Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ دوکان کی جو کیفیت سوال میں لکھی ہے اس کے اعتبار سے اس دوکان میں باجماعت نماز ادا کرنا بلا شبہ جائز ہے، شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ البتہ ثواب مسجد جیسا نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) وعن أبي سعید -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:…الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، رواہ أبوداود والترمذي والدارمي۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ ’’باب المساجد، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص:۱۳۱، رقم:۷۳۷،یاسر ندیم دیوبند)
وأشار بإطلاق قول: ویأذن للناس في الصلاۃ أنہ لا یشترط أن یقول أذنت فیہ بالصلاۃ جماعۃ أبداً بل الإطلاق کاف لکن لو قال: صلوا فیہ جماعۃ صلاۃ أو صلاتین یوماً أو شہراً لا یکون مسجداً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف: فصل في أحکام المساجد‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص345
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل الأذان غیر مشروعۃ وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم مؤذنا فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علي، فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا، ثم سلوا لی الوسیلۃ۔ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا۔ فمن سأل لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ‘‘(۱)
أما إذا کان المؤذن یقول ذلک برفع صوت کالأذان فذلک بدعۃ؛ لأنہ یوہم أنہا جزء من الأذان، والزیادۃ في الأذان لا تجوز؛ ولو کان ذلک خیرا لسبق إلیہ السلف الصالح في القرون المشہود لہا بالخیر ولم یوجد ذلک فیہا۔ فعلینا أن نحافظ علی ما کان علیہ العمل أیام الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحابتہ ومن بعدہم من عدم رفع المؤذن صوتہ بہا، فلذا رفع الصوت بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیر مشروعۃ، وعلینا أن نصلي ونسلم علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سرا، وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، وقبل ابتداء المدرسۃ و انتہائہا فلا بأس بہ مالم یعتقد لزومہا ولم یلم أحدا علی ترکہا۔ وفي جمیع الأحوال، لا یجوز تحویل ہذہ المسألۃ الفرعیۃ إلی سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمین فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتي ہي أحسن۔
(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، أول مسند عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص، ج۶، ص: ۱۴۱،رقم: ۶۵۶۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص242
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت سجدہ میں انگلیوں کو ملا کر رکھنا مسنون ہے، انگلیوں کو بہت کھول کر رکھنا خلاف سنت ہے۔(۱)
(۱) (قولہ ضاما أصابع یدیہ) أي ملصقا جنبات بعضہا ببعض قہستاني وغیرہ، ولا یندب الضم إلا ہنا ولا التفریج إلا في الرکوع کما في الزیلعي وغیرہ (قولہ لتتوجہ للقبلۃ) فإنہ لو فرجہا یبقی الإبہام والخنصر غیر متوجہین، وہذا التعلیل عزاہ في ہامش الخزائن إلی الشمني وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۳)
(وجہہ بین کفیہ ضاما أصابع یدیہ) فإن الأصابع تترک علی العادۃ فیما عدا الرکوع والسجود۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: صفۃ الشروع في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص384
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز دوبارہ نہیں پڑھی جاتی اگر تنہا فرض نماز پڑھ لی اور پھر جماعت شروع ہوئی تو اگر وہ نماز عشاء یا ظہر کی ہے تو نفل نماز کی نیت کرکے امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے۔ اور اگر فجر، عصر یا مغرب کی نماز ہے تو پھر جماعت میں شریک نہ ہو۔(۲)
(۲) وصح اقتداء متنفل بمفترض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۸)
وإذا أتمہا یدخل مع القوم، والذي یصلي معہم نافلۃ، لأن الفرض لایتکرر في وقت واحد۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص425
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 37 / 1083
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال جبکہ اس جگہ جمعہ قائم کرنے کی شرائط مفقود ہیں تو وہاں جمعہ کی نماز بند کردینی چاہئے، اور اب ظہر کی نماز ہی پڑھنی چاہئے۔ جمعہ پڑھنے سے ظہر کا فرض ساقط نہیں ہوگا، بلکہ وہ بدستور باقی رہے گا۔ تاہم مذکورہ بستی کا کسی ماہر مفتی سے ،معائنہ کرادیا جائے اور وہ جو فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39/1078
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل کی گھنٹی سے دوسرے نمازیوں کو خلل ہوتا ہے اس لئے نماز سے پہلے ہی اس کا دھیان رکھنا چاہئے اور موبائل کو سائلنٹ پر رکھ دینا چاہئے۔ لیکن اگر بند کرنا بھول گیا اور نماز میں گھنٹی بجی تو ایک ہاتھ سے بٹن دباکر بند کردینا چاہئے، اور اگر ایک ہاتھ کو جیب میں ڈالا اور نکال کربند کردیا تو بھی نماز ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے، اور زیادہ دیر لگنے سے نماز کے فاسد ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے ایسا کرنے سے بچنا چاہئے۔ اوراگر دونوں ہاتھ لگادیا یا کوئی اور عمل کثیر کردیا تو نماز ٹوٹ جائے گی اور دوبارہ بڑھنی ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر اور عصر کی نماز کے بعد چوںکہ نفل و سنت نماز نہیں ہے کمزور بیمار کام کاج والے مصلیوں کی رعایت کرکے قدرے طویل دعا کی گنجائش ہے اور ظہر، مغرب اور عشاء جن نمازوں کے بعد سنت ونوافل ہیں، ان میں مختصر دعاء مانگنی چاہئے۔
اور چونکہ نماز جمعہ کے بعد بھی سنتیں ہیں؛ لہٰذا اس وقت بھی مختصر دعاء کرنی چاہئے۔ فیض الباری شرع بخاری میںاسی طرح منقول ہے۔(۱)
(۱) فإن کان بعدہا أي بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: ’’اللہم أنت السلام الخ‘‘۔ (غنیۃ الملتمس: ص: ۳۴۱)
کل صلوٰۃ بعدہا سنۃ یکرہ القعود بعد ہا والدعاء الخ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی الطحطاوي، ’’فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۳۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص357
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور مسجد کے لوٹے اور جائے نماز اپنے گھر لے گئے بلاشبہ فاسق ہے اور فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔در مختار میں ہے ’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وقال في رد المحتار قال في الشرح علیہ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘ (۱) بس اس کے پیچھے نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو امام نہ بنایا جائے اور اگر وہ امام ہے تو اس کو الگ کر دیا جائے اور ایسے بد کردار مدرس سے بچوں کو تعلیم نہ دلوائی جائے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: افطار کی وجہ سے مغرب کی نماز میں پانچ؍ سات منٹ کی تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے، گھر پر روزہ افطار کرنے والے اگر نہ پہونچ پائیں، تو دس منٹ تک تاخیر ہو سکتی ہے، ان کو بھی چاہیے کہ جلد آنے کی کوشش کریں یا مسجد ہی میں افطار کریں، تاکہ حاضرین کو انتظار کی محنت نہ کرنی پڑے۔(۱)
(۱) (و) اخر (المغرب إلی اشتباک النجوم) أي کثرتہا (وکرہ) أي التأخیر لا الفعل لأنہ مأمور بہ (تحریماً) إلا بعذر کسفر وکونہ علی أکل … وعبارتہ إلا من عذر کسفر ومرض وحضور مائدۃ أو غیم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: مطلب في طلوع الشمس من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۷)
وأما المغرب فالمستحب فیہا التعجیل في الشتاء والصیف جمیعاً وتأخیرہا إلی اشتباک النجوم مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکارن، الأوقات المستحبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۵، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص346
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کی ولادت کے فوراً بعد جلد از جلد اس کے کان میں اذان کہنی چاہئے، دیر کرنا مناسب نہیں، اوراگر فوراً اذان نہیں کہی اور بچہ کا انتقال ہوگیا تو اب اذان کی ضرورت نہ رہی، اور بچہ کے انتقال کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اذان نہ دی جائے؛ البتہ اگر ولادت کے وقت زندہ تھا تو اس کا نام رکھا جائے گا اور جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی۔
’’وعن أبي رافع رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، رواہ الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’بالصلاۃ، (أي بأذانہا وہو متعلق بأذن، والمعنی أذن بمثل أذان الصلاۃ وہذا یدل علی سنیۃ الأذان في أذن المولود وفي شرح السنۃ: روي أن عمر بن عبد العزیز رضي اللّٰہ عنہ کان یؤذن في الیمنی ویقیم في الیسری إذا ولد الصبي، قلت: قد جاء في مسند أبي یعلی الموصلي، عن الحسین رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً: من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان، کذا في الجامع الصغیر للسیوطي رحمہ اللّٰہ، قال النووي في الروضۃ: ویستحب أن یقول في أذنہ: {وإني أعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم} (آل عمران: ۳۶)، قال الطیبي: ولعل مناسبۃ الآیۃ بالأذان أن الأذان أیضاً یطرد الشیطان؛ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا نودی للصلاۃ أدبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التأذین، وذکر الأذان والتسمیۃ في باب العقیقۃ وارد علی سبیل الاستطراد، اہـ، والأظہر أن حکمۃ الأذان في الأذن أنہ یطرق سمعہ أول وہلۃ ذکر اللّٰہ تعالٰی علی وجہ الدعاء إلی الإیمان والصلاۃ التي ہي أم الأرکان (رواہ الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: ہذا حدیث حسن صحیح):ومن ولد فمات یغسل ویصلي علیہ إن استہل وإلا یستہل غسل وسمی وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’من استہل بعد الولادۃ سمي، وغسل وصلی علیہ‘‘(۱)
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصید والذبائح، باب العقیقۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۸۱، رقم: ۴۱۵۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب مہم: إذا قال: إن شتم فلانا في المسجد یتوقف علی کون الشاتم فیہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۹، ۱۳۰، ۱۳۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ،’’الباب الحادي والعشرون في صلاۃ الجنازۃ، الفصل الثاني في الغسل‘‘: ج۱، ص: ۲۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص244