نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کے تشہد منقول ہیں، جن میں قدرے الفاظ کا فرق ہے کسی جگہ پر کچھ الفاظ زیادہ بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ ہمارے یہاں جو تشہد نماز میں پڑھا جاتا ہے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔یہ احناف کے نزدیک افضل ہے، اس کے علاوہ دوسرے تشہد جن میں الفاظ زیادہ ہیں، ان کو بھی پڑھا جاسکتا ہے جس کو جو پسند آئے اس کو اختیار کرے مضائقہ نہیں ہے۔ اور ایسے ہی درود شریف میں لفظ سیدنا پڑھنا بھی منقول ہے۔ اس کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۲) واحترز بتشہد ابن مسعود عن غیرہ لیخرج تشہد عمر رضي اللّٰہ عنہ، وہو: التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات الصلوات للّٰہ السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔ رواہ مالک في الموطأ وعمل بہ إلا أنہ زاد علیہ (وحدہ لاشریک لہ) الثابت في تشہد عائشۃ المروي في الموطأ أیضا وبہ علم تشہدہا وخرج تشہد ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما المروي في مسلم وغیرہ مرفوعاً: التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للّٰہ السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا رسول اللّٰہ إلا أن في روایۃ الترمذي سلام علیک بالتنکیر وبہذا أخذ الشافعي وقال: إنہ أکمل التشہد ورجح مشایخنا تشہد ابن مسعود بوجوہ عشرۃ ذکرہا الشارح وغیرہ أحسنہا: أن حدیثہ اتفق علیہ الأئمۃ الستۃ في کتبہم لفظا ومعنی، واتفق المحدثون علی أنہ أصح أحادیث التشہد بخلاف غیرہ حتی قال الترمذي إن أکثر أہل العلم علیہ من الصحابۃ والتابعین وممن عمل بہ  أبوبکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ وکان یعلمہ الناس علی المنبر کالقرآن، ثم وقع لبعض الشارحین أنہ قال والأخذ بتشہد ابن مسعود أولی فیفید أن الخلاف في الأولویۃ حتی لو تشہد بغیرہ کان آتیا بالواجب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۶۷، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص381

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی نماز کے سلسلے میں حضرات فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ وتر کو واجب قرار دیتے ہیں جب کہ صاحبینؒ اور ائمہ ثلاثہ ؒوتر کو سنت قرار دیتے ہیں اور دونوں حضرات کے پاس دلائل ہیں یہ جو آپ نے سنا کہ ایک رکعت فرض ایک واجب اور ایک سنت ہے یہ کسی کا بھی قول نہیں ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے وجوب کے دلائل یہ ہیں:
(۱)حضرت خارجہ بن حذافہ ؓکی حدیث ہے:
’’إن اللّٰہ أمدکم بصلاۃ ہي خیر لکم من حمر النعم : الوتر، جعلہ اللّٰہ لکم فیما بین صلاۃ العشاء إلی أن یطلع الفجر‘‘(۱)
’’عن أبي سعید الخدريؓ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من نام عن وترہ أو نسیہ فلیصلہ إذا ذکرہ‘‘(۲)
’’عن بریدۃؓ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول : الوتر حق، فمن لم یوتر فلیس منا‘‘(۳)
اسی طرح وتر کی نماز تین رکعات ایک سلام سے ہیں۔ اس سلسلے میں احناف کے پاس مختلف روایتیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر۔إسنادہ صحیح‘‘(۴)
’’قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  لا یسلم في الرکعتین الأولیین من الوتر وقال: ہذا حدیث صحیح علیٰ شرط الشیخین واقرأ علیہ الذہبي في تلخیصہ وقال: علیٰ شرطہما۔ اھـ۔ وعنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن‘‘(۵)
’’واستشہد بہ قال وہذا وترا یسر وعنہ أخذہ أہل المدینۃ وسکت عنہ الذہبي في تلخیصہ فہو حسن وکذا نقلہ عن عمر بن الخطاب الزیلعي في نصب الرایۃ۔ (۲۷۷۱) بلفظ لا یسلم وکذا نقلہ الحافظ في الدرایۃ (۱۱۴) بلفظ لا یسلم إلا فيآخرہن وکلاہما عزاہ إلی الحاکم‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء في الوتر‘‘: ج ۱ ، ص:۱۰۳، رقم: ۴۵۲۔)
(۲) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب الوتر، باب في الدعاء بعد الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۴۳۱۔)
(۳) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’باب في من لم یوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۱، رقم: ۱۴۱۹۔)
(۴)أخرجہ النسائي، في سننہ، کتاب قیام اللیل و تطوع النہار، باب کیف الوتر بثلاث، ج۱، ص۱۹۱، رقم ۱۶۹۸
(۵) أخرجہ الحاکم: ج ۱، ص: ۲۰۴۔)
(۱)ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’أبواب الوتر باب الایثار بثلاث موصولۃ وعدم الفصل بینہن بالسلام الخ‘‘: ج ۶، ص: ۲۸، ۳۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص313

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کھڑے ہوکر نفل پڑھنے میں پورا ثواب ہے اور بیٹھ کر پڑھنے میں نصف ثواب ہے اس لیے کھڑے ہوکر پڑھنا ہی افضل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص اتباع رسول کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا تو اس کو دو ثواب ملیں گے، نفلوں کا آدھا اور اتباع رسول کا علیحدہ۔
’’ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعداً لا مضطجعاً إلا بعذر ابتداء وکذا بناء بعد الشروع بلا کراہۃ في الأصح کعکسہ۔ وفیہ أجر غیر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی النصف إلا بعذر۔ قولہ وفیہ أجر غیر النبي أما النبيؐ فمن خصائصہ أن نافلتہ قاعداً مع القدرۃ علی القیام کنافلتہ قائماً، ففي صحیح مسلم عن عبد اللّٰہ بن عمرو قلت: حدثت یا رسول اللّٰہ أنک قلت : صلاۃ الرجل قاعداً علیٰ نصف الصلاۃ، وأنت تصلی قاعداً، قال: أجل ولکني لست کأحد منکم۔ قولہ علی النصف إلا بعذر،  أما مع العذر فلا ینقص ثوابہ عن ثوابہ قائماً، لحدیث البخاري في الجہاد إذا مرض العبد أو سافر کتب لہ مثل ماکان یعمل مقیما صحیحاً‘‘(۱)
’’عن عمران بن حصین أنہ سأل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن صلاۃ الرجل قاعداً فقال إن صلی قائماً فہو أفضل، ومن صلی قاعداً فلہ نصف أجر القائم ومن صلی نائماً فلہ نصف أجر القاعد‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۳، ۴۸۴، زکریا، دیوبند۔)
(۲) أخرجہ البخاري في صحیحہ، أبواب تقصیر الصلاۃ، باب صلاۃ القاعد: ج ۱، ص:۱۵۰، رقم۱۱۱۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص423

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی خواہش کرنا کہ ہمارا انتظار کیا جائے خواہ جماعت میں تاخیر ہوجائے درست نہیں ہے اس سے دوسرے حاضرین کو تکلیف ہوگی اور وقت کی پابندی کا اہتمام لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گا۔(۱)

(۱) ورئیس المحلۃ لا ینتظر ما لم یکن شریراً والوقت متسع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان بنفسہ؟‘‘: ج ۲، ص:۷۱)
ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا، کذا في معراج الدرایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني من کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
ولا ینتظر رئیس المحلۃ لأن فیہ ریاء وإیذاء لغیرہ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۳۲۶، دار الکتاب دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص344

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت قیام سے رکوع میں آتے وقت، رکوع میں جاتے جاتے تکبیر مکمل ہونی چاہئے۔ اسی طرح ہر رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے تکبیرات کہی جائیں، سجدے میں جاتے ہوئے بھی سجدہ میں سر رکھنے پر تکبیر پوری ہو جانی چاہئے  لیکن اگر پیشانی ٹکنے پر آواز مکمل ہوئی، تو بھی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔(۱)

(۱) ولو ترک التسمیع حتی استوی قائماً لا یأتی بہ کما لو لم یکبر حالۃ الانحطاط حتی رکع أو سجد ترکہ ویجب أن یحفظ ہذا ویراعی کل شيء في محلہ وہو صریح في أن القومۃ لیس فیہا ذکر مسنون۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۳۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص382

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر تہجد میں اٹھنے کا عزم ہو اور آنکھ کھل جاتی ہو یا تہجد پڑھنے کی عادت ہو، تو وتر بھی تہجد ہی کے وقت میں اور وہ نفل بھی اسی وقت پڑھنے چاہئیں۔(۲)

(۲) عن أبي سلمۃ، قال: سألت عائشۃ،  عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: کان یصلي ثلاث عشرۃ رکعۃ؛ یصلی ثمان رکعات، ثم یوتر، ثم یصلي رکعتین وہو جالس، فإذا أراد أن یرکع قام، فرکع، ثم یصلي رکعتین بین النداء والإقامۃ من صلاۃ الصبح۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل‘‘: ج۱، ص: ۲۵۴)
 عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’باب لیجعل آخر صلاتہ وتراً‘‘:ج۱، ص۱۳۶، رقم: ۹۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص315

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: استخارہ جب چاہیں کرسکتے ہیں ایک دو روز قبل بھی درست ہے اور اس سے پہلے بھی درست ہے ؛ لیکن یہ خیال رہے کہ استخارہ ایک امر مباح ہے، کریں تو بہتر ہے نہ کریں تو بھی گناہ نہیں ہے؛ لیکن اگر استخارہ کرلیا تو پھر اس کے خلاف نہیں کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) روی ابن السني: یا أنس إذا ہممت بأمر فاستخربک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذي سبق إلی قلبک فإن الخیر فیہ، ولو تعذرت علیہ الصلاۃ استخار بالدعاء …… والمسموع من المشائخ أنہ ینبغي أن ینام علی طہارۃ مستقبل القبلۃ بعد قراء ۃ الدعاء المذکور، فإن رأی في منامہ بیاضاً او خضرۃ فذلک الأمر خیر، وإن رأی فیہ سواداً او حمرۃ فہو شر ینبغي أن یجتنب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في رکعتي الاستخارۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۰، زکریا)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

راجع الی فتوی رقم  943

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی امر دینی کی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہوں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے پر اعتراض کرتے ہوں تو اس امام کی امامت مکروہ ہے، اس کو خود امامت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے یہ کہنا کہ زبردستی پڑھاؤں گا بالکل غلط ہے۔ اس کو اس کا حق نہیں ہے جھگڑے اور فتنہ سے بچنا ضروری ہے، متولی کے لیے ضروری ہے کہ معاملہ کو سلجھائیں۔ اور امام مذکور کو امامت سے سبکدوش کریں۔(۱)

(۱) (ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک: أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم، في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقاً لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو اثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۳، ص: ۱۷۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص137

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے جو اوقات مقرر ہیں انہیں اوقات میں جماعت ہونی چاہیے، جماعت کو اپنے وقت مقررہ سے اتنا مؤخر کرنا کہ مقتدیوں کو تکلیف ہوتی ہو شرعاً اچھا نہیں ہے؛ ہاں! اگر کبھی اتفاقا کسی دینی امر کی وجہ سے معمولی سی تاخیر ہو جائے تو مقتدیوں کو بھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے، تاہم بہت زیادہ تاخیر نہ ہونی چاہئے اور اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اور آیت کا مفہوم کسی عالم سے سمجھ لینا چاہیے، آیت سے وہ مراد نہیں ہے جو آپ سمجھے۔(۱)

(۱) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الناس الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … أن التأخیر المؤذن وتطویل القرائۃ لإدراک بعض الناس حرام، ہذا إذا مال لأہل الدنیا تطویلاً وتأخیراً یشق علی الناس، فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۸-۱۹۹)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص344