نماز / جمعہ و عیدین
ٹی وی دیکھنے والے کی امامت: (۱۱۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک مسجد کا مؤذن ہے جو وقتاً فوقتاً امامت بھی کرتا ہے اور ٹی وی بھی دیکھتا ہے۔ یعنی فلم تو نہیں دیکھتا لیکن ٹی وی میں صرف کھیل دیکھتا ہے۔ مذکورہ بالا شخص اذان اور نماز کے فرائض انجام دے سکتا ہے یا نہیں؟ فقط: والسلام المستفتی: محمد شفیق، قنوج

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوجاتی ہے لیکن اگر لوگوں کا اس پر اصرار نہ ہو تو کسی غیر معذور شخص کو امام بنا لینا چاہئے۔(۱)
(۲) امام بنانا درست ہے ۔
(۳) اس مضمون کی روایات مشکوٰۃ شریف میں موجود ہیں ص ۱۰۱، ۱۰۲۔ مطالعہ کرلیا جائے۔(۲)

(۱) صح اقتداء قائم بقاعد یرکع ویسجد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، زکریا دیوبند)
(۲) وقید القاعد یکون یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کے ساتھ نماز کسی بھی پاک جگہ میں پڑھی جاسکتی ہے ،اس کا خیال رکھنا ضرروی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ، عیدگاہ میں عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور گرمی اور دھوپ سے حفاظت کے لیے ٹین بھی ڈالی جاسکتی ہے اس سے وہاں کے لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سہولت ہوجائے گی اور عیدگاہ میں نماز پرھنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہے؛ اس لیے کہ عید کی نماز اس مصلی میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر قبرستان پرانا ہوجائے اور وہاں پر مُردوں کو دفن کرنے کی ضرورت باقی نہ رہ جائے تو اس کو مسجد بنایا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہے اور مسجد بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہوتی ہے ۔اس لیے عیدگاہ کمیٹی کی اجازت سے وہاں پر عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور باہمی مشورہ سے اسے مستقل مسجد بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہاں نماز پڑھنے والوں کو شرعی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے۔
’’لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أربذلک بأسا و ذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاہم لا یجوز لأحد أن یملکہا فإذا  درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المساجد لأن المساجد أیضاً  وقف من اوقاف المسلمین‘‘(۱)

(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مربض الغنم‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۹)
الثامنۃ في وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ قال في الخانیۃ: معزیا إلی أبي بکر البلخي إن کان ذلک من مصلحۃ المسجد بأن کان أسمع لہم فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، باب وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۳)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-  قال: لما قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ، فقال: یا بنی نجار ثامنوني بحائطکم ہذا، قالوا: لا واللّٰہ لا نطلب ثمنہ إلا إلی اللّٰہ فقال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین، وفیہ خرب و فیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقبور المشرکین، فنبشت، ثم بالخرب فسویت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلۃ المسجد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۴۲۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص350

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثناء کے بعد سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا ضروری (واجب) نہیں ہے۔ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی شرعی حیثیت کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔
اور سورۃ فاتحہ کے بعد اور ضم سورہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنے کو فقہاء نے بہتر اور مستحسن لکھا ہے؛ اس لیے اگر کسی سے ’’بسم اللّٰہ‘‘ چھوٹ جائے تو نماز درست ہو جاتی ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ‘‘ (بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم)(۱)
’’قولہ (وما صححہ الزاہدي من وجوبہا) یعني في أول الفاتحۃ وقد صححہ الزیلعي أیضا۔
قولہ (ضعفہ في البحر … من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔
قال في النہر والحق أنہما قولان مرجحان إلا أن المتون علی الأول۔ أہـ أقول أي إن الأول مرجح من حیث الروایۃ، والثاني: من حیث الدرایۃ‘‘(۲)
’’(ثم یسمی سرا) کما تقدم (ویسمی) کل من یقرأ في صلاتہ (في کل رکعۃ) سواء صلی فرضا أو نفلا (قبل الفاتحۃ) بأن یقول ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفي (فقط) فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لایسمی إلا في الرکعۃ الأولی‘‘(۱)
’’فائدۃ یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق في الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ الترمذي، فيسننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب: من رأی الجہر ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، رقم: ۲۴۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۳۔
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص:۲۶۰۔
(۳) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص392

نماز / جمعہ و عیدین
والدین کی اطاعت نہ کرنے والے کی امامت: (۱۱۸)سوال:عبادت نافلہ بہتر ہے یا اطاعت والدین اور جو شخص اپنے والدین کی اطاعت نہ کرے وہ فاسق ہے یا نہیں؟ اور ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہے؟ فقط: والسلام المستفتی: آفاق احمد ،میرٹھ

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو عالم قرآن کریم کو صحیح پڑھتے ہیں اور نماز کے لیے جس قدر حفظ کی ضرورت ہے اتنا قرآن ان کو یاد ہے تو وہ قاری بھی ہوئے اور اعلم بالسنہ بھی ہوئے جو شخص عالم نہیں ہے؛ بلکہ صرف حافظ ہے وہ صرف قاری ہے اعلم بالسنۃ نہیں ہے اس لیے عالم مقدم ہے الا یہ کہ حافظ امام متعین ہو۔(۱)
’’الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوٰۃ ہکذا في المضمرات … ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ، ہکذا في التبیین … فإن تساووا فأقرؤہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ‘‘(۲)

(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفساداً … وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ‘‘ (ابن عابدین، ردالمحتار، …’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص240

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچوں کو نماز کی تربیت دینا درست ہے اور نیچے جو جماعت ہورہی ہے وہی مستقل جماعت ہے، جماعت ثانیہ نہیں ہے، ہاں! تربیت کے لیے ایسا کیا جائے کہ اوپر ہونے والی بچوں کی جماعت میں صرف نابالع بچے شریک ہوں اور ان کا امام بھی نابالغ ہو، تو اس طرح پہلی جماعت نفل ہوگی اور دوسری جماعت اصل ہوگی اور اگر بالغ بچے پڑھانے والے ہوں اور پڑھنے والے بھی چند بالغ ہوں گے، تو ایسی صورت میں پہلی جماعت فرض ہوجائے گی، تو دوسری جماعت، جماعت ثانیہ کہلائے گی۔(۱)

(۱) عن أبي بکر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقبل من نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فمال إلي منزلہ فجمع أہلہ فصلی بہم۔ (المعجم الأوسط للطبراني، ’’باب من اسمہ: عبدان‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۴۶۰۱)(شاملہ)
ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن (قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي لا یجوز والمجمع لا یباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) ۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص352

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: رکوع و سجدہ میں کم از کم تین مرتبہ تسبیح پڑھنا مسنون ہے، ایک مرتبہ پڑھنے سے بھی رکوع اور سجدہ ادا ہو جاتا ہے اور اگر نہ بھی پڑھے تب بھی رکوع وسجدہ ادا ہو جائے گا اور وہ رکعت میں شامل ہونے والا کہلائے گا؛ البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ ’’سبحان ربي العظیم‘‘ کہے اور جب سجدہ کرے تو تین مرتبہ ’’سبحان ربي الأعلی‘‘ کہے تو اس کا رکوع پورا ہو گیا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد شریف کی روایت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا رکع أحدکم فلیقل ثلاث مرات: سبحان ربي العظیم، وذلک أدناہ، وإذا سجد فلیقل: سبحان ربي الأعلی ثلاثا، وذلک أدناہ‘‘(۱)
’’ویقول في رکوعہ سبحان ربي العظیم ثلاثا وذلک أدناہ فلوترک التسبیح أصلا أو أتی بہ مرۃ واحدۃ یجوز ویکرہ‘‘(۲)
’’إن أدنیٰ تسبیحات الرکوع والسجود الثلاث وأن الأوسط خمس مرات والأکمل سبع مرات الخ‘‘(۳)
’’والزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلا یطول الخ‘‘(۱)
’’ونقل في الحیلۃ عن عبد اللّٰہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبحات لیدرک من خلفہ الثلث الخ‘‘(۲)
’’واعلم أن التطویل المکروہ وہو الزیادۃ علی قدر أدنیٰ السنۃ عند ملل القوم حتی أن رضوا بالزیادۃ لا یکرہ وکذا إذا ملوا من قدر أدنیٰ السنۃ، لا یکرہ الخ‘‘(۳)
’’أما الإمام فلا یزید علی الثلاث إلا أن یرضی الجماعۃ الخ‘‘(۴)

حلبی کبیری اور در مختار وغیرہ کا خلاصہ یہ ہے کہ: سنت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ تین مرتبہ تسبیحات پڑھی جائیں، اوسط درجہ پانچ مرتبہ، اور اکمل درجہ سات مرتبہ پڑھی جائیں یا اس سے زائد ایسے ہی امام کو چاہئے کہ مقتدی کی رعایت کرتے ہوئے ادنیٰ درجہ پر عمل کرے۔

(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۴، رقم: ۸۸۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱۔
(۳) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، مسائل تتعلق بالرکوع: ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ دار العلوم دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطاعۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۲۸۲، اشرفیہ دیوبند، رحیمہ دیوبند: ص: ۳۰۸۔
(۴) صغیری مطبع مجتبائی دہلی: ص: ۱۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص394

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام بلند آواز، خوش الحان، تجوید کے مطابق صحیح صحیح قرأت کرنے والا ہونا چاہیے جو اس قدر بلند آواز سے پڑھے کہ تمام مصلی یا جماعت کا اکثر حصہ ان کی آواز کو سن سکے اور اگر امام صاحب کی آواز اتنی پست ہو کہ تمام یا اکثر مصلی ان کی آواز کو نہ سن سکیں، تو کم از کم اگر پہلی صف کے آس پاس کے مصلی ان کی آواز سن سکتے ہوں تو نماز ہو جائے گی مگر ایسے پست آواز والے کو امام بنانا بہتر نہیں ہے درمختا میں ہے:
’’وأدنی الجہر إسماع غیرہ، وأدنی المخافتۃ إسماع نفسہ ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أورجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل، خلاصۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب في الکلام علی الجہر والمخافتۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۲، ۲۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص193

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1203/42-502

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اسلام میں نماز کا جو حکم ہے وہ مسجد کی  جماعت کے ساتھ  مطلوب ہے۔ اسی لئے مسجد چھوڑکر جو لوگ گھروں میں نماز پڑھتے تھے، ان پر آپ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا، اس لئے حتی الامکان مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاہم اگر کسی وجہ سے مسجد نہ جاسکیں تو باقی لوگوں کو چاہئے کہ دوکان میں ہی  باجماعت نماز پڑھیں کہ کم از کم جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔

صلوۃ الجماعۃ تفضل صلوۃ احدکم بسبع و عشرین درجۃ (مسند احمد شاکر، سند عبداللہ بن عمر، 5/239، حدیث نمبر 5779)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند