نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 993/41-156

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر فرض جو بھی نماز ہے وہ شروع کرنے کے بعد اگر فاسد ہوجائے تو اس کی قضاء  لازم ہوتی ہے۔

ولزم نفل شرع فیہ بتکبیرۃ الاحرام او بقیام الثالثۃ شروعا صحیحا (درمختار مع رد المحتار) ای لزم المضی فیہ حتی اذا افسدہ لزم قضاءہ (رد المحتار، باب الوتر والنوافل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2033/44-2008

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عبارت کا مطلب بالکل درست ہے، مگر چونکہ قرآن  میں نہیں ہے، اس لئے احتیاطا نماز کے فساد کا حکم ہوگا۔ اس لئے نماز لوٹائی جائے گی۔

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

کما حققہ ابن عابدین فی رد المحتار، باب صفة الصلاة ، قال:ان الإمام رجع إلی قولہما فی اشتراط القراء ة بالعربیة. لأن المأمور بہ قراء ة القرآن، وہو اسم للمنزل باللفظ العربی المنظوم ہذا النظم الخاص، المکتوب فی المصاحف، المنقول إلینا نقلا متواترا.

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا شرعی ثبوت کے کسی شخص کے متعلق بدگمانی کرنا گناہ کبیرہ ہے، قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے {اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا}(۲) کہ کسی کے عیوب کو تلاش مت کرو اور خوامخواہ بد گمانی مت کرو، تاہم اگر شرعی ثبوت کے ساتھ اس کی بد فعلی ثابت ہو جائے، تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، تا وقتیکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے اس جرم عظیم کی سچی پکی توبہ کرے اور آئندہ گناہ عظیم سے پر ہیز کرے  اس کے بعد اس کی امامت بلا کراہت درست ہو سکتی ہے۔

(۲) {ٰٓیاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُط وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (سورۃ الحجرات: ۱۲)
 یقول تعالیٰ ناہیا عبادہ المؤمنین عن کثیر من الظن، وہو التہمۃ والتخون …للأہل والأقارب والناس في غیر محلہ لأن بعض ذلک یکون إثما محضا، فلیجتنب کثیر منہ احتیاطاً وروینا عن أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: ولا تظنن بکلمۃ خرجت من أخیک المسلم إلا خیراً، وأنت تجد لہا في الخیر محملا، وقال أبو عبداللّٰہ بن ماجہ، حدثنا أبوالقاسم بن أبي ضمرۃ نصر بن محمد بن سلیمان الحمصي، حدثنا أبي، حدثنا عبداللّٰہ بن أبي، حدثنا عبداللّٰہ بن أبي قیس النضري، حدثنا عبداللّٰہ بن عمر رضي اللہ عنہما قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطوف بالکعبۃ ویقول: ما أطیبک وأطیب ریحک ما أعظمک وأعظم حرمتک، والذي نفس محمد بیدہ لحرمۃ المؤمن أعظم عند اللّٰہ تعالیٰ حرمۃ منک، مالہ ودمہ وأن یظن بہ إلا خیراً۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الحجرات: ۱۲‘‘ ج۷، ص: ۳۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص138

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ دوکان کی جو کیفیت سوال میں لکھی ہے اس کے اعتبار سے اس دوکان میں باجماعت نماز ادا کرنا بلا شبہ جائز ہے، شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ البتہ ثواب مسجد جیسا نہیں ملے گا۔(۲)

(۲) وعن أبي سعید -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:…الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، رواہ أبوداود والترمذي والدارمي۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ ’’باب المساجد، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص:۱۳۱، رقم:۷۳۷،یاسر ندیم دیوبند)
وأشار بإطلاق قول: ویأذن للناس في الصلاۃ أنہ لا یشترط أن یقول أذنت فیہ بالصلاۃ جماعۃ أبداً بل الإطلاق کاف لکن لو قال: صلوا فیہ جماعۃ صلاۃ أو صلاتین یوماً أو شہراً لا یکون مسجداً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف: فصل في أحکام المساجد‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص345

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل الأذان غیر مشروعۃ وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم مؤذنا فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علي،  فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا، ثم سلوا لی الوسیلۃ۔ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا۔ فمن سأل لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ‘‘(۱)
أما إذا کان المؤذن یقول ذلک برفع صوت کالأذان فذلک بدعۃ؛ لأنہ یوہم أنہا جزء من الأذان، والزیادۃ في الأذان لا تجوز؛ ولو کان ذلک خیرا لسبق إلیہ السلف الصالح في القرون المشہود لہا بالخیر ولم یوجد ذلک فیہا۔ فعلینا أن نحافظ علی ما کان علیہ العمل أیام الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحابتہ ومن بعدہم من عدم رفع المؤذن صوتہ بہا، فلذا رفع الصوت بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیر مشروعۃ، وعلینا أن نصلي ونسلم علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سرا، وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، وقبل ابتداء المدرسۃ و انتہائہا فلا بأس بہ مالم یعتقد لزومہا ولم یلم أحدا علی ترکہا۔ وفي جمیع الأحوال، لا یجوز تحویل ہذہ المسألۃ الفرعیۃ إلی سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمین فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتي ہي أحسن۔

(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، أول مسند عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص، ج۶، ص: ۱۴۱،رقم: ۶۵۶۹۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص242

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت سجدہ میں انگلیوں کو ملا کر رکھنا مسنون ہے، انگلیوں کو بہت کھول کر رکھنا خلاف سنت ہے۔(۱)

(۱) (قولہ ضاما أصابع یدیہ) أي ملصقا جنبات بعضہا ببعض قہستاني وغیرہ، ولا یندب الضم إلا ہنا ولا التفریج إلا في الرکوع کما في الزیلعي وغیرہ (قولہ لتتوجہ للقبلۃ) فإنہ لو فرجہا یبقی الإبہام والخنصر غیر متوجہین، وہذا التعلیل عزاہ في ہامش الخزائن إلی الشمني وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۳)
(وجہہ بین کفیہ ضاما أصابع یدیہ) فإن الأصابع تترک علی العادۃ فیما عدا الرکوع والسجود۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: صفۃ الشروع في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص384

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز دوبارہ نہیں پڑھی جاتی اگر تنہا فرض نماز پڑھ لی اور پھر جماعت شروع ہوئی تو اگر وہ نماز عشاء یا ظہر کی ہے تو نفل نماز کی نیت کرکے امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے۔ اور اگر فجر، عصر یا مغرب کی نماز ہے تو پھر جماعت میں شریک نہ ہو۔(۲)

(۲) وصح اقتداء متنفل بمفترض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۸)
وإذا أتمہا یدخل مع القوم، والذي یصلي معہم نافلۃ، لأن الفرض لایتکرر في وقت واحد۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص425

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 37 / 1083

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال جبکہ اس جگہ جمعہ قائم کرنے کی شرائط مفقود ہیں تو وہاں جمعہ کی نماز بند کردینی چاہئے، اور اب ظہر کی نماز ہی پڑھنی چاہئے۔ جمعہ پڑھنے سے ظہر کا فرض ساقط نہیں ہوگا، بلکہ وہ بدستور باقی رہے گا۔ تاہم مذکورہ بستی کا کسی ماہر مفتی سے ،معائنہ کرادیا جائے اور وہ جو فتوی دیں اس کے مطابق  عمل کیا جائے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39/1078

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   موبائل کی گھنٹی سے دوسرے نمازیوں کو خلل ہوتا ہے اس لئے نماز سے پہلے ہی اس کا دھیان رکھنا چاہئے اور موبائل کو سائلنٹ پر رکھ دینا چاہئے۔ لیکن اگر بند کرنا بھول گیا اور نماز میں گھنٹی بجی تو  ایک ہاتھ سے بٹن دباکر بند کردینا چاہئے، اور اگر ایک ہاتھ کو جیب میں ڈالا اور نکال کربند کردیا تو بھی نماز ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ  ہے، اور زیادہ دیر لگنے سے نماز کے فاسد ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے ایسا کرنے سے بچنا چاہئے۔ اوراگر دونوں ہاتھ لگادیا یا  کوئی اور عمل کثیر کردیا تو نماز ٹوٹ جائے گی اور دوبارہ بڑھنی ہوگی۔   

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر اور عصر کی نماز کے بعد چوںکہ نفل و سنت نماز نہیں ہے کمزور بیمار کام کاج والے مصلیوں کی رعایت کرکے قدرے طویل دعا کی گنجائش ہے اور ظہر، مغرب اور عشاء جن نمازوں کے بعد سنت ونوافل ہیں، ان میں مختصر دعاء مانگنی چاہئے۔
اور چونکہ نماز جمعہ کے بعد بھی سنتیں ہیں؛ لہٰذا اس وقت بھی مختصر دعاء کرنی چاہئے۔ فیض الباری شرع بخاری میںاسی طرح منقول ہے۔(۱)

(۱) فإن کان بعدہا أي بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: ’’اللہم أنت السلام الخ‘‘۔ (غنیۃ الملتمس: ص: ۳۴۱)
کل صلوٰۃ بعدہا سنۃ یکرہ القعود بعد ہا والدعاء الخ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی الطحطاوي، ’’فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۳۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص357