع في ہذہ الأوقات یجوز ویکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیھا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص107

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کے لیے عذر کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے، البتہ اگر عذر نہ ہو تو پہلے ہاتھ رکھنا مکروہ ہوگا۔
’’ثم وضع رکبتیہ ثم یدیہ إن لم یکن بہ عذر من ہذہ الصفۃ‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۵۴۔
عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اسجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذا نہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲، رقم: ۸۳۸؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في وضع رکبتین قبل الیدین‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، رقم: ۲۶۸؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، السجود‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۸۸۲۔
ومن سنن الانتقال أن یکبر مع الانحطاط ولا یرفع یدیہ؛ لما تقدم، ومنہا أن یضع رکبتیہ علی الأرض ثم یدیہ وہذا عندنا، ولنا عین ہذا الحدیث؛ لأن الجمل یضع یدیہ أولا وروي عن عمر وابن مسعود رضي اللّٰہ عنہما مثل قولنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سنن حکم التکبیر أیام التشریق‘‘: ج۲، ص: ۱۴۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص376