نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے، مفسد نماز نہیں ہے۔(۲)

(۲)وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَہ۲۳۸ (سورۃ البقرۃ: ۲۳۸)
وکذلک القیام لقولہ تعالی وقوموا للّٰہ قانتین۔ (البقرۃ: ۲۳۹) أي مطیعین وقیل خاشعین، وقیل: ساکنین۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۷۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ ہیں اور اس سلسلہ میں طحاوی شریف ،مسلم شریف، ترمذی شریف اور بدائع الصنائع میں روایات اور وضاحت موجود ہے۔
عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث۔ یقرأ فی أول رکعۃ بـ سبح اسم ربک الأعلی وفی الثانیۃ: قل یا أیہا الکافرون وفی الثالثۃ: قل ہو اللہ أحد والمعوذتین، فأخبرت عمرۃ، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی ہذا الحدیث بکیفیۃ الوترکیف کانت ووافقت علی ذلک سعد بن ہشام وزاد علیہا سعد أنہ کان لا یسلم إلا في آخرہن (۱)
فقد ثبت بہذہ الآثار التي رویناہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن الوتر أکثر من رکعۃ، ولم یرو فی الرکعۃ شیء، وتأویلہ یحتمل ما قد شرحناہ وبیناہ في موضعہ من ہذا الباب۔ ثم أردنا أن نلتمس ذلک من طریق النظر فوجدنا الوتر لا یخلو من أحد وجہین، إما أن یکون فرضا أو سنۃ، فإن کان فرضا فإنا لم نر شیئا من الفرائض إلا علی ثلاثۃ أوجہ، فمنہ ما ہو رکعتان، ومنہ ما ہو أربع، ومنہ ما ہو ثلاث، وکل قد أجمع أن الوتر لا تکون اثنتین ولا أربعا۔  فثبت بذلک أنہ ثلاث‘‘(۲)
’’(فصل): وأما الکلام فی مقدارہ: فقد اختلف العلماء فیہ، قال أصحابنا: الوتر ثلاث رکعات بتسلیمۃ واحدۃ فی الأوقات کلہا۔ وقال الشافعي: ہو بالخیار إن شاء أوتر برکعۃ أو ثلاث أو خمس أو سبع أو تسع أو أحد عشر في الأوقات کلہا۔ وقال الزہري: في شہر رمضان ثلاث رکعات، وفي غیرہ رکعۃ۔ احتج الشافعي بما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من شاء أوتر رکعۃ ومن شاء أوتر بثلاث أو بخمس،  ولنا: ما روي عن ابن مسعود وابن عباس وعائشۃ رضي اللّٰہ عنہم أنہم قالوا: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث رکعات، وعن الحسن قال: أجمع المسلمون علی أن الوتر ثلاث لا سلام إلا في آخرہن، ومثلہ لا یکذب؛ ولأن الوتر نفل عندہ، والنوافل أتباع الفرائض فیجب أن یکون لہا نظیرا من الأصول والرکعۃ الواحدۃ غیر معہودۃ فرضا وحدیث التخییر محمول علی ما قبل استقرار أمر الوتر بدلیل ما روینا‘‘(۱)
’’عن عائشۃ، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، یوتر من ذلک بخمس، لا یجلس في شيء إلا فی آخرہا‘‘(۲)
’’عن علي، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث، یقرأ فیہن بتسع سور من المفصل، یقرأ في کل رکعۃ بثلاث سور آخرہن قل ہو اللّٰہ أحد‘‘(۳)

(۱) أحمد بن محمد أبو جعفر الطحاوي، الطحاوي، شرح معاني الآثار، ’’باب الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، رقم: ۱۶۹۵۔
(۲) قد سیق تخریجہ، ج۱، ص: ۲۹۲، رقم: ۱۷۳۹۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، فصل الکلام …فی مقدار صلاۃ الوتر، ج۱، ص: ۶۰۹۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب صلاۃ اللیل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴، رقم ۷۳۷۔)
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ماجاء في الوتر بثلاث‘‘:ج۱، ص: ۱۰۶، نعیمیہ دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر زید کو لکھنؤ جانا ہو اور ٹکٹ بنواکر ریزویشن کرا چکا ہے پھر یہ کہے کہ فلاں تاریخ کو لکھنؤ جاؤں گا، تو اس کا کہنا صحیح اور درست ہے، اس کو کوئی بھی غلط نہیں کہہ سکتا، حالاں کہ بالیقین اس کو اپنے جانے کا علم نہیں ہے کیا خبر کیا بات پیش آجائے کہ نہ جا سکے۔ بس اسی طرح سائنس کے حساب سے اگر کسی چیز کا علم واندازہ لگایا جائے، تو غلط نہیں ہے، ہاں اس پر یقین کامل اعتقاد کے درجے میں درست نہیں، سورج گہن کے وقت خداوند قدوس کی صفت قہار کا اظہار ہوتا ہے اس وقت اہم عبادت نماز میں مشغول ہونا باعث اجر عظیم ہے تو اگر صرف یہ اطلاع ہو کہ سورج گہن ہوگا تو فلاں مسجد میں نماز ہوگی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے اس قسم کے مسائل اور ایسے وقت کی عبادات سے لوگ غافل رہتے ہیں۔(۱)

(۱) قولہ: وہو غلبۃ الظن، لأنہ العلم الموجب للعمل لا العلم بمعنی الیقین۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج۳، ص: ۳۵۶، زکریا دیوبند)
قولہ: لایفید إلا الظن بمعنی أنہ لایحصل بخبر کل واحد اثر متجدد بحیث یخرج عن مرتبۃ الظن ویرتفع إلی مرتبۃ الیقین۔ (تفتازاني، شرح عقائد، ص: ۱۵، حاشیہ، ص: ۱۱، مکتبہ بلال دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص412

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1920/43-1824

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سنن مؤکدہ کا اہتمام کرنا ضروری ہے، اور اس کی پابندی لازم ہے، البتہ اگر کبھی تھکان یا کسی عذر کی  وجہ سے چھوٹ جائے تو حرج نہیں ہے، لیکن مستقل ترک کی عادت بنالینا گناہ کا باعث ہے۔ اس لئے پانچ منٹ مزید نکال کر سنت مؤکدہ  کی پابندی کرنی چاہئے، اس میں کوتاہی اچھی بات نہیں ہے۔

قال ابن عابین: الحاصل أن السنة إذا کانت موٴکدةً قویةً لا یبعد کونُ ترکہامکروہًا تحریمًا - وقال: کانت السنة الموٴکدة قریبةً من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر ویستوجب تارکہا التضلل واللوم کما فی التحریر أی علی سبیل الإصرار بلا عذر (رد المحتار: ۲/۲۹۲، مطلب في السنن والنوافل، دار إحیاء التراث العربی) وقال ابن عابدین نقلاً عن التلویح: ترک السنة الموٴکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة لقولہ علیہ الصلاة والسلام: من ترک سنتي لم ینل شفاعتي وفي التحریر: إن تارکہا یستوجب التضلیل واللوم والمراد الترک بلا عذر علی سبیل الإصرار کما في شرح التحریر لابن أمیر الحاج- ال: (رد المحتار: ۱/۲۲۰، کتاب الطہارة، مطلب في لاسنة وتعریفہا، زکریا) وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ما من عبد مسلم یصل للہ کل یوم ثنتي عشرة رکعة تطوعًا غیر الفریضة إلا بنی اللہ لہ بیتًا في الجنة (مسلم: ۱/۲۵۱)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے صحیح قرآن پڑھنے والے عالم کی نماز درست نہیں واجب الاعادہ ہے۔
’’ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبیٰ، وحرر الحلبی وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتماً کالأمي فلا یؤم إلا مثلہ۔ قولہ فلا یؤم إلا مثلہ! یحتمل أن یراد المثلیۃ في مطلق اللثغ فیصح اقتداء من یبدل الراء المہملۃ غینا معجمۃ بمن یبدلہا لاماً … إذا فسد الاقتداء … بأي وجہ کان لا یصح شروعہ في صلاۃ نفسہ‘‘(۱)
’’ولا حافظ آیۃ من القرآن بغیر حافظ لہا وہو الأمي … قولہ بغیر حافظ …
شمل من یحفظہا أو أکثر منہا لکن بلحن مفسد للمعنیٰ لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القراء ۃ المفروضۃ‘‘(۲)

 

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا کانت اللثغۃ یسیرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۹، زکریا۔
(۲) أیضًا: ’’مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘:ص: ۳۲۴، زکریا۔
ولا یجوز إمامۃ الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف فامّا إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ ومن یقف في غیر مواضعہ ولا یقف في مواضعہ لاینبغي لہ أن یؤم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص465

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب مکمل ہونے سے پہلے اور ایسے ہی عصر کی نماز کے بعد غروبِ آفتاب سے پہلے نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ ان دو اوقات کے بعد نفل نمازپڑھیں۔(۱)

(۱)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن بیعتین و عن لبستین و عن صلاتین نہی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ، بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۶۳)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا صلاۃ بعد الفجر إلا سجدتین۔ … وہو ما أجمع علیہ أہل العلم: کرہوا أن یصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر ومعنی ھذا الحدیث إنما یقول لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ،  ’’باب ما جاء لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتین‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۴۱۹)
عن یسار مولی عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: رآني ابن عمر وأنا أصلي بعد ما طلع الفجر، فقال: یا یسار کم صلیت؟ قلت: لا أدري، قال: لا دریت إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج علینا ونحن نصلي ہذہ الصلاۃ فقال: ألا لیبلغ شاہدکم غائبکم،  ان لا صلاۃ بعد الصبح إلا سجدتان۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ مسند عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما: ج ۱۰،ص: ۷۳، رقم: ۵۸۱۱)
تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ، فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان۔ منہا: ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔کذا في النہایۃ والکفایۃ، یکرہ فیہ التطوع بأکثر من سنۃ الفجر۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ، لو افتتح صلاۃ النفل في وقت مستحب ثم أفسدہا فقضاہا بعد صلاۃ العصر قبل مغیب الشمس لا یجزیہ ہکذا في محیط السرخسي، ومنہا: ما بعد غروب الشمس قبل صلاۃ المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا،  الفصل الثالث،  في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹، مکتبہ: رشیدیہ دیوبند)
(وکرہ نفل) قصدا ولو تحیۃ مسجد (وکل ما کان واجبا) لا لعینہ بل (لغیرہ) وہو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور، ورکعتي طواف) وسجدتي سہو (والذي شرع فیہ) في وقت مستحب أو مکروہ (ثم أفسدہ و) لو سنۃ الفجر (بعد صلاۃ فجر و) صلاۃ (عصر)۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۶،۳۷)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص111

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرأت میں غلطی سے متعلق ایک اصول یا د رکھیں کہ اگر کسی سے نماز کی حالت میں قرأت میں فحش غلطی ہو جائے اور وہ غلطی اس نوعیت کی ہو کہ اس سے معنی بالکل تبدیل اور فاسد ہو جائے تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے، چاہے مقدارِ واجب قرأت کی جا چکی ہو یا نہیں، تاہم اگر کوئی غلطی ہو جائے اور اس کی اصلاح اسی رکعت میں کرلی جائے یا ایسی غلطی ہو جس سے معنی میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جس سے نماز میں فساد پیدا ہو تو اس صورت میں نماز ادا ہو جاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں {لیکونا من الأسفلین} کی جگہ ’’لیکونا من المسلمین‘‘ پڑھا گیا ہے، چوں کہ یہ فحش غلطی ہے اور معنی بالکل تبدیل ہوگئے ہیں، نیزقاری نے نماز میں یہ غلطی درست بھی نہیں کی اور دوسرے مقام سے قرائت شروع کردی تو اس صورت میں نماز فاسد ہوگئی، نماز کا اعادہ کرنا اس پر لازم ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ الہندیہ میں ہے:
’’أما إذا لم یقف ووصل إن لم یغیر المعنی نحو أن یقرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات فلہم جزاء الحسنی‘‘ مکان قولہ ’’کانت لہم جنات الفردوس نزلا‘‘ لاتفسد۔ أما إذا غیر المعنی بأن قرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات أولئک ہم شر البریۃ، إن الذین کفروا من أہل الکتاب‘‘ إلی قولہ ’’خالدین فیہا أولئک ہم خیر البریۃ‘‘ تفسد عند عامۃ علمائنا وہو الصحیح، ھکذا في الخلاصۃ۔(۱)
’’ذکر في الفوائد لو قرأ في الصلاۃ بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحیحاً، قال: عندي صلاتہ جائزۃ، وکذلک الإعراب، ولو قرأ النصب مکان الرفع، والرفع مکان النصب، أو الخفض مکان الرفع أو النصب لاتفسد صلاتہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، و منہا ذکر آیۃ مکان آیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸۔)
(۲) المرجع السابع ’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، و منہا : إدخال التأنیث في أسماء اللّٰہ تعالیٰ‘‘ ج۱، ص۱۴۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اگر تمام لوگوں نے وتر کی نماز پڑھ لی تھی تو تراویح کے بعد وتر کی جماعت نہ کی جائے کیوں کہ وتر کی نمازپہلے ادا ہوچکی ہے۔(۴)

(۴) وإذا صلی الوتر قبل النوم، ثم تہجد لا یعید الوتر لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا وتران في لیلۃ۔ (أحمد بن أحمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، ط: دار الکتاب، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں نمازیں الگ الگ ہیں اور اور ان کے اوقات مختلف ہیں او ران کی فضیلتیں احادیث میں علیحدہ علیحدہ مذکور ہیں اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد شروع ہوجاتا ہے اور نصف النہار تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے اور چاشت کا وقت سورج خوب روشن ہوجانے (دس گیارہ بجے) کے بعد سے شروع ہوکر نصف النہار تک رہتا ہے۔ اور اوابین کا وقت مغرب کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ البتہ احادیث میں دو وقت کی نوافل پر اطلاق اوابین کا آیا ہے، ایک چاشت کی نماز پر اور دو سرے نوافل بعد المغرب پر پس مغرب کے بعد کی چھ رکعتوں کے علاوہ چاشت کو بھی صلاۃ اوابین کہہ سکتے ہیں اس معنی میں اوابین اور چاشت دونوں ایک نماز ہوسکتی ہیں۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان: الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین، یقال لہا صلاۃ الاشراق۔ والثانیۃ عند ارتفاع الشمس، قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحی۔ واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضًا‘‘(۱)

(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب النفل والسنن‘‘: ج ۷، ص: ۳۰، مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔)
عن عاصم بن ضمرۃ السلولي، قال: سألنا علیّاً عن تطوع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بالنہار، فقال: إنکم لاتطیقونہ۔ فقلنا: أخبرنا بہ نأخذ ما استطعنا قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی الفجر یمہل حتی إذا کانت الشمس من ہاہنا یعني: من قبل المشرق بمقدارہا من صلاۃ العصر من ہاہنا یعنی: من قبل المغرب قام فصلی أربعاً۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیما یستحب من التطوع بالنھار‘‘: ج ۱، ص: ۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص413

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بوقت جماعت اس طرح مسجد کے اندرونی کواڑوں کو بند کرلینا کہ آواز تکبیرات و قرأت امام کی باہر مقتدیوں کو نہ سنائی دے سکے درست اور جائز نہیں ہے کہ اس سے باہر کے مقتدی پریشان ہوں گے اور ان کی نماز میں خلل آسکتا ہے۔ لیکن اگر کواڑ بند ہوکر بھی تکبیرات انتقالیہ کی آواز باہر آتی ہے اور مقتدیوں کو اپنی نماز میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تو ان مقتدیوں کی نماز صحیح ہوجائے گی۔(۱)

(۱) وأما إذا کان الحائط صغیراً یمنع ولکن لایخفیٰ حال الإمام فمنہم من یصح الاقتداء وہو الصحیح۔۔۔ وإن کان في الحائط باب سروداً قیل لایصح لأنہ یمنعہ من الوصول وقیل یصح لأن وضع الباب للوصول لیکون المسدود کالمفتوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الرابع في بیان مایمنع صحۃ الاقتداء ومالایمنع‘‘: ج۱، ص: ۱۴۶، زکریا دیوبند)
والحائل لایمنع الاقتداء إن لم یشبہ حال إمامہ بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح ولم یختلف المکان حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص466