نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر پورے سجدے میں دونوں پیر اٹھے رہے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر ایک پیر اٹھا رہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر پیر آگے پیچھے ہوجائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی اور اگر تھوڑے سے اٹھ گئے ہوں تو بھی نماز صحیح ہے۔(۱)

(۱) وأما وضع القدمین فقد ذکر القدوري أنہ فرض في السجود اھـ۔ فإذا سجد ورفع أصابع رجلیہ لایجوز، کذا ذکرہ الکرخي والجصاص، ولو وضع إحداہما جاز۔ قال قاضي خان : ویکرہ۔ وذکر الإمام التمرتاشي أن الیدین والقدمین سواء في عدم الفرضیۃ  إلی قولہ:  وبہ جزم في السراج فقال لو رفعہما في حال سجودہ لایجزیہ، ولو رفع  إحداہما جاز۔ وقال في الفیض : وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عمل بلا کراہت جائز ہے، ’’أما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز الخ‘‘ (شامی ج۱، ص ۵۶۳) البتہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کسی حنفی عالم سے دریافت کرلیا جائے کہ اس عمل میں اقتدا کی جائے گی یا نہیں۔(۲)

(۲) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف، وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعا بدعۃ یکفر بہا، ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ اھـ، وإذا لم یجد غیر المخالف ……فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، والاقتداء بہ أولی من الإنفراد علی أن الکراہۃ لا تنافي الثواب، افادہ العلامہ نوح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، دارالکتاب دیوبند؛ و إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ص: ۴۴۴،د ارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ طریقہ احادیث سے تو ثابت نہیں ہے اسی طرح سورت کے تکرار کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی بزرگ عامل نے بطور عمل بتلایا ہو، لیکن شرعی نقطہ نظر سے اس تکرار کو غیر افضل ہی کہا جائے گا۔(۱)

(۱) ولم یتعین شيء من القرآن لصحۃ الصلاۃ۔ لإطلاق ما تلونا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۷)
ویکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ في الفرائض ولابأس بذلک في التطوع۔ (جماعۃ من علماء الہند،  الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، مطبوعہ، کوئٹہ)
ویکرہ التعیین الخ ہذہ المسألۃ مفرعۃ علی ماقلبلہا، لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص416

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/861

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ نے سنت شروع کردی تو اب توڑنا جائز نہیں ہے۔ سنت پوری کریں، پھر اگر قعدہ اخیرہ مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ تنہا نماز پڑھ لیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام سے پہلے مقتدی کے سلام پھیرنے سے نماز ہو جائے گی؛ البتہ مقتدی کے لیے ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، ہاں اگر سہوا یا کسی عذر کی وجہ سے سلام پھیرا تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم  فلما  قضی  صلاتہ  أقبل  علینا  بوجہہ  فقال  أیہا الناس  إني  إمامکم  فلا تسبقوني بالرکوع ولا بالسجود ولا بالقیام إلا بالانصراف فإني أراکم أمامي ومن خلفي‘‘(۲)

(۱) ولو أتمہ قبل إمامہ جاز وکرہ، قولہ ولو أتمہ … أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام وکلام أو قیام جاز أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان، لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد وقد حصل وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترک متابعۃ الإمام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص:۲۴۰)
(۲) أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام برکوع أو سجود ونحوہما‘‘: ج ۱، ص:۱۸۰، رقم: ۴۲۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص469

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ہر طرح کے نوافل ادا کرنا ممنوع ہے، البتہ اگر کوئی عصر کے بعد قضاء نمازوں میں سے کوئی نماز ادا کرنا چاہتا ہے سورج کی زردی مائل ہونے سے پہلے تک قضاء نماز پڑھ سکتا ہے، سورج کی زردی مائل ہونے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک آج کی عصر کے علاوہ کوئی نماز ادا نہیں کر سکتا ہے۔(۱)

(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض … فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ … ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الاول في المواقیت وما یتصل بہا : الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۹، زکریا دیوبند)
یجوز قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في ہذا الوقت بلا کراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘:  مطلب یشترط العلم بدخول الوقت، ج ۲، ص: ۳۸ )
وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنہیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت‘‘: ج۲، ص: ۵۲۴، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص116

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر دانتوں کے درمیان کی چیز ایک چنے کے دانہ کی مقدار کے برابر یا اس سے کم ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر چنے کے دانہ سے بڑی ہے، تو نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)

(۱) وأکل شيء من خارج فمہ ولو قل أو أکل مابین أسنانہ وہو قدر الحمصۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۸۱)
ویفسدہا أکل شيء من خارج فمہ ولو قل کسمسمۃ لإمکان الاحتراز عنہ ویفسدہا أکل مابین أسنانہ إن کان کثیرا وہو أي الکثیر ’’قدر الحمصۃ‘‘ ولو بعمل قلیل لإمکان الاحتراز عنہ بخلاف القلیل بعمل قلیل لأنہ تبع لریقہ وإن کان بعمل کثیر فسد بالعمل۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳، ۳۲۴)
وأکلہ وشربہ مطلقا ولو سمسمۃ ناسیا إلا إذا کان بین أسنانہ مأکول دون الحمصۃ کما في الصوم ہو الصحیح، قالہ الباقانی فابتلعہ، أما المضغ فمفسد کسکر في فیہ یبتلع ذوبہ۔ (الحصکفي،  الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۲،۳۸۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی نماز امام صاحبؒ کے نزدیک واجب ہے اور صاحبینؒ کے نزدیک سنت ہے، سنت فرض کے تابع ہوتی ہے،اگر فرض نماز نہیں ہوئی تو فرض کے ساتھ سنت کا بھی اعادہ کرنا ہوتا ہے،واجب فرض کے تابع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے اگر فرض کا اعادہ کرنا ہو، تو واجب کے ا عادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی کی عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہو جائے اور وتر کی نماز صحیح ہو، تو صاحبینؒ کے مذہب کے مطابق صبح صادق سے پہلے اگر عشاء کا اعادہ کرے، تو وتر کا بھی اعادہ کرنا ہوگا اور اگر صبح صادق کے بعد عشاء کی قضاء کرے، تو سنت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن امام صاحب کے مذہب کے مطابق کسی صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور متاخرین نے امام صاحب کے قول پر فتوی دیا ہے؛ اس لیے اگر کسی نے عشاء کی نماز بلا وضو کے یا ناپاکی کی حالت میں پڑھی، پھر اس نے پاکی کی حالت میں وتر کی نماز پڑھی، بعد میں معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نہیں ہوئی ہے، تو صرف عشاء کی نماز لوٹانی ہوگی وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وعند أبي حنیفۃ وقتہ وقت العشاء؛ لأن الوتر عندہ فرض عملا، والوقت إذا جمع بین صلاتین واجبتین کان وقتا لہما جمیعا کالفائتۃ والوقتیۃ۔ فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء۔ أجاب بقولہ (إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر) یعني إذا لم یکن ناسیا (للترتیب) وعلی ہذا: إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء، ثم تذکر لا یعیدہ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا، فکذلک الوتر‘‘(۱)
’’إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلی العشاء و ہو ذاکر لذلک لم یجز بالاتفاق، و في  الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضو ثم توضأ و صلی السنۃ و الوتر، ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء، یعید العشاء عندہ۔ و السنۃ و لایعید الوتر وعندہما یعید الوتر، أیضاً‘‘(۲)

(۱) محمد بن محمد أکمل الدین البابرتي، العنایۃ شرح الہدایۃ: ج ۲، ص: ۲۲۴۔
(۲) فرید الدین، الفتاوی التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۲۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نماز عشاء کے بعد سونے سے قبل ہی تہجد کی نیت سے نماز تہجد پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے نماز وتر ادا کرے اور پھر بہ نیت تہجد جو کچھ پڑھنا ہو پڑھے اور اگر آخر شب میں بیدا ر ہوکر نماز تہجد ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر اگر وقت کم ہو تو وتر پہلے پڑھنی چاہئے اور وقت زیادہ ہو تو پہلے تہجد پڑھے اور پھر آخر میں وتر کی نماز ادا کرے اور حسب موقع جیسا بھی کرے درست اور جائز ہے۔(۱)

(۱) عن عبداللّٰہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وتراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’أبواب الوتر، باب لیجعل آخر صلاتہ وتراً‘‘:ج۱،ص۱۳۶، رقم۹۹۸)
وتاخیر الوتر إلی آخر اللیل لو اثق بالانتباہ، والا فقبل النوم۔
قولہ: فان فاق الخ۔ أي اذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلي ما کتب لہ، ولا کراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر، لکن فاتہ الأفضل المفاد بحدیث الصحیحین۔ (الحصکفي، الدر مختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب طلوع الشمس من مقربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص417

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2463/45-3759

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں مختلف اقوال ملتے ہیں بعض نے آیت نمبر 24 پر سجدہ تلاوت کا حکم لگایا ہے اور بعض نے آیت نمبر 25پر۔ علامہ شامی نے آیت نمبر 25 پر سجدہ  تلاوت کو اصح قراردیاہے۔ نیز سجدہ کو ایک آیت مؤخر کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، اس لئے  بھی آیت نمبر 25 یعنی "وحسن مآب" پر سجدہ تلاوت کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔  تاہم اگر کسی نے "اناب" پر سجدہ کرلیا تو بھی کافی ہوگا، اور اعادہ لازم نہ ہوگا۔ فتاویٰ محمودیہ میں ہے : " آیت 25 پر آیت سجدہ ہے، اگر آیت 24 "اناب" پر سجدہ کرے گا تب بھی ایک قول پر ادا ہو جائے گا۔  ( فتاویٰ محمودیہ 11/ 554، میرٹھ)

و فی"ص" عند قولہ"وحسن مآب"و ھواولی من قول الزیلعی:"عند"واناب"؛لمانذکرہ۔( رد المحتار 4/ 556، ت فرفور)

والسجدة فی ص عند قولہ: "وحسن مآب" عندنا، و عند قولہ: " وخر راکعا و اناب" عند مالک والشافعی، و وجہ قولنا ما ذکرہ فی البدائع۔ اھ (اعلاء السنن 7/ 248)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند