نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا مستحب ہے۔
’’وقنت فیہ، ویسن الدعاء المشہور، ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بہ یفتی‘‘ (۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۲، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب فرض نمازوں، جمعہ وعیدین کی جماعت میں عورتوں کی شرکت مکروہ ہے تو صورت مسئولہ میں نماز استسقاء کے لیے عورتوں کی شرکت بدرجہ اولیٰ درست نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔
’’ویکرہ حضورہن الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید ووعظ مطلقاً، ولو عجوزاً لیلا علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: وہ جماعت میں شریک نہیں کہلائے گا اوراسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔(۲)

(۲) فلما قال: السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول علیکم لایصیر داخلا في صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص471

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی جماعت غیر رمضان میں مکروہ تحریمی ہے۔ کبیری میں ہے۔
’’ولا یصلی أي الوتر بجماعۃ إلا في شہر رمضان، ومعناہ الکراہۃ دون عدم الجواز، لأنہ نفل من وجہ ولأنہ لم ینقل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا عن أحد من الصحابۃ فتکون بدعۃ مکروہۃ‘‘ (۲)

(۲) إبراھیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۶۴، دارالکتاب دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازوں پر نفل کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے کہ نفل کے معنی زائد کے ہوتے ہیں اور نوافل فرائض پر زیادہ ہوتی ہے، ان نفل نمازوں میں بعض نمازوں کی بڑی فضیلت روایت میں آئی ہے اور بعض کے ترک کرنے میں وعید کا بھی تذکرہ ہے ایسی نمازیں فقہا کی اصطلاح میں واجب یا سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں، اس کے علاوہ دیگر نمازوں پر نفل یا مستحب کا اطلاق ہوتا ہے یہ نمازیں بھی احادیث سے ثابت ہیں اور ان کو ادا کرنے کی فضیلت روایت میں مذکور ہے، لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو آدمی گنہگار نہیں ہوگا، البتہ پڑھنے سے ثواب کا مستحق ہوگا اور اس کے ذریعہ فرائض کے کوتاہی کی تکمیل ہوتی ہے، بندہ کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
’’وما تقرب إلی عبدي بشيء أحب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدي یتقرب إلي بالنوافل حتی أحبہ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق، باب التواضع‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۳، رقم: ۶۵۰۲۔)
سنۃ مؤکدۃ قویۃ قریبۃ من الواجب حتی أطلق بعضہم علیہ الوجوب، ولہذا قال محمد: لو اجتمع أہل بلد علی ترکہ قاتلناہم علیہ، وعند أبي یوسف یجلسون وتضربون وہو یدل علی تأکدہ لا علی وجوبہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۳، ص: ۶)
ولہذا کانت السنۃ المؤکدۃ قریبۃ من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر، ویستوجب تارکہا التضلیل واللوم کما فی التحریر: أي علی سبیل الإصرار بلا عذر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل ‘‘: ج ۲، ص:۴۵۱)
ترکہ لا یوجب إسائۃ ولا عتابا کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (الحصکفي، ردالمحتار علی الدرالمختار: ج۱، ص: ۴۷۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے رکوع کیا ہی نہیں؛ بلکہ بغیر رکوع امام کے ساتھ سجدے میں چلے گئے ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی از سرِ نو اپنی اپنی نماز ادا کریں(۱) ان لوگوں میں جو مسافر ہیں وہ جب قضا کریں تو قصر قضا کریں۔(۲)

(۱) لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقباً وشارکہ فیہ أو بعدما رفع منہ فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
(۲)وإن اقتدی مسافر بمقیم أتم أربعا وان أفسدہ یصلي رکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر‘‘: ج۱، ص: ۲۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص472

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کے بعد جو چاہے نماز پڑھے کوئی مخالفت نہیں ہے، ہاں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل مکروہ ہیں۔(۱)

(۱) لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس،‘‘:ج۱، ص ۸۲، ۸۳ رقم، ۵۶۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے فرض کے بعد دو سنت مؤکدہ ہیں اس کے بعد چار رکعت یا دو رکعت نفل مستحب ہیں اس کے بعد وتر پڑھے وتر کے بعد نفل نہیں ہے جیسا کہ متوارث ہے۔ یعنی ان کے پڑھنے کا حکم نہیں ہے اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔(۲)

(۲)(الوتر إلی آخر اللیل لواثق بالانتباہ) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلی نوافل والحال أنہ، أول اللیل) فإنہ الأفضل قولہ: وتأخیر الوتر إلخ) أی یستحب تأخیرہ، لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من خاف أن لایوتر من آخر اللیل فلیوتر أولہ،) ومن طمع أن یقوم آخرہ فلیوتر آخر اللیل، فإن صلاۃ آخر اللیل مشہودۃ وذلک أفضل)، رواہ مسلم والترمذی وغیرہا۔
وتمامہ فی الحلیۃ. وفی الصحیحین: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا والأمر المندب بدلیل ما قبلہ، بحر۔
قولہ: فإن فاق إلخ) أی إذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلی ما کتب لہ، ولاکراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر،) لکن فاتہ الأفضل المفاد تحدیث الصحیحین، إمداد۔
ولا یقال: إن من لا یثق بالانتباہ فالتعجیل في حقہ أفضل، کما فی الحانیۃ، فإذا انتبہ بعدما عجل یتنقل ولاتفوتہ الأفضلیۃ: لأن نقول: المراد بالأفضلیۃ فی الحدیث السابق ہی المترتبۃ علی ختم الصلاۃ بالوتر وقد فاتت، والتی حصلہا ہی أفضلیۃ التعجیل عند خوف القوات علی التأخیر، فافہم وتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ج۱، ص۳۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص419

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ متعینہ صورتوں میں اقتدا درست ہے۔ تاہم ایسی صورت میں عورت کو پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلوتہ ولہا شرائط‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ: الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص473

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ مسنون ہے، جن راتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھائی تھی ان میں وتر بھی پڑھائی تھی اور صحابہ کرامؓ وتابعین سے رمضان میں وتر باجماعت کا اہتمام ثابت ہے اور عام دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے وتر باجماعت ثابت نہیں ہے۔
’’ثم بعد عدم کراہۃ الجماعۃ في الوتر في رمضان، اختلفوا في الأفضل، في فتاویٰ قاضي خان: الصحیح أن الجماعۃ أفضل ‘‘(۱)
’’الذي یظہر أن جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ التراویح، وإن کان الوتر نفسہ أصلا في ذاتہ‘‘(۲)
’’ویوتر بجماعۃ في رمضان فقط، علیہ إجماع المسلمین، کذا في التبیین الوتر في رمضان بالجماعۃ أفضل من أدائہا في منزلہ وہو الصحیح‘‘(۳)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر: کتاب الصلاۃ،فصل في قیام شھر رمضان ج ۱، ص: ۴۸۷۔)
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج۱، ص:۱۷۶، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310