Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت میں نفل نماز نہ توڑے اور جس نے قرآن پاک بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا اس کو یہ کام آہستہ کرنا چاہئے تاہم نفلی نماز والے کو بھی اپنی نماز نہ توڑنی چاہئے کہ گناہگار وہ شخص ہے جو بلند آواز سے پڑھتا ہے نفل نماز نہ توڑنے والا گناہگار نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) وفي حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ إلخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ و مایکرہ فیہا، مطلب في رفع الصوت بالذکر‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص229
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قضاء واجب کے اسقاط کو کہتے ہیں سنت نمازیں وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے نفل ہو جاتی ہیں اور سنت ونوافل کی قضاء نہیں ہے، اس لیے فجر کی سنت کی بھی قضاء نہیں ہے، ہاں اگر فجر کی نماز کے ساتھ سنت بھی فوت ہو جائے تو زوال سے پہلے پہلے فرض کے ساتھ سنت کی قضاء کرنے کا حکم تبعاً للفرض ہے اور اگر زوال کے بعد فجر کی قضاء کرے تو صرف فجر کی قضاء ہے سنت کی قضاء نہیں ہے اسی طرح اگر صرف فجر کی سنت رہ گئی ہے تو امام محمد نے طلوع شمس کے بعد زوال سے پہلے پہلے سنت کی قضاء کو بہتر کہا ہے۔
’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۱)
’’وإذا فاتتہ رکعتا الفجر لا یقضیہما قبل طلوع الشمس لأنہ یبقی نفلا مطلقا وہو مکروہ بعد الصبح ولا بعد ارتفاعہا عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی وقت الزوال‘‘(۲)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) المرغیناني، ھدایۃ، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲۔ أي لا یقضي سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، لکراہۃ النفل بعد الصبح، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما۔ وقال محمد: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال کما في الدرر۔ قیل ہذا قریب من الاتفاق، لأن قولہ: أحب إلي دلیل علی أنہ لو لم یفعل لا لوم علیہ، وقالا: لایقضي، وإن قضی فلا بأس بہ، کذا في الخبازیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب ادراک الفریضۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲)
ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال، وقال محمد: تقضی منفردۃ بعد الشمس قبل الزوال فلا قضاء لہا قبل الشمس، ولا بعد الزوال إتفاقا،ً وسواء صلی منفرداً أو بجماعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص356
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایات میں فرض نمازوں کے بعد دعاء کی تاکید وترغیب آئی ہے؛ اس لیے فرض نمازوں کے بعد دعاء کا اہتمام ہونا چاہیے اور جب سب لوگ اس کا اہتمام کریں گے تو اجتماعی دعاء کی ہیئت ہو جائے گی، لیکن دعاء کو لازم وضروری سمجھنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ سلام پر نماز ختم ہو جاتی ہے، دعاء نماز کا حصہ نہیں ہے؛ اس لیے اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ جو صاحب نماز کے بعد مطلقاً دعاء سے منع کرتے ہیں، وہ غلط ہے؛ اس لیے کہ نماز کے بعد دعاء حدیث سے ثابت ہے۔
عن معاذ بن جبل: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ، وقال: یامعاذ واللّٰہ إني لأحبک واللّٰہ إني لأحبک، فقال: أوصیک یا معاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک وأوصی بذلک معاذ الصنابحی وأوصی بہ الصنابحی أبا عبد الرحمن۔
حدثنا محمد بن سلمۃ المرادی ثنا ابن وہب عن اللیث بن سعد أن حنین بن أبي حکیم حدثہ عن علي بن رباح اللخمي۔
عن عقبۃ بن عامر رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أقرأ بالمعوذات ]في[ دبر کل صلاۃ۔(۱)
حدثنا محمد بن یوسف قال: حدثنا سفیان عن عبد الملک بن عمیر عن وراد کاتب المغیرۃ بن شعبۃ قال أملی علی المغیرۃ بن شعبۃ في کتاب إلی معاویۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ (لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت، ولا معطی لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد)۔ وقال شعبۃ عن عبد الملک بن عمیر، بہذا، وعن الحکم، عن القاسم بن مخیمرۃ، عن وراد بہذا۔ وقال الحسن الجد: غنیً۔
حدثنا عبید اللّٰہ بن معاذ، قال: ثنا أبي ثنا عبد العزیز بن أبي سلمۃ، عن عمہ الماجشون بن أبي سلمۃ، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع۔
عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال ’’اللہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت‘‘۔(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۵، رقم: ۸۴۴۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في صلاۃ اللیل وقیامہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸، رقم: ۷۷۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص383
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر حافظ صاحب کی عمر پورے پندہ سال ہے اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہے تو وہ حافظ صاحب بالغ ہیں اور شرعی اصول کے تحت ان کے پیچھے نماز تراویح درست ہے، چوں کہ اگر کوئی علامت احتلام وغیرہ سے ظاہر نہ ہو، تو عمر کا پندرہ سال ہونا بلوغت کے لیے شرعاً کافی ہے؛ پس ایسی صورت میں ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور شک نہ کیا جائے۔(۱)
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآنی آیات وادعیہ ماثورہ اور احادیث میں مذکورہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ دینا اور اس پر مناسب اجرت لینا جائز ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے، امام صاحب کا سرکاری اینٹ یا دیگر سامان کا بغیر اجازت اٹھانا فعل قبیح ہے جس کا ترک کرنا لازم ہے۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الطب:باب الشرط في الرقیۃ بقطع من الغنم‘‘: ج۲، ص: ۸۵۴، رقم: ۳۱۱۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من این علمتم أنہا رقیۃ؟ أحسنتم، اقتسموا واضربو لي معکم بسہم، سلیمان بن الأشعث السجستاني۔ (أخرجہ أبو داؤد في سننہ، ’’کتاب الطب، کیف الرقی‘‘: ج۲، ص: ۵۴۴، رقم: ۳۹۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: غیر محرم عورت کو سفر میں لانے لے جانے والے شخص کا طریقہ غلط اور برا ہے ایسے شخص کی امامت بھی مکروہ ہے۔(۱)
(۱) ومن أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص187
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں بلا وجہ شرعی اور بلا ثبوت جن لوگوں نے امام زید کو برا کہا ہے ان کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں اور معافی مانگیں، کیوں کہ وہ لوگ گنہگار ہیں جو امام کو برا کہتے ہیں، تاہم مذکورہ امام کے پیچھے جو حضرات نماز ادا کریں گے ان کی نماز درست اور صحیح ہوگی۔(۱)
(۱) ومن أبغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب السیر‘‘: ج۵، ص: ۲۰۷، زکریا دیوبند)
من أبغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر … ویخاف علیہ إذا شتم عالماً أو فقیہاً من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا مایتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص276
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عیدگاہ میں پنج وقتہ نماز ادا کئے جانے میںکوئی حرج نہیں ہے، نمازیں ادا ہوجائیں گی۔ جماعت سے پڑھنے پر جماعت کا ثواب ملے گا،(۲) لیکن مسجد کا ثواب نہیں ملے گا، اس لیے کہ وہ عیدگاہ ہے مسجد نہیں ہے، عیدگاہ صرف نماز عید کے لیے ہوتی ہے۔(۳)
(۲) صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۹)
(۳) قلت: وہذا صریح في أن وجوب الجماعۃ إنما یتأدی بجماعۃ المسجد لابجماعۃ البیوت ونحوہا کما ذکر صاحب القنیۃ اختلف العلماء في إقامتہا في البیت والأصح أنہا کإقامتہا في المسجد إلا في الفضیلۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ج۴، ص: ۱۸۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص380
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اذان کا مقصد اعلان اور لوگوں کو نماز کے لیے اطلاع دینا ہے، اگر بجلی کٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کو نماز کی اطلاع نہیں دی جا سکی تو ایسی صورت میں مؤذن اپنے کمرے سے نکل کر پوری اذان مستقل کہے گا تا کہ سب لوگ اس کو پورے طور پر سن لیں اور کوئی اشتباہ نہ رہے؛ لیکن اگر لوگوں کو اذان کے بعض کلمات سننے کی وجہ سے اطلاع ہو گئی اس کے بعد بجلی کے کٹ جانے کی وجہ سے بقیہ اذان کی آواز نہیں پہونچ سکی تو دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے تاہم اگر دوبارہ اذان دے ہی دی گئی تو اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اذان دینے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
’’لأن تکرارہ مشروع کما في أذان الجمعۃ لأنہ لإعلام الغائبین فتکریرہ مفید لاحتمال عدم سماع البعض‘‘(۱)
’’ولأن ما یخفض بہ صوتہ لا یحصل بہ فائدۃ الأذان وہو الإعلام فلا یعتبر‘‘(۲)
’’لأن المقصود منہ الإعلام ولا یحصل بالإخفاء فصار کسائر کلماتہ‘‘(۳)
’’إذا حصر المؤذن فی خلال الأذان۔۔۔ وعجز عن الإتمام یستقبل غیرہ‘‘(۴)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸۔
(۲) فخر الدین عثمان بن علي، حاشیۃ الشبلی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۲، فیصل، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص165
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: شریعت مطہرہ میں خون ناپاک اور نجس ہے آپ کی ناک میں چوٹ لگنے سے جو خون نکلا اور آپ نے ٹیشو پیپر سے پونچھ کر جیب میں رکھ لیا اور جیب میں رکھنے کی حالت میں آپ نے نماز پڑھ لی اس سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ: اگر دستی رومال یا ٹیشو پیپر وغیرہ میں ایک درہم یا اس سے زائد خون لگا ہوا ہے اور اسی حالت میں اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھ لی گئی تو وہ نماز درست نہیں ہوگی نماز فاسد ہوگئی اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے اور اگر خون ایک درہم سے کم لگا ہوا ہو اور وہ کپڑا یا ٹیشو پیپر جیب ہی میں ہے اور نماز پڑھ لی گئی ہو تو نماز ادا ہو جائے گی۔
’’لو حمل نجاسۃ مانعۃ فإن صلاتہ باطلۃ فکذا لوکانت النجاسۃ في طرف عمامتہ أو مندیلہ المقصود ثوب ہو لابسہ فألقی ذلک الطرف علی الأرض وصلی فإنہ إن تحرک بحرکتہ لا یجوز وإلا یجوز؛ لأنہ بتلک الحرکۃ ینسب لحمل النجاسۃ وفي الظہیریۃ‘‘(۱)
’’وإذا صلی وہو لابس مندیلاً أو ملائۃ وأحد طرفیہ فیہ نجس والطرف الذي فیہ النجاسۃ علی الأرض فکان النجس یتحرک بتحرک المصلي لم تجز صلاتہ، وإن کان لا یتحرک تجوز صلاتہ؛ لأن في الوجہ الأول مستعمل للنجاسۃ وفي الوجہ الثاني‘‘(۲)
ایسے ہی شیشی یا بوتل جس میں پیشاب ہو اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی اس لیے کہ حامل نجاست کی نماز درست نہیں ہوتی ہے آپ دوبارہ اس نماز کا بھی اعادہ کریں جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’رجل صلی وفي کمہ قارورۃ فیہا بول لا تجوز الصلاۃ سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن لأن ہذا لیس في مظانہ ومعدنہ بخلاف البیضۃ المذرۃ لأنہ في معدنہ ومظانہ وعلیہ الفتوی کذا في المضمرات‘‘(۳)
’’ولو صلی وفي کمہ قارورۃ مضمومۃ فیہا بول لم تجز صلاتہ؛ لأنہ في غیر معدنہ ومکانہ‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۴۔
(۲) أبوالمعالي برہان الدین محمود، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الرابع في فرائض الصلاۃ وسننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني في طہارۃ یستر بہ العورۃ وغیرہ، ومما یتصل بذلک‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص289