نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور مسجد کے لوٹے اور جائے نماز اپنے گھر لے گئے بلاشبہ فاسق ہے اور فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔در مختار میں ہے ’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وقال في رد المحتار قال في الشرح علیہ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘ (۱) بس اس کے پیچھے نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو امام نہ بنایا جائے اور اگر وہ امام ہے تو اس کو الگ کر دیا جائے اور ایسے بد کردار مدرس سے بچوں کو تعلیم نہ دلوائی جائے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: افطار کی وجہ سے مغرب کی نماز میں پانچ؍ سات منٹ کی تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے، گھر پر روزہ افطار کرنے والے اگر نہ پہونچ پائیں، تو دس منٹ تک تاخیر ہو سکتی ہے، ان کو بھی چاہیے کہ جلد آنے کی کوشش کریں یا مسجد ہی میں افطار کریں، تاکہ حاضرین کو انتظار کی محنت نہ کرنی پڑے۔(۱)

(۱) (و) اخر (المغرب إلی اشتباک النجوم) أي کثرتہا (وکرہ) أي التأخیر لا الفعل لأنہ مأمور بہ (تحریماً) إلا بعذر کسفر وکونہ علی أکل … وعبارتہ إلا من عذر کسفر ومرض وحضور مائدۃ أو غیم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: مطلب في طلوع الشمس من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۷)
وأما المغرب فالمستحب فیہا التعجیل في الشتاء والصیف جمیعاً وتأخیرہا إلی اشتباک النجوم مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکارن،  الأوقات المستحبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۵، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص346

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کی ولادت کے فوراً بعد جلد از جلد اس کے کان میں اذان کہنی چاہئے، دیر کرنا مناسب نہیں، اوراگر فوراً اذان نہیں کہی اور بچہ کا انتقال ہوگیا تو اب اذان کی ضرورت نہ رہی، اور بچہ کے انتقال کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اذان نہ دی جائے؛ البتہ اگر ولادت کے وقت زندہ تھا تو اس کا نام رکھا جائے گا اور جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی۔
’’وعن أبي رافع رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، رواہ الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’بالصلاۃ، (أي بأذانہا وہو متعلق بأذن، والمعنی أذن بمثل أذان الصلاۃ وہذا یدل علی سنیۃ الأذان في أذن المولود وفي شرح السنۃ: روي أن عمر بن عبد العزیز رضي اللّٰہ عنہ کان یؤذن في الیمنی ویقیم في الیسری إذا ولد الصبي، قلت: قد جاء في مسند أبي یعلی الموصلي، عن الحسین رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً: من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان، کذا في الجامع الصغیر للسیوطي رحمہ اللّٰہ، قال النووي في الروضۃ: ویستحب أن یقول في أذنہ: {وإني أعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم} (آل عمران: ۳۶)، قال الطیبي: ولعل مناسبۃ الآیۃ بالأذان أن الأذان أیضاً یطرد الشیطان؛ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا نودی للصلاۃ أدبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التأذین، وذکر الأذان والتسمیۃ في باب العقیقۃ وارد علی سبیل الاستطراد، اہـ، والأظہر أن حکمۃ الأذان في الأذن أنہ یطرق سمعہ أول وہلۃ ذکر اللّٰہ تعالٰی علی وجہ الدعاء إلی الإیمان والصلاۃ التي ہي أم الأرکان (رواہ الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: ہذا حدیث حسن صحیح):ومن ولد فمات یغسل ویصلي علیہ إن استہل وإلا یستہل غسل وسمی وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’من استہل بعد الولادۃ سمي، وغسل وصلی علیہ‘‘(۱)

(۱)  ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصید والذبائح، باب العقیقۃ، الفصل الثاني‘‘:  ج ۸، ص: ۸۱، رقم: ۴۱۵۷۔
(۲)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب مہم: إذا قال: إن شتم فلانا في المسجد یتوقف علی کون الشاتم فیہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۹، ۱۳۰، ۱۳۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ،’’الباب الحادي والعشرون في صلاۃ الجنازۃ، الفصل الثاني في الغسل‘‘: ج۱، ص: ۲۱۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص244


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں تکبیر تحریمہ فرض ہے اگر تکبیر تحریمہ نہ کہے تو نماز نہیں رہتی باقی دیگر تکبیرات مسنون ہیں جن کا چھوڑنا خلاف سنت ہے؛ البتہ اگر کوئی تکبیر چھوٹ گئی تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)

(۱) ویکبر مع الانحطاط، کذا في الہدایۃ، قال الطحطاوي۔ وہو الصحیح کذا في معراج الدرایۃ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۳۱)
(ویکرہ) أن یأتي بالأذکار المشروعۃ في الانتقالات بعد تمام الانتقال … بأن یکبر للرکوع بعد الانتہاء إلی حد الرکوع ویقول سمع اللّٰہ لمن حمدہ بعد تمام القیام۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۳۵۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص385

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نوافل میں اختیار ہے خواہ کبھی کبھی ترک بھی کردے یا ہمیشہ نوافل سمجھ کر پڑھتا رہے۔ نوافل ترک کرنے کی عادت بنا لینا ناپسندیدہ ہے۔(۱)

(۱) ویجوز تأخیر الفوائت وإن وجبت علی الفور لعذر السعی علی العیال، و في ردالمحتار تحت (قولہ وفي الحوائج) وأما النفل فقال في المضمرات الاشتغال بقضاء الفوائت أولی واہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ وصلاۃ الضحی وصلاۃ التسبیح والصلاۃ التي رویت فیہا الاخبار۔ اہـ۔ ط أي کتحیۃ المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ج۲، ص۷۴)
ترکہ لا یوجب إسائۃ ولا عتابا کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار: ج ۱، ص: ۴۷۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص426

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعاء کے آداب میں سے ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھاکر دعا کرے اور دونوں کے درمیان فاصلہ ہو، ملاکر رکھنا خلاف اولیٰ ہے۔(۱)

(۱) الأفضل فيالدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، فی الصلاۃ، والتسبیح، وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷)
من آداب الدعاء بعد الصلوٰۃ رفع الیدین بحذاء صدرہ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’رفع الیدین في الدعاء خارج الصلاۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۶۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بات یہی ہے کہ زید ایسا ہی شخص ہے کہ عید گاہ اور جامع مسجد کے روپیہ میں غیر محتاط ہے اور اپنے خرچ میں لے آتا ہے اور حساب بھی نہیں دیتا ہے اور قرآن بھی صحیح نہیں پڑھتا تو ایسا شخص شرعی مجرم وفاسق ہے اس کو امام نہ بنانا چاہئے۔(۱)

(۱) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر کوئی دوسرا اچھا قاری ہو تو اس کو مقرر کرلیا جائے اور اگر ان سے اچھا پڑھنے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) ومن لا یحسن بعض الحروف ینبغي أن یجتہدو لایعذر في ذلک فإن کان لاینطق لسانہ في بعض الحروف إن لم یجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف تجوز صلاتہ ولا یؤم غیرہ وإن وجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف فقرأہا جازت صلاتہ عند الکل، وإن قرأ الآیۃ التي فیہا تلک الحروف، قال بعضہم: لاتجوز صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضی خان وہو الصحیح کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،   …الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)، زکریا۔
ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبی وحرر الحلبي وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتما کالأمي فلا یؤم الأمثلۃ ولا تصح صلاتہ إذا أمکنہ الاقتداء بمن یحسنہ أو ترک جہدہ أو وجد قدر الفرض مما لا لثغ فیہ ہذا ہو الصحیح المختار في حکم الألثغ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الألثغ‘‘: ج۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص235

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں پہونچ کر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے، تو دوسری مسجد میں جماعت کی تلاش میں جانا واجب نہیں ہے، اگر جانا چاہے، تو جا سکتا ہے منع بھی نہیں ہے، اگر چلا جائے گا اور جماعت میں شرکت کرے گا، تو نماز جماعت کا ثواب پائے گا۔(۱)

(۱) الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج ولو فاتتہ ندب طلبہا في مسجد آخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ : ج ۲، ص: ۲۹۰، ۲۹۱)
عن عبد الرحمن بن أبي بکرۃ عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أقبل من بعض نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فذہب إلی منزلہ فجمع أہلہ ثم صلی بہم۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۷، ص: ۵۰، رقم: ۶۸۲۰)
عن الحسن قال: کان أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخلوا المسجد وقد صلی فیہ صلوا فرادیٰ۔ (أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد بن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۳۳، رقم: ۷۱۸۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچے کے کان میں جو اذان دی جاتی ہے اس اذان کا جواب دینا شریعت اسلامیہ میں مستحب ہے؛ اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن، وأیضاً: قال یحی وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال: لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اور مؤذن جو الفاظ کہے اسی کو دہرائے؛ لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا۔
اس سلسلے میں علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں کا بھی جواب دیا جائے گا، مثلاً بچے کی پیدائش کے وقت اذان دینا وغیرہ؟ اس کا جواب خود دیتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوںکی طرح اس اذان کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب أذان غیر الصلاۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم!‘‘(۲)
نیزبچہ یا بچی کی پیدائش پر اسے غسل دینے کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون عمل ہے۔
ترمذی شریف میں روایت ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی‘‘ اور امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
’’عن عبید بن أبي رافع عن أبیہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۳)
’’عن حسین قال: قال رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: من ولد لہ فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری، لم تضرہ أم الصبیان‘‘(۴)
الحاصل: نومولود بچے کی پیدائش کے بعد کانوں میں اذان واقامت کہنا مسنون ہے، جب کہ اس اذان کا جواب دینا مستحب ہے۔

(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب ما یقول إذا سمع المنادي‘‘: ج۱ ، ص: ۱۲۶رقم ۶۱۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۶۶۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبـواب الأضــاحي: باب الأذان في أذن المولود‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۱۵۱۴۔
(۴) أخرجہ أبو یعلی، في مسندہ: ج ۱۲، ص: ۱۵۰، رقم: ۶۷۸۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص245