Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف رفع سبابہ عند التشہد کی سنیت کے قائل ہیں۔ اور یہ ثابت من الشریعہ ہے۔
’’الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات۔۔۔۔ الثاني بسط الأصابع إلی حین الشہادۃ، فیعقد عندہا ویرفع السبابۃ عند النفي ویضعہا عنــد الإثبــات، وہذا ما اعتمد المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحۃ ولصحۃ نقلہ عن أئمتنا الثلاثۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقدالأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸، زکریا۔
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قعد یدعو وضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی ویدہ الیسری علی فخذہ الیسری وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبہامہ علی إصبعہ الوسطی ویضم کفہ الیسری رکبتہ‘‘ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ’’باب صفۃ الجلوس في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۲۱۶، رقم:۵۷۹)
عن مالک بن نمیر النخراعي عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعاً أصبعہ السبابۃ قدحناہا شیئاً۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود، باب الإشارۃ في التشہد‘‘: ج۱، ص:۱۴۲،رقم: ۹۹۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص396
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: فجر کی نماز میں امام کو اتنی مختصر قرأت کی عادت ڈال لینا خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے کوئی خاص عذر نہ ہو، تو نماز فجر میں سورۃ حجرات سے لے کر، سورہ بروج تک کی سورتوں میں کسی سورت کا پڑھنا مسنون اور مستحب ہے یا کسی اور جگہ سے کم از کم چالیس آیات کا پڑھنا مسنون ومستحب ہے؛(۱) البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بناء پر قرأت مختصر کرے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
(و) یسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذکرہ الحلبي، والناس عنہ غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلی آخر البروج (في الفجر والظہر، و) منہا إلی آخر لم یکن (أوساطہ في العصر والعشاء، و) باقیہ (قصارہ في المغرب) أي في کل رکعۃ سورۃ مما ذکر، ذکرہ الحلبی، واختار في البدائع عدم التقدیر، وأنہ یختلف بالوقت والقوم والإمام۔
وفي حاشیۃ ابن عابدین: (قولہ واختار في البدائع عدم التقدیر إلخ) وعمل الناس الیوم علی ما اختارہ في البدائع، رملی۔ والظاہر أن المراد عدم التقدیر بمقدار معین لکل أحد وفي کل وقت، کما یفیدہ تمام العبارۃ، بل تارۃ یقتصر علی أدنی ما ورد کأقصر سورۃ من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورۃ من قصارہ عند ضیق وقت أو نحوہ من الأعذار، لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ في الفجر بالمعوذتین لما سمع بکاء صبي خشیۃ أن یشق علی أمہ، وتارۃ یقرأ أکثر ما ورد إذا لم یمل القوم، فلیس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملۃ فیہ أنہ ینبغي للإمام أن یقرأ مقدار ما یخف علی القوم ولا یثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام، وہکذا في الخلاصۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘:ج ۲، ص: ۲۵۹، ۲۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص194
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1730/43-1428
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کا مذکورہ معمول درست نہیں ہے۔ مسجد کی پہلی جماعت کے ساتھ ہی سب کو باجماعت نماز اداکرنی چاہئے، درس حدیث بعد نمازبھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں ایک مرتبہ جماعت ہوجانے کے بعد اس میں دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے۔ اور اس کا معمول بنالینا اور بھی زیادہ بُرا ہے۔
’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)
لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2637/45-4041
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسبوق ہو يا مدرک ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال کے وقت تکبیر کہے گا۔
’’عن عبد اللہ بن مسعود قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکبر فی کل خقض ورفع وقیام وقعود وابوبکر وعمر‘‘ (ترمذی، ’’باب ما جاء فی التکبیر عند الرکوع والسجود‘‘: ص: ٩٥)
’’ثم رفع رأسہ مکبرا النہوض بلا اعتماد علی الارض بیریہ وبلا تعود‘‘ (نور الایضاح: ص: ٦٧)
فاذا اطمأن ساجدا کبر واستون قائما علی صدر قدمیہ‘‘ (ہدایۃ: ج ١، ص: ١١٠)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ حافظ کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۱) نماز فرض ہو یا تراویح کی امامت دونوں کا ایک حکم ہے۔ اگر مسجد یا محلہ کے افراد اسی کو امام بنانا چاہیں تو وہ بڑی غلطی کریں گے۔ پس مذکورہ صورت میں مقتدی دوسری مسجد میں نماز تراویح پڑھ سکتے ہیں۔(۲)
(۱) وتکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والأعمیٰ والفاسق وولد الزنا فإن تقدموا جاز۔ (إبراہیم بن محمد بن إبراہیم، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ص: ۹۱)
(۲) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول إن أشد الناس عذاباً عند اللّٰہ المصورون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب بیان عذاب المصورین یوم القیامۃ‘‘: ج۲، ص: ۸۴۰، رقم: ۵۹۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص147
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کی امامت بلاکراہت درست ہے، بائیں ہاتھ کی کمزوری کی وجہ سے شبہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص242
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں مسجد کی جماعت کے ترک کرنے کا جو عذر بیان کیا گیا ہے وہ ترک جماعت کا معقول عذر نہیں ہے، اس کی وجہ سے عمر کے لیے مسجد کی جماعت کی نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے، احادیث میں اس طرح کی چیزوں کو ترک جماعت کا عذر نہیں بتایا گیا ہے، عمر کو چاہیے کہ نماز کے وقت مسجد جائے اگر لوگوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے، تو ہونے دے مسجد اللہ کا گھر ہے اور ا للہ کا حکم مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہے؛ اس لیے بندوں کو دیکھنے کے بجائے اللہ تعالی کے حکم کی طرف نظر رہنی چاہیے۔
’’عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الجفاء کل الجفاء و الکفر والنفاق من سمع منادي اللّٰہ إلی الصلاۃ فلا یجیبہ‘‘(۱)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر قالوا: و ما العذر؟ قال خوف أو مرض، لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی‘‘(۲)
(۱) مسند أحمد، مسند المکیین، حدیث معاذ ابن أنس الجھني، ج۲۴، ص:۳۹۰، رقم:۱۵۶۲۷
(۲) سلیمان بن الأشعث، سنن أبي داؤد، ’’کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص355
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بغیر غسل و طہارت نماز ادا نہیں ہوگی جب معلوم ہو تو اس نماز کو لوٹا لے جو اس حالت میں پڑھی گئی ہو۔(۱)
(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِط} (سورۃ المائدہ: ۶)
والطہارۃ مفتاحہا بالنص وہو ما رواہ السیوطي في الجامع الصغیر من قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار: ’کتاب الطہارۃ ‘‘: ج۱، ص: ۱۸۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص251
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اولی و اخیرہ میں شہادت سے پہلے، آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنالیا جائے اور ’’لا الہ‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ’’الا اللہ‘‘ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و سنن ابن ماجہ میں یہ موجود ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:
’’حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، عن عاصم بن کلیب، عن أبیہ عن وائل بن حُجر قال: قلت: لأنظرن إلی صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیف یُصلي، قال: فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فاستقبل القبلۃ، فکبر فرفع یدیہ حتی حاذتا أذنیہ، ثم أخذ شمالہ بیمینہ، فلما أراد أن یرکع رفعہما مثل ذلک، ثم وضع یدیہ علی رکبتیہ، فلما رفع رأسہ من الرکوع رفعہما مثل ذلک، فلمَّا سجدَ وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ، ثم جلس فافترش رجلہ الیسری ووضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری، وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی، وقبض ثنتین وحلق حلقۃ، ورأیتہ یقول: ہکذا، وحلق بشر الإبہام والوسطی، وأشار بالسبابۃ ‘‘(۱)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ، عن جدہ، قال: دخلت علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو یصلي وقد وضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ وبسط السبابۃ، وہو یقول: یَا مقلب القلوب، ثبت قلبي علی دینک‘‘(۲)
’’الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات وفی الشامیۃ: الثاني بسط الأصابع إلی حین الشہادۃ فیعقد عندہا ویرفع السبابۃ عند النفي ویضعہا عند الإثبات، وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحۃ ولصحۃ نقلہ عن أئمتنا الثلاثۃ الخ‘‘(۳)
’’یرفعہا الخ وعند الشافعیۃ یرفعہا لذا بلغ الہمزۃ من قولہ إلا اللّٰہ، ویکون قصدہ بہا التوحید والإخلاص عند کلمۃ الإثبات والدلیل للجانبین في المطولات۔ قولہ: وأشرنا إلی أنہ لا یعقد شیئا من أصابعہ وقیل الخ، صنیعہ یقتضي ضعف العقد ولیس کذلک إذ قد صرح في النہر بترجیحہ وأنہ قول کثیر من مشایخنا، قال: وعلیہ الفتوی کما في عامۃ الفتاوی وکیفیتہ أن یعقد الخنصر والتي تلیہا محلقا بالوسطی والإبہام‘‘(۱)
’’أصابعہ أي بسط أصابعہ في إطلاق البسط إیماء إلی أنہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتي تلیھا محلقا الوسطی والإبھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففي مسلم کان النبي ﷺ یشیر بأصبعہ التي تلی الإبھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفي المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن أصحابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الأخباروالآثار کان العمل بھا أولی وھو الأصح ثم قال الحلواني: یقیم الأصابع عندالنفي ویضعہ عندالإثبات، واختلف في وضع الید الیمنی فعن أبي یوسف أنہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبھام وفي درر البحار المفتی بہ عندنا أنہ یشیر باسطا أصابعہ کلھا وجاء في الأخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین أیضا فتح وعیني وغیرہ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص:۱۰۴، رقم: ۷۲۶
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵، رقم: ۳۵۸۷۔
(۳) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننھا‘‘: ج ۱، ص:۲۷۰۔
(۲) أبوالبرکات عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: کیفیۃ أداء الصلاۃ، حاشیۃ: ص:۲۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص397
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں قرأت کے دوران سورتوں کی ترتیب کی رعایت رکھنا قرأت کے واجبات میں سے ہے۔ فرض نمازوں میں قصداً ترتیب کے خلاف پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، یعنی کراہت کے ساتھ نماز اداء ہو جائے گی اور اگر سہواً یا غلطی سے ترتیب کے خلاف پڑھا، تو نماز بلا کراہت درست ہو جائے گی، دونوں صورتوں میں سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔
’’یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لکن لا یلزمہ سجود السہو، لأن ذلک من واجبات القراء ۃ لا من واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو‘‘(۱)
(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلا، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص195