نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عمل کثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ مفتی بہ اورراجح قول یہ ہے کہ نماز میں ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ یہ نماز میں نہیں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جو کام عام طور پر دوہاتھوں سے کیا جاتا ہے مثلاً عمامہ باندھنا ایسا کام کرنا عمل کثیر شمار ہوتا ہے اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عمل قلیل ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکات متوالیہ یعنی تین بار سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل۔
اگر کسی شخص نے ایک رکن (قعدہ، سجدہ، یا تشہد) میں تین بار حرکت کی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہاں اگر ہردفعہ حرکت کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور تینوں حرکات متوالیہ ہوں یعنی ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین دفعہ سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا مالایشک بسبہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل‘‘(۱)
’’الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل وقیل یفوض إلی رأي المصلي إن استکثرہ فکثیر وإلا فلا وعامۃ المشائخ علی الأول وقال الحلواني: إن الثالث أقرب علی مذہب أبي حنیفۃ لأن مذہبہ التفویض إلی رأي المبتلی بہ في کثیر من المواضع ولکن ہذا غیر مضبوط وتفویض مثلہ إلی رأي العوام مما لاینبغي وأکثر الفروع أو جمیعہا مخرج علی أحد الطریقین الأولین والظاہر أن ثانیہا لیس خارجا عن الأول لأن ما یقام بالیدین عادۃ یغلب ظن الناظر أنہ لیس في الصلاۃ وکذا قول من اعتبر التکرار إلی الثلاث متوالیۃ في غیرہ فإن التکرار یغلب الظن بذلک فلذا اختارہ جمہور المشائخ‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار’’باب ما یفسد الصلاۃ و مایکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵)۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلی، ’’مطلب في التعریف بالعمل الکثیر وحکمہ‘‘: ج۲، ص: ۳۷۵)۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص 79

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں زید کو چاہئے کہ وتر بھی باجماعت ادا کرے اس میں ثواب زیادہ ہے تاہم اگر اس نے بوقت تہجد وتر تنہا پڑھ لیا تو ادا ہوگیا اس لیے کہ ایسا کرنا بھی ثابت ہے۔(۱)

(۱) ویوتر بجماعۃ) استحباباً (في رمضان فقط) علیہ إجماع المسلمین؛ لأنہ نفل من وجہ والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہۃ، فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي، أما لو اقتدی واحد بواحد أو اثنان بواحد لایکرہ، وإذا اقتدی ثلاثۃ بواحد اختلف فیہ، وإن اقتدی أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (وصلاتہ) أي الوتر (مع الجماعۃ في رمضان أفضل من أدائہ منفرداً آخر اللیل في اختیار قاضي خان ، قال قاضي خان رحمہ اللّٰہ: (ہو الصحیح) لأنہ لما جازت الجماعۃ کان أفضل ولأن عمر رضي اللّٰہ عنہ کان یؤمہم في الوتر (وصححہ غیرہ) أي غیر قاضي خان۔ (أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و أحکامہ‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اقتداء درست ہے؛ البتہ پردہ کا معقول نظم اور پورا اہتمام ضروری ہے ورنہ بے پردگی کا سخت گناہ ہوگا۔ تاہم اگر مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں کوئی عورت امام کی محرم نہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما إذا کان معہن واحد عن ذکر أو أمہن في المسجد لا یکرہ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷۔
ولو أمہن رجل فلا کراہۃ إلا أن یکون في بیت لیس معہن فیہ رجل أو محرم من الإمام أو زوجتہ فإن کان واحد ممن ذکر معہن فلا کراہۃ کما لو کان في المسجد مطلقاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص464

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حدیث میں ہے کہ ’’إن الشمس تطلع بین قرنی الشیطان‘‘(۲)  کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اس وقت نماز پڑھنے سے شیطان کی عبادت کا شائبہ پیدا ہوتا ہے نیز ان اوقات میں مشرکین شیطان کی پرستش کرتے ہیں؛ لہٰذا اس تشبہ سے بچنے کا حکم فرماکر ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع قرار دیا۔
’’لا تجوز الصلوٰۃ عند طلوع الشمس ولا عند قیامہا في الظہیرۃ ولا عند غروبہا لحدیث عقبۃ بن عامر قال ثلثۃ أوقات نہانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نصلی وأن نقبر فیہا موتانا عند طلوع الشمس حتی ترتفع وعند زوالہا حتی تزول وحین تضیف للغروب حتی تغرب‘‘(۱)

(۲)  أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ:  إقامۃ الصلاۃ  والسنۃ فیہا، باب: ما جاء في الساعات التي تکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ص: ۸۸، رقم: ۱۲۵۳۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات التي تکرہ فیہا الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، ۸۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص109

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)

(۱) والتنحنح بحرفین بلا عذر إما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدی إمامہ أو للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح۔۔۔۔۔ والتأوہ ہو قولہ آہ بالمد التأفیف أف أو تف والبکاء بصوت یحصل بہ حروف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۶-۳۸۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز وتر کا اصل وقت فرائض عشاء کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اس لیے جو وتر کی نماز فرائض عشاء کی ادائیگی سے پہلے پڑھی ہے وہ ادا نہیں ہوئی البتہ وتر کے بعد جو نماز عشاء ادا کی وہ درست ہوگئی اور وتر بعد میں پھر ادا کرے۔(۱)

(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ کذا في الکافي۔ ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب، لا لأن وقت الوتر لم یدخل، حتی لو صلی الوتر قبل العشاء ناسیاً، أو صلاہما فظہر فساد العشاء دون الوتر، فإنہ یصح الوتر، ویعید العشا،  وحدہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ؛ لأن الترتیب یسقط بمثل ہذا العذر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت‘‘: ج ۱، ص:۱۰۸، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سورج گہن کے وقت نفل نماز مسجد میں جمع ہوکر پڑھنا اور امام کا نماز پڑھانا مشروع و سنت ہے۔ دو رکعت نفل نماز کی نیت کی جائے۔(۱)

(۱) سن رکعتان کہیئۃ النفل للکسوف …… ولاجماعۃ فیہا إلا بإمام الجمعۃ أو مامور السلطان دفعاً للفتنۃ، فیصلیہما بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ، قال الطحطاوي: عن سمرۃ صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في کسوف الشمس لا تسمع لہ صوتاً۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب صلاۃ الکسوف‘‘: ص:۵۴۳-۵۴۵، اشرفیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص412

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1155

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خوشی کا موقع ہے لہذا عیدگاہ کی صفائی   اور تزئین کاری   درست ہے تاہم یہ خیال رہے کہ مسجد اور عیدگاہ کی رقم تزئین کاری میں استعمال نہ کی جائے، کوئی شخص انفرادی طور پر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، اورتزئین کاری میں غیروں کی مشابہت سے بھی گریز کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صاحب ترتیب کی نماز غیر صاحب ترتیب کے پیچھے بلا شبہ ادا ہو سکتی ہے۔ غیر صاحب ترتیب کی نماز درست ہے تو اس کی اقتداء بھی درست ہے۔(۱)

(۱) لا یلزم الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ ولا بین الفوائت إذا کانت الفوائت ستا کذا في النہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، مطلب في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص465

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عیدالفطر اور اسی طرح عیدالاضحی کی نماز کا وقت زوال سے پہلے تک رہتا ہے اور زوال کے وقت ختم ہوجاتا ہے؛ لہٰذا بوقت زوال نماز اور خطبہ درست نہیں ہوں گے۔(۲)

(۲) وابتداء وقت صلاۃ العیدین من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا وتوخر صلاۃ عید الفطر بعذر کالمطر ونحوہ إلی الغد فقط وتؤخر صلاۃ عید الاضحی بعذر إلی ثلثۃ أیام۔ (أحمد بن محمد، طحطاوي علی المراقي، ’’أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۲-۵۳۸)
وقد وقع في عبارات الفقہاء أن الوقت المکروہ ہو عند انتصاف النہار إلی أن تزول الشمس، ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل، وفي ہذ القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ، فلعل المراد أنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان الخ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۱، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص110