Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر واقعی طور پر ایسا کیا ہے تو زید گناہگار ہے؛ کیوں کہ اس کے لیے پانچ ماہ کے حمل کو ضائع کرا دینا جائز نہیں تھا پس زید پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ سے توبہ کرے اور اگر زید نے لا علمی میں ایسا کیا ہے تب بھی زید پر ضروری تھا کہ کسی معتمد عالم یا مفتی سے معلوم کر لیتا پھر اس کے مطابق عمل کرتا بہر حال اگر زید نے اللہ تعالیٰ سے سچی پکی توبہ کرلی تو اس کا گناہ ختم ہونے کی بناء پر اس کی امامت درست اور جائز ہے اور اگر وہ اپنے اس عمل کو صحیح کہتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے اور توبہ بھی نہیں کرتا تو پھر چوں کہ وہ گناہگار ہے
(۱) رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ ثمَّ یستغفر اللّٰہ یجد اللّٰہ غفوراً رحیماً (سورۃ النساء: ۱۱۰)، ففي ہذہ الآیۃ دلیل علی حکمین: أحدہما أن التوبۃ مقبولۃ عن جمیع الذنوب الکبائر والصغائر لأن قولہ: ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ عم الکل، والحکم الثاني أن ظاہر الآیۃ یقتضي أن مجرد الاستغفار کاف، وقال بعضہم: إنہ مقید بالتوبۃ لأنہ لا ینفع الاستغفار مع الإصرار علی الذنوب۔ (ابن کثیر، تفسیر الخازن، ’’سورۃ النساء: ۱۱۰‘‘ ج۱، ص: ۴۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص141
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: عذر کی وجہ سے اگر رکوع کا سنت طریقہ مکمل طور پر نہ ہو پائے اور رکوع اصلاً ہو رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں نماز اور امامت درست ہے(۱) مذکورہ صورت میں کوئی کراہت نہیں۔(۲)
(۱) المشقۃ تجلب التیسیر۔ (ابن نجیم، الاشباہ، ج۱، ص: ۱۶)
(۲) و إذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئاً أو مستنداً إلی حائط أو انسان یجب أن یصلی متکئاً أو مستنداً ۔۔۔۔۔ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج۱، ص: ۱۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص236
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر کے فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ مؤکدہ ہیں، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے: ’’رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا‘‘(۱) فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں؛(۲) اس لیے فتاویٰ دار العلوم میں جولکھا ہے وہی حنفیہ کا مذہب ہے۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر والحث علیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۵۔
(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تدعو ہما وإن طردتکم الخیل۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في تخفیفہما‘‘: ج۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۲۵۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص348
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ حضرات فقہاء کرام نے عمومی طور پر نماز کے لیے جو اذان واقامت کہی جاتی ہے وہ اذان واقامت کہنا عورتوں کے لیے مکروہ لکھا ہے؛ کیوںکہ اس میں آواز کو بلند کرنا پڑتا ہے اور عورتوں کے لئے آواز بلند کرنا حرام ہے؛ لیکن بچے کے کانوں میں اذان واقامت بلند آواز سے نہیںدی جاتی ہے؛ بلکہ بچے کے نرم ونازک کان کے پردوں کا خیال کرتے ہوئے آہستہ آواز سے اذان واقامت کہی جاتی ہے، اس لیے کراہت کا سبب نہیں پایا جاتا ہے اور جب کراہت کا سبب نہیں پایا گیا تو عورت کا بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا درست ہے، اس لیے آپ نے جو اذان واقامت کہی ہیں وہ بلا کراہت درست ہے؛ حالاںکہ ذکر کردہ سوال میں آپ نے مسلم مرد کو اسپتال میں تلاش بھی کیا ہے؛ لیکن دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مجبوراً آپ نے اذان واقامت کہی ہے اس لیے اذان واقامت کے درست ہونے میں کوئی شک وشبہ نہ کریں۔
’’وأذان امرأۃ، لأنہا إن خفضت صوتہا أخلت بالإعلام وإن رفعتہ ارتکبت معصیۃ لأنہ عورۃ۔ تحتہ في حاشیۃ الطحطاوي ’’أنہ عورۃ‘‘ ضعیف والمعتمد أنہ فتنۃ‘‘(۱)
’’اعلم أن الأذان والإقامۃ من سنن الجماعۃ المستحبۃ فلا یندبان لجماعۃ النساء والعبید والعراۃ لأن جماعتہم غیر مشروعۃ کما في البحر وکذا جماعۃ المعذورین یوم الجمعۃ للظہر في المصر فإن أدائہ بہما مکروہ کما في الحلبي قولہ: من کراہتہما لہن لأن مبنی حالہن علی الستر ورفع صوتہن حرام والغالب أن الإقامۃ تکون برفع صوت إلا أنہ أقل من صوت الأذان‘‘(۱)
’’(قولہ: للرجال) أما النساء فیکرہ لہن الأذان وکذا الإقامۃ، لما روي عن أنس وابن عمر من کراہتہما لہن؛ ولأن مبنی حالہن علی الستر، ورفع صوتہن حرام إمداد‘‘(۲)
’’وأما أذان المرأۃ فلأنہ لم ینقل إلینا عن أحد السلف حین کانت الجماعۃ مشروعۃ في حقہن فیکون من المحدثات، لا سیما بعد انتساخ جماعتہن؛ ولأن المؤذن یستحب لہ أن یشہر نفسہ ویؤذن علی المکان العالي ویرفع صوتہ والمرأۃ منہیۃ عن ذلک کلہ، ولہذا جعل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم التسبیح للرجال والتصفیق للنساء‘‘(۳)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، دار الکتاب دیوبند؛ وابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۔
(۳) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۹، ۲۵۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص247
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’أشہد أن لا إلہ‘‘ پر انگلی اٹھائی جائے اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر گرائی جائے۔
’’وصفتہا أن یحلق من یدہ الیمنیٰ عند الشہادۃ الإبہام والوسطیٰ ویقبض البنصر والخنصر ویشیر بالمسبحۃ أو یعقد ثلاثۃ وخمسین بأن یقبض الوسطیٰ والخنصر، ویضع رأس إبہامہ علیٰ حرف مفصل الوسطیٰ الأوسط ویرفع الأصبع عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘ (۱)
’’وفي الشرنبلالیۃ عن البرہان: الصحیح أنہ یشیر بمسبحۃ وحدہا، یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘ (۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، ج ۲، ص: ۲۱۷۔
(۲) أیضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ یہ بھی درست ہے؛ مگر بہتر یہ ہے کہ فرض کے بعد اول دو سنت مؤکدہ پڑھے اور پھر صلاۃ الاوابین چھ رکعت پڑھے۔ کیوں کہ صلاۃ الاوابین کی رکعت کم از چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہیں۔
’’عن أبي سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۲)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ، بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۳)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃباب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم:۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم:۴۳۵نعیمیہ۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص427
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکر کا یہ طریقہ جائز ہے۔ اس موقع پر روپیہ دینا یا کھانا کھلانا، اگر ذکر کرنے کی اجرت اور بدلہ ہے، تو یہ ناجائز ہے۔اور اجرت اور بدلہ نہیں ہے، تو جائز ہے۔(۲)
(۲) {وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ وَکَانَ أَمْرُہٗ فُرُطًا ہالثلٰثۃ ۲۸} (سورۃ الکہف: ۲۸)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریا، والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’تفسیر سورۃ الأعراف: ۵۰‘‘؛ : ج ۵، ص: ۲۰۸، ) …عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، کان یقول عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعا أحدکم أخاہ فلیجب عرساً کان أو نحوہ۔ (أخرجہ، مسلم في صحیحہ، ’’کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۲۹)
قال بعض السلف وأما الأعذار التي یسقط بہا وجوب إجابۃ الدعوۃ أو ندبہا فمنہا أن یکون في الطعام شبہۃ أو یخص بہا الأغنیاء أو یکون من یتأذي بحضورہ معہ أو لا تلیق بہ مجالستہ أو یدعوہ لخوف شر أو لطمع في جانبہ الخ۔ (أخرجہ النووي، في شرح المسلم، ’’کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص359
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ مسلم فنڈ کا تعلق اور واسطہ سرکاری بینکوں سے پڑتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے مسلم فنڈ کی ملازمت کو مطلقاً ناجائز کہنا غلط ہے، بلکہ پہلے مسلم فنڈ کے نظام کے بارے میں تحقیق کریں، اس لیے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔(۱)
(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًامبِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶} إن جاء کم فاسق بنبإ، أي بخبر فتبینوا، وقرئ: فتثبتوا، أي: فتوقفوا واطلبوا بیان الأمر وانکشاف الحقیقۃ ولاتعتمدوا علی قول الفاسق أن تصیبوا أي کیلا تصیبوا بالقتل والسبي قوماً بجہالۃ أي جاہلین حالہ وحقیقۃ أمرہم فتصبحوا علی مافعلتم أي من إصابتکم بالخطإ نادمین۔ (علي بن محمد بن إبراہیم، تفسیر الخازن، ’’سورۃ الحجرات: ۶‘‘: ج۴، ص: ۱۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص143
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر نابینا امامت کرے اور امامت کی پوری شرائط نابینا کے اندر پائی جاتی ہوں، پاکی اور صفائی کا پورا خیال بھی رکھنے والا ہو تو نابینا کی امامت بلا کراہت درست ہے۔ صاحب ہدایہ نے جو اعمیٰ کی امامت کو مکروہ لکھا ہے اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہے اور وہ اس لیے کہ عام طور پر نابینا بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے پاکی اور صفائی وغیرہ کا پورا پورا خیال نہیں رکھ پاتا اور قبلہ کی جانب سے انحراف کا بھی اندیشہ رہتا ہے اس لیے صاحب ہدایہ نے احتیاط کے طور پر امامت کو مکروہ یعنی خلاف اولیٰ کہا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ وہ نابینا جو احتیاط نہ کر پائے اسے امام نہ بنایا جائے، البتہ اگر جماعت میں اس نابینا سے زیادہ کوئی علم وفضل میں زیادہ نہ ہو اور کوئی دوسری وجہ مانع امامت بھی نہ ہو تو نابینا کی امامت بلاشبہ جائز ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ: اعرابی اور اندھا اور غلام کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تجوز إمامۃ الأعرابي والأعمیٰ والعبد ۔۔۔۔۔ إلا أنہا تکرہ‘‘(۱)
علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’ویکرہ تنزیہاً إمامۃ أعمیٰ إلا أن یکون أعلم القوم‘‘(۲)
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا کہ وہ امامت کریں اور وہ نابینا تھے۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۲) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم استخلف ابن أم مکتوم یؤم الناس وہو أعمیٰ‘‘(۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص237
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جو جگہ کارخانہ کے مالک نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے دی ہے اس جگہ پر نماز پنج وقتہ ونماز جمعہ وعیدین وغیرہ سبھی نمازیں جائز اور درست ہوں گی، اس پر شبہ نہ کیا جائے،البتہ وہ جگہ عارضی طور پر نماز کے لیے ہے، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے، اس لیے وہ شرعی مسجد نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) ویزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل و (بقولہ جعلتہ مسجدا) وفي القہستاني ولا بد من إفرازہ: أي تمییزہ عن ملکہ من جمیع الوجوہ، فلو کان العلو مسجدا والسفل حوانیت أو بالعکس لا یزول ملکہ لتعلق حق العبد بہ کما في الکافي۔ (ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الوقف، مطلب إذا وقف کل نصف علی حدۃ صارا وقفین ‘‘: ج۶، ص: ۵۴۴،۵۴۵)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص348