نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2404/44-3628

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عیدین کی نماز عیدگاہ میں  اداکرنا مسنون اور  افضل ہے، البتہ اگر  عید گاہ میں ابھی عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو اور شہر کی مسجد میں نماز عید پہلےپڑھ لی جائے تو نمازاداہوجائے گی، گوکہ عیدگاہ کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔ ایسا ضروری نہیں ہے کہ عید گاہ میں نماز ہونے کے بعد ہی تمام مساجد میں عید کی نماز پڑھی جائے۔

ولو صلی العید فی الجامع ولم یتوجہ إلی المصلی فقد ترک السنة ۔ (البحرالرائق: ۲/۲۷۸) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)تکبیر کی صورت میں نماز نہیں ہوگی، مگر سلام کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔(۱)
(۲)اس میں بھی تکبیر کی صورت میں نماز نہیں ہوگی، مگر سلام کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔ (۲)

(۱) فإن قال المقتدي: اللّٰہ أکبر ووقع قولہ اللّٰہ مع الإمام وقولہ ’’أکبر‘‘ وقع قبل قول الإمام ذلک قال الفقیہ أبو جعفر: الأصح أنہ لا یکون شارعاً عندہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ زکریا دیوبند)
(وعن سبق تکبیر) علی النیۃ خلافاً للکرخي کما مر أو سبق المقتدي الإمام بہ فلو فرغ منہ قبل فراغ إمامہ لم یصح شروعہ والأول أولیٰ کما مر في توجیہ قولہ اتباع الإمام۔ …(رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث شروط النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(۲) قولہ: (ومتابعۃ الإمام) قال في شرح المنیۃ : لاخلاف في لزوم المتابعۃ في الأرکان الفعلیۃ إذ ہي موضوع الاقتداء واختلف في المتابعۃ في الرکن القولي وہو القرأۃ فعندنا لا یتابع فیہا بل یستمع وینصت وفیما عدا القرأۃ من الأذکار یتابع … والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(لہا واجبات) لا تفسد بترکہا وتعاد وجوباً في العمد والسہو إن لم یسجد … ولفط السلام مرتین فالثاني علی الأصح، دون علیکم الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب واجبات الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷)
(ولو أتمہ) أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ فرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قرائۃ التشہد وقد حصل وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعۃالإمام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مارّ بین یدیہ فلا کراہۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(وإنما یصیر شارعاً بالنیۃ عند التکبیر لابہ) وحدہ ولا بہا وحدہا بل بہما (ولا یلزم العاجز عن النطق) کأخرس وأمي (وتحریک لسانہ) وکذا في حق القرأۃ ہو الصحیح لتعذر الواجب فلا یلزم غیرہ إلا بدلیل فتکفی النیۃ۔ وقال في الشامي:  وإذا کان تحریک اللسان غیر قائم مقام النطق لعدم الدلیل فکیف تقام النیۃ مقامہ بلا دلیل مع أن التحریک أقرب إلی النطق من النیۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صفۃ الصلاۃ، مطلب إني حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص468

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر وقت میں اتنی گنجائش ہے کہ جلدی کے ساتھ دوسری رکعت ادا کرسکتا ہے تو بہت جلدی دوسری رکعت ادا کرے اور اگر اتنی گنجائش نہیں ہے تو نماز کو چھوڑ دے اور سورج طلوع ہونے کے بعد قضا کرے، اگر نماز کے دوران ہی سورج طلوع ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔(۲)

(۲) قولہ بخلاف الفجر الخ، أي فإنہ لا یؤدي فجر یومہ وقت الطلوع لأن وقت الفجر کلہ کامل فوجبت کاملۃ فتبطل بطروّ الطلوع الذي ہو وقت فساد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۳، زکریا، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص115

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر پورے سجدے میں دونوں پیر اٹھے رہے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر ایک پیر اٹھا رہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر پیر آگے پیچھے ہوجائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی اور اگر تھوڑے سے اٹھ گئے ہوں تو بھی نماز صحیح ہے۔(۱)

(۱) وأما وضع القدمین فقد ذکر القدوري أنہ فرض في السجود اھـ۔ فإذا سجد ورفع أصابع رجلیہ لایجوز، کذا ذکرہ الکرخي والجصاص، ولو وضع إحداہما جاز۔ قال قاضي خان : ویکرہ۔ وذکر الإمام التمرتاشي أن الیدین والقدمین سواء في عدم الفرضیۃ  إلی قولہ:  وبہ جزم في السراج فقال لو رفعہما في حال سجودہ لایجزیہ، ولو رفع  إحداہما جاز۔ وقال في الفیض : وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عمل بلا کراہت جائز ہے، ’’أما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز الخ‘‘ (شامی ج۱، ص ۵۶۳) البتہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کسی حنفی عالم سے دریافت کرلیا جائے کہ اس عمل میں اقتدا کی جائے گی یا نہیں۔(۲)

(۲) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف، وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعا بدعۃ یکفر بہا، ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ اھـ، وإذا لم یجد غیر المخالف ……فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، والاقتداء بہ أولی من الإنفراد علی أن الکراہۃ لا تنافي الثواب، افادہ العلامہ نوح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، دارالکتاب دیوبند؛ و إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ص: ۴۴۴،د ارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ طریقہ احادیث سے تو ثابت نہیں ہے اسی طرح سورت کے تکرار کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی بزرگ عامل نے بطور عمل بتلایا ہو، لیکن شرعی نقطہ نظر سے اس تکرار کو غیر افضل ہی کہا جائے گا۔(۱)

(۱) ولم یتعین شيء من القرآن لصحۃ الصلاۃ۔ لإطلاق ما تلونا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۷)
ویکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ في الفرائض ولابأس بذلک في التطوع۔ (جماعۃ من علماء الہند،  الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، مطبوعہ، کوئٹہ)
ویکرہ التعیین الخ ہذہ المسألۃ مفرعۃ علی ماقلبلہا، لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص416

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/861

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ نے سنت شروع کردی تو اب توڑنا جائز نہیں ہے۔ سنت پوری کریں، پھر اگر قعدہ اخیرہ مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ تنہا نماز پڑھ لیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام سے پہلے مقتدی کے سلام پھیرنے سے نماز ہو جائے گی؛ البتہ مقتدی کے لیے ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، ہاں اگر سہوا یا کسی عذر کی وجہ سے سلام پھیرا تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم  فلما  قضی  صلاتہ  أقبل  علینا  بوجہہ  فقال  أیہا الناس  إني  إمامکم  فلا تسبقوني بالرکوع ولا بالسجود ولا بالقیام إلا بالانصراف فإني أراکم أمامي ومن خلفي‘‘(۲)

(۱) ولو أتمہ قبل إمامہ جاز وکرہ، قولہ ولو أتمہ … أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام وکلام أو قیام جاز أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان، لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد وقد حصل وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترک متابعۃ الإمام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص:۲۴۰)
(۲) أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام برکوع أو سجود ونحوہما‘‘: ج ۱، ص:۱۸۰، رقم: ۴۲۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص469

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ہر طرح کے نوافل ادا کرنا ممنوع ہے، البتہ اگر کوئی عصر کے بعد قضاء نمازوں میں سے کوئی نماز ادا کرنا چاہتا ہے سورج کی زردی مائل ہونے سے پہلے تک قضاء نماز پڑھ سکتا ہے، سورج کی زردی مائل ہونے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک آج کی عصر کے علاوہ کوئی نماز ادا نہیں کر سکتا ہے۔(۱)

(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض … فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ … ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الاول في المواقیت وما یتصل بہا : الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۹، زکریا دیوبند)
یجوز قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في ہذا الوقت بلا کراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘:  مطلب یشترط العلم بدخول الوقت، ج ۲، ص: ۳۸ )
وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنہیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت‘‘: ج۲، ص: ۵۲۴، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص116

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر دانتوں کے درمیان کی چیز ایک چنے کے دانہ کی مقدار کے برابر یا اس سے کم ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر چنے کے دانہ سے بڑی ہے، تو نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)

(۱) وأکل شيء من خارج فمہ ولو قل أو أکل مابین أسنانہ وہو قدر الحمصۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۸۱)
ویفسدہا أکل شيء من خارج فمہ ولو قل کسمسمۃ لإمکان الاحتراز عنہ ویفسدہا أکل مابین أسنانہ إن کان کثیرا وہو أي الکثیر ’’قدر الحمصۃ‘‘ ولو بعمل قلیل لإمکان الاحتراز عنہ بخلاف القلیل بعمل قلیل لأنہ تبع لریقہ وإن کان بعمل کثیر فسد بالعمل۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳، ۳۲۴)
وأکلہ وشربہ مطلقا ولو سمسمۃ ناسیا إلا إذا کان بین أسنانہ مأکول دون الحمصۃ کما في الصوم ہو الصحیح، قالہ الباقانی فابتلعہ، أما المضغ فمفسد کسکر في فیہ یبتلع ذوبہ۔ (الحصکفي،  الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۲،۳۸۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص86