Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے فرض کے بعد دو سنت مؤکدہ ہیں اس کے بعد چار رکعت یا دو رکعت نفل مستحب ہیں اس کے بعد وتر پڑھے وتر کے بعد نفل نہیں ہے جیسا کہ متوارث ہے۔ یعنی ان کے پڑھنے کا حکم نہیں ہے اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔(۲)
(۲)(الوتر إلی آخر اللیل لواثق بالانتباہ) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلی نوافل والحال أنہ، أول اللیل) فإنہ الأفضل قولہ: وتأخیر الوتر إلخ) أی یستحب تأخیرہ، لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من خاف أن لایوتر من آخر اللیل فلیوتر أولہ،) ومن طمع أن یقوم آخرہ فلیوتر آخر اللیل، فإن صلاۃ آخر اللیل مشہودۃ وذلک أفضل)، رواہ مسلم والترمذی وغیرہا۔
وتمامہ فی الحلیۃ. وفی الصحیحین: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا والأمر المندب بدلیل ما قبلہ، بحر۔
قولہ: فإن فاق إلخ) أی إذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلی ما کتب لہ، ولاکراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر،) لکن فاتہ الأفضل المفاد تحدیث الصحیحین، إمداد۔
ولا یقال: إن من لا یثق بالانتباہ فالتعجیل في حقہ أفضل، کما فی الحانیۃ، فإذا انتبہ بعدما عجل یتنقل ولاتفوتہ الأفضلیۃ: لأن نقول: المراد بالأفضلیۃ فی الحدیث السابق ہی المترتبۃ علی ختم الصلاۃ بالوتر وقد فاتت، والتی حصلہا ہی أفضلیۃ التعجیل عند خوف القوات علی التأخیر، فافہم وتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ج۱، ص۳۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص419
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ متعینہ صورتوں میں اقتدا درست ہے۔ تاہم ایسی صورت میں عورت کو پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلوتہ ولہا شرائط‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ: الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص473
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ مسنون ہے، جن راتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھائی تھی ان میں وتر بھی پڑھائی تھی اور صحابہ کرامؓ وتابعین سے رمضان میں وتر باجماعت کا اہتمام ثابت ہے اور عام دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے وتر باجماعت ثابت نہیں ہے۔
’’ثم بعد عدم کراہۃ الجماعۃ في الوتر في رمضان، اختلفوا في الأفضل، في فتاویٰ قاضي خان: الصحیح أن الجماعۃ أفضل ‘‘(۱)
’’الذي یظہر أن جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ التراویح، وإن کان الوتر نفسہ أصلا في ذاتہ‘‘(۲)
’’ویوتر بجماعۃ في رمضان فقط، علیہ إجماع المسلمین، کذا في التبیین الوتر في رمضان بالجماعۃ أفضل من أدائہا في منزلہ وہو الصحیح‘‘(۳)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر: کتاب الصلاۃ،فصل في قیام شھر رمضان ج ۱، ص: ۴۸۷۔)
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج۱، ص:۱۷۶، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں ہر عمل کے لیے قاعدہ اور قانون ہے، مذکورہ نفل (فاسد شدہ نفل) کو بلا عذر دابۃ پر سوار ہو کر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسبح علی الراحلۃ قبل أي وجہ توجہ، ویوتر علیہا، غیر أنہ لا یصلی علیہا المکتوبۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ’’کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ في السفر حیث توجھت‘‘ج۱، ص۲۴۴، رقم : ۷۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص420
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1441/42-899
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔
"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط: منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ) (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی) (شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1555/43-1086
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں ، امام کے لئے ان کو جہرا ادا کرنا بھی مسنون ہے، اگر امام نے تکبیر سرا کہی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا۔ صورت مسئولہ میں سجدہ سہو نہیں کرناچاہئے تھا لیکن اگر کرلیا تو بھی نماز درست ہوگئی۔
فلا بد من رفع الرأس ليتحقق الانتقال إليها والتكبير سنة. وقوله: (لما روينا) إشارة إلى قوله "؛ لأن «النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يكبر عند كل خفض ورفع» (العنایۃ شرح الھدایۃ، باب صفۃ الصلوۃ 1/307) (ثم يرفع) المصلي (رأسه) من السجود (مكبرا) الرفع فرض، والتكبير سنة كذا في أكثر الكتب لكن الصحيح من مذهب الإمام أن الانتقال فرض، والرفع سنة كما في المطلب. (مجمع الانھر، فصل صفۃ الشروع فی الصلوۃ 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ میں درود شریف سنت ہے، اگر درود نہ پڑھے تب بھی نماز اداہو جائے گی؛ البتہ سنت کا ترک لازم آئے گا، امام کی اقتدا اور منفرداً نماز پڑھنے میں حکم برابر ہے۔(۱)
(۱) وسنۃ في الصلاۃ ومستحبۃ في کل أوقات الإمکان (قولہ سنۃ في الصلاۃ) أي في قعود اخیر مطلقاً وکذا في قعود أول في النوافل غیر الرواتب تأمل، وفي صلوٰۃ الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل نفع الصلاۃ عائد للمصلي أم لہ وللمصلي علیہ‘‘: ج۲، ص: ۲۳۰، ۲۳۱)
ترک السنۃ لا یوجب فساداً ولا سہوا بل إساء ۃ لو عامداً غیر مستخف … فلو غیر عامد فلا إساء ۃ ایضاً بل تندب إعادۃ الصلوٰۃ کما قد مناہ في أول بحث الواجبات، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ، مطلب في قولہم الإساء ۃ دون الکراہۃ ‘‘: ج۲، ص: ۱۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص379
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سجدہ سہو کرلینے سے نماز صحیح ہوجائے گی رکوع یا قومہ میں دعاء قنوت کا پڑھنا ممنوع ہے اگر پڑھے گا تب بھی سجدہ سہو لازم ہوگا اگر امام رکوع سے اس لیے اٹھے کہ دعاء قنوت پڑھے اور پھر رکوع کرے تو یہ دوسرا رکوع لغو ہوگا کیوں کہ پہلا رکوع صحیح ہوگیا؛ لہٰذا جس مسبوق نے اس دوسرے رکوع میں امام کی اقتدا کی تو اس کے حق میں یہ رکعت شمار نہ ہوگی۔
’’(ولو نسیہ) أي القنوت، ثم تذکرہ في الرکوع لا یقنت فیہ لفوات محلہ۔ ولا یعود إلی القیام في الأصح، لأن فیہ رفض الفرض للواجب۔ فان عاد إلیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ لکون رکوعہ بعد قرائۃ تامۃ، وسجد للسہو‘‘(۱)
’’حتی لو عاد وقنت ثم رکع فاقتدی بہ رجل، لم یدرک الرکعۃ، لأن ہذا الرکوع لغو‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:… ج ۲، ص: ۴۴۶، ۴۴۷۔)
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’ باب الوتر‘‘: ج۲، ص: ۶۶۷۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص311
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت اشراق احادیث میں دو رکعتوں کا پڑھنا بھی ثابت ہے اور چار رکعت پڑھنا بھی تاہم چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔(۱)
(۱) عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین، کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم:۵۸۶)
عن أبي الدرداء و أبي ذر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن اللّٰہ تبارک و تعالیٰ أنہ قال: ابن آدم، ارکع لي أربع رکعات من أوّل النہار أکفک آخرہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاۃ الضحی، ج۱، ص۱۰۸، رقم:۴۷۵)
وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ، لانہ لم یرد والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ، وقالا: في اللیل المثنی أفضل قیل، وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل،مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص421
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو چاہئے کہ اتنی جلدی نہ کرے کہ مقتدیوں کو پریشانی ہو بلکہ تعدیل ارکان (نماز کے ارکان کو اطمینان سے ادا کرنے) پر عمل کرے سنت یہ ہے کہ اس قدر اطمنان سے رکوع وسجدہ کی تسبیحات پڑھے کہ مقتدیوں کے لیے بھی پڑھنا آسان ہو، تاہم اگر امام اتنی جلدی قرأت شروع کردے کہ مقتدی ثناء مکمل نہ کرسکے تو اگر ایک آدھ جملہ ثناء کا باقی رہے تو مقتدی کو چاہئے کہ جلد اس کو پورا کرکے امام کی قرأت سننے میں مشغول ہوجائے اور اگر پوری ثناء یا اکثر حصہ باقی رہے تو اس کو چھوڑ کر امام کی قرأت کے سننے میں مشغول ہوجائے۔(۲)
رکوع و سجدے میں بھی ایسا ہی ہے کہ امام کے ساتھ ہی رکوع سجدے سے اٹھ جائے اگر تسبیح شروع کردی ہے تو اس کو جلد پورا کرے اور نہیں شروع کی تو امام کے ساتھ اٹھ جائے دیر نہ کرے کہ امام کی متابعت واجب ہے اور تسبیح رکوع وسجود سنت ہے۔(۱)
(۲) یرکع ویتابع الإمام ویترک الثناء … لأن الواجب علی المسبوق متابعۃ الإمام في ما أدرکہ ولا یجوز لہ أن ینفرد عنہ قبل أن یتم صلوتہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۶۶)
(۱) حدیث بن مسعود عنہ علیہ السلام أنہ قال إذا رکع أحدکم فلیقل ثلث مرات سبحان ربي العظیم وذلک أدناہ وإذا سجد فلیقل سبحان ربي الأعلی ثلث مرات وذلک أدناہ والمراد أدنی مایتم بہ تحقق السنۃ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص380