Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان ہو جانے کے بعد نماز پڑھے بغیر بلا عذر شرعی مسجد سے نکلنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر جماعت کے وقت واپس آنے کا ارادہ ہے، تو مکروہ نہیں ہے۔
’’وکرہ تحریماً للنہي خروج من لم یصل من مسجد أذن فیہ جری علی الغالب والمراد دخول الوقت أذن فیہ أولا إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیہ ولم یصلوا فیہ أولأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ أو لحاجۃ ومن عزمہ أن یعود‘‘(۱)
وعن عثمان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرکہ الأذان في المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجۃ وہو لا یرید الرجعۃ فہو منافق‘‘(۳)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، …مطلب في کراھۃ الخروج من المسجد بعد الأذان‘‘:ج ۲، ص: ۵۰۸۔
یکرہ الخروج بعد الأذان تحریماً لمن کان داخل المسجد، وہذا الحکم مقتصر علی من کان داخل المسجد۔ (الکشمیري، العرف الشذي شرح سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۲۱۹)
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہا، باب إذا أذن وأنت في المسجد فلا تخرج‘‘: ج۱، ص: ۵۴، رقم: ۷۳۴۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص349
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سری وانفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی، حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آہستہ آمین کہنا افضل ہے جس کی تائید متعدد نصوص شرعیہ سے ہوتی ہے۔ لفظ آمین ایک دعاء ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عطاء ؒکے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں ’’الآمین دعاء‘‘(۱) مجمع البحار میں ہے ’’معناہ استجب لي‘‘(۲)
اور دعاء مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ دعاء مانگنا ہے۔{أدعوا ربکم تضرعا وخفیۃ}(۳) حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعاء کی تھی {اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّاہ۳ }(۴)
’’عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال آمین خفض بہا صوتہ‘‘(۵)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا قال الإمام ’’ولا الضالین‘‘ فقولوا آمین‘‘ فإن الإمام یقولہا، رواہ أحمد، والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح‘‘(۶)
اس روایت میں ’’فإن الإمام یقولہا‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’آمین‘‘ آہستہ کہے گا ورنہ اس جملہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
’’عن أبي وائل قال لم یکن عمر وعلي یجہران ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ولا التعوذ ولا آمین‘‘(۱)
’’عن أبي وائل قال کان علي وعبد اللّٰہ لا یجہران … بالتأمین‘‘(۲)
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثار صحابہؓ سے معلوم ہوا ہے کہ نماز میں ’’آمین‘‘ آہستہ کہی جائے گی۔
امام طبریؒ فرماتے ہیں: ’’إن أکثر الصحابۃ والتابعین رضي اللّٰہ عنہم کانوا یخفون بہا‘‘(۳)
’’ عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ یخفی الإمام أربعاً التعوذ وبسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وآمین وربنا لک الحمد‘‘(۴)
’’قال شیخ الإسلام أبو بکر المرغیناني وإذا قال الإمام ولاالضالین قال آمین، ویقولہا المؤتم قال ویخفونہا‘‘(۵)
’’قال الشیخ بدر الدین العیني أي یخفی الإمام والقوم جمیعاً لفظہ آمین‘‘(۶)
’’وسننہا … والتأمین وکونہن سراً‘‘(۷)
’’وإذا فرغ من الفاتحۃ قال آمین والسنۃ فیہ الإخفاء ویخفی الإمام والمأموم‘‘(۸)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب جہر الإمام بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) جمال الدین، محمد طاہر بن علی، مجمع البحار: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
(۳) سورۃ الاعراف: ۵۵۔
(۴) سورہ مریم: ۳۔
(۵) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في التأمین‘‘: ج ۲، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۸۔
(۶) أو جز المسالک، ’’کتاب الصلوۃ: التأمین خلف الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۱) أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار: ’’کتاب الصلاۃ‘‘ ج ۱، ص: ۹۹۔
(۲) المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتبہ العلوم والحکم۔(شاملہ)
(۳) أبوظفر العثماني، إعلاء السنن: ج ۲، ص: ۲۲۳
(۴) اندلسي، المحلی بالآثار: ج۲، ص: ۲۸۰(شاملہ)
(۵) ابن الہمام، فتح القدیر مع الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱
(۶) العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵
(۷) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲،ص: ۱۷۲
(۸) الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث کیفیۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبندـ۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص390
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2036/44-2011
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمہور احناف کے نزدیک نفی پر انگلی کو اشارہ کے لئے اٹھانا اور اثبات پر انگلی کا رخ نیچے کردیناصحیح طریقہ ہے۔
والصحیح المختار عندجمہوراصحابنا انہ یضع کفیہ علی فخذیہ ثم عند وصولہ الی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر و یحلق الوسطی والابھام ویشیر بالمسبحۃ رافعا لھا عندالنفی وواضعا لھا عندالاثبات ثم یستمر علی ذلک لانہ ثبت العقد عندالاشارۃ بلاخلاف ولم یوجد امر بتفییرہ فالاصل بقاء الشئ علی ما ھو علیہ واستصحابہ الی آخر امرہ۔ (رسائل ابن عابدین 1/134) (نجم الفتاوی 2/354)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2581/45-3946
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے، اور دولوگوں میں تداعی کا تحقق نہیں ہوتاہے، اس لئے اوابین ، تہجد یا کسی اور نفل نماز میں ایک حافظ دوسرے کو جماعت میں قرآن سنائے تاکہ قرآن پختہ ہوجائے اور رمضان میں تراویح پڑھانے میں سہولت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوجاتی ہے لیکن اگر لوگوں کا اس پر اصرار نہ ہو تو کسی غیر معذور شخص کو امام بنا لینا چاہئے۔(۱)
(۲) امام بنانا درست ہے ۔
(۳) اس مضمون کی روایات مشکوٰۃ شریف میں موجود ہیں ص ۱۰۱، ۱۰۲۔ مطالعہ کرلیا جائے۔(۲)
(۱) صح اقتداء قائم بقاعد یرکع ویسجد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، زکریا دیوبند)
(۲) وقید القاعد یکون یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص239
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کے ساتھ نماز کسی بھی پاک جگہ میں پڑھی جاسکتی ہے ،اس کا خیال رکھنا ضرروی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ، عیدگاہ میں عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور گرمی اور دھوپ سے حفاظت کے لیے ٹین بھی ڈالی جاسکتی ہے اس سے وہاں کے لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سہولت ہوجائے گی اور عیدگاہ میں نماز پرھنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہے؛ اس لیے کہ عید کی نماز اس مصلی میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر قبرستان پرانا ہوجائے اور وہاں پر مُردوں کو دفن کرنے کی ضرورت باقی نہ رہ جائے تو اس کو مسجد بنایا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہے اور مسجد بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہوتی ہے ۔اس لیے عیدگاہ کمیٹی کی اجازت سے وہاں پر عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور باہمی مشورہ سے اسے مستقل مسجد بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہاں نماز پڑھنے والوں کو شرعی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے۔
’’لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أربذلک بأسا و ذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاہم لا یجوز لأحد أن یملکہا فإذا درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المساجد لأن المساجد أیضاً وقف من اوقاف المسلمین‘‘(۱)
(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مربض الغنم‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۹)
الثامنۃ في وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ قال في الخانیۃ: معزیا إلی أبي بکر البلخي إن کان ذلک من مصلحۃ المسجد بأن کان أسمع لہم فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، باب وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۳)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ- قال: لما قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ، فقال: یا بنی نجار ثامنوني بحائطکم ہذا، قالوا: لا واللّٰہ لا نطلب ثمنہ إلا إلی اللّٰہ فقال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین، وفیہ خرب و فیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقبور المشرکین، فنبشت، ثم بالخرب فسویت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلۃ المسجد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۴۲۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص350
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثناء کے بعد سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا ضروری (واجب) نہیں ہے۔ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی شرعی حیثیت کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔
اور سورۃ فاتحہ کے بعد اور ضم سورہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنے کو فقہاء نے بہتر اور مستحسن لکھا ہے؛ اس لیے اگر کسی سے ’’بسم اللّٰہ‘‘ چھوٹ جائے تو نماز درست ہو جاتی ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ‘‘ (بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم)(۱)
’’قولہ (وما صححہ الزاہدي من وجوبہا) یعني في أول الفاتحۃ وقد صححہ الزیلعي أیضا۔
قولہ (ضعفہ في البحر … من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔
قال في النہر والحق أنہما قولان مرجحان إلا أن المتون علی الأول۔ أہـ أقول أي إن الأول مرجح من حیث الروایۃ، والثاني: من حیث الدرایۃ‘‘(۲)
’’(ثم یسمی سرا) کما تقدم (ویسمی) کل من یقرأ في صلاتہ (في کل رکعۃ) سواء صلی فرضا أو نفلا (قبل الفاتحۃ) بأن یقول ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفي (فقط) فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لایسمی إلا في الرکعۃ الأولی‘‘(۱)
’’فائدۃ یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق في الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ‘‘(۳)
(۱) أخرجہ الترمذي، فيسننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب: من رأی الجہر ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، رقم: ۲۴۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۳۔
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص:۲۶۰۔
(۳) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص392
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو عالم قرآن کریم کو صحیح پڑھتے ہیں اور نماز کے لیے جس قدر حفظ کی ضرورت ہے اتنا قرآن ان کو یاد ہے تو وہ قاری بھی ہوئے اور اعلم بالسنہ بھی ہوئے جو شخص عالم نہیں ہے؛ بلکہ صرف حافظ ہے وہ صرف قاری ہے اعلم بالسنۃ نہیں ہے اس لیے عالم مقدم ہے الا یہ کہ حافظ امام متعین ہو۔(۱)
’’الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوٰۃ ہکذا في المضمرات … ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ، ہکذا في التبیین … فإن تساووا فأقرؤہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ‘‘(۲)
(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفساداً … وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ‘‘ (ابن عابدین، ردالمحتار، …’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص240