نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی نماز امام صاحبؒ کے نزدیک واجب ہے اور صاحبینؒ کے نزدیک سنت ہے، سنت فرض کے تابع ہوتی ہے،اگر فرض نماز نہیں ہوئی تو فرض کے ساتھ سنت کا بھی اعادہ کرنا ہوتا ہے،واجب فرض کے تابع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے اگر فرض کا اعادہ کرنا ہو، تو واجب کے ا عادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی کی عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہو جائے اور وتر کی نماز صحیح ہو، تو صاحبینؒ کے مذہب کے مطابق صبح صادق سے پہلے اگر عشاء کا اعادہ کرے، تو وتر کا بھی اعادہ کرنا ہوگا اور اگر صبح صادق کے بعد عشاء کی قضاء کرے، تو سنت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن امام صاحب کے مذہب کے مطابق کسی صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور متاخرین نے امام صاحب کے قول پر فتوی دیا ہے؛ اس لیے اگر کسی نے عشاء کی نماز بلا وضو کے یا ناپاکی کی حالت میں پڑھی، پھر اس نے پاکی کی حالت میں وتر کی نماز پڑھی، بعد میں معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نہیں ہوئی ہے، تو صرف عشاء کی نماز لوٹانی ہوگی وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وعند أبي حنیفۃ وقتہ وقت العشاء؛ لأن الوتر عندہ فرض عملا، والوقت إذا جمع بین صلاتین واجبتین کان وقتا لہما جمیعا کالفائتۃ والوقتیۃ۔ فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء۔ أجاب بقولہ (إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر) یعني إذا لم یکن ناسیا (للترتیب) وعلی ہذا: إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء، ثم تذکر لا یعیدہ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا، فکذلک الوتر‘‘(۱)
’’إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلی العشاء و ہو ذاکر لذلک لم یجز بالاتفاق، و في  الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضو ثم توضأ و صلی السنۃ و الوتر، ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء، یعید العشاء عندہ۔ و السنۃ و لایعید الوتر وعندہما یعید الوتر، أیضاً‘‘(۲)

(۱) محمد بن محمد أکمل الدین البابرتي، العنایۃ شرح الہدایۃ: ج ۲، ص: ۲۲۴۔
(۲) فرید الدین، الفتاوی التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۲۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نماز عشاء کے بعد سونے سے قبل ہی تہجد کی نیت سے نماز تہجد پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے نماز وتر ادا کرے اور پھر بہ نیت تہجد جو کچھ پڑھنا ہو پڑھے اور اگر آخر شب میں بیدا ر ہوکر نماز تہجد ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر اگر وقت کم ہو تو وتر پہلے پڑھنی چاہئے اور وقت زیادہ ہو تو پہلے تہجد پڑھے اور پھر آخر میں وتر کی نماز ادا کرے اور حسب موقع جیسا بھی کرے درست اور جائز ہے۔(۱)

(۱) عن عبداللّٰہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وتراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’أبواب الوتر، باب لیجعل آخر صلاتہ وتراً‘‘:ج۱،ص۱۳۶، رقم۹۹۸)
وتاخیر الوتر إلی آخر اللیل لو اثق بالانتباہ، والا فقبل النوم۔
قولہ: فان فاق الخ۔ أي اذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلي ما کتب لہ، ولا کراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر، لکن فاتہ الأفضل المفاد بحدیث الصحیحین۔ (الحصکفي، الدر مختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب طلوع الشمس من مقربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص417

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2463/45-3759

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں مختلف اقوال ملتے ہیں بعض نے آیت نمبر 24 پر سجدہ تلاوت کا حکم لگایا ہے اور بعض نے آیت نمبر 25پر۔ علامہ شامی نے آیت نمبر 25 پر سجدہ  تلاوت کو اصح قراردیاہے۔ نیز سجدہ کو ایک آیت مؤخر کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، اس لئے  بھی آیت نمبر 25 یعنی "وحسن مآب" پر سجدہ تلاوت کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔  تاہم اگر کسی نے "اناب" پر سجدہ کرلیا تو بھی کافی ہوگا، اور اعادہ لازم نہ ہوگا۔ فتاویٰ محمودیہ میں ہے : " آیت 25 پر آیت سجدہ ہے، اگر آیت 24 "اناب" پر سجدہ کرے گا تب بھی ایک قول پر ادا ہو جائے گا۔  ( فتاویٰ محمودیہ 11/ 554، میرٹھ)

و فی"ص" عند قولہ"وحسن مآب"و ھواولی من قول الزیلعی:"عند"واناب"؛لمانذکرہ۔( رد المحتار 4/ 556، ت فرفور)

والسجدة فی ص عند قولہ: "وحسن مآب" عندنا، و عند قولہ: " وخر راکعا و اناب" عند مالک والشافعی، و وجہ قولنا ما ذکرہ فی البدائع۔ اھ (اعلاء السنن 7/ 248)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ساتھ ہی سلام پھیر دیں، البتہ اگر کسی مقتدی کا تشہد بھی باقی رہ جائے تو اس کو پورا کرکے سلام پھیرے۔ (۱)

(۱) بخلاف سلامہ أو قیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنہ لایتابعہ بل یتمہ لوجوبہ ولو لم یتم جاز ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص470

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:غروب آفتاب کا وقت، مکر وہ وقت ہے، لیکن اس دن کی نماز عصر پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اگر عصر کی نماز پڑھتے ہوئے آفتاب غروب ہو گیا، تو مکروہ وقت ختم ہو کر اب صحیح وقت شروع ہو گیا، اس لیے نماز درست ہو جائے گی۔ فجر کے وقت کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، یعنی اگر کسی نے فجر کی نماز شروع کی اور دوران نماز آفتاب طلوع ہو گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیوں کہ صحیح وقت میں اس نے نماز شروع کی اور اب مکروہ وقت ہو گیا، اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔
’’وکـرہ صلاۃ إلی قولہ إلا عصر یومہ وفي الشرح: فلایکرہ فعلہ لأدائہ کماوجب بخلاف الفجر‘‘(۱)
’’والصلاۃ منہي عنہا في ہذا الوقت  وقد وجبت علیہ ناقصۃ وأداہا کما وجبت بخلاف الفجر إذا طلعت فیہا الشمس؛ لأن الوجوب یتضیق بآخر وقتہا ولا نہي في آخر وقت الفجر وإنما النہي یتوجہ بعد خروج وقتہا فقد وجبت علیہ الصلاۃ کاملۃ فلا تتأدی بالناقصۃ فہو الفرق واللّٰہ  أعلم‘‘(۲)

(۱)  ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘:  مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۰-۳۳۔
(۲)  الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في حکم ہذہ الصلوات إذا فسدت‘‘: ج۱، ص:۵۶۲۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص117

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: السلام علیکم کہنے ہی سے نمازی نماز سے باہر ہوگیا، اس لیے نماز کا لوٹانا واجب نہیں؛ البتہ امام کو چاہئے کہ سلام میں سانس کو لمبا نہ کرے اور مقتدی امام سے قبل سلام نہ پھیرے۔(۱)

(۱) ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ۔ (الحصکفي، الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۲۴۰)
قولہ ولو أتمہ الخ۔ أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب في خلف الوعید و حکم الدعاء الخ ‘‘: ج۲، ص: ۲۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا مستحب ہے۔
’’وقنت فیہ، ویسن الدعاء المشہور، ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بہ یفتی‘‘ (۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۲، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب فرض نمازوں، جمعہ وعیدین کی جماعت میں عورتوں کی شرکت مکروہ ہے تو صورت مسئولہ میں نماز استسقاء کے لیے عورتوں کی شرکت بدرجہ اولیٰ درست نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔
’’ویکرہ حضورہن الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید ووعظ مطلقاً، ولو عجوزاً لیلا علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: وہ جماعت میں شریک نہیں کہلائے گا اوراسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔(۲)

(۲) فلما قال: السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول علیکم لایصیر داخلا في صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص471

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی جماعت غیر رمضان میں مکروہ تحریمی ہے۔ کبیری میں ہے۔
’’ولا یصلی أي الوتر بجماعۃ إلا في شہر رمضان، ومعناہ الکراہۃ دون عدم الجواز، لأنہ نفل من وجہ ولأنہ لم ینقل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا عن أحد من الصحابۃ فتکون بدعۃ مکروہۃ‘‘ (۲)

(۲) إبراھیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۶۴، دارالکتاب دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309