Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حدیث میں ہے کہ ’’إن الشمس تطلع بین قرنی الشیطان‘‘(۲) کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اس وقت نماز پڑھنے سے شیطان کی عبادت کا شائبہ پیدا ہوتا ہے نیز ان اوقات میں مشرکین شیطان کی پرستش کرتے ہیں؛ لہٰذا اس تشبہ سے بچنے کا حکم فرماکر ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع قرار دیا۔
’’لا تجوز الصلوٰۃ عند طلوع الشمس ولا عند قیامہا في الظہیرۃ ولا عند غروبہا لحدیث عقبۃ بن عامر قال ثلثۃ أوقات نہانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نصلی وأن نقبر فیہا موتانا عند طلوع الشمس حتی ترتفع وعند زوالہا حتی تزول وحین تضیف للغروب حتی تغرب‘‘(۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب: ما جاء في الساعات التي تکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ص: ۸۸، رقم: ۱۲۵۳۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات التي تکرہ فیہا الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، ۸۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)
(۱) والتنحنح بحرفین بلا عذر إما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدی إمامہ أو للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح۔۔۔۔۔ والتأوہ ہو قولہ آہ بالمد التأفیف أف أو تف والبکاء بصوت یحصل بہ حروف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۶-۳۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز وتر کا اصل وقت فرائض عشاء کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اس لیے جو وتر کی نماز فرائض عشاء کی ادائیگی سے پہلے پڑھی ہے وہ ادا نہیں ہوئی البتہ وتر کے بعد جو نماز عشاء ادا کی وہ درست ہوگئی اور وتر بعد میں پھر ادا کرے۔(۱)
(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ کذا في الکافي۔ ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب، لا لأن وقت الوتر لم یدخل، حتی لو صلی الوتر قبل العشاء ناسیاً، أو صلاہما فظہر فساد العشاء دون الوتر، فإنہ یصح الوتر، ویعید العشا، وحدہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ؛ لأن الترتیب یسقط بمثل ہذا العذر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت‘‘: ج ۱، ص:۱۰۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سورج گہن کے وقت نفل نماز مسجد میں جمع ہوکر پڑھنا اور امام کا نماز پڑھانا مشروع و سنت ہے۔ دو رکعت نفل نماز کی نیت کی جائے۔(۱)
(۱) سن رکعتان کہیئۃ النفل للکسوف …… ولاجماعۃ فیہا إلا بإمام الجمعۃ أو مامور السلطان دفعاً للفتنۃ، فیصلیہما بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ، قال الطحطاوي: عن سمرۃ صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في کسوف الشمس لا تسمع لہ صوتاً۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب صلاۃ الکسوف‘‘: ص:۵۴۳-۵۴۵، اشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص412
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 1155
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خوشی کا موقع ہے لہذا عیدگاہ کی صفائی اور تزئین کاری درست ہے تاہم یہ خیال رہے کہ مسجد اور عیدگاہ کی رقم تزئین کاری میں استعمال نہ کی جائے، کوئی شخص انفرادی طور پر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، اورتزئین کاری میں غیروں کی مشابہت سے بھی گریز کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صاحب ترتیب کی نماز غیر صاحب ترتیب کے پیچھے بلا شبہ ادا ہو سکتی ہے۔ غیر صاحب ترتیب کی نماز درست ہے تو اس کی اقتداء بھی درست ہے۔(۱)
(۱) لا یلزم الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ ولا بین الفوائت إذا کانت الفوائت ستا کذا في النہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، مطلب في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص465
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عیدالفطر اور اسی طرح عیدالاضحی کی نماز کا وقت زوال سے پہلے تک رہتا ہے اور زوال کے وقت ختم ہوجاتا ہے؛ لہٰذا بوقت زوال نماز اور خطبہ درست نہیں ہوں گے۔(۲)
(۲) وابتداء وقت صلاۃ العیدین من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا وتوخر صلاۃ عید الفطر بعذر کالمطر ونحوہ إلی الغد فقط وتؤخر صلاۃ عید الاضحی بعذر إلی ثلثۃ أیام۔ (أحمد بن محمد، طحطاوي علی المراقي، ’’أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۲-۵۳۸)
وقد وقع في عبارات الفقہاء أن الوقت المکروہ ہو عند انتصاف النہار إلی أن تزول الشمس، ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل، وفي ہذ القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ، فلعل المراد أنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان الخ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۱، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص110
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے، مفسد نماز نہیں ہے۔(۲)
(۲)وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَہ۲۳۸ (سورۃ البقرۃ: ۲۳۸)
وکذلک القیام لقولہ تعالی وقوموا للّٰہ قانتین۔ (البقرۃ: ۲۳۹) أي مطیعین وقیل خاشعین، وقیل: ساکنین۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ ہیں اور اس سلسلہ میں طحاوی شریف ،مسلم شریف، ترمذی شریف اور بدائع الصنائع میں روایات اور وضاحت موجود ہے۔
عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث۔ یقرأ فی أول رکعۃ بـ سبح اسم ربک الأعلی وفی الثانیۃ: قل یا أیہا الکافرون وفی الثالثۃ: قل ہو اللہ أحد والمعوذتین، فأخبرت عمرۃ، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی ہذا الحدیث بکیفیۃ الوترکیف کانت ووافقت علی ذلک سعد بن ہشام وزاد علیہا سعد أنہ کان لا یسلم إلا في آخرہن (۱)
فقد ثبت بہذہ الآثار التي رویناہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن الوتر أکثر من رکعۃ، ولم یرو فی الرکعۃ شیء، وتأویلہ یحتمل ما قد شرحناہ وبیناہ في موضعہ من ہذا الباب۔ ثم أردنا أن نلتمس ذلک من طریق النظر فوجدنا الوتر لا یخلو من أحد وجہین، إما أن یکون فرضا أو سنۃ، فإن کان فرضا فإنا لم نر شیئا من الفرائض إلا علی ثلاثۃ أوجہ، فمنہ ما ہو رکعتان، ومنہ ما ہو أربع، ومنہ ما ہو ثلاث، وکل قد أجمع أن الوتر لا تکون اثنتین ولا أربعا۔ فثبت بذلک أنہ ثلاث‘‘(۲)
’’(فصل): وأما الکلام فی مقدارہ: فقد اختلف العلماء فیہ، قال أصحابنا: الوتر ثلاث رکعات بتسلیمۃ واحدۃ فی الأوقات کلہا۔ وقال الشافعي: ہو بالخیار إن شاء أوتر برکعۃ أو ثلاث أو خمس أو سبع أو تسع أو أحد عشر في الأوقات کلہا۔ وقال الزہري: في شہر رمضان ثلاث رکعات، وفي غیرہ رکعۃ۔ احتج الشافعي بما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من شاء أوتر رکعۃ ومن شاء أوتر بثلاث أو بخمس، ولنا: ما روي عن ابن مسعود وابن عباس وعائشۃ رضي اللّٰہ عنہم أنہم قالوا: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث رکعات، وعن الحسن قال: أجمع المسلمون علی أن الوتر ثلاث لا سلام إلا في آخرہن، ومثلہ لا یکذب؛ ولأن الوتر نفل عندہ، والنوافل أتباع الفرائض فیجب أن یکون لہا نظیرا من الأصول والرکعۃ الواحدۃ غیر معہودۃ فرضا وحدیث التخییر محمول علی ما قبل استقرار أمر الوتر بدلیل ما روینا‘‘(۱)
’’عن عائشۃ، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، یوتر من ذلک بخمس، لا یجلس في شيء إلا فی آخرہا‘‘(۲)
’’عن علي، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث، یقرأ فیہن بتسع سور من المفصل، یقرأ في کل رکعۃ بثلاث سور آخرہن قل ہو اللّٰہ أحد‘‘(۳)
(۱) أحمد بن محمد أبو جعفر الطحاوي، الطحاوي، شرح معاني الآثار، ’’باب الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، رقم: ۱۶۹۵۔
(۲) قد سیق تخریجہ، ج۱، ص: ۲۹۲، رقم: ۱۷۳۹۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، فصل الکلام …فی مقدار صلاۃ الوتر، ج۱، ص: ۶۰۹۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب صلاۃ اللیل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴، رقم ۷۳۷۔)
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ماجاء في الوتر بثلاث‘‘:ج۱، ص: ۱۰۶، نعیمیہ دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر زید کو لکھنؤ جانا ہو اور ٹکٹ بنواکر ریزویشن کرا چکا ہے پھر یہ کہے کہ فلاں تاریخ کو لکھنؤ جاؤں گا، تو اس کا کہنا صحیح اور درست ہے، اس کو کوئی بھی غلط نہیں کہہ سکتا، حالاں کہ بالیقین اس کو اپنے جانے کا علم نہیں ہے کیا خبر کیا بات پیش آجائے کہ نہ جا سکے۔ بس اسی طرح سائنس کے حساب سے اگر کسی چیز کا علم واندازہ لگایا جائے، تو غلط نہیں ہے، ہاں اس پر یقین کامل اعتقاد کے درجے میں درست نہیں، سورج گہن کے وقت خداوند قدوس کی صفت قہار کا اظہار ہوتا ہے اس وقت اہم عبادت نماز میں مشغول ہونا باعث اجر عظیم ہے تو اگر صرف یہ اطلاع ہو کہ سورج گہن ہوگا تو فلاں مسجد میں نماز ہوگی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے اس قسم کے مسائل اور ایسے وقت کی عبادات سے لوگ غافل رہتے ہیں۔(۱)
(۱) قولہ: وہو غلبۃ الظن، لأنہ العلم الموجب للعمل لا العلم بمعنی الیقین۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج۳، ص: ۳۵۶، زکریا دیوبند)
قولہ: لایفید إلا الظن بمعنی أنہ لایحصل بخبر کل واحد اثر متجدد بحیث یخرج عن مرتبۃ الظن ویرتفع إلی مرتبۃ الیقین۔ (تفتازاني، شرح عقائد، ص: ۱۵، حاشیہ، ص: ۱۱، مکتبہ بلال دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص412