Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ساتھ ہی سلام پھیر دیں، البتہ اگر کسی مقتدی کا تشہد بھی باقی رہ جائے تو اس کو پورا کرکے سلام پھیرے۔ (۱)
(۱) بخلاف سلامہ أو قیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنہ لایتابعہ بل یتمہ لوجوبہ ولو لم یتم جاز ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص470
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:غروب آفتاب کا وقت، مکر وہ وقت ہے، لیکن اس دن کی نماز عصر پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اگر عصر کی نماز پڑھتے ہوئے آفتاب غروب ہو گیا، تو مکروہ وقت ختم ہو کر اب صحیح وقت شروع ہو گیا، اس لیے نماز درست ہو جائے گی۔ فجر کے وقت کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، یعنی اگر کسی نے فجر کی نماز شروع کی اور دوران نماز آفتاب طلوع ہو گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیوں کہ صحیح وقت میں اس نے نماز شروع کی اور اب مکروہ وقت ہو گیا، اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔
’’وکـرہ صلاۃ إلی قولہ إلا عصر یومہ وفي الشرح: فلایکرہ فعلہ لأدائہ کماوجب بخلاف الفجر‘‘(۱)
’’والصلاۃ منہي عنہا في ہذا الوقت وقد وجبت علیہ ناقصۃ وأداہا کما وجبت بخلاف الفجر إذا طلعت فیہا الشمس؛ لأن الوجوب یتضیق بآخر وقتہا ولا نہي في آخر وقت الفجر وإنما النہي یتوجہ بعد خروج وقتہا فقد وجبت علیہ الصلاۃ کاملۃ فلا تتأدی بالناقصۃ فہو الفرق واللّٰہ أعلم‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۰-۳۳۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في حکم ہذہ الصلوات إذا فسدت‘‘: ج۱، ص:۵۶۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص117
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: السلام علیکم کہنے ہی سے نمازی نماز سے باہر ہوگیا، اس لیے نماز کا لوٹانا واجب نہیں؛ البتہ امام کو چاہئے کہ سلام میں سانس کو لمبا نہ کرے اور مقتدی امام سے قبل سلام نہ پھیرے۔(۱)
(۱) ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ۔ (الحصکفي، الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۲۴۰)
قولہ ولو أتمہ الخ۔ أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في خلف الوعید و حکم الدعاء الخ ‘‘: ج۲، ص: ۲۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص86
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا مستحب ہے۔
’’وقنت فیہ، ویسن الدعاء المشہور، ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بہ یفتی‘‘ (۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۲، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب فرض نمازوں، جمعہ وعیدین کی جماعت میں عورتوں کی شرکت مکروہ ہے تو صورت مسئولہ میں نماز استسقاء کے لیے عورتوں کی شرکت بدرجہ اولیٰ درست نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔
’’ویکرہ حضورہن الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید ووعظ مطلقاً، ولو عجوزاً لیلا علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: وہ جماعت میں شریک نہیں کہلائے گا اوراسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) فلما قال: السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول علیکم لایصیر داخلا في صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص471
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی جماعت غیر رمضان میں مکروہ تحریمی ہے۔ کبیری میں ہے۔
’’ولا یصلی أي الوتر بجماعۃ إلا في شہر رمضان، ومعناہ الکراہۃ دون عدم الجواز، لأنہ نفل من وجہ ولأنہ لم ینقل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا عن أحد من الصحابۃ فتکون بدعۃ مکروہۃ‘‘ (۲)
(۲) إبراھیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۶۴، دارالکتاب دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازوں پر نفل کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے کہ نفل کے معنی زائد کے ہوتے ہیں اور نوافل فرائض پر زیادہ ہوتی ہے، ان نفل نمازوں میں بعض نمازوں کی بڑی فضیلت روایت میں آئی ہے اور بعض کے ترک کرنے میں وعید کا بھی تذکرہ ہے ایسی نمازیں فقہا کی اصطلاح میں واجب یا سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں، اس کے علاوہ دیگر نمازوں پر نفل یا مستحب کا اطلاق ہوتا ہے یہ نمازیں بھی احادیث سے ثابت ہیں اور ان کو ادا کرنے کی فضیلت روایت میں مذکور ہے، لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو آدمی گنہگار نہیں ہوگا، البتہ پڑھنے سے ثواب کا مستحق ہوگا اور اس کے ذریعہ فرائض کے کوتاہی کی تکمیل ہوتی ہے، بندہ کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
’’وما تقرب إلی عبدي بشيء أحب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدي یتقرب إلي بالنوافل حتی أحبہ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق، باب التواضع‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۳، رقم: ۶۵۰۲۔)
سنۃ مؤکدۃ قویۃ قریبۃ من الواجب حتی أطلق بعضہم علیہ الوجوب، ولہذا قال محمد: لو اجتمع أہل بلد علی ترکہ قاتلناہم علیہ، وعند أبي یوسف یجلسون وتضربون وہو یدل علی تأکدہ لا علی وجوبہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۳، ص: ۶)
ولہذا کانت السنۃ المؤکدۃ قریبۃ من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر، ویستوجب تارکہا التضلیل واللوم کما فی التحریر: أي علی سبیل الإصرار بلا عذر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل ‘‘: ج ۲، ص:۴۵۱)
ترکہ لا یوجب إسائۃ ولا عتابا کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (الحصکفي، ردالمحتار علی الدرالمختار: ج۱، ص: ۴۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے رکوع کیا ہی نہیں؛ بلکہ بغیر رکوع امام کے ساتھ سجدے میں چلے گئے ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی از سرِ نو اپنی اپنی نماز ادا کریں(۱) ان لوگوں میں جو مسافر ہیں وہ جب قضا کریں تو قصر قضا کریں۔(۲)
(۱) لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقباً وشارکہ فیہ أو بعدما رفع منہ فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
(۲)وإن اقتدی مسافر بمقیم أتم أربعا وان أفسدہ یصلي رکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر‘‘: ج۱، ص: ۲۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص472
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کے بعد جو چاہے نماز پڑھے کوئی مخالفت نہیں ہے، ہاں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل مکروہ ہیں۔(۱)
(۱) لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس،‘‘:ج۱، ص ۸۲، ۸۳ رقم، ۵۶۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310