نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ مذکورہ مسئلے میں قدرے تفصیل ہے: اگر اوقاتِ مکروہہ ہی میں سجدہ تلاوت واجب ہو جائے یا جنازہ تیار ہو جائے تو اس صورت میں مکروہ اوقات میں سجدہ تلاوت کرنا یا نماز جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے؛ لیکن نماز جنازہ پہلے سے تیار ہو یا سجدہ تلاوت پہلے سے واجب ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں اوقاتِ مکروہہ میں سجدہ تلاوت کرنا یا نماز جنازہ کا پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ: یا علي! ثلاث لاتؤخرہا: الصلاۃ إذا آنت، والجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت لہا کفوًا  ‘‘(۱)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’إذا وجبت صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في وقت مباح وأخرتا إلی ہذا الوقت فإنہ لا یجوز قطعا أما لو وجبتا في ہذا الوقت وأدیتا فیہ جَاز‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’(وکرہ) تحریماً … (صلاۃ) مطلقاً (ولو) قضائً أو واجبۃً أو نفلًا أو (علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو) (مع شروق) (واستواء) … (وغروب، إلا عصر یومہ) فلایکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳، رقم: ۱۷۱۔
(۱)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸۔
(۲)  ابن عابدین،   ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۰-۳۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص112

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جو سجدہ واجب ہوا تھا وہ تلاوت کا سجدہ تھا(۳) نماز کا نہیں تھا؛ پس اگر سجدہ تلاوت نماز میں واجب ہوا تو نماز میں اس کو ادا کرنا چاہئے لیکن اگر بھول جائے تو بھی سجدہ سہو واجب نہیں اس لیے سجدہ سہو تو نماز کے کسی واجب کے سہواً ترک سے واجب ہوتا ہے اور یہ واجب نماز کا واجب نہیں تلاوت کا ہے پس اگر چھوٹ جائے تو بھی نماز درست ہوگئی۔(۱)

(۳) والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالی والسامع سواء قصد سماع القرآن أولم یقصد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۳)
(۱) وفي التجنیس: وہل یکرہ تاخیرہا عن وقت القراء ۃ ذکر في بعض المواضع أنہ إذا قرأہا في الصلاۃ فتاخیرہا مکروہ، وإن قرأہا خارج الصلاۃ لایکرہ تاخیرہا۔ وذکر الطحاوي: أن تاخیرہا مکروہ مطلقاً وہو الأصح اھـ۔ وہي کراہۃ تنزیہیۃ في غیر الصلاتیہ لأنہا لو کانت تحریمیۃ لکان وجوبہا علی الفور ولیس کذلک۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کتب حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی ہے ؛اس لئے اس پر اعتماد نہ کرنا چاہئے۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جود‘‘: ج ۱، ص:۳۷۱ رقم: ۲۶۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص305

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رات میں ایک سلام سے آٹھ رکعت تک پڑھنے کی اجازت ہے مگر حضرات صاحبینؒ کے نزدیک رات میں بھی دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے۔(۱)

(۱) وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ، لأنہ لم یرد، والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنی أفضل، قیل وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۵، زکریا دیوبند)
وکرہ الزیادۃ علی أربع في نوافل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ واحدۃ، والأفضل فیہما رباع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص415

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2162/44-2272

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآت قرآن کے وقت بعض الفاظ میں ہونٹ کی جنبش ضروری ہے، ہونٹ کی حرکت کے بغیر وہ الفاظ ادا نہیں ہوتے، تاہم ہونٹ کی حرکت کا محسوس ہونا دوسری چیز ہے، ہلکی سی حرکت میں دوسروں کو ممکن ہے محسوس نہ ہو، اس لئے اگر امام صاحب کہتے ہیں کہ میں قرات کرتاہوں تو اس میں ان کی ہی بات درست مانی جائے گی، اس لئے آپ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں اور باقی لوگ بھی ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ سب کی نماز درست ہوگی اور اگر خدانخواستہ امام صاحب ہی غلطی پر ہیں تو ان کی بھی نماز خراب ہو گی اور تمام مصلین کی بھی، اور سب کا گناہ ان کے سر ہوگا۔ اس لئے امام صاحب بھی اس میں احتیاط برتیں اور قرات میں اس قدر آواز پیداکریں کہ وہ خود سن سکیں تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صفوف کو پُر کرنا مسنون ہے اور سوال میں ذکر کردہ صورت انفصال کی نہیں ہے اس لیے نماز تیسری منزل والوں کی بھی درست ہوگئی البتہ ایسا کرنا خلافِ سنت ہے۔(۲)

(۲) عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: سوّوا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إقامۃ الصف من تمام الصلاۃ‘‘: ص: ۱۵۰، رقم:۷۲۳)
عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سوّوا صفوفکم فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ۔ (أخرجہ المسلم في صحیحہ، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف و إقامتھا، و فضل الأوّل فالأوّل منھا، ج۱، ص۱۸۲، رقم:۴۳۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص467

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جب آفتاب طلوع ہو جائے اور زردی زائل ہو جائے یعنی سورج کم از کم ایک نیزہ کی مقدار بلند ہو جائے جس کا اندازہ فقہاء کرام نے تقریباً دس منٹ سے لگایا ہے اور سورج میں اتنی روشنی آ جائے کہ نظر اس پر ٹھہر نہ سکے تو مکروہ وقت ختم  ہو جاتا ہے اس کے بعد پڑھی جانے والی نماز درست ہو جاتی ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ جب سورج دو نیزے کی مقدار بلند ہو جائے یعنی سورج طلوع ہونے سے بیس منٹ کے بعد نماز پڑھی جائے۔ نیز طلوع آفتاب کے وقت پڑھی گئی نفل نماز تو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہو جاتی ہے؛ البتہ اگر فرض یا واجب نماز پڑھی گئی تو اعادہ لازم ہے۔
’’وقت الفجر من الصبح الصـادق وہو البیاض المنتشر فی الأفق إلی طلوع الشمس‘‘(۱)
’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیہا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولہا أي الأوقات المکروہۃ أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین‘‘(۲)
’’والإسفار بالفجر مستحب سفرا وحضرا للرجال‘‘(۳)
’’ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک، فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان قال الشیخ الإمام أبو بکر محمد بن الفضل: ما دام الإنسان یقدر علی النظر إلی قرص الشمس فہي في الطلوع۔ کذا في الخلاصۃ۔ ہذا إذا وجبت صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في وقت مباح وأخرتا إلی ہذا الوقت، فإنہ لا یجوز قطعا، أما لو وجبتا في ہذا الوقت وأدیتا فیہ جاز؛ لأنہا أدیت ناقصۃ کما وجبت۔ کذا في السراج الوہاج وہکذا في الکافي والتبیین، لکن الأفضل في سجدۃ التلاوۃ تأخیرہا وفي صلاۃ الجنازۃ التأخیر مکروہ۔ ہکذا في التبیین ولایجوز فیہا قضاء الفرائض والواجبات الفائتۃ عن أوقاتہا کالوتر۔ ہکذا في المستصفی والکافي‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا، الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، ۱۸۶۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۷۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص113


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نمازی نے امام کی اقتدا میں بھول کر تشہد کے بجائے درود پڑھ لیا ہے توبھی امام کے ساتھ اپنی نماز پوری کرے، اس کی نماز بلا کراہت درست ہوگئی ہے مقتدی کی غلطی سے مقتدی یا امام پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا۔(۲)

(۱) لا یلزم سجود السہو بسہو المقتدي لاعلیہ ولا علی إمامہ۔ (الحلبي،  الأنہر في شرح ملتقی الأبحر،’’کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو‘‘ ج۱، ص: ۲۲۲)
ومقتد بسہو إمامہ إن سجد إمامہ لوجوب المتابعۃ لاسہوہ أصلاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ باب سجود السھو‘‘: ج۲، ص: ۵۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص84

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص امام کے ساتھ نماز وتر پڑھے اور بعد میں اپنی چھوٹی ہوئی تراویح پوری کرلے۔(۱)

(۱) ووقتہا بعد صلاۃ العشاء الی الفجر قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ ثم صلی ما فاتہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۳، ۴۹۴، زکریا دیوبند؛ و الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في مقدار التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۴زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال نمازیں نوافل ہیں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔(۲)

(۲) ومن المندوبات صلاۃ الضحی وأقلہا رکعتان وأکثرہا ثنتا عشرۃ رکعۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین، کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔… قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامّۃ تامّۃ تامّۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘ج۱، ص:۱۳۰: رقم: ۵۸۶)
وندب أربع فصاعداً في الضحٰی علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ وفي المنیۃ: أقلہا رکعتان، وأکثرہا اثني عشر وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیہ، لثبوتہ بفعلہ وقولہ علیہ السلام۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۶۵، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص415