نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازوں پر نفل کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے کہ نفل کے معنی زائد کے ہوتے ہیں اور نوافل فرائض پر زیادہ ہوتی ہے، ان نفل نمازوں میں بعض نمازوں کی بڑی فضیلت روایت میں آئی ہے اور بعض کے ترک کرنے میں وعید کا بھی تذکرہ ہے ایسی نمازیں فقہا کی اصطلاح میں واجب یا سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں، اس کے علاوہ دیگر نمازوں پر نفل یا مستحب کا اطلاق ہوتا ہے یہ نمازیں بھی احادیث سے ثابت ہیں اور ان کو ادا کرنے کی فضیلت روایت میں مذکور ہے، لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو آدمی گنہگار نہیں ہوگا، البتہ پڑھنے سے ثواب کا مستحق ہوگا اور اس کے ذریعہ فرائض کے کوتاہی کی تکمیل ہوتی ہے، بندہ کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
’’وما تقرب إلی عبدي بشيء أحب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدي یتقرب إلي بالنوافل حتی أحبہ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق، باب التواضع‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۳، رقم: ۶۵۰۲۔)
سنۃ مؤکدۃ قویۃ قریبۃ من الواجب حتی أطلق بعضہم علیہ الوجوب، ولہذا قال محمد: لو اجتمع أہل بلد علی ترکہ قاتلناہم علیہ، وعند أبي یوسف یجلسون وتضربون وہو یدل علی تأکدہ لا علی وجوبہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۳، ص: ۶)
ولہذا کانت السنۃ المؤکدۃ قریبۃ من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر، ویستوجب تارکہا التضلیل واللوم کما فی التحریر: أي علی سبیل الإصرار بلا عذر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل ‘‘: ج ۲، ص:۴۵۱)
ترکہ لا یوجب إسائۃ ولا عتابا کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (الحصکفي، ردالمحتار علی الدرالمختار: ج۱، ص: ۴۷۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے رکوع کیا ہی نہیں؛ بلکہ بغیر رکوع امام کے ساتھ سجدے میں چلے گئے ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی از سرِ نو اپنی اپنی نماز ادا کریں(۱) ان لوگوں میں جو مسافر ہیں وہ جب قضا کریں تو قصر قضا کریں۔(۲)

(۱) لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقباً وشارکہ فیہ أو بعدما رفع منہ فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
(۲)وإن اقتدی مسافر بمقیم أتم أربعا وان أفسدہ یصلي رکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر‘‘: ج۱، ص: ۲۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص472

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کے بعد جو چاہے نماز پڑھے کوئی مخالفت نہیں ہے، ہاں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل مکروہ ہیں۔(۱)

(۱) لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس،‘‘:ج۱، ص ۸۲، ۸۳ رقم، ۵۶۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے فرض کے بعد دو سنت مؤکدہ ہیں اس کے بعد چار رکعت یا دو رکعت نفل مستحب ہیں اس کے بعد وتر پڑھے وتر کے بعد نفل نہیں ہے جیسا کہ متوارث ہے۔ یعنی ان کے پڑھنے کا حکم نہیں ہے اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔(۲)

(۲)(الوتر إلی آخر اللیل لواثق بالانتباہ) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلی نوافل والحال أنہ، أول اللیل) فإنہ الأفضل قولہ: وتأخیر الوتر إلخ) أی یستحب تأخیرہ، لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من خاف أن لایوتر من آخر اللیل فلیوتر أولہ،) ومن طمع أن یقوم آخرہ فلیوتر آخر اللیل، فإن صلاۃ آخر اللیل مشہودۃ وذلک أفضل)، رواہ مسلم والترمذی وغیرہا۔
وتمامہ فی الحلیۃ. وفی الصحیحین: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا والأمر المندب بدلیل ما قبلہ، بحر۔
قولہ: فإن فاق إلخ) أی إذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلی ما کتب لہ، ولاکراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر،) لکن فاتہ الأفضل المفاد تحدیث الصحیحین، إمداد۔
ولا یقال: إن من لا یثق بالانتباہ فالتعجیل في حقہ أفضل، کما فی الحانیۃ، فإذا انتبہ بعدما عجل یتنقل ولاتفوتہ الأفضلیۃ: لأن نقول: المراد بالأفضلیۃ فی الحدیث السابق ہی المترتبۃ علی ختم الصلاۃ بالوتر وقد فاتت، والتی حصلہا ہی أفضلیۃ التعجیل عند خوف القوات علی التأخیر، فافہم وتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ج۱، ص۳۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص419

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ متعینہ صورتوں میں اقتدا درست ہے۔ تاہم ایسی صورت میں عورت کو پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلوتہ ولہا شرائط‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ: الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص473

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ مسنون ہے، جن راتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھائی تھی ان میں وتر بھی پڑھائی تھی اور صحابہ کرامؓ وتابعین سے رمضان میں وتر باجماعت کا اہتمام ثابت ہے اور عام دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے وتر باجماعت ثابت نہیں ہے۔
’’ثم بعد عدم کراہۃ الجماعۃ في الوتر في رمضان، اختلفوا في الأفضل، في فتاویٰ قاضي خان: الصحیح أن الجماعۃ أفضل ‘‘(۱)
’’الذي یظہر أن جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ التراویح، وإن کان الوتر نفسہ أصلا في ذاتہ‘‘(۲)
’’ویوتر بجماعۃ في رمضان فقط، علیہ إجماع المسلمین، کذا في التبیین الوتر في رمضان بالجماعۃ أفضل من أدائہا في منزلہ وہو الصحیح‘‘(۳)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر: کتاب الصلاۃ،فصل في قیام شھر رمضان ج ۱، ص: ۴۸۷۔)
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج۱، ص:۱۷۶، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں ہر عمل کے لیے قاعدہ اور قانون ہے، مذکورہ نفل (فاسد شدہ نفل) کو بلا عذر دابۃ پر سوار ہو کر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسبح علی الراحلۃ قبل أي وجہ توجہ، ویوتر علیہا، غیر أنہ لا یصلی علیہا المکتوبۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ’’کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ في السفر حیث توجھت‘‘ج۱، ص۲۴۴، رقم : ۷۰۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص420

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1441/42-899

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط: منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ) (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی) (شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1555/43-1086

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں ، امام کے لئے ان کو جہرا ادا کرنا بھی مسنون ہے، اگر امام نے تکبیر سرا کہی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا۔ صورت مسئولہ میں سجدہ سہو نہیں کرناچاہئے تھا لیکن اگر کرلیا تو بھی نماز درست ہوگئی۔

فلا بد من رفع الرأس ليتحقق الانتقال إليها والتكبير سنة. وقوله: (لما روينا) إشارة إلى قوله "؛ لأن «النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يكبر عند كل خفض ورفع» (العنایۃ شرح الھدایۃ، باب صفۃ الصلوۃ 1/307) (ثم يرفع) المصلي (رأسه) من السجود (مكبرا) الرفع فرض، والتكبير سنة كذا في أكثر الكتب لكن الصحيح من مذهب الإمام أن الانتقال فرض، والرفع سنة كما في المطلب. (مجمع الانھر، فصل صفۃ الشروع فی الصلوۃ 1/98)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ میں درود شریف سنت ہے، اگر درود نہ پڑھے تب بھی نماز اداہو جائے گی؛ البتہ سنت کا ترک لازم آئے گا، امام کی اقتدا اور منفرداً نماز پڑھنے میں حکم برابر ہے۔(۱)

(۱) وسنۃ في الصلاۃ ومستحبۃ في کل أوقات الإمکان (قولہ سنۃ في الصلاۃ) أي في قعود اخیر مطلقاً وکذا في قعود أول في النوافل غیر الرواتب تأمل، وفي صلوٰۃ الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل نفع الصلاۃ عائد للمصلي أم لہ وللمصلي علیہ‘‘: ج۲، ص: ۲۳۰، ۲۳۱)
ترک السنۃ لا یوجب فساداً ولا سہوا بل إساء ۃ لو عامداً غیر مستخف … فلو غیر عامد فلا إساء ۃ ایضاً بل تندب إعادۃ الصلوٰۃ کما قد مناہ في أول بحث الواجبات، (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ، مطلب في قولہم الإساء ۃ دون الکراہۃ ‘‘: ج۲، ص: ۱۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص379