Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سفر میںبھی کوشش کی جائے کی نماز قضا نہ ہو ٹرین وغیرہ میں بھی حتی الامکان نماز پڑھنے کی کوشش کرے، لیکن اگر کسی وجہ سے نمازیں قضا ہوجائیں تو جس طرح اس نماز کی ادا واجب ہوئی تھی اسی طرح اس کی قضا کی جائے گی یعنی سفر میں ہونے کی وجہ سے وہ نماز قصر کے ساتھ واجب ہوئی تھی اس لیے قضا بھی قصر کے ساتھ ہی کی جائے گی۔
’’(والمعتبر في تغییر الفرض آخر الوقت) وہو قدر ما یسع التحریمۃ (فإن کان) المکلف (في آخرہ مسافراً وجب رکعتان وإلا فأربع)؛ لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء قبلہ۔ قولہ: (والمعتبر في تغییر الفرض) أي من قصر إلی إتمام وبالعکس (قولہ: وہو) أي آخر الوقت قدر ما یسع التحریمۃ، کذا في الشرنبلالیۃ والبحر والنہر، والذي في شرح المنیۃ تفسیرہ بما لایبقی منہ قدر ما یسع التحریمۃ وعند زفر بما لایسع فیہ أداء الصلاۃ (قولہ: وجب رکعتان) أي وإن کان في أولہ مقیماً وقولہ: وإلا فأربع أي وإن لم یکن في آخرہ مسافراً بأن کان مقیماً في آخرہ فالواجب أربع۔ قال في النہر: وعلی ہذا قالوا: لو صلی الظہر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلی العصر رکعتین ثم رجع إلی منزلہ لحاجۃ فتبین أنہ صلاہما بلا وضوء صلی الظہر رکعتین والعصر أربعاً؛ لأنہ کان مسافراً في آخر وقت الظہر ومقیماً في العصر (قولہ: لأنہ) أي آخر الوقت۔ (قولہ: عند عدم الأداء قبلہ) أي قبل الآخر۔ والحاصل: أن السبب ہو الجزء الذي یتصل بہ الأداء أو الجزء الأخیر إن لم یؤد قبلہ، وإن لم یؤد حتی خرج الوقت فالسبب ہو کل الوقت۔ قال في البحر: وفائدۃ إضافتہ إلی الجزء الأخیر اعتبار حال المکلف فیہ، فلو بلغ صبي أو أسلم کافر أو أفاق مجنون، أو طہرت الحائض أو النفساء في آخرہ لزمتہم الصلاۃ، ولو کان الصبي قد صلاہا، في أولہ، وبعکسہ لو جن أو حاضت أو نفست فیہ لفقد الأہلیۃ عند وجود السبب، وفائدۃ إضافتہ إلی الکل عند خلوہ عن الأداء أنہ لایجوز قضاء عصر الأمس في وقت التغیر وتمام تحقیقہ في کتب الأصول‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 187
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صرف عشا کی نماز پڑھی ہے اور وتر کی نماز نہیںپڑھی تو اس کے لیے ایسا کرنا غلط تھا وتر کی نماز واجب یعنی عملا فرض ہے اس لیے جتنے سالوںکی وتر کی نماز فوت ہوئی ہیںاس کی قضا کرے گا اس کی قضا کا وہی طریقہ ہے جو ادا کا ہے، البتہ صرف اس میں نیت تعیین کے ساتھ قضا وتر کی جائے گی، یوں نیت کریں کہ میرے ذمے جتنے وتر ہیں ان میں سے پہلی کی قضا کرتا ہوں، یا یوں نیت کرے کہ میرے ذمے جتنے وتر ہیں ان میں سے آخری کی قضا کرتا ہوں اس طرح وتر کی قضا کرتارہے یہاں تک ظن غالب ہوجائے کہ وتر کی نماز مکمل ہوگئی ہیں۔
’’ویجب القضاء بترکہ ناسیًا أو عامدًا وإن طالت المدۃ ولایجوز بدون نیۃ الوتر‘‘(۱)
الوتر فرض عملاً وواجبٌ اعتقادًا … ویقضی قال ابن عابدین: إنہ یقضی وجوبًا اتفاقا أما عندہ فظاہر وأما عندہما وہو ظاہر الروایۃ عنہما فلقولہ علیہ السلام: من نام عن وتر أو نسیہ فلیصلہ إذا ذکرہ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثامن: في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۸، ۴۳۹، ۴۴۰۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 186
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز سکون اور اطمینان اور سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ ہی پڑھنی چاہیے، نمازیں اگر زیادہ ہیں تو ان کو ہر نماز کے وقت جتنی بسہولت پڑھی جاسکتی ہوں پڑھیں۔ نوافل پڑھنے کے بجائے قضاء نمازیں ہی پڑھیں تاکہ جلد پوری ہوسکیں۔ جتنے دنوں کی نمازیں قضاء ہوں ان کی ایک لسٹ بنالیں اور پڑھ کر نشان لگاتے رہیں، اس سے بسہولت حساب کرسکیں گے کہ کتنی نمازیں آپ کے ذمہ باقی ہیں اور کتنے دنوں میں پوری ہوں گی۔(۱)
(۱) وإذا کثرت الفوائت یحتاج لتعیین کل صلاۃ فإن أراد تسہیل الأمر علیہ نوی أول ظہر علیہ أو أٰخرہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۶)وأما النفل فقال في المضمرات: الإشتغال بقضاء الفوائت أولیٰ وأہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في بطلان الوصیۃ بالختمات والتہالیل‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 186
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر چند نمازیں کسی وجہ سے چھوٹ جائیں توان کی قضاء کرتے وقت ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ خندق کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں رہ گئی تھیں، تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔(۱)
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسی صلاۃ فلم یذکرھا إلا وھو مع الإمام فلیصل مع الإمام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الإمام‘‘(۲)
(۱) عن جابر بن عبد اللّٰہ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شغل یوم الخندق عن صلاۃ الظہر والعصر والمغرب والعشاء حتی ذہبت ساعۃ من اللیل فأمر بلالا فأذن وأقام فصل الظہر ثم أمرہ فأذن وأقام فصلی العصر ثم أمرہ فأذن وأقام فصلی المغرب ثم أمرہ فأذن وأقام فصل العشاء: ثم قال ما علی ظہر الأرض قوم یذکرون اللّٰہ في ہذہ الساعۃ غیرکم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۸)(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲۔الترتیب بین الفروض الخمسۃ والوتر اداء وقضاء لازم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 185
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: درود ابراہیمی سب درودوں میں افضل ہے وہی پڑھنا چاہئے، تاہم جب اس کو پڑھنا مشکل ہو تو آپ پڑھیں: ’’اللھم صل علی محمد وعلی أٓل محمد وبارک وسلم‘‘ اور صرف ’’اللہم صلی علی محمد‘‘ پڑھنا بھی درست ہے(۱) دعاء ماثورہ کی جگہ پڑھیں:’’ربنا أٓتنا في الدنیا حسنۃ وفي الأخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ یا ’’اللھم اغفرلي‘‘ تین بار پڑھیں۔(۲)
(۱) وقد روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال لا یدخل الجنۃ أحد بعملہ إلا برحمۃ اللّٰہ قیل ولا أنت یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال ولا أنا إلا أن یتغمدني اللّٰہ برحمتہ، دل علیہ أنہ جاز قولہ: اللہم صلی علیہ محمد، والصلاۃ من اللّٰہ رحمۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل، في سنن حکم تکبیر أیام التشریق‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳)(۲) ومن لا یحسن القنوت یقول: {رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِہالنصف ۲۰۱ } (سورۃ البقرہ: ۲۰۱) وقال ابو اللیث یقول: اللہم اغفرلي ویکرر ثلاثا انتہی۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۶، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)وقیل یقول: یا رب ثلاثاً ذکرہ في الذخیرۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 184
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زوال سے پہلے پہلے ادائیگی میں فجر کی فرض کے ساتھ سنت بھی ادا کی جائے گی در مختار میں ہے کہ اس سنت کی قضاء بھی سنت ہے۔
’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۱)
(۱) أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۴۵۳۔قولہ: (ترکہا أصلا) أي لا یقضیہا قبل الطلوع ولا بعدہ؛ لأنہا لا تقضی إلا مع الفرض إذا فات وقضی قبل زوال یومہا۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في تکرار الجماعۃ والاقتداء بالمخالف‘‘: ج ۲، ص: ۴۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 183
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جائز ہے؛ مگر بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ عید کی نماز کے بعد قضاء کرے۔
’’إذا قضی صلاۃ الفجر قبل صلاۃ العید لا بأس بہ ولو لم یصل صلاۃ الفجر لا یمنع جواز صلاۃ العید وکذا یجوز قضاء الفوائت القدیمۃ قبلہا؛ لکن لو قضاہا بعدہا فہو أحب وأولیٰ، ہکذا في التتار خانیۃ ناقلا عن الحجۃ‘‘(۳)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر: في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱۔
وفي الحجۃ: وإذا قضی صلاۃ الفجر قبل صلاۃ العبد لا بأس بہ، ولو لم یصل صلاۃ الفجر لا یمنع جواز صلاۃ العید، وإن لم یکن علیہ فجر ذلک الیوم، ولک أراد أن یقضي الفوائت القدیمۃ یجوز، لکن لو قضی بعدہا أحب وأولی لئلا یقع الناس في التقلید ولا یتبعہ غیرہ في النوافل۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل السادس والعشرون: في صلاۃ العیدین، نوع آخر من ہذا الفصل في المتفرقات‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:182
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذہب حنفی میں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک فرض وسنت کے علاوہ تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضو وغیرہ نوافل پڑھنا جائز نہیں ہے،(۱) البتہ قضاء نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن وہ بھی عوام کے سامنے نہ پڑھیں کہ اس سے اپنی غلطی پر لوگوں کو متنبہ کرنا ہوگا؛ اس لیے کہیں الگ جگہ پر پڑھ لیا کریں۔
’’وکذا الحکم من کراہۃ نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ بعد طلوع فجر سوی سنتہ لشغل الوقت بہ تقدیراً الخ‘‘(۲)
(۱) قولہ (وبعد طلوع الفجر بأکثر من سنۃ الفجر) أي ومنع عن التنفلبعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر بأکثر من سنتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘:ج ۲، ص: ۳۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:181
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چار رکعت جس طرح ادا نماز پڑھتے ہیں، مثلاً: دو بھری اوردو خالی پڑھنی چاہئیں اور عشاء کے ساتھ وتر نماز کی قضا بھی لازم ہے۔(۱)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ یقول {أقم الصلاۃ لذکری} (سورہ طٰہٰ: ۱۴) (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)عن النبي علیہ السلام: أنہ قال: إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:181
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے، نماز کواس کے وقت کے گزرنے کے بعد پڑھنے کی عادت ڈال لینا خلاف شریعت اور باعث گناہ ہے جس کی وجہ سے آدمی فاسق بن سکتا ہے؛ پس ایسا جان بوجھ کر نہ کرنا چاہئے ورنہ تو دنیاوی وبال اور آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا،(۱) اگر واقعی طور پر ایسا ہے تو اس کو نماز فجر (وقت گزرنے کے بعد) قضاء پڑھنی چاہئے؛ پس اگر یہ قضاء فرض کی استواء شمس سے پہلے ہے، تو سنت فجر کی قضاء بھی کی جائے گی اور اگر استواء الشمس کے بعد قضاء کرتا ہے، تو سنت فجر کی قضاء نہیں ہوگی۔(۲)
(۲) أي لا یقضی سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعا لقضاء ہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع للکراہۃ النفل بعد الصبح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲)
وفي المحیط لا تقضی السنۃ بعد الزوال وإن تذکر مع الفرض من غیر ذکر خلاف ’’وفي جامع بدر الدین الورسکي‘‘ لا یقضي بعد الزوال لأن السنۃ جاء ت بالقضاء في وقت مجمل فلا یقاس علیہ آخر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ، حکم من انتہی إلی الإمام في صلاۃ الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:180