نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1920/43-1824

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سنن مؤکدہ کا اہتمام کرنا ضروری ہے، اور اس کی پابندی لازم ہے، البتہ اگر کبھی تھکان یا کسی عذر کی  وجہ سے چھوٹ جائے تو حرج نہیں ہے، لیکن مستقل ترک کی عادت بنالینا گناہ کا باعث ہے۔ اس لئے پانچ منٹ مزید نکال کر سنت مؤکدہ  کی پابندی کرنی چاہئے، اس میں کوتاہی اچھی بات نہیں ہے۔

قال ابن عابین: الحاصل أن السنة إذا کانت موٴکدةً قویةً لا یبعد کونُ ترکہامکروہًا تحریمًا - وقال: کانت السنة الموٴکدة قریبةً من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر ویستوجب تارکہا التضلل واللوم کما فی التحریر أی علی سبیل الإصرار بلا عذر (رد المحتار: ۲/۲۹۲، مطلب في السنن والنوافل، دار إحیاء التراث العربی) وقال ابن عابدین نقلاً عن التلویح: ترک السنة الموٴکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة لقولہ علیہ الصلاة والسلام: من ترک سنتي لم ینل شفاعتي وفي التحریر: إن تارکہا یستوجب التضلیل واللوم والمراد الترک بلا عذر علی سبیل الإصرار کما في شرح التحریر لابن أمیر الحاج- ال: (رد المحتار: ۱/۲۲۰، کتاب الطہارة، مطلب في لاسنة وتعریفہا، زکریا) وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ما من عبد مسلم یصل للہ کل یوم ثنتي عشرة رکعة تطوعًا غیر الفریضة إلا بنی اللہ لہ بیتًا في الجنة (مسلم: ۱/۲۵۱)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے صحیح قرآن پڑھنے والے عالم کی نماز درست نہیں واجب الاعادہ ہے۔
’’ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبیٰ، وحرر الحلبی وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتماً کالأمي فلا یؤم إلا مثلہ۔ قولہ فلا یؤم إلا مثلہ! یحتمل أن یراد المثلیۃ في مطلق اللثغ فیصح اقتداء من یبدل الراء المہملۃ غینا معجمۃ بمن یبدلہا لاماً … إذا فسد الاقتداء … بأي وجہ کان لا یصح شروعہ في صلاۃ نفسہ‘‘(۱)
’’ولا حافظ آیۃ من القرآن بغیر حافظ لہا وہو الأمي … قولہ بغیر حافظ …
شمل من یحفظہا أو أکثر منہا لکن بلحن مفسد للمعنیٰ لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القراء ۃ المفروضۃ‘‘(۲)

 

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا کانت اللثغۃ یسیرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۹، زکریا۔
(۲) أیضًا: ’’مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘:ص: ۳۲۴، زکریا۔
ولا یجوز إمامۃ الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف فامّا إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ ومن یقف في غیر مواضعہ ولا یقف في مواضعہ لاینبغي لہ أن یؤم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص465

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب مکمل ہونے سے پہلے اور ایسے ہی عصر کی نماز کے بعد غروبِ آفتاب سے پہلے نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ ان دو اوقات کے بعد نفل نمازپڑھیں۔(۱)

(۱)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن بیعتین و عن لبستین و عن صلاتین نہی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ، بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۶۳)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا صلاۃ بعد الفجر إلا سجدتین۔ … وہو ما أجمع علیہ أہل العلم: کرہوا أن یصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر ومعنی ھذا الحدیث إنما یقول لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ،  ’’باب ما جاء لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتین‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۴۱۹)
عن یسار مولی عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: رآني ابن عمر وأنا أصلي بعد ما طلع الفجر، فقال: یا یسار کم صلیت؟ قلت: لا أدري، قال: لا دریت إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج علینا ونحن نصلي ہذہ الصلاۃ فقال: ألا لیبلغ شاہدکم غائبکم،  ان لا صلاۃ بعد الصبح إلا سجدتان۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ مسند عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما: ج ۱۰،ص: ۷۳، رقم: ۵۸۱۱)
تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ، فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان۔ منہا: ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔کذا في النہایۃ والکفایۃ، یکرہ فیہ التطوع بأکثر من سنۃ الفجر۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ، لو افتتح صلاۃ النفل في وقت مستحب ثم أفسدہا فقضاہا بعد صلاۃ العصر قبل مغیب الشمس لا یجزیہ ہکذا في محیط السرخسي، ومنہا: ما بعد غروب الشمس قبل صلاۃ المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا،  الفصل الثالث،  في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹، مکتبہ: رشیدیہ دیوبند)
(وکرہ نفل) قصدا ولو تحیۃ مسجد (وکل ما کان واجبا) لا لعینہ بل (لغیرہ) وہو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور، ورکعتي طواف) وسجدتي سہو (والذي شرع فیہ) في وقت مستحب أو مکروہ (ثم أفسدہ و) لو سنۃ الفجر (بعد صلاۃ فجر و) صلاۃ (عصر)۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۶،۳۷)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص111

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرأت میں غلطی سے متعلق ایک اصول یا د رکھیں کہ اگر کسی سے نماز کی حالت میں قرأت میں فحش غلطی ہو جائے اور وہ غلطی اس نوعیت کی ہو کہ اس سے معنی بالکل تبدیل اور فاسد ہو جائے تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے، چاہے مقدارِ واجب قرأت کی جا چکی ہو یا نہیں، تاہم اگر کوئی غلطی ہو جائے اور اس کی اصلاح اسی رکعت میں کرلی جائے یا ایسی غلطی ہو جس سے معنی میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جس سے نماز میں فساد پیدا ہو تو اس صورت میں نماز ادا ہو جاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں {لیکونا من الأسفلین} کی جگہ ’’لیکونا من المسلمین‘‘ پڑھا گیا ہے، چوں کہ یہ فحش غلطی ہے اور معنی بالکل تبدیل ہوگئے ہیں، نیزقاری نے نماز میں یہ غلطی درست بھی نہیں کی اور دوسرے مقام سے قرائت شروع کردی تو اس صورت میں نماز فاسد ہوگئی، نماز کا اعادہ کرنا اس پر لازم ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ الہندیہ میں ہے:
’’أما إذا لم یقف ووصل إن لم یغیر المعنی نحو أن یقرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات فلہم جزاء الحسنی‘‘ مکان قولہ ’’کانت لہم جنات الفردوس نزلا‘‘ لاتفسد۔ أما إذا غیر المعنی بأن قرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات أولئک ہم شر البریۃ، إن الذین کفروا من أہل الکتاب‘‘ إلی قولہ ’’خالدین فیہا أولئک ہم خیر البریۃ‘‘ تفسد عند عامۃ علمائنا وہو الصحیح، ھکذا في الخلاصۃ۔(۱)
’’ذکر في الفوائد لو قرأ في الصلاۃ بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحیحاً، قال: عندي صلاتہ جائزۃ، وکذلک الإعراب، ولو قرأ النصب مکان الرفع، والرفع مکان النصب، أو الخفض مکان الرفع أو النصب لاتفسد صلاتہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، و منہا ذکر آیۃ مکان آیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸۔)
(۲) المرجع السابع ’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، و منہا : إدخال التأنیث في أسماء اللّٰہ تعالیٰ‘‘ ج۱، ص۱۴۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اگر تمام لوگوں نے وتر کی نماز پڑھ لی تھی تو تراویح کے بعد وتر کی جماعت نہ کی جائے کیوں کہ وتر کی نمازپہلے ادا ہوچکی ہے۔(۴)

(۴) وإذا صلی الوتر قبل النوم، ثم تہجد لا یعید الوتر لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا وتران في لیلۃ۔ (أحمد بن أحمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، ط: دار الکتاب، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں نمازیں الگ الگ ہیں اور اور ان کے اوقات مختلف ہیں او ران کی فضیلتیں احادیث میں علیحدہ علیحدہ مذکور ہیں اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد شروع ہوجاتا ہے اور نصف النہار تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے اور چاشت کا وقت سورج خوب روشن ہوجانے (دس گیارہ بجے) کے بعد سے شروع ہوکر نصف النہار تک رہتا ہے۔ اور اوابین کا وقت مغرب کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ البتہ احادیث میں دو وقت کی نوافل پر اطلاق اوابین کا آیا ہے، ایک چاشت کی نماز پر اور دو سرے نوافل بعد المغرب پر پس مغرب کے بعد کی چھ رکعتوں کے علاوہ چاشت کو بھی صلاۃ اوابین کہہ سکتے ہیں اس معنی میں اوابین اور چاشت دونوں ایک نماز ہوسکتی ہیں۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان: الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین، یقال لہا صلاۃ الاشراق۔ والثانیۃ عند ارتفاع الشمس، قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحی۔ واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضًا‘‘(۱)

(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب النفل والسنن‘‘: ج ۷، ص: ۳۰، مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔)
عن عاصم بن ضمرۃ السلولي، قال: سألنا علیّاً عن تطوع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بالنہار، فقال: إنکم لاتطیقونہ۔ فقلنا: أخبرنا بہ نأخذ ما استطعنا قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی الفجر یمہل حتی إذا کانت الشمس من ہاہنا یعني: من قبل المشرق بمقدارہا من صلاۃ العصر من ہاہنا یعنی: من قبل المغرب قام فصلی أربعاً۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیما یستحب من التطوع بالنھار‘‘: ج ۱، ص: ۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص413

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بوقت جماعت اس طرح مسجد کے اندرونی کواڑوں کو بند کرلینا کہ آواز تکبیرات و قرأت امام کی باہر مقتدیوں کو نہ سنائی دے سکے درست اور جائز نہیں ہے کہ اس سے باہر کے مقتدی پریشان ہوں گے اور ان کی نماز میں خلل آسکتا ہے۔ لیکن اگر کواڑ بند ہوکر بھی تکبیرات انتقالیہ کی آواز باہر آتی ہے اور مقتدیوں کو اپنی نماز میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تو ان مقتدیوں کی نماز صحیح ہوجائے گی۔(۱)

(۱) وأما إذا کان الحائط صغیراً یمنع ولکن لایخفیٰ حال الإمام فمنہم من یصح الاقتداء وہو الصحیح۔۔۔ وإن کان في الحائط باب سروداً قیل لایصح لأنہ یمنعہ من الوصول وقیل یصح لأن وضع الباب للوصول لیکون المسدود کالمفتوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الرابع في بیان مایمنع صحۃ الاقتداء ومالایمنع‘‘: ج۱، ص: ۱۴۶، زکریا دیوبند)
والحائل لایمنع الاقتداء إن لم یشبہ حال إمامہ بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح ولم یختلف المکان حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص466

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ مذکورہ مسئلے میں قدرے تفصیل ہے: اگر اوقاتِ مکروہہ ہی میں سجدہ تلاوت واجب ہو جائے یا جنازہ تیار ہو جائے تو اس صورت میں مکروہ اوقات میں سجدہ تلاوت کرنا یا نماز جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے؛ لیکن نماز جنازہ پہلے سے تیار ہو یا سجدہ تلاوت پہلے سے واجب ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں اوقاتِ مکروہہ میں سجدہ تلاوت کرنا یا نماز جنازہ کا پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ: یا علي! ثلاث لاتؤخرہا: الصلاۃ إذا آنت، والجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت لہا کفوًا  ‘‘(۱)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’إذا وجبت صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في وقت مباح وأخرتا إلی ہذا الوقت فإنہ لا یجوز قطعا أما لو وجبتا في ہذا الوقت وأدیتا فیہ جَاز‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’(وکرہ) تحریماً … (صلاۃ) مطلقاً (ولو) قضائً أو واجبۃً أو نفلًا أو (علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو) (مع شروق) (واستواء) … (وغروب، إلا عصر یومہ) فلایکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳، رقم: ۱۷۱۔
(۱)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸۔
(۲)  ابن عابدین،   ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۰-۳۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص112

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جو سجدہ واجب ہوا تھا وہ تلاوت کا سجدہ تھا(۳) نماز کا نہیں تھا؛ پس اگر سجدہ تلاوت نماز میں واجب ہوا تو نماز میں اس کو ادا کرنا چاہئے لیکن اگر بھول جائے تو بھی سجدہ سہو واجب نہیں اس لیے سجدہ سہو تو نماز کے کسی واجب کے سہواً ترک سے واجب ہوتا ہے اور یہ واجب نماز کا واجب نہیں تلاوت کا ہے پس اگر چھوٹ جائے تو بھی نماز درست ہوگئی۔(۱)

(۳) والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالی والسامع سواء قصد سماع القرآن أولم یقصد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۳)
(۱) وفي التجنیس: وہل یکرہ تاخیرہا عن وقت القراء ۃ ذکر في بعض المواضع أنہ إذا قرأہا في الصلاۃ فتاخیرہا مکروہ، وإن قرأہا خارج الصلاۃ لایکرہ تاخیرہا۔ وذکر الطحاوي: أن تاخیرہا مکروہ مطلقاً وہو الأصح اھـ۔ وہي کراہۃ تنزیہیۃ في غیر الصلاتیہ لأنہا لو کانت تحریمیۃ لکان وجوبہا علی الفور ولیس کذلک۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کتب حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی ہے ؛اس لئے اس پر اعتماد نہ کرنا چاہئے۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جود‘‘: ج ۱، ص:۳۷۱ رقم: ۲۶۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص305