Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: خطبہ سننا واجب ہے اور دوران خطبہ ڈبہ گھمانا یا کسی اور انداز سے چندہ کرنا خطبہ سننے میں خلل ڈالتا ہے؛ اس لیے دوران خطبہ چندہ کرنا مکروہ تحریمی ہے،(۲) نماز کے بعد دعا سے فراغت سے پہلے ڈبہ گھمانا اور چندہ کرنا دعاء کے لیے مخل ہے؛ اس لیے اس وقت میں بھی بغیر ضرورت شدیدہ چندہ کرنا مناسب نہیں ہے؛ البتہ دعاء کے بعد چندہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اسی طرح مقرر کا چندہ کی ترغیب دینا یا چندہ کرانا بھی درست ہے، مسجد کی ضروریات کے لیے مسجد میں چندہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)(۲) (وکل ما حرم في الصلاۃ حرم فیہا) أي في الخطبۃ خلاصۃ وغیرہا فیحرم أکل وشرب وکلام ولو تسبیحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف؛ بل یجب علیہ أن یستمع ویسکت۔ وفي الشامي: ظاہرہ أنہ یکرہ الاشتغال بما یفوت السماع، وإن لم یکن کلاماً۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: فی شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۵)(۱) عن عبد الرحمن بن خباب، قال: شہدت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو یحث علی جیش العسرۃ فقام عثمان بن عفان فقال: یا رسول اللّٰہ علی مائۃ بعیر بأحلاسہا وأقتابہا في سبیل اللّٰہ، ثم حض علی الجیش فقام عثمان بن عفان فقال: یا رسول اللّٰہ علی مائتا بعیر بأحلاسہا وأقتابہا في سبیل اللّٰہ، ثم حض علی الجیش فقام عثمان بن عفان فقال: یا رسول اللّٰہ علی ثلاث مائۃ بعیر بأحلاسہا وأقتابہا في سبیل اللّٰہ، فأنا رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینزل عن المنبر وہو یقول: ما علی عثمان ما عمل بعد ہذہ، ما علی عثمان ما عمل بعد ہذہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۱، رقم:۳۷۰۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 127
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: ’’فإن افتتح الصلاۃ بالفارسیۃ أوقرأ فیہا بالفارسیۃ أو ذبح وسمیٰ بالفارسیۃ وہو یحسن العربیۃ أجزأہ عند أبي حنیفۃ، وقالا: لا یجزیہ إلا في الذبیحۃ وإن لم یحسن العربیۃ أجزأہ … ویروي رجوعہ في أصل المسئلۃ إلیٰ قولہما، وعلیہ الاعتماد والخطبۃ والتشہد علی ہذا الاختلاف‘‘(۱)(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘:دار الکتاب دیوبند، ج ۱، ص: ۱۰۱، ۱۰۲
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 126
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: اس صورت میں بہتر تو یہی تھا کہ جس شخص نے خطبہ پڑھا ہے وہی نماز جمعہ پڑھائے؛ مگر کسی معزز شخصیت نے نماز پڑھادی تو یہ بھی جائز اور درست ہے بہر حال نماز ادا ہوگئی ہے اس میں شک نہ کیا جائے۔’’(لا ینبغي أن یصلي غیر الخطیب) لأنہما کشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلی بالغ جاز)‘‘(۱)(۱) (لاینبغي أن یصلي غیر الخطیب) لأنہما کشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلی بالغ جاز) ہو المختار قولہ: (لأنہما) أي الخطبۃ والصلاۃ کشيء واحد، لکونہما شرطا ومشروطا ولا تحقق للمشروط بدون شرطہ فالمناسب أن یکون فاعلہما واحدا قولہ: (ہو المختار) وفي الحجۃ أنہ لا یجوز، في فتاوی العصر فإن الخطیب یشترط فیہ أن یصلح للإمامۃ، وفي الظہیریۃ لو خطب صبي اختلف المشایخ فیہ، والخلاف في صبي یعقل، والأکثر علی الجواز۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۹، ۴۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 126
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: خطبہ سے پہلے اردو ترجمہ مقتدیوں کو سنادیا جائے پھر اذان خطبہ کی پڑھ کر خطبہ عربی میں پڑھا جائے اس کے بعد متصلاً نماز جمعہ پڑھی جائے یہ جائز اور درست ہوگا۔(۲)(۲) لاشک في أن الخطبۃ بغیر العربیۃ خلاف السنۃ المتوارثۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والصحابۃ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہم، فیکون مکروہا تحریماً۔ (اللکھنوي، عمدۃ الرعایۃ علی شرح الوقایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴)وعن مالک قال: بنی عمر رحبۃ في ناحیۃ المسجد تسمی البطیحاء وقال: من کان یرید أن یلغط أو ینشد شعرا، أو یرفع صوتہ فلیخرج إلی ہذہ الرحبۃ۔ رواہ في الموطأ۔ (خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، رقم: ۷۴۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 125
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: عجیب وغریب باتیں ذہانت اور اولوالعزمی کی علامت ہیں اس میں آپ کو کیا اشکال ہے۔ حضرت علیؓ بڑے جری اور بہادر تھے اور بہت سارے امور آپ نے انجام دئے اس لیے بعض لوگ آپ کو مظہر العجائب والغرائب سے یاد کرتے تھے اس جملہ کا استعمال بندوں کے لیے کیا جاسکتا ہے آپ کے ذہن میں جو اشکال ہو اس کو تحریر کریں۔(۱)(۱) وذکر الخلفاء الراشدین والعمین مستحسن بذلک جری التوارث۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۱۶)و یندب ذکر الخلفاء الراشدین والعمین۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 124
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: خطبہ ثانیہ میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کا ذکر خیر ان کی مدح ان کے لیے دعاء خیر کرنا بدعت نہیں ہے اور نہ بے اصل ہے۔ زمانہ خیر القرون سے جاری ہے اور اسلاف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔ اور اس کے مستحب ہونے کی یہ ہی دلیل کافی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے جماعت صحابہ کی موجودگی میں خطبہ میں حضرات خلفاء راشدین کا ذکر خیر کیا ان کی مدح کی اور ان کے لیے دعا خیر کی ہے۔ فقہ کی معتبر کتابوں میں خلفاء راشدین کے تذکرے کو مستحب قریب السنۃ؛ بلکہ شعار دین خصوصاً اہل سنت والجماعت کا شعار بتایا ہے۔(۱)
(۱) و یندب ذکر الخلفاء الراشدین والعمین۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۱)والرابع: الخطبۃ فیہ۔ (أیضاً: ج ۳، ص: ۱۹)وذکر الخلفاء الراشدین والعمین مستحسن بذلک جری التوارث۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۱۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 122
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: (۱) اذان خطبہ و خطبہ جمعہ عربی زبان میں مسنون ہے اس سے قبل جو اردو میں تقریر ہوتی ہے وہ خطبہ میں شمار نہیں ہوتی اور اس کا حکم خطبہ جیسا بھی نہیں ہوتا تقریر ہوتے ہوئے نماز وغیرہ سب کچھ پڑھا جاسکتا ہے جب کہ نماز میں سلام، کلام بوقت خطبہ جمعہ ممنوع ہے اس تقریر میں دینی باتیں، دینی مسائل، دینی واقعات احادیث و قرآن کی روشنی میں بیان کئے جائیں سیاسی تقریر دنیاوی تقریر کرنے والے کو وہاں پر تقریر کا موقع نہ دیا جائے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے موجودہ قسم کی سیاست کا نہیں ہے۔(۱)(۲) امام کو چاہئے کہ پہلی رکعت میں لمبی سورت پڑھیں اور دوسری میں اس سے چھوٹی سورت پڑھیں یہ ہی مسنون ہے اس کے خلاف خلاف اولیٰ ہے۔ صورت مذکورہ میں الم نشرح واقعی چھوٹی سورت ہے کہ اس میں آٹھ آیات ہیں اور سورہ القارعہ بڑی سورت ہے کہ اس میں گیارہ آیات ہیں اس طرح پڑھنا خلاف اولیٰ ہے امام صاحب کو چاہئے کہ سنت کے مطابق پڑھیں تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ کراہت سے خالی رہے اور سنت کے مطابق اس کی ادائیگی ہوجائے۔(۱)
(۱) لاشک في أن الخطبۃ بغیر العربیۃ خلاف السنۃ المتوارثۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، والصحابۃ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہم، فیکون مکروہا تحریماً۔ (عبد الحی اللکھنوي، عمدۃ الرعایہ علی شرح الوقایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴)وعن مالک قال: بنی عمر رحبۃ في ناحیۃ المسجد تسمی البطیحاء وقال: من کان یرید أن یلغط أو ینشد شعرا أو یرفع صوتہ فلیخرج إلی ہذہ الرحبۃ۔ رواہ في الموطأ۔ (خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘:ج ۱، ص: ۷۱، رقم: ۷۴۵)الجلوس في المسجد للحدیث لا یباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بني لأمور الدنیا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲)(۱) (وإطالۃ الثانیۃ علی الأولیٰ یکرہ) تنزیہاً (إجماعاً إن بثلاث آیات) إن تقاربت طولاً وقصراً، وإلا اعتبر الحروف والکلمات۔ واعتبر الحلبي فحش الطول لا عدد الآیات، واستثنی في البحر ما وردت بہ السنۃ، واستظہر في النفل عدم الکراہۃ مطلقاً (وإن بأقل لا) یکرہ، لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام صلی بالمعوذتین۔ (قولہ: إن تقاربت إلخ) ذکر ہذا في الکافي في المسألۃ التي قبل ہذہ، واعتبرہ في شرح المنیۃ في ہذہ المسألۃ أیضاً کما یأتي في عبارتہ۔ والحاصل: أن سنیۃ إطالۃ الأولی علی الثانیۃ، وکراہیۃ العکس إنما تعتبر من حیث عدد الآیات، إن تقاربت الآیات طولاً وقصراً فإن تفاوتت تعتبر من حیث الکلمات، فإذا قرأ في الأولی من الفجر عشرین آیۃً طویلۃً، وفي الثانیۃ منہا عشرین أیۃً قصیرۃً تبلغ کلماتہا قدر نصف کلمات الأولی فقد حصل السنۃ، ولو عکس یکرہ، وإنما ذکر الحروف للإشارۃ إلی أن المعتبر مقابلۃ کل کلمۃ بمثلہا في عدد الحروف، فالمعتبر عدد الحروف لا الکلمات، فلو اقتصر الشارح علی الحروف أو عطفہا علی الکلمات کما فعل في الکافي لکان أولیٰ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 121
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: صورت مذکورہ میں وعظ اور تقریر سے سنتوں کے پڑھنے والوں کو تشویش ہوگی اور ان کی توجہ دوسری طرف سننے والی ہوگی اس لیے ایسے وقت میں یا تقریر نہ کریں یا ایسے وقت سنتیں نہ پڑھیں۔ بہتر یہ ہے کہ تقریر اور وعظ شروع ہونے کے بعد جو نمازی حضرات آئیں وہ سنتیں نہ پڑھیں؛ بلکہ وضو بناکر وعظ میں شرکت کریں وعظ کے ختم کرنے کے بعد پانچ منٹ کا وقت ان کو سنت پڑھنے کا دیا جائے پھر اذان خطبہ پڑھی جائے۔(۱)(۱) قولہ: ولو ’’لقرآن أو تعلیم‘‘: لأن المسجد بني للصلاۃ وغیرھا تبع لھا بدلیل أنہ إذا ضاق فللمصلي إزعاج القاعد للذکر أو القراء ۃ أو التدریس لیصلي موضعہ دون العکس۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الدیات: باب ما یحدثہ الرجل في الطریق وغیرہ‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۶۱)إن کان في النفل، ثم شرع الخطیب في الخطبۃ یقطع قبل السجدۃ، وبعدہا عند الرکعتین، ہکذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 120
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ الموفق: کراہت سے خالی نہیں ہے۔ حدیث میں ہے ’’ومن مس الحصاء فقد لغا رواہ مسلم‘‘ جب ’’مس حصاء‘‘ یعنی کنکریوں سے کھیلنے اور ان کو ہاتھ میں لینے کی ممانعت ہے کہ اس میں مشغول ہے غیر خطبہ کی طرف تو پنکھا جھلنا اس سے زیادہ مشغول ہونا ہے الا یہ کہ گرمی کی شدت ہو اور پنکھے کے بغیر سکون نہ ملے تو قدر ضرورت گنجائش ہے۔(۱)(۱) من توضأ فأحسن الوضوء ثم أتی الجمعۃ فاستمع وانصت غفرلہ ما بین الجمعۃ إلی الجمعۃ وزیادۃ ثلاثۃ أیام ومن مس الحصی فقد لغا۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضل الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۵۰، رقم: ۱۰۵۰)فمعناہ کما قال النووي: فیہ الہني عن مس الحصی وغیرہ من أنواع العبث في حال الخطبۃ، وفیہ إشارۃ إلی الحض علی إقبال القلب والجوارح علی الخطبۃ والمراد باللغو ہنا: الباطل المذموم المردود۔ (نووي، دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین لمحي الدین النووي، ’’باب فصل یوم الجمعۃ و وجوبھا‘‘ بیروت: دارالکتب العلمیہ ج ۳، ص: ۵۷۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 119
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ الموفق:(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر اور متعدد خطبے ثابت ہیں جنہیں مختلف بزرگوں نے جمع فرمایا ہے۔(۲) ایک ہی خطبہ کو بار بار پڑھنے میں حرج نہیں ہے آخر نماز میں بھی تو سورہ فاتحہ بار بار پڑھی جاتی ہے اچھا یہ ہے کہ مختلف مختصر خطبے یاد کرنے چاہئے ایسے عوام پر نظر نہیں ہونی چاہئے صحیح اور مسنون عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر نظر ہونی چاہئے اور اس کی رضامندی ہی اصل ہے۔(۱)(۳) جان بوجھ کر نماز کے چھوڑنے کو کفر کے قریب بتایا جاتا ہے حدیث شریف میں ہے ’’من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر‘‘(۲) کہ جان بوجھ کر نماز کا چھوڑ نا کفر کے قریب قریب ہے اللہ تعالیٰ نماز کی ہمت دے اس کی اہمیت اور فضیلت پر نظر ہو تو ادائیگی آسان ہوجاتی ہے۔(۱) فحقیقۃ الإخلاص: التبري عن کل مادون اللّٰہ تعالی۔ (المفردات في غریب القرآن: ص: ۲۹۳)(۲) من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر، أي المستحق عقوبۃ الکفر کذا فسرہ الشافعي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب القصاص: الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۵، رقم: ۳۴۴۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 118