نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ہاتھوں کو سجدہ میں اس طرح رکھنا کہ دونوں انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر رہیں سنت ہے، امام کو چاہئے کہ اس پر عمل کرے اس کے خلاف کرنا شرعاً خلاف سنت ہے؛ البتہ نماز درست ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) قالوا إذا أراد السجود یضع أولا ما کان أقرب إلی الأرض فیضع رکبتیہ أولا ثم یدیہ ثم أنفہ ثم جبہتہ۔ وإذا أراد الرفع یرفع أولا جبہتہ ثم أنفہ ثم یدیہ ثم رکبتیہ قالوا ہذا إذا کان حافیا أما إذا کان متخففا فلا یمکنہ وضع الرکبتین أولا فیضع الیدین قبل الرکبتین ویقدم الیمنی علی الیسری کذا في التبیین ویضع یدیہ في السجود حذاء أذنیہ ویوجہ أصابعہ نحو القبلۃ وکذا أصابع رجلیہ ویعتمد علی راحتیہ ویبدي ضبعیہ عن جنبیہ ولا یفترش ذراعیہ، کذا فی الخلاصۃ ویجافي بطنہ عن فخذیہ کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وأدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص399

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: شروع میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام نمازوں میں جہراً قرأت کرتے تھے، تو مشرکین ایذاء پہونچاتے تھے اس وقت آیت کریمہ نازل ہوئی {وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا  تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا ہ۱۱۰}(۱) چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر وعصر میں تو پست آواز سے پڑھتے تھے؛ اس لیے کہ اس وقت کفار مکہ تکلیف پہونچانے کے در پے رہتے تھے اور مغرب میں بآواز بلند پڑھتے تھے؛ اس لیے کہ اس وقت یہ لوگ کھانے میں مصروف رہتے تھے اور عشاء وفجر میں اس لیے زور سے پڑھتے تھے کہ یہ کفار کے سونے کا وقت تھا، جمعہ وعیدین بآواز بلند پڑھنا اس وجہ سے تھا کہ ان کا قیام مدینہ جانے کے بعد ہوا اور وہاں کفار مکہ کے ایذاء پہونچانے کا اندیشہ نہ تھا مدینہ جانے کے بعد ظہر وعصر میں سراً قرأت کرنے کی حکمت ومصلحت اگرچہ باقی نہ رہی تاہم یہ سنت اس لیے جاری رہی کہ حکم کے باقی رہنے کے لیے سبب کا باقی رہنا ضروری نہیں۔(۲)  مذکورہ سوال کے جواب کے لیے اور دوسری چیزوں کے لیے آپ ’’المصالح العقلیۃ في المسائل الشرعیۃ‘‘ مصنفہ حضرت تھانویؒ کا مطالعہ کریں۔

(۱) سورۃ الإسراء: ۱۱۰۔
(۲)عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في قولہ تعالی: {وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا  تُخَافِتْ بِھَا} قال: نزلت ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مختف بمکۃ، کان إذا صلی بأصحابہ رفع صوتہ بالقرآن فإذا سمع المشرکون سبوا القرآن، ومن أنزلہ، ومن جاء بہ فقال اللّٰہ لنبیہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ} أي: بقرائتک، فیسمع المشرکون فیسبوا القرآن، {وَلَا تُخَافِتْ بِہَا} عن أصحابک فلا تسمعہم {وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا}۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر، سورۃ بني إسرائیل، باب ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۴۷۲۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص196

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:لفظ آمین ایک دعاء ہے جس کے معنی ہیں: اے اللہ تو قبول فرما اور آیت قرآنیہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دعا مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ مانگنا ہے؛ نیز مؤذن کو اس کا پابند بنانا اور اس پر اس قسم کا بار ڈالنا زیادتی ہے۔(۱)
(۱) {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط} (سورۃ الأعراف: ۵۵)
{إِذْ نَادٰی رَبَّہٗ  نِدَآئً خَفِیًّاہ۳ } (سورۃ المریم: ۳)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَہع ۷ } فقولوا آمین۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب جہر المأموم بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۶، رقم: ۷۸۲)
عن علقمۃ بن وائل أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَہع ۷ } فقال: آمین وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۸، رقم: ۲۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص361

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وہ فاسق ہی نہیں؛ بلکہ اس کے بارے میں اندیشہ کفر ہے اس کو فوراً ہی امامت سے الگ کر دیا جائے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) وفاسق، من الفسق وہوالخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
وفي شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص148

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہو اور معلوم ہونے کے باوجود اعادہ نہ کیا جائے تو یہ موجب فسق ہے۔ مؤکدہ سنتوں کو متواتر ترک کرنا بھی موجب عقاب ہے۔کذب بیانی، امانت میں خیانت گناہ کبیرہ ہے جو شخص امامت سے عاجز ہو اس کو امام بنانا درست نہیں ہے اور مسجد کمیٹی اور کمیٹی نہ ہونے کی صورت میں مسجد کے مصلی حضرات کو جس طرح کسی کو امامت کے لیے مقرر کرنے کا حق ہے اسی طرح علاحدہ کرنے کا بھی حق ہے۔ اختلاف کی صورت
میں اکثریت کا فیصلہ معتبر ہے؛ لیکن بلاوجہ شرعی کسی کو علیحدہ نہیں کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) ومن حکمہا نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم، قال الشامي: نظام الألفۃ بتحصیل التعاھد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبری‘‘: ج۲، ص: ۲۸۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص244

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب آپ نے سنت شروع کردی تو اب توڑنا جائز نہیں ہے۔ سنت پوری کریں، پھر اگر قعدہ اخیرہ مل جائے، تو ٹھیک ہے ورنہ تنہا نماز پڑھ لیں۔(۱)

(۱) (وإذا خاف فوت) رکعتي الفجر لاشتغالہ بسنتہا ترکہا لکون الجماعۃ أکمل (قولہ ترکہا) أي لا یشرع فیہا، ولیس المراد بقطعہا لما مر أن الشارع في النفل لا یقطعہ مطلقا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۰)
لو خاف أنہ لو صلی سنۃ الفجر بوجہہا تفوتہ الجماعۃ، ولو اقتصر فیہا بالفاتحۃ وتسبیحۃ في الرکوع والسجود یدرکہا فلہ أن یقتصر علیہا لأن ترک السنۃ جائز لإدراک الجماعۃ،  فسنۃ السنۃ أولٰی۔ وعن القاضي الزرنجري: لو خاف أن تفوتہ الرکعتان یصلي السنۃ ویترک الثناء والتعوذ وسنۃ القرائۃ، ویقتصر علی آیۃ واحدۃ لیکون جمعا بینہما وکذا في سنۃ الظہر۔اہـ۔ وفیہا أیضا: صلی سنۃ الفجر وفاتہ الفجر لا یعید السنۃ إذا قضی الفجر۔اہـ۔ (أیضًا:ص: ۵۱۲)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص357

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال امام و مقتدیوںمیں سے کسی کی نماز بھی درست نہیں ہوئی سب کو لوٹانا فرض ہے۔(۲)

(۲) ومن العذر حصول مرض یخاف منہ اشتداد المرض أو بطء البرء أو تحرکہ (کالمحموم) والمبطون ومن الأعذار برد یخاف منہ بغلبۃ الظن التلف بعض الأعضاء۔ قولہ سواء کان خبیثاً أو محدثاً … قال الحلواني لا رخصۃ للمحدث بذلک السبب إجماعاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ص: ۱۱۵، شیخ الہند دیوبند)
ویفسدہا رؤیۃ متیمم أو مقتد بہ ولم یرہ امامہ ماء … وکذا تبطل بزوال کل عذر أباح التیمم۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ‘‘: ص: ۳۲۶، ۳۲۷)
والرابع عشر من شروط صحۃ الاقتداء أن لا یعلم المقتدي من حال إمامہ المخالف لمذہبہ مفسداً في زعم المأموم یعني في مذہب المأموم … فالصحیح جواز الاقتداء مع الکراہۃ … وقال الدیري في شرحہ لا یکرہ إذا علم منہ الاحتیاط في مذہب الحنفي۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص252

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: نماز تو درست ہو جائے گی؛ مگر بلا عذر ایسا نہیں چاہئے، کیوں کہ مسنون یہ ہے کہ پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔
’’عن البراء قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رکع بسط ظہرہ وإذا سجد وجہ أصابعہ قبل القبلۃ فتفلج‘‘(۱)

(۱) السنن الکبری للبیہقي، ’’باب یضم أصابع یدیہ في السجود‘‘: ج۲، ص: ۱۶۲، رقم: ۲۶۹۔(شاملہ)
(ویستقبل بأطراف أصابع رجلیہ القبلۃ، ویکرہ إن لم یفعل) ذلک، (قولہ ویکرہ إن لم یفعل ذلک) کذا في التجنیس لصاحب الہدایۃ۔ وقال الرملی في حاشیۃ البحر: ظاہرہ أنہ سنۃ، وبہ صرح في زاد الفقیر اہـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۲۱۰؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’الباب الربع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۲؛ وأحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننھا‘‘: ج۱، ص: ۲۶۷؛ وعثمان بن علی، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل الشروع في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا یکون اعتقادہ کفرا یفسد فی جمیعِ ذلک، سواء کان في القرآن أو لا، إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم یکن التغییر کذلک، فإن لم یکن مثلہ في القرآن والمعنی بعید متغیر تعبیرًا فاحشا یفسد أیضا کہذا الغبار مکان ہذا الغراب۔
وکذا إذا لم یکن مثلہ في القرآن ولا معنی لہ کالسرائل مکان السرائر، وإن کان مثلہ في القرآن والمعنی بعید ولم یکن متغیرا فاحشا تفسد أیضا عند أبي حنیفۃ ومحمد، وہو الأحوط۔ وقال بعض المشایخ: لا تفسد لعموم البلوی، وہو قول أبي یوسف؛ وإن لم یکن مثلہ في القرآن ولکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیامین مکان قوامین فالخلاف علی العکس، فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنی کثیرا وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنی عندہما، فہذہ قواعد الأئمۃ المتقدمین۔ وأما المتأخرون کابن مقاتل وابن سلام وإسماعیل الزاہد وأبي بکر البلخي والہندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا علی أن الخطأ في الإعراب لا یفسد مطلقا ولو اعتقادہ کفرا لأن أکثر الناس لا یمیِزون بین وجوہ الإعراب۔ قال قاضي خان: وما قالہ المتأخرون أوسع، وما قالہ المتقدمون أحوط؛ وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد،… وإن لم یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلوی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳، ۳۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص197

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2037/44-2012

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کا محراب میں کھڑا ہونا اس لئے مکروہ  قراردیاگیا کہ اس کی حالت مقتدیوں سے اوجھل یا علیحدہ نہ رہے۔ تنہا اگر کوئی فرض یا نفل نماز محراب میں پڑھے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ محراب میں کھڑے ہونے سے دیکھنے والوں کو شبہہ ہوسکتاہے  کہ جماعت سے کوئی نماز ہورہی ہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند