Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں ہر عمل کے لیے قاعدہ اور قانون ہے، مذکورہ نفل (فاسد شدہ نفل) کو بلا عذر دابۃ پر سوار ہو کر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسبح علی الراحلۃ قبل أي وجہ توجہ، ویوتر علیہا، غیر أنہ لا یصلی علیہا المکتوبۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ’’کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ في السفر حیث توجھت‘‘ج۱، ص۲۴۴، رقم : ۷۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص420
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1441/42-899
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔
"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط: منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ) (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی) (شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1555/43-1086
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں ، امام کے لئے ان کو جہرا ادا کرنا بھی مسنون ہے، اگر امام نے تکبیر سرا کہی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا۔ صورت مسئولہ میں سجدہ سہو نہیں کرناچاہئے تھا لیکن اگر کرلیا تو بھی نماز درست ہوگئی۔
فلا بد من رفع الرأس ليتحقق الانتقال إليها والتكبير سنة. وقوله: (لما روينا) إشارة إلى قوله "؛ لأن «النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يكبر عند كل خفض ورفع» (العنایۃ شرح الھدایۃ، باب صفۃ الصلوۃ 1/307) (ثم يرفع) المصلي (رأسه) من السجود (مكبرا) الرفع فرض، والتكبير سنة كذا في أكثر الكتب لكن الصحيح من مذهب الإمام أن الانتقال فرض، والرفع سنة كما في المطلب. (مجمع الانھر، فصل صفۃ الشروع فی الصلوۃ 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ میں درود شریف سنت ہے، اگر درود نہ پڑھے تب بھی نماز اداہو جائے گی؛ البتہ سنت کا ترک لازم آئے گا، امام کی اقتدا اور منفرداً نماز پڑھنے میں حکم برابر ہے۔(۱)
(۱) وسنۃ في الصلاۃ ومستحبۃ في کل أوقات الإمکان (قولہ سنۃ في الصلاۃ) أي في قعود اخیر مطلقاً وکذا في قعود أول في النوافل غیر الرواتب تأمل، وفي صلوٰۃ الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل نفع الصلاۃ عائد للمصلي أم لہ وللمصلي علیہ‘‘: ج۲، ص: ۲۳۰، ۲۳۱)
ترک السنۃ لا یوجب فساداً ولا سہوا بل إساء ۃ لو عامداً غیر مستخف … فلو غیر عامد فلا إساء ۃ ایضاً بل تندب إعادۃ الصلوٰۃ کما قد مناہ في أول بحث الواجبات، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ، مطلب في قولہم الإساء ۃ دون الکراہۃ ‘‘: ج۲، ص: ۱۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص379
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سجدہ سہو کرلینے سے نماز صحیح ہوجائے گی رکوع یا قومہ میں دعاء قنوت کا پڑھنا ممنوع ہے اگر پڑھے گا تب بھی سجدہ سہو لازم ہوگا اگر امام رکوع سے اس لیے اٹھے کہ دعاء قنوت پڑھے اور پھر رکوع کرے تو یہ دوسرا رکوع لغو ہوگا کیوں کہ پہلا رکوع صحیح ہوگیا؛ لہٰذا جس مسبوق نے اس دوسرے رکوع میں امام کی اقتدا کی تو اس کے حق میں یہ رکعت شمار نہ ہوگی۔
’’(ولو نسیہ) أي القنوت، ثم تذکرہ في الرکوع لا یقنت فیہ لفوات محلہ۔ ولا یعود إلی القیام في الأصح، لأن فیہ رفض الفرض للواجب۔ فان عاد إلیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ لکون رکوعہ بعد قرائۃ تامۃ، وسجد للسہو‘‘(۱)
’’حتی لو عاد وقنت ثم رکع فاقتدی بہ رجل، لم یدرک الرکعۃ، لأن ہذا الرکوع لغو‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:… ج ۲، ص: ۴۴۶، ۴۴۷۔)
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’ باب الوتر‘‘: ج۲، ص: ۶۶۷۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص311
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت اشراق احادیث میں دو رکعتوں کا پڑھنا بھی ثابت ہے اور چار رکعت پڑھنا بھی تاہم چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔(۱)
(۱) عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین، کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم:۵۸۶)
عن أبي الدرداء و أبي ذر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن اللّٰہ تبارک و تعالیٰ أنہ قال: ابن آدم، ارکع لي أربع رکعات من أوّل النہار أکفک آخرہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاۃ الضحی، ج۱، ص۱۰۸، رقم:۴۷۵)
وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ، لانہ لم یرد والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ، وقالا: في اللیل المثنی أفضل قیل، وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل،مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص421
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو چاہئے کہ اتنی جلدی نہ کرے کہ مقتدیوں کو پریشانی ہو بلکہ تعدیل ارکان (نماز کے ارکان کو اطمینان سے ادا کرنے) پر عمل کرے سنت یہ ہے کہ اس قدر اطمنان سے رکوع وسجدہ کی تسبیحات پڑھے کہ مقتدیوں کے لیے بھی پڑھنا آسان ہو، تاہم اگر امام اتنی جلدی قرأت شروع کردے کہ مقتدی ثناء مکمل نہ کرسکے تو اگر ایک آدھ جملہ ثناء کا باقی رہے تو مقتدی کو چاہئے کہ جلد اس کو پورا کرکے امام کی قرأت سننے میں مشغول ہوجائے اور اگر پوری ثناء یا اکثر حصہ باقی رہے تو اس کو چھوڑ کر امام کی قرأت کے سننے میں مشغول ہوجائے۔(۲)
رکوع و سجدے میں بھی ایسا ہی ہے کہ امام کے ساتھ ہی رکوع سجدے سے اٹھ جائے اگر تسبیح شروع کردی ہے تو اس کو جلد پورا کرے اور نہیں شروع کی تو امام کے ساتھ اٹھ جائے دیر نہ کرے کہ امام کی متابعت واجب ہے اور تسبیح رکوع وسجود سنت ہے۔(۱)
(۲) یرکع ویتابع الإمام ویترک الثناء … لأن الواجب علی المسبوق متابعۃ الإمام في ما أدرکہ ولا یجوز لہ أن ینفرد عنہ قبل أن یتم صلوتہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۶۶)
(۱) حدیث بن مسعود عنہ علیہ السلام أنہ قال إذا رکع أحدکم فلیقل ثلث مرات سبحان ربي العظیم وذلک أدناہ وإذا سجد فلیقل سبحان ربي الأعلی ثلث مرات وذلک أدناہ والمراد أدنی مایتم بہ تحقق السنۃ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص380
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسجد کی چھت پر وتر وتراویح کا ادا کرنا جائز ہے، لیکن افضل اور بہتر یہ ہی ہے کہ مسجد کے اصل حصہ میں (جس جگہ نماز فرض ادا کی ہے) نماز تراویح بھی ادا کی جائے۔(۳)
(۳) ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اھـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضاً فوقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۸، زکریا دیوبند)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا فی الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳)
و إن صلی أحد فی بیتہ بالجماعۃ حصل لہم ثوابہا وأدرکوا فضلہا، ولکن لم ینالوا فضل الجماعۃ التي تکون في المسجد لزیادۃ فضیلۃ المسجد وتکثیر جماعتہ وإظہار شعائر الإسلام۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’باب التراویح‘‘:ص: ۴۰۲)
وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل، وإن صلی أحد فی البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲،ص: ۴۹۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح اوقات منہیہ کے علاوہ کسی بھی وقت میں پڑھ سکتے ہیں تہجد کے وقت اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے قبل پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ اور اس کا طریقہ جو بہشتی زیور میں لکھا ہے۔(۱) کہ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تسبیحات نہ پڑھیں؛ بلکہ دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر بیٹھ کر پڑھیں اور پھر کھڑے ہوں اور ایسے ہی تیسری رکعت میں بھی کریں وہ درست ہے اور حدیث ابن عباس میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ علامہ شامی نے دوسرا طریقہ بھی ذکر کیا ہے اور اسی کو قول مختار بتایا ہے۔(۲)
(۱) بہشتی زیور، ’’سنت اور نفل نمازوں کا بیان‘‘: ج ۱، ص: ۳۰، کتب خانہ اختری۔)
(۲) عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للعباس بن عبد المطلب: یا عباس، یا عماہ، ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل لک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفر اللہ لک ذنبک؛ أولہ وآخرہ، وقدیمہ وحدیثہ، وخطأہ وعمدہ، وصغیرہ وکبیرہ، وسرہ وعلانیتہ؟ عشر خصال: أن تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ، فإذا فرغت من القراء ۃ في أول رکعۃ قلت وأنت قائم: سبحان اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرۃ، ثم ترکع فتقول وأنت راکع عشرا، ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولہا عشرا، ثم تہوی ساجدا فتقول وأنت ساجد عشرا، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولہا عشرا، ثم تسجد فتقولہا عشرا، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولہا عشرا، فذلک خمسۃ وسبعون في کل رکعۃ تفعل في أربع رکعات، إن استطعت أن تصلیہا في کل یوم مرۃ فافعل، فإن لم تستطع، ففي کل جمعۃ مرۃ، فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ، فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ۔ حکم الحدیث: صحیح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ ’’کتاب الصلاۃ: ما جاء في صلاۃ التسبیح‘‘: ص: ۹۹)
(قولہ وأربع صلاۃ التسبیح إلخ) یفعلہا فی کل وقت لا کراہۃ فیہ، أو فی کل یوم أو لیلۃ مرۃ، وإلا ففي کل أسبوع أو جمعۃ أو شہر أو العمر، وحدیثہا حسن لکثرۃ طرفۃ۔(الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ التسبیح ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۱، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص422
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عام حالات میں نمازی کے آگے سے گزرنا درست نہیں ورنہ گزرنے والا شخص سخت گنہگار ہوگا؛ البتہ اگر جماعت میں شریک ہونے کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنا پڑے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو تو آگے سے گزر کر جماعت میں شریک ہو سکتے ہیں، خود نمازی کو ایسی جگہ کھڑا نہ ہونا چاہئے ورنہ تو وہ خود ہی گنہگار ہوگا۔ (۱)
(۱) إن الکلام فیما إذا شرعوا: وفي القنیۃ قام في آخر صف وبین الصفوف مواضع خالیۃ، فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۳)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص343