نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: جان کر لحن جلی یا خفی کرنا جائز نہیں ہے بھول کر (نماز میں) لحن خفی ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے اور اگر بھول کر لحن جلی ہو تو نماز بھی اکثر صورتوں میں نہیں ہوتی تو جان کر بدرجہ اولی نہیں ہوگی۔ فرائض، واجبات اور تراویح سب کا حکم یکساں ہے، کوئی خاص صورت پیش آجائے تو اس کی پوری وضاحت کرکے سوال کیا جائے۔(۲)

(۲) (قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ {الحمد للّٰہ رب العالمین} (الفاتحۃ: ۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس، وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد، إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۳۹۲، ۳۹۳)
(والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات۔ والتقوی: اتقاء المحرمات (قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ قہستاني۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص:۲۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص278


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز چھوڑی تو اس کا سخت گناہ ہوگا، فرض چھوڑ کر نفل پڑھنا یا نفل کو فرض سے زیادہ لازم سمجھنا شرعاً درست نہیں ہے(۱) شادی کے دن کوئی شخص مزید نفلیں پڑھے تو بلا شبہ بہتر ودرست ہے؛ لیکن اس کو اتنا رواج دینا کہ اگر کوئی نفلیں نہ پڑھے تو اس پر لعن طعن کیا جائے درست نہیں ہے اور رواج کی وجہ سے نفلیں پڑھنا باعث ثواب بھی نہیں ہے۔(۲)

(۱) وتارکہا عمداً مجانۃ أي تکاسلاً فاسق۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵، زکریا دیوبند)قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ترک الصلاۃ فقد کفر۔ فأول فیہ بعضہم أنہ لیس حکما بالکفر، بل معناہ أنہ قرب الکفر الخ۔ (الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الإیمان، باب کفران العشیر الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الصلح، ’’باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فھو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کے لیے مذکورہ فیکٹری میں بحیثیت مینجر کام کرنے کی شرعا گنجائش ہے؛ اس لیے کہ ا س کمپنی میں جو لائٹیں تیار کی جا رہی ہیں ان کا استعمال معصیت کے لیے براہ راست نہیں ہو رہا ہے اور نہ یہ چیزیں صرف معصیت میں استعمال ہوتی ہیں؛ اس لیے ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا درست ہے اور اس سے حاصل شدہ آمدنی حلال ہے اور آپ کے پیچھے امامت بلاکراہت درست ہے۔(۱)

(۱) (و) جاز (بیع عصیر) عنب (ممن) یعلم أنہ (یتخذہ خمراً)؛ لأن المعصیۃ لا تقوم بعینہ بل بعد تغیرہ، وقیل: یکرہ لإعانتہ علی المعصیۃ، ونقل المصنف عن السراج والمشکلات: أن قولہ: ممن أي من کافر، أما بیعہ من المسلم فیکرہ، ومثلہ في الجوہرۃ والباقاني وغیرہما، زاد القہستاني معزیاً للخانیۃ: أنہ یکرہ بالاتفاق‘‘ (بخلاف بیع أمرد ممن یلوط بہ وبیع سلاح من أہل الفتنۃ)؛ لأن المعصیۃ تقوم بعینہ، ثم الکراہۃ في مسألۃ الأمرد مصرح بہا في بیوع الخانیۃ وغیرہا، واعتمدہ المصنف علی خلاف ما في الزیلعي والعیني، وإن أقرہ المصنف في باب البغاۃ، قلت: وقدمنا ثمۃ معزیاً للنہر أن ما قامت المعصیۃ بعینہ یکرہ بیعہ تحریماً وإلا فتنزیہاً، فلیحفظ توفیقاً‘‘ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)۔
ذکر قاضي خان في فتاواہ أن بیع العصیر ممن یتخذہ خمرا إن قصد بہ التجارۃ فلا یحرم وإن قصر بہ لأجل التخمیر حرم وکذا غرس الکرم علی ہذا انتہی وعلی ہذا عصیر العنب بقصد الخلیۃ أو الخمریۃ، (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الأول في القواعد الکلیۃ، النوع الأول، القاعدۃ الثانیۃ: الأمور بمقاصدہا‘‘: ج۱، ص: ۱۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص93

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: معانی و مطالب بدل جانے کی صورت میں تو نماز ہی نہیں ہوتی نیز نماز بہت ہی اہم عبادت ہے اس کے لیے صحیح تلاوت کرنے والے متبع سنت آدمی کو امامت کے لیے مقرر کرنا چاہئے۔ مقرر کردہ امام تو تلاوت غلط کرتا ہے جب کہ روزانہ کے لیے وہی امام ہے جب کبھی گاؤں میں کوئی عالم آجائے اس وقت اعتراض پیدا ہوتا ہے؛ حالاں کہ یہ بات توہر وقت ہی محل اعتراض ہے مسجد کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ صحیح قرآن پڑھنے والے کو امام بنائے۔(۳)

(۳) ومنہا القرائۃ بالألحان إن غیر المعنی وإلا لا إلا في حرف مد ولین إذا فحش وإلا لا۔ بزازیۃ، قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ {الحمد اللّٰہ رب العالمین} (الفاتحۃ: ۲)، وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ۔ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما فی الصحاح والقاموس وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔
قولہ وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی، وحروف) المد واللین ہي حروف العلۃ الثلاثۃ الألف والواو والیاء إذا کانت ساکنۃ وقبلہا حرکۃ تجانسہا،  فلو لم تجانسہا فہی حروف علۃ ولین لا مد، تتمۃ، فہم مما ذکرہ أن القراء ۃ بالألحان إذا لم تغیر الکلمۃ عن وضعہا ولم یحصل بہا تطویل الحروف حتی لا یصیر الحرف حرفین، بل مجرد تحسین الصوت وتزیین القراء ۃ لا یضر، بل یستحب عندنا فی الصلاۃ وخارجہا کذا في التتارخانیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص:۳۹۲، ۳۹۳)
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی اتقاء المحرمات۔
قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہ أقرا: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا)، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔
لایحوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی تکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (أیضًا: ’’مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
وإمامۃ الخنثی المشکل للنساء جائزۃ إن تقدمہن وللرجال ولخنثی مثلہ لایجوز۔ ۱ہـ، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح اماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص221

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: شریعت میں قمری تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے اور بالغ لڑکے کی امامت درست ہے۔ لڑکا پندرہ سال سے پہلے علامات بلوغ کے پائے جانے سے بالغ ہوسکتا ہے اور اگر کوئی علامت نہ ہو، تو پندرہ سال میں بالغ ہوجاتا ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص کا امام بننا بلا کراہت درست ہے۔
’’عن ابن عمر، قال: عرضني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم أحد في القتال، وأنا ابن أربع عشرۃ سنۃ، فلم یجزني، وعرضني یوم الخندق، وأنا ابن خمس عشرۃ سنۃ، فأجازني، قال نافع: فقدمت علی عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ خلیفۃ، فحدثتہ ہذا الحدیث، فقال: إن ہذا لحد بین الصغیر والکبیر، فکتب إلی عمالہ أن یفرضوا لمن کان ابن خمس عشرۃ سنۃ، ومن کان دون ذلک فاجعلوہ في العیال،(۱) و السن الذي یحکم ببلوغ الغلام و الجاریۃ إذا انتہیا إلیہ خمس عشرۃ سنۃ عند أبي یوسف و محمد، وہو روایۃ عن أبي حنیفہ و علیہ الفتوی‘‘(۲)

(۱) أخرجہ مسلم   في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب سن البلوغ‘‘: ج۲، ص: ۱۳۰، رقم: ۱۸۶۸، کتب خانہ نعیمیۃ دیوبند۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الحجر: الفصل الثاني في معرفۃ حد البلوغ‘‘: ج ۵، ص: ۶۱۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف میں جگہ ہونے کے باوجود صف سے دور کھڑا ہونا مکروہ ہے، اس کو چاہئے کہ صف تک پہونچ کر نماز شروع کرے، چاہے رکعت فوت ہوجائے اس لیے کہ افضلیت حاصل کرنے کی بہ نسبت مکروہ سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
’’ویکرہ للمقتدي أن یقوم خلف الصف وحدہ إلا إذا لم یجد في الصف فرجۃ یمکنہ القیام فیہا لقولہ علیہ السلام: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر، رواہ أبوداود والنسائي‘‘(۲)

(۱) ولو کان الصف منتظما ینتظر مجيء آخر فإن خاف فوت الرکعۃ جذب عالماً بالحکم لایتأذی بہ وإلا قام وحدہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۷، شیخ الہند دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۴، ط: درا الکتاب دیوبند)۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص419

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اقامت شریعت کی نظر میں مسنون ہے۔ اذان کے کلمات میں شرعی ضابطہ کے تحت فصل ہونا چاہئے۔ اور اقامت کے کلمات میں وصل ہونا چاہئے، مذکورہ طریقہ جو سوال میں تحریر ہے اس سے اقامت ادا ہو گئی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۲)
(۲) والإقامۃ کالأذان فیما مر لکن ہي أفضل منہ، ولا یضع إصبعیہ في أذنیہ ویحدر أي یسرع فیہا فلو ترسل لم یعدہا في الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص201



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  اس صورت میں اس مقتدی جو کہ تیسری رکعت میں شامل ہو) کی نماز صحیح ہوگئی۔(۱)

(۱) والمسبوق یسجد مع إمامہ قید بالسجود لأنہ لا بتابعہ في السلام، بل یسجد معہ ویتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم: فإن کان عامداً فسدت، وإلا لا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص48

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مجبوری کی وجہ سے جمائی لی ہو اور احتیاط کرتا ہو کہ آواز نہ نکلے تو معاف ہے اور اگر اس میں احتیاط نہ کرتا ہو اور بے احتیاطی کی وجہ سے آواز نکلے اور حروف پیدا ہوں تو نماز فاسد ہو جائے گی ۔ در مختار میں ہے:
’’والتنحنح بحرفین بلا عذر أما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدي إمامہ‘‘(۱)
(۱) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲ ، ص:۳۷۶، ۳۷۷، زکریا دیوبند ۔
ویفسد الصلاۃ التنحنح بلا عذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین۔ ولو لم یظہر لہ حروف فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ  وما یکرہ فیہا‘‘: ج۱، ص: ۱۵۹، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص161

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر غلطی سے نماز میں کسی سورت کی ایک آیت چھوٹ جائے، یا آیت کا بعض حصہ چھوٹ جائے، اور فی الجملہ تین آیتوں کے بعد قرأت پائی جائے، تو اس کی وجہ سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر درمیان آیت چھوٹنے کے بعد ایسی جگہ سے آیت کو ملایا کہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہوگیا تو نماز درست نہیں ہوگی۔ اس لیے مکمل وضاحت کے ساتھ معلوم کرلیں کہ کون سی آیت چھوٹی ہے او رکہاں سے پڑھاہے۔
’’ولو زاد کلمۃً أو نقص کلمۃً أو نقص حرفًا، … لم تفسد ما لم یتغیر المعنی۔ (قولہ: أو نقص کلمۃً) کذا في بعض النسخ ولم یمثل لہ الشارح۔ قال في شرح المنیۃ: وإن ترک کلمۃً من آیۃ فإن لم تغیر المعنی مثل : وجزاء سیئۃ مثلہا بترک سیئۃ الثانیۃ لاتفسد وإن غیرت، مثل: فما لہم یؤمنون بترک لا، فإنہ یفسد  عند العامۃ؛  وقیل:  لا،  والصحیح الأول‘‘(۱)
’’وعن ابن عوف قال: سألت ابن سیرین عن الرجل یقرأ من السورۃ آیتین ثم یدعہا ویأخذ في غیرہا، قال: لیتق أحدکم أن یأثم إثما کبیراً من حیث لا یشعر‘‘(۲)
’’قلت: سند صحیح، وابن عوف تصحیف، وإنما ہو ابن عون بالنون من ثقات أصحاب ابن سیرین‘‘(۳)
’’فرض القراء ۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدي بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ وہو الأصح، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ: أدنی ما یجوز من القراء ۃ في الصلاۃ في کل رکعۃ ثلاث أیات تکون تلک الاٰیات الثلاث مثل أقصر سورۃ من القراٰن، وإن قرأ باٰیتین طویلتین أو باٰیۃ طویلۃ تکون تلک الاٰیات مثل أقصر سورۃ في القراٰن یجزیہ ذٰلک‘‘(۴)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ: وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند۔
(۲) أخرجہ أبوعبید، کذا في الإتقان: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ: ج ۱، ص: ۴؛ وإعلاء السنن: ج ۴، ص: ۱۳۰)
(۴) الفتاویٰ التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۱۷۳۵، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، زکریا دیوبند ۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص279