نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شروع زمانہ میں نماز کی ہر نقل وحرکت کے ساتھ رفع یدین کا معمول تھا حتی کہ صحابہ کرامؓ سلام پھیرتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے؛ لیکن بعد میں بتدریج ہر ہر نقل وحرکت کے وقت رفع یدین سے منع کر دیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کرام سے نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت صحیح اور معتبر روایات سے ہے؛ اس لیے حنفیہ کے نزدیک وہ روایات قابل ترجیح ہیں جن میں ترک رفع یدین کا ثبوت ہے؛ لہٰذا تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کرنا خلاف سنت ہوگا۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت وائل ابن حجر ؓکی رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرمایا اگر حضرت وائل ؓنے آپ کو ایک مرتبہ رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے آپ کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
’’عن المغیرۃ قال قلت لإبراہیم حدیث وائل أنہ رأي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ إذا افتتح الصلوٰۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبد اللّٰہ خمیس مرۃ لا یفعل ذلک‘‘(۱)
’’عن علقمۃ عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضياللّٰہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر فلم یرفعوأیدیہم إلا عند افتتاح الصلوٰۃ‘‘(۲)
’’عن إبراہیم عن الأسود قال رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیہ في أول تکبیرۃ ثم لا یعود قال ورأیت إبراہیم والشعبي یفعلان ذلک‘‘(۳)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ قال رأیت علی بن طالب رضي اللّٰہ عنہ رفع یدیہ في التکبیرۃ الأولیٰ من الصلوٰۃ والمکتوبۃ ولم یرفعہما فیما سویٰ ذلک‘‘(۴)
’’ولا یسن مؤکداً رفع یدیہ إلا فی سبع مواطن کما ورد … تکبیرۃ افتتاح وقنوت، در مختار وفي الشامي الوارد ہو قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا ترفع الأیدی إلا في سبع مواطن تکبیرۃ الافتتاح وتکبیرۃ القنوت وتکبیرات العیدین الخ قال في فتح القدیر والحدیث غریب بہذا اللفظ‘‘(۱)
فلا یرفع یدیہ عند الرکوع إلا عند الرفع منہ لحدیث أبي داود عن البراء قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ حین افتتح الصلوٰۃ ثم لم یرفعہما حتی انصرف‘‘(۲)
’’عن جابر بن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال مال أراکم رافعي أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’ویرفع یدیہ مع التکبیر حتی یحاذي بإبہامیہ شحمۃ أذنیہ‘‘(۴)
’’عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسم کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء أذنیہ‘‘(۵)
’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر لافتتاح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتی إبہاماہ قریباً من شحمتي أذنیہ ثم لایعود، ومثل ذلک أحادیث کثیرۃ‘‘(۶)

(۱) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلاۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص:۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۲، ص: ۷۹۔
(۳) أخرجہ أبوجعفر أحمد بن محمد، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۳، رقم: ۱۳۶۴۔
(۴) الموطأ لإمام محمد: ص: ۹۲۔
(۱) ابن عابدین،  ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴، زکریادیوبند۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب الدہر بالسکون في الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۰۔
(۴) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۵) أیضًا:
(۶) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۴۶۔
عن المغیرۃ قال: قلت لإبراہیم حدیث واعمل أنہ رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ وإذا افتتح الصلاۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال: إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبداللّٰہ خمسین مرۃً لایفعل ذلک۔ (أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خالد کے جو حالات سوال میں تحریر ہیں ان کی روسے خالد کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے اس کو معزول کرنا جائز ہے(۱)  اور تلک کی رقم لینا قطعاً جائز نہیں۔

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ ونحوہ الأعشیٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۵)
قولہ وفاسق) من الفسق، وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، کذا في البرجندی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۰، ۵۶۱، سعید کراچی)
ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص144

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال جب امام رکوع و سجود وجلسہ بھی نہیں کرسکتے تو مذکورہ شخص کی امامت درست نہیں، دوسرا نظم ضروری ہے۔
’’ولا یصلي الذي یرکع ویسجد خلف المؤمي‘‘(۲)

(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان ہو جانے کے بعد نماز پڑھے بغیر بلا عذر شرعی مسجد سے نکلنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر جماعت کے وقت واپس آنے کا ارادہ ہے، تو مکروہ نہیں ہے۔
’’وکرہ تحریماً للنہي خروج من لم یصل من مسجد أذن فیہ جری علی الغالب والمراد دخول الوقت أذن فیہ أولا إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیہ ولم یصلوا فیہ أولأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ أو لحاجۃ ومن عزمہ أن یعود‘‘(۱)
وعن عثمان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرکہ الأذان في المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجۃ وہو لا یرید الرجعۃ فہو منافق‘‘(۳)

(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ،   …مطلب في کراھۃ الخروج من المسجد بعد الأذان‘‘:ج ۲، ص: ۵۰۸۔
یکرہ الخروج بعد الأذان تحریماً لمن کان داخل المسجد، وہذا الحکم مقتصر علی من کان داخل المسجد۔ (الکشمیري، العرف الشذي شرح سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۲۱۹)
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہا، باب إذا أذن وأنت في المسجد فلا تخرج‘‘: ج۱، ص: ۵۴، رقم: ۷۳۴۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص349

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سری وانفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی، حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آہستہ آمین کہنا افضل ہے جس کی تائید متعدد نصوص شرعیہ سے ہوتی ہے۔ لفظ آمین ایک دعاء ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عطاء ؒکے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں ’’الآمین دعاء‘‘(۱) مجمع البحار میں ہے ’’معناہ استجب لي‘‘(۲)
اور دعاء مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ دعاء مانگنا ہے۔{أدعوا ربکم تضرعا وخفیۃ}(۳) حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعاء کی تھی {اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّاہ۳ }(۴)
’’عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال آمین خفض بہا صوتہ‘‘(۵)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا قال الإمام ’’ولا الضالین‘‘ فقولوا آمین‘‘ فإن الإمام یقولہا، رواہ أحمد، والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح‘‘(۶)

اس روایت میں ’’فإن الإمام یقولہا‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’آمین‘‘ آہستہ کہے گا ورنہ اس جملہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
’’عن أبي وائل قال لم یکن عمر وعلي یجہران ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ولا التعوذ ولا آمین‘‘(۱)
’’عن أبي وائل قال کان علي وعبد اللّٰہ لا یجہران … بالتأمین‘‘(۲)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثار صحابہؓ سے معلوم ہوا ہے کہ نماز میں ’’آمین‘‘ آہستہ کہی جائے گی۔
امام طبریؒ فرماتے ہیں: ’’إن أکثر الصحابۃ والتابعین رضي اللّٰہ عنہم کانوا یخفون بہا‘‘(۳)
’’ عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ یخفی الإمام أربعاً التعوذ وبسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وآمین وربنا لک الحمد‘‘(۴)
’’قال شیخ الإسلام أبو بکر المرغیناني وإذا قال الإمام ولاالضالین قال آمین، ویقولہا المؤتم قال ویخفونہا‘‘(۵)
’’قال الشیخ بدر الدین العیني أي یخفی الإمام والقوم جمیعاً لفظہ آمین‘‘(۶)
’’وسننہا … والتأمین وکونہن سراً‘‘(۷)
’’وإذا فرغ من الفاتحۃ قال آمین والسنۃ فیہ الإخفاء ویخفی الإمام والمأموم‘‘(۸)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب جہر الإمام بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) جمال الدین، محمد طاہر بن علی، مجمع البحار: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
(۳) سورۃ الاعراف: ۵۵۔
(۴) سورہ مریم: ۳۔
(۵) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في التأمین‘‘: ج ۲، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۸۔
(۶) أو جز المسالک، ’’کتاب الصلوۃ: التأمین خلف الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۱) أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار: ’’کتاب الصلاۃ‘‘ ج ۱، ص: ۹۹۔
(۲) المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتبہ العلوم والحکم۔(شاملہ)
(۳) أبوظفر العثماني، إعلاء السنن: ج ۲، ص: ۲۲۳
(۴) اندلسي، المحلی بالآثار: ج۲، ص: ۲۸۰(شاملہ)
(۵) ابن الہمام، فتح القدیر مع الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱
(۶) العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵
(۷) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲،ص: ۱۷۲
(۸) الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث کیفیۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبندـ۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص390

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2036/44-2011

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمہور احناف کے نزدیک نفی پر انگلی  کو اشارہ کے لئے اٹھانا اور اثبات پر انگلی کا رخ نیچے کردیناصحیح طریقہ ہے۔

والصحیح المختار عندجمہوراصحابنا  انہ یضع کفیہ علی فخذیہ ثم عند وصولہ الی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر و یحلق الوسطی والابھام ویشیر بالمسبحۃ  رافعا لھا عندالنفی وواضعا لھا عندالاثبات ثم یستمر علی ذلک لانہ ثبت  العقد عندالاشارۃ بلاخلاف ولم یوجد امر بتفییرہ فالاصل بقاء الشئ علی ما ھو علیہ واستصحابہ الی آخر امرہ۔ (رسائل ابن عابدین 1/134) (نجم الفتاوی 2/354)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2581/45-3946

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے، اور دولوگوں میں تداعی کا تحقق نہیں ہوتاہے، اس لئے  اوابین ، تہجد یا کسی اور نفل نماز میں ایک حافظ دوسرے کو جماعت میں قرآن سنائے  تاکہ قرآن پختہ ہوجائے اور رمضان میں تراویح پڑھانے میں سہولت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین
ٹی وی دیکھنے والے کی امامت: (۱۱۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک مسجد کا مؤذن ہے جو وقتاً فوقتاً امامت بھی کرتا ہے اور ٹی وی بھی دیکھتا ہے۔ یعنی فلم تو نہیں دیکھتا لیکن ٹی وی میں صرف کھیل دیکھتا ہے۔ مذکورہ بالا شخص اذان اور نماز کے فرائض انجام دے سکتا ہے یا نہیں؟ فقط: والسلام المستفتی: محمد شفیق، قنوج

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوجاتی ہے لیکن اگر لوگوں کا اس پر اصرار نہ ہو تو کسی غیر معذور شخص کو امام بنا لینا چاہئے۔(۱)
(۲) امام بنانا درست ہے ۔
(۳) اس مضمون کی روایات مشکوٰۃ شریف میں موجود ہیں ص ۱۰۱، ۱۰۲۔ مطالعہ کرلیا جائے۔(۲)

(۱) صح اقتداء قائم بقاعد یرکع ویسجد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، زکریا دیوبند)
(۲) وقید القاعد یکون یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کے ساتھ نماز کسی بھی پاک جگہ میں پڑھی جاسکتی ہے ،اس کا خیال رکھنا ضرروی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ، عیدگاہ میں عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور گرمی اور دھوپ سے حفاظت کے لیے ٹین بھی ڈالی جاسکتی ہے اس سے وہاں کے لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سہولت ہوجائے گی اور عیدگاہ میں نماز پرھنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہے؛ اس لیے کہ عید کی نماز اس مصلی میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر قبرستان پرانا ہوجائے اور وہاں پر مُردوں کو دفن کرنے کی ضرورت باقی نہ رہ جائے تو اس کو مسجد بنایا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہے اور مسجد بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہوتی ہے ۔اس لیے عیدگاہ کمیٹی کی اجازت سے وہاں پر عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور باہمی مشورہ سے اسے مستقل مسجد بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہاں نماز پڑھنے والوں کو شرعی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے۔
’’لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أربذلک بأسا و ذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاہم لا یجوز لأحد أن یملکہا فإذا  درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المساجد لأن المساجد أیضاً  وقف من اوقاف المسلمین‘‘(۱)

(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مربض الغنم‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۹)
الثامنۃ في وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ قال في الخانیۃ: معزیا إلی أبي بکر البلخي إن کان ذلک من مصلحۃ المسجد بأن کان أسمع لہم فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، باب وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۳)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-  قال: لما قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ، فقال: یا بنی نجار ثامنوني بحائطکم ہذا، قالوا: لا واللّٰہ لا نطلب ثمنہ إلا إلی اللّٰہ فقال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین، وفیہ خرب و فیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقبور المشرکین، فنبشت، ثم بالخرب فسویت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلۃ المسجد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۴۲۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص350