Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر اور عصر کی نماز کے بعد چوں کہ نفل وسنت نماز نہیں ہے اس لیے کمزور، بیمار اور کام کاج والے مصلیوں کی رعایت کر کے قدرے طویل دعا کی گنجائش ہے اور ظہر، مغرب، عشاء جن نمازوں کے بعد سنت ونوافل ہیں ان میں معمولی درجہ کی دعاء مانگنی چاہیے۔
اور چوں کہ نماز جمعہ کے بعد بھی سنتیں ہیں، لہٰذا مختصر دعا کرنی چاہیے فیض الباري شرح بخاري میں اسی طرح منقول ہے۔(۱)
(۱) وفي الحجۃ الإمام إذا فرغ من الظہر والمغرب والعشاء یشرع في السنۃ ولا یشتغل بأدعیۃ طویلۃ، کذا في التتارخانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵)
وإذا سلم الإمام ففي الفجر والعصر یقعد في مکانہ لیشتغل بالدعاء؛ لأنہ لا تطوع بعدہما۔ أیضاً: فأما في صلاۃ الظہر والعشاء والمغرب یکرہ لہ المکث قاعدا؛ لأنہ مندوب إلی التنفل بعد ہذہ الصلوات۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: باب افتتاح الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸)
وأنہ یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر اللہم أنت السلام الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۶۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص433
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: نوافل بقرأۃ طویلہ افضل ہے کہ اس میں نماز اور تلاوت دونوں موجود ہیں اور صرف تلاوت کرنے میں تلاوت ہی تلاوت ہے۔(۱)
(۱) بل الصلاۃ أفضل من القراء ۃ في غیر الصلاۃ نص علی ذلک أئمۃ العلماء - لکن من حصل لہ نشاط و تدبر و فھم للقرائۃ دون الصلاۃ فالأفضل في حقہ ما کان أنفع لہ۔ (ابن تیمیۃ، مجموع الفتاویٰ، سئل أیما أفضل قاریٔ القرآن الذی لا یعمل أو العابد ج۲۳، ص۶۱)
عن ثوبان قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: استقیموا ولن تحصوا واعلموا أن خیر أعمالکم الصلاۃ و لا یحافظ علی الوضوء إلا مؤمن۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ: ج۱، ص۱۸۴، رقم: ۲۷۶ )
لأن السجدۃ المتلوۃ في الصلاۃ أفضل من غیرھا، لأن قراء ۃ القرآن في الصلاۃ أفضل منہا في غیرھا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۲، ص۱۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص230
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض سے قبل کی سنت ظہر اگرچھوٹ جائے، تو فرض کے بعد ضرور پڑھنا چاہئے۔(۱)
(۱) وقضی السنۃ التي قبل الظہر في الصحیح في وقتہ قبل صلاۃ شفعہ علی المفتی بہ، کذا في شرح الکنز۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
قولہ: وقضی التي قبل الظہر في وقتہ قبل شفعہ بیان لشیئین: أحدہما: القضاء والثاني: محلہ۔ أما الأول: ففیہ اختلاف والصحیح أنہا تقضی کما ذکرہ قاضیخان في شرحہ مستدلاً بما عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر قضاہن بعدہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۷، زکریا دیوبند؛ جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص357
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/864
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرات میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہرصورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1490/42-962
الجواب وباللہ التوفیق:۔ پانچ سال کی مدت سعودی میں رہنا وہاں جی لگنے کی وجہ سے ہے، علاوہ ازیں زید نے جو اپنے دوست کو امامت کی ملازمت دلوائی ہے اس کا یہ احسان ہے، اور تبرع ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عارف اب ہمیشہ کے لئے زید کا ملازم ہوگیا کہ وہ جب چاہے رکھے اور جب چاہے نکالدے۔ عارف کےمسجد کی ملازمت پر لگنے کے بعد زید کی ملازمت کا استحقاق ختم ہوگیا۔ اب عارف ہی اس مسجد کا امام ہے۔عارف اگر زید کا احسان مانتے ہوئے خود ملازمت سے سبکدوش ہوجائے تو بہت بہتر ہے، اور بڑی فراخدلی کی بات ہے۔نیز اہل محلہ اور متولیانِ مسجد اس سلسلہ میں آپسی مشورہ سے جو طے کریں اس پر عمل کرلیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعمال صالحہ (خواہ زبانی یا قلب) کی نیت پر صرف نیت کا ثواب ملتا ہے اور جب اس عمل کو بندہ کرتا ہے، تو کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، ظاہر ہے کہ نیک عمل کرنے کا ثواب صرف نیت والے ثواب سے زیادہ ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ عز وجل: إذا ہم عبدي بحسنۃ ولم یعملہا کتبتہا لہ حسنۃ فإن عملہا کتبتہا لہ عشر حسنات إلی سبعمائۃ ضعف وفي روایۃ إلی أضعاف کثیرۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب إذا ہمّ العبد بحسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۸)
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبعمائۃ ضعف۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل الصیام‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳، رقم: ۱۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص385
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف شادی نہ ہونا امامت و اذان کے ناجائز ہونے کا سبب نہیں ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی دوسری بات کراہت کی اس میں نہیں ہے تو ایسے شخص کا امام بنانا اور اذان دینا بلا شبہ جائز ہے، جن لوگوں نے ناجائز بتایا وہ غلطی پر ہیں اور جہالت کا شکار ہیں۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
قولہ بأحکام الصلاۃ فقط أيْ وإن کان غیر متبحّر في بقیۃ العلوم، وہو أولی من المتبحر، کذا في زاد الفقیر عن شرح الإرشاد۔ (قولہ ثم الأحسن زوجۃ) لأنہ غالبا یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا۔ (أیضًا)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص59
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال امام صاحب کے لیے مذکورہ بالا امور شرعاً و اخلاقاً ناجائز اور منصب امامت کے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں ان کو ان تمام حرکتوں سے فوری توبہ کرلینی چاہئے اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے بصورت دیگر اراکین کمیٹی کو چاہئے کہ ایسے امام کو تبدیل کردیں اور کسی نیک اور صالح امام کو مقرر کرلیں تاہم فتنہ وفساد سے ہر حال میں بچا جائے جب تک اس امام کو کمیٹی والے تبدیل نہ کریں اس کے پیچھے نمازیں ادا ہوجاتی ہیں۔
’’أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال: فضل الجماعۃ أفاد أن الصلوٰۃ خلفہما أولی من الإنفراد؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۱۔
(۲) أیضًا:۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص187
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کیف ما اتفق زید، عمر، بکر وغیر کے ناموں کے ساتھ اس قسم کے جملے املاء میں لکھا دئیے جاتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں، دوسروں کو اس پر بدگمانی نہیں کرنی چاہئے ورنہ تو خواہ مخواہ بدگمانی کرنے والے سخت گنہگار ہوں گے جب کہ امام کے دوسرے معاملات سے اس کی دینداری اور دینی تعلیم کا جذبہ بھی ظاہر ہے اور نماز ایسے امام کے پیچھے درست اور صحیح ہے۔(۱)
(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامتہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأحق بالامامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
من أبغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر … ویخاف علیہ إذا شتم عالماً أو فقیہاً من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا مایتعلق بالعلم والعلماء‘: ج۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص277