نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان دے کر جماعت کی طرف بلانے والا خود اس مسجد سے نکلے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، اس لیے اذان سے قبل امام صاحب کو دوسری مسجد کی طرف سے روانہ ہوجانا چاہئے؛ البتہ چوں کہ آپ کے ذمہ دوسری مسجد میں جماعت کی ذمہ داری ہے اس لیے نکلنے کی گنجائش ہوگی۔ اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
’’وکرہ) تحریماً للنہي (خروج من لم یصل من مسجد أذن فیہ) جری علی الغالب، والمراد دخول الوقت أذن فیہ أو لا (إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری) أو کان الخروج لمسجد حیہ ولم یصلوا فیہ، أولأستاذہ لدرسہ، أو لسماع الوعظ أو لحاجۃ ومن عزمہ أن یعود، نہر (و) إلا (لمن صلی الظہر والعشاء) وحدہ (مرۃ (فلایکرہ خروجہ بل ترکہ للجماعۃ (إلا عند) الشروع في (الاقامۃ) فیکرہ لمخالفتہ الجماعۃ بلا عذر، بل یقتدی متنفلا لما مر(و) إلا (لمن صلی الفجر والعصر والمغرب مرۃ) فیخرج مطلقا (وإن أقیمت) لکراہۃ النفل بعد الاولیین، وفي المغرب أحد المحظورین البتیراء، أو مخالفۃ الإمام بالاتمام‘‘(۱)
’’ومنہا) أن من أذن فہو الذي یقیم، وإن أقام غیرہ: فإن کان یتأذی بذلک یکرہ: لأن اکتساب أذی المسلم مکروہ، وإن کان لا یتأذی بہ لا یکرہ‘‘(۲)
’’یکرہ لہ أن یؤذن في مسجدین (الدر (قال الشامی: قولہ: في مسجدین) لأنہ إذا صلی في المسجد الأول یکون متنفلا بالأذان في المسجد الثاني والتنفل بالأذان غیر مشروع؛ ولأن الأذان للمکتوبۃ وہو في المسجد الثاني یصلی النافلۃ، فلا ینبغي أن یدعو الناس إلی المکتوبۃ وہو لا یساعدہم فیہا۔ اہـ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب إدراک الفریضۃ: مطلب: في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ج۲، ص: ۵۰۷، ۵۰۸۔
(۲) العینی، البنایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج۲، ص: ۹۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المساجد‘‘:  ج۲، ص: ۷۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص241

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر اور ظہر میں سورۂ حجرات سے سورۂ بروج کے ختم تک عصر اور عشاء میں سورۂ طارق سے سورۂ ’’لم یکن تک‘‘، اور مغرب میں سورۂ ’’زلزال‘‘ سے سورۂ ناس تک کی سورتیں اکثر وبیشتر پڑھنا مسنون ہے۔(۱) ان کے علاوہ بھی درست ہے سجدہ تلاوت والی سورتوں کو بالکل نہ پڑھنا انہیں چھوڑے رکھنا درست نہیں، کبھی کبھی وہ سورتیں بھی پڑھنی چاہئیں سجدوں والی سورتیں پڑھی جائیں تو سجدہ تلاوت پر پہلے مطلع کرنا ضروری نہیں تاہم امام کو ایسی صورت اختیار کر لینی چاہئے کہ مقتدی حضرات کو مغالطہ نہ ہو جو لوگ نماز سے باہر ہوں اور امام سے آیت سجدہ سن لیں ان پر بھی سجدہ تلاوت واجب ہے نماز میں شریک ہوکر سجدہ تلاوت میں شرکت ہوگئی تو بہتر ہے، ورنہ بعد میں علاحدہ سجدہ کریں۔(۲)

(۱) (قولہ إلا بالمسنون) وہو القراء ۃ من طوال المفصل في الفجر والظہر، وأوساطہ في العصر والعشاء، وقصارہ في المغرب۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘:ج ۲، ص: ۱۹۴؛وأحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي  علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سننہا‘‘: ج۱، ص: ۹۸)
(۲) وإذا تلا الإمام آیۃ السجدۃ سجدہا وسجد المأموم معہ سواء سمعہا منہ أم لا، وسواء کان في صلاۃ الجہر أو المخافتۃ إلا أنہ یستحب أن لا یقرأہا في صلاۃ المخافتۃ، ولو سمعہا من الإمام أجنبي لیس معہم في الصلاۃ ولم یدخل معہم في الصلاۃ لزمہ السجود، کذا في الجوہرۃ النیرۃ، وہو الصحیح، کذا في الہدایۃ، سمع من إمام فدخل معہ قبل أن یسجد سجد معہ، وإن دخل في صلاۃ الإمام بعدما سجدہا الإمام لایسجدہا، وہذا إذا أدرکہ في آخر تلک الرکعۃ، أما لو أدرکہ في الرکعۃ الأخری یسجدہا بعد الفراغ، کذا في الکافي، وہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الثالث عشر في سجود التلاوۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص383

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) حرمین شریفین میں حنفی حضرات کے لیے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے، یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ احناف نے اس کی اجازت دی ہے؛ اس لیے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
’’لو اقتدی حنفي بشافعي في الوتر وسلم ذلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذہبہ، ثم أتم الوتر، صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي و ابن وہبان‘‘(۱)
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے حضرت شیخ الہند کی یہی رائے نقل کی ہے کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔
’’و لا عبرۃ بحال المقتدي وإلیہ ذہب الجصاص وھو الذي اختارہ لتوارث السلف اقتداء أحدہم بالأخر بلا نکیر مع کونہ مختلفین في الفروع، وکان مولانا شیخ الہند محمود الحسن، أیضاً: یذہب إلی مذہب الجصاص‘‘(۲)

(۲)حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے حنفی شخص کے لیے اس میں شامل ہونا درست ہے؛ اس لیے کہ جو ائمہ امامت کرتے ہیں ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں۔ ’’أما النوافل فمنہا ما تسن فیہ الجماعۃ وذلک کصلاۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین ومنہا ما تباح فیہ الجماعۃ، کصلاۃ التہجد ورواتب الصلوات المفروضۃ‘‘(۱)
(۳) نفل یا تہجد کی نماز رمضان میں یا غیر رمضان میں جماعت کے ساتھ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ احناف کے یہاں نفل کی جماعت نہیں ہے ہاں اگر بغیر تداعی کے جماعت ہو اس طور پر کہ دو تین لوگ شریک ہو جائیں، تو درست ہے اور تداعی کے ساتھ نفل کی جماعت مکروہ ہے اور چار یا چار سے زائد افرا د کا ہونا یہ تداعی ہے۔
’’ولا یصلي الوتر و لا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، أي یکر ہ ذلک علی سبیل التداعي، بأن یقتدي أربعۃ بواحد۔ و في الشامیۃ: و أما إقتداء واحد بواحد أو اثنین بواحد فلا یکرہ، و ثلاثۃ بواحد فیہ خلاف‘‘(۲)

(۱) البنوري، معارف السنن:’’أبواب الوتر، تفصیل المذاہب في عدد رکعات الوتر‘‘ ج ۴، ص: ۱۷۰، کراچی۔)
(۲) الکشمیري، فیض الباري: ج ۱، ص: ۳۵۲۔)
(۱) الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’باب ھل تصح امامۃ الصبي‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر، و النوافل، مطلب في کراہۃ الاقتداء في النفل علی سبیل التداعي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص316

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تہجد کا وقت صبح صادق سے پہلے پہلے رہتا ہے۔
’’وأید بما في معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: بحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد، إنما التہجد المرء یصلي الصلاۃ بعد رقدۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص424

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 993/41-156

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر فرض جو بھی نماز ہے وہ شروع کرنے کے بعد اگر فاسد ہوجائے تو اس کی قضاء  لازم ہوتی ہے۔

ولزم نفل شرع فیہ بتکبیرۃ الاحرام او بقیام الثالثۃ شروعا صحیحا (درمختار مع رد المحتار) ای لزم المضی فیہ حتی اذا افسدہ لزم قضاءہ (رد المحتار، باب الوتر والنوافل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2033/44-2008

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عبارت کا مطلب بالکل درست ہے، مگر چونکہ قرآن  میں نہیں ہے، اس لئے احتیاطا نماز کے فساد کا حکم ہوگا۔ اس لئے نماز لوٹائی جائے گی۔

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

کما حققہ ابن عابدین فی رد المحتار، باب صفة الصلاة ، قال:ان الإمام رجع إلی قولہما فی اشتراط القراء ة بالعربیة. لأن المأمور بہ قراء ة القرآن، وہو اسم للمنزل باللفظ العربی المنظوم ہذا النظم الخاص، المکتوب فی المصاحف، المنقول إلینا نقلا متواترا.

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا شرعی ثبوت کے کسی شخص کے متعلق بدگمانی کرنا گناہ کبیرہ ہے، قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے {اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا}(۲) کہ کسی کے عیوب کو تلاش مت کرو اور خوامخواہ بد گمانی مت کرو، تاہم اگر شرعی ثبوت کے ساتھ اس کی بد فعلی ثابت ہو جائے، تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، تا وقتیکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے اس جرم عظیم کی سچی پکی توبہ کرے اور آئندہ گناہ عظیم سے پر ہیز کرے  اس کے بعد اس کی امامت بلا کراہت درست ہو سکتی ہے۔

(۲) {ٰٓیاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُط وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (سورۃ الحجرات: ۱۲)
 یقول تعالیٰ ناہیا عبادہ المؤمنین عن کثیر من الظن، وہو التہمۃ والتخون …للأہل والأقارب والناس في غیر محلہ لأن بعض ذلک یکون إثما محضا، فلیجتنب کثیر منہ احتیاطاً وروینا عن أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: ولا تظنن بکلمۃ خرجت من أخیک المسلم إلا خیراً، وأنت تجد لہا في الخیر محملا، وقال أبو عبداللّٰہ بن ماجہ، حدثنا أبوالقاسم بن أبي ضمرۃ نصر بن محمد بن سلیمان الحمصي، حدثنا أبي، حدثنا عبداللّٰہ بن أبي، حدثنا عبداللّٰہ بن أبي قیس النضري، حدثنا عبداللّٰہ بن عمر رضي اللہ عنہما قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطوف بالکعبۃ ویقول: ما أطیبک وأطیب ریحک ما أعظمک وأعظم حرمتک، والذي نفس محمد بیدہ لحرمۃ المؤمن أعظم عند اللّٰہ تعالیٰ حرمۃ منک، مالہ ودمہ وأن یظن بہ إلا خیراً۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الحجرات: ۱۲‘‘ ج۷، ص: ۳۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص138

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ دوکان کی جو کیفیت سوال میں لکھی ہے اس کے اعتبار سے اس دوکان میں باجماعت نماز ادا کرنا بلا شبہ جائز ہے، شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ البتہ ثواب مسجد جیسا نہیں ملے گا۔(۲)

(۲) وعن أبي سعید -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:…الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، رواہ أبوداود والترمذي والدارمي۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ ’’باب المساجد، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص:۱۳۱، رقم:۷۳۷،یاسر ندیم دیوبند)
وأشار بإطلاق قول: ویأذن للناس في الصلاۃ أنہ لا یشترط أن یقول أذنت فیہ بالصلاۃ جماعۃ أبداً بل الإطلاق کاف لکن لو قال: صلوا فیہ جماعۃ صلاۃ أو صلاتین یوماً أو شہراً لا یکون مسجداً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف: فصل في أحکام المساجد‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص345

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل الأذان غیر مشروعۃ وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم مؤذنا فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علي،  فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا، ثم سلوا لی الوسیلۃ۔ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا۔ فمن سأل لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ‘‘(۱)
أما إذا کان المؤذن یقول ذلک برفع صوت کالأذان فذلک بدعۃ؛ لأنہ یوہم أنہا جزء من الأذان، والزیادۃ في الأذان لا تجوز؛ ولو کان ذلک خیرا لسبق إلیہ السلف الصالح في القرون المشہود لہا بالخیر ولم یوجد ذلک فیہا۔ فعلینا أن نحافظ علی ما کان علیہ العمل أیام الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحابتہ ومن بعدہم من عدم رفع المؤذن صوتہ بہا، فلذا رفع الصوت بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیر مشروعۃ، وعلینا أن نصلي ونسلم علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سرا، وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، وقبل ابتداء المدرسۃ و انتہائہا فلا بأس بہ مالم یعتقد لزومہا ولم یلم أحدا علی ترکہا۔ وفي جمیع الأحوال، لا یجوز تحویل ہذہ المسألۃ الفرعیۃ إلی سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمین فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتي ہي أحسن۔

(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، أول مسند عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص، ج۶، ص: ۱۴۱،رقم: ۶۵۶۹۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص242

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت سجدہ میں انگلیوں کو ملا کر رکھنا مسنون ہے، انگلیوں کو بہت کھول کر رکھنا خلاف سنت ہے۔(۱)

(۱) (قولہ ضاما أصابع یدیہ) أي ملصقا جنبات بعضہا ببعض قہستاني وغیرہ، ولا یندب الضم إلا ہنا ولا التفریج إلا في الرکوع کما في الزیلعي وغیرہ (قولہ لتتوجہ للقبلۃ) فإنہ لو فرجہا یبقی الإبہام والخنصر غیر متوجہین، وہذا التعلیل عزاہ في ہامش الخزائن إلی الشمني وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۳)
(وجہہ بین کفیہ ضاما أصابع یدیہ) فإن الأصابع تترک علی العادۃ فیما عدا الرکوع والسجود۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: صفۃ الشروع في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص384