نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بات یہی ہے کہ زید ایسا ہی شخص ہے کہ عید گاہ اور جامع مسجد کے روپیہ میں غیر محتاط ہے اور اپنے خرچ میں لے آتا ہے اور حساب بھی نہیں دیتا ہے اور قرآن بھی صحیح نہیں پڑھتا تو ایسا شخص شرعی مجرم وفاسق ہے اس کو امام نہ بنانا چاہئے۔(۱)

(۱) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر کوئی دوسرا اچھا قاری ہو تو اس کو مقرر کرلیا جائے اور اگر ان سے اچھا پڑھنے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) ومن لا یحسن بعض الحروف ینبغي أن یجتہدو لایعذر في ذلک فإن کان لاینطق لسانہ في بعض الحروف إن لم یجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف تجوز صلاتہ ولا یؤم غیرہ وإن وجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف فقرأہا جازت صلاتہ عند الکل، وإن قرأ الآیۃ التي فیہا تلک الحروف، قال بعضہم: لاتجوز صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضی خان وہو الصحیح کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،   …الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)، زکریا۔
ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبی وحرر الحلبي وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتما کالأمي فلا یؤم الأمثلۃ ولا تصح صلاتہ إذا أمکنہ الاقتداء بمن یحسنہ أو ترک جہدہ أو وجد قدر الفرض مما لا لثغ فیہ ہذا ہو الصحیح المختار في حکم الألثغ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الألثغ‘‘: ج۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص235

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں پہونچ کر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے، تو دوسری مسجد میں جماعت کی تلاش میں جانا واجب نہیں ہے، اگر جانا چاہے، تو جا سکتا ہے منع بھی نہیں ہے، اگر چلا جائے گا اور جماعت میں شرکت کرے گا، تو نماز جماعت کا ثواب پائے گا۔(۱)

(۱) الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج ولو فاتتہ ندب طلبہا في مسجد آخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ : ج ۲، ص: ۲۹۰، ۲۹۱)
عن عبد الرحمن بن أبي بکرۃ عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أقبل من بعض نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فذہب إلی منزلہ فجمع أہلہ ثم صلی بہم۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۷، ص: ۵۰، رقم: ۶۸۲۰)
عن الحسن قال: کان أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخلوا المسجد وقد صلی فیہ صلوا فرادیٰ۔ (أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد بن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۳۳، رقم: ۷۱۸۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچے کے کان میں جو اذان دی جاتی ہے اس اذان کا جواب دینا شریعت اسلامیہ میں مستحب ہے؛ اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن، وأیضاً: قال یحی وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال: لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اور مؤذن جو الفاظ کہے اسی کو دہرائے؛ لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا۔
اس سلسلے میں علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں کا بھی جواب دیا جائے گا، مثلاً بچے کی پیدائش کے وقت اذان دینا وغیرہ؟ اس کا جواب خود دیتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوںکی طرح اس اذان کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب أذان غیر الصلاۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم!‘‘(۲)
نیزبچہ یا بچی کی پیدائش پر اسے غسل دینے کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون عمل ہے۔
ترمذی شریف میں روایت ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی‘‘ اور امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
’’عن عبید بن أبي رافع عن أبیہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۳)
’’عن حسین قال: قال رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: من ولد لہ فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری، لم تضرہ أم الصبیان‘‘(۴)
الحاصل: نومولود بچے کی پیدائش کے بعد کانوں میں اذان واقامت کہنا مسنون ہے، جب کہ اس اذان کا جواب دینا مستحب ہے۔

(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب ما یقول إذا سمع المنادي‘‘: ج۱ ، ص: ۱۲۶رقم ۶۱۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۶۶۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبـواب الأضــاحي: باب الأذان في أذن المولود‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۱۵۱۴۔
(۴) أخرجہ أبو یعلی، في مسندہ: ج ۱۲، ص: ۱۵۰، رقم: ۶۷۸۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص245

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصح قول کے مطابق مسنون یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں اور عورت اپنا ہاتھ سینہ کے اوپر باندھے۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا روایات سے ثابت ہے ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہے۔
’’وکونہ تحت السرۃ للرجال لقول علي رضي اللّٰہ عنہ: من السنۃ وضعہما تحت السرۃ‘‘(۱)
’’ورأي بعضہم أن یضعہما تحت السرۃ‘‘(۲)
’’قال: موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۳)
’’عن أبي وائل عن أبي ہریرۃ أخذ الأکف علی الأکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۴)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال ثلاث من أخلاق النبوۃ: تعجیل الإفطار وتأخیر السجود ووضع الید الیمنی علی الیسریٰ في الصلوٰۃ تحت السرۃ‘‘ (۵)
’’عن أبي جحیفۃ أن علیا قال السنۃ وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۶)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۲۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في وضع الیمین علی الشمال في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۲۔
(۳) أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ: ج ۱، ص: ۱۳۹۔
(۴)  أخرجہ أبي داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، رقم:۷۵۸۔
(۵) فخرالدین العثمان الماردیني، الجوہر النقي: ج ۲، ص: ۱۳۲
(۶) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، رقم:۷۵۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص385

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ مضمون حدیث شریف میں ہے کہ نوافل سے فرائض کا جبر نقصان ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ نیت اس کی صحیح ہے۔

’’ویاتي بالسنۃ مطلقاً الخ لکونہا مکملات؛ وأما في حقہ علیہ الصلاۃ و السلام فلزیادۃ الدرجات‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدرالمختار، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص426

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت ہاتھ اٹھانا اور آمین کہنا ممنوع ہے کیونکہ اس کا ثبوت خیر القرون میں نہیں ملتا ۔ ’’وما یفعلہ المؤذنون حال الخطبۃ من الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والترضی من الصحابۃ والدعاء للسلطان بالنصر ینبغی أن یکون مکروہاً اتفاقاً‘‘۔(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴۔
قولہ: (یصلی سراً) بحیث یسمع نفسہ کذا آفادہ القہستاني وفي الشرح عن الحسامي یصلی في نفسہ وفي الفتح عن أبي یوسف ینبغي في نفسہ لأن ذلک مما لا یشغلہ عن سماع الخطبۃ فکان إحرازاً للفضیلتین وہو الصواب۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۹)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر واقعی طور پر ایسا کیا ہے تو زید گناہگار ہے؛ کیوں کہ اس کے لیے پانچ ماہ کے حمل کو ضائع کرا دینا جائز نہیں تھا پس زید پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ سے توبہ کرے اور اگر زید نے لا علمی میں ایسا کیا ہے تب بھی زید پر ضروری تھا کہ کسی معتمد عالم یا مفتی سے معلوم کر لیتا پھر اس کے مطابق عمل کرتا بہر حال اگر زید نے اللہ تعالیٰ سے سچی پکی توبہ کرلی تو اس کا گناہ ختم ہونے کی بناء پر اس کی امامت درست اور جائز ہے اور اگر وہ اپنے اس عمل کو صحیح کہتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے اور توبہ بھی نہیں کرتا تو پھر چوں کہ وہ گناہگار ہے

(۱) رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ ثمَّ یستغفر اللّٰہ یجد اللّٰہ غفوراً رحیماً (سورۃ النساء: ۱۱۰)، ففي ہذہ الآیۃ دلیل علی حکمین: أحدہما أن التوبۃ مقبولۃ عن جمیع الذنوب الکبائر والصغائر لأن قولہ: ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ عم الکل، والحکم الثاني أن ظاہر الآیۃ یقتضي أن مجرد الاستغفار کاف، وقال بعضہم: إنہ مقید بالتوبۃ لأنہ لا ینفع الاستغفار مع الإصرار علی الذنوب۔ (ابن کثیر، تفسیر الخازن، ’’سورۃ النساء: ۱۱۰‘‘ ج۱، ص: ۴۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص141

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: عذر کی وجہ سے اگر رکوع کا سنت طریقہ مکمل طور پر نہ ہو پائے اور رکوع اصلاً ہو رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں نماز اور امامت درست ہے(۱) مذکورہ صورت میں کوئی کراہت نہیں۔(۲)

(۱) المشقۃ تجلب التیسیر۔ (ابن نجیم، الاشباہ، ج۱، ص: ۱۶)
(۲) و إذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئاً أو مستنداً إلی حائط أو انسان یجب أن یصلی متکئاً أو مستنداً ۔۔۔۔۔ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج۱، ص: ۱۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر کے فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ مؤکدہ ہیں، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے: ’’رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا‘‘(۱) فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں؛(۲) اس لیے فتاویٰ دار العلوم میں جولکھا ہے وہی حنفیہ کا مذہب ہے۔

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر والحث علیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۵۔
(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ-  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تدعو ہما وإن طردتکم الخیل۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في تخفیفہما‘‘: ج۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۲۵۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص348