نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جب آفتاب طلوع ہو جائے اور زردی زائل ہو جائے یعنی سورج کم از کم ایک نیزہ کی مقدار بلند ہو جائے جس کا اندازہ فقہاء کرام نے تقریباً دس منٹ سے لگایا ہے اور سورج میں اتنی روشنی آ جائے کہ نظر اس پر ٹھہر نہ سکے تو مکروہ وقت ختم  ہو جاتا ہے اس کے بعد پڑھی جانے والی نماز درست ہو جاتی ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ جب سورج دو نیزے کی مقدار بلند ہو جائے یعنی سورج طلوع ہونے سے بیس منٹ کے بعد نماز پڑھی جائے۔ نیز طلوع آفتاب کے وقت پڑھی گئی نفل نماز تو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہو جاتی ہے؛ البتہ اگر فرض یا واجب نماز پڑھی گئی تو اعادہ لازم ہے۔
’’وقت الفجر من الصبح الصـادق وہو البیاض المنتشر فی الأفق إلی طلوع الشمس‘‘(۱)
’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیہا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولہا أي الأوقات المکروہۃ أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین‘‘(۲)
’’والإسفار بالفجر مستحب سفرا وحضرا للرجال‘‘(۳)
’’ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک، فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان قال الشیخ الإمام أبو بکر محمد بن الفضل: ما دام الإنسان یقدر علی النظر إلی قرص الشمس فہي في الطلوع۔ کذا في الخلاصۃ۔ ہذا إذا وجبت صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في وقت مباح وأخرتا إلی ہذا الوقت، فإنہ لا یجوز قطعا، أما لو وجبتا في ہذا الوقت وأدیتا فیہ جاز؛ لأنہا أدیت ناقصۃ کما وجبت۔ کذا في السراج الوہاج وہکذا في الکافي والتبیین، لکن الأفضل في سجدۃ التلاوۃ تأخیرہا وفي صلاۃ الجنازۃ التأخیر مکروہ۔ ہکذا في التبیین ولایجوز فیہا قضاء الفرائض والواجبات الفائتۃ عن أوقاتہا کالوتر۔ ہکذا في المستصفی والکافي‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا، الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، ۱۸۶۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۷۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص113


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نمازی نے امام کی اقتدا میں بھول کر تشہد کے بجائے درود پڑھ لیا ہے توبھی امام کے ساتھ اپنی نماز پوری کرے، اس کی نماز بلا کراہت درست ہوگئی ہے مقتدی کی غلطی سے مقتدی یا امام پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا۔(۲)

(۱) لا یلزم سجود السہو بسہو المقتدي لاعلیہ ولا علی إمامہ۔ (الحلبي،  الأنہر في شرح ملتقی الأبحر،’’کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو‘‘ ج۱، ص: ۲۲۲)
ومقتد بسہو إمامہ إن سجد إمامہ لوجوب المتابعۃ لاسہوہ أصلاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ باب سجود السھو‘‘: ج۲، ص: ۵۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص84

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص امام کے ساتھ نماز وتر پڑھے اور بعد میں اپنی چھوٹی ہوئی تراویح پوری کرلے۔(۱)

(۱) ووقتہا بعد صلاۃ العشاء الی الفجر قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ ثم صلی ما فاتہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۳، ۴۹۴، زکریا دیوبند؛ و الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في مقدار التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۴زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال نمازیں نوافل ہیں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔(۲)

(۲) ومن المندوبات صلاۃ الضحی وأقلہا رکعتان وأکثرہا ثنتا عشرۃ رکعۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین، کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔… قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامّۃ تامّۃ تامّۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘ج۱، ص:۱۳۰: رقم: ۵۸۶)
وندب أربع فصاعداً في الضحٰی علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ وفي المنیۃ: أقلہا رکعتان، وأکثرہا اثني عشر وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیہ، لثبوتہ بفعلہ وقولہ علیہ السلام۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۶۵، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص415


 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2404/44-3628

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عیدین کی نماز عیدگاہ میں  اداکرنا مسنون اور  افضل ہے، البتہ اگر  عید گاہ میں ابھی عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو اور شہر کی مسجد میں نماز عید پہلےپڑھ لی جائے تو نمازاداہوجائے گی، گوکہ عیدگاہ کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔ ایسا ضروری نہیں ہے کہ عید گاہ میں نماز ہونے کے بعد ہی تمام مساجد میں عید کی نماز پڑھی جائے۔

ولو صلی العید فی الجامع ولم یتوجہ إلی المصلی فقد ترک السنة ۔ (البحرالرائق: ۲/۲۷۸) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)تکبیر کی صورت میں نماز نہیں ہوگی، مگر سلام کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔(۱)
(۲)اس میں بھی تکبیر کی صورت میں نماز نہیں ہوگی، مگر سلام کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔ (۲)

(۱) فإن قال المقتدي: اللّٰہ أکبر ووقع قولہ اللّٰہ مع الإمام وقولہ ’’أکبر‘‘ وقع قبل قول الإمام ذلک قال الفقیہ أبو جعفر: الأصح أنہ لا یکون شارعاً عندہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ زکریا دیوبند)
(وعن سبق تکبیر) علی النیۃ خلافاً للکرخي کما مر أو سبق المقتدي الإمام بہ فلو فرغ منہ قبل فراغ إمامہ لم یصح شروعہ والأول أولیٰ کما مر في توجیہ قولہ اتباع الإمام۔ …(رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث شروط النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(۲) قولہ: (ومتابعۃ الإمام) قال في شرح المنیۃ : لاخلاف في لزوم المتابعۃ في الأرکان الفعلیۃ إذ ہي موضوع الاقتداء واختلف في المتابعۃ في الرکن القولي وہو القرأۃ فعندنا لا یتابع فیہا بل یستمع وینصت وفیما عدا القرأۃ من الأذکار یتابع … والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(لہا واجبات) لا تفسد بترکہا وتعاد وجوباً في العمد والسہو إن لم یسجد … ولفط السلام مرتین فالثاني علی الأصح، دون علیکم الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب واجبات الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷)
(ولو أتمہ) أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ فرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قرائۃ التشہد وقد حصل وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعۃالإمام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مارّ بین یدیہ فلا کراہۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(وإنما یصیر شارعاً بالنیۃ عند التکبیر لابہ) وحدہ ولا بہا وحدہا بل بہما (ولا یلزم العاجز عن النطق) کأخرس وأمي (وتحریک لسانہ) وکذا في حق القرأۃ ہو الصحیح لتعذر الواجب فلا یلزم غیرہ إلا بدلیل فتکفی النیۃ۔ وقال في الشامي:  وإذا کان تحریک اللسان غیر قائم مقام النطق لعدم الدلیل فکیف تقام النیۃ مقامہ بلا دلیل مع أن التحریک أقرب إلی النطق من النیۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صفۃ الصلاۃ، مطلب إني حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص468

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر وقت میں اتنی گنجائش ہے کہ جلدی کے ساتھ دوسری رکعت ادا کرسکتا ہے تو بہت جلدی دوسری رکعت ادا کرے اور اگر اتنی گنجائش نہیں ہے تو نماز کو چھوڑ دے اور سورج طلوع ہونے کے بعد قضا کرے، اگر نماز کے دوران ہی سورج طلوع ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔(۲)

(۲) قولہ بخلاف الفجر الخ، أي فإنہ لا یؤدي فجر یومہ وقت الطلوع لأن وقت الفجر کلہ کامل فوجبت کاملۃ فتبطل بطروّ الطلوع الذي ہو وقت فساد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۳، زکریا، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص115

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر پورے سجدے میں دونوں پیر اٹھے رہے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر ایک پیر اٹھا رہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر پیر آگے پیچھے ہوجائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی اور اگر تھوڑے سے اٹھ گئے ہوں تو بھی نماز صحیح ہے۔(۱)

(۱) وأما وضع القدمین فقد ذکر القدوري أنہ فرض في السجود اھـ۔ فإذا سجد ورفع أصابع رجلیہ لایجوز، کذا ذکرہ الکرخي والجصاص، ولو وضع إحداہما جاز۔ قال قاضي خان : ویکرہ۔ وذکر الإمام التمرتاشي أن الیدین والقدمین سواء في عدم الفرضیۃ  إلی قولہ:  وبہ جزم في السراج فقال لو رفعہما في حال سجودہ لایجزیہ، ولو رفع  إحداہما جاز۔ وقال في الفیض : وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عمل بلا کراہت جائز ہے، ’’أما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز الخ‘‘ (شامی ج۱، ص ۵۶۳) البتہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کسی حنفی عالم سے دریافت کرلیا جائے کہ اس عمل میں اقتدا کی جائے گی یا نہیں۔(۲)

(۲) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف، وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعا بدعۃ یکفر بہا، ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ اھـ، وإذا لم یجد غیر المخالف ……فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، والاقتداء بہ أولی من الإنفراد علی أن الکراہۃ لا تنافي الثواب، افادہ العلامہ نوح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، دارالکتاب دیوبند؛ و إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ص: ۴۴۴،د ارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ طریقہ احادیث سے تو ثابت نہیں ہے اسی طرح سورت کے تکرار کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی بزرگ عامل نے بطور عمل بتلایا ہو، لیکن شرعی نقطہ نظر سے اس تکرار کو غیر افضل ہی کہا جائے گا۔(۱)

(۱) ولم یتعین شيء من القرآن لصحۃ الصلاۃ۔ لإطلاق ما تلونا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۷)
ویکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ في الفرائض ولابأس بذلک في التطوع۔ (جماعۃ من علماء الہند،  الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، مطبوعہ، کوئٹہ)
ویکرہ التعیین الخ ہذہ المسألۃ مفرعۃ علی ماقلبلہا، لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص416