Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر کی فرض پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے قبل وتر کی قضاء درست ہے۔(۲)
(۲) ولا یکرہ قضاء فائتۃ ولو وتراً …… وعن ہذا قال في القنیۃ: الوتر یقضي بعد الفجر بالإجماع بخلاف سائر السنن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۲۹)ومنع …… عن التنفل بعد صلاۃ الفجر والعصر لا عن قضاء فائتۃ۔ (مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ: الأوقات المنہي من الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:179
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جتنی نمازیں قضاء ہوں سب کی ادائے گی ضروری ہے۔ اگر صاحب ترتیب نہیں ہے، تو نمازوں کا اندازہ کر کے ان کو جس طرح چاہے ادا کرے خواہ وقتی نماز سے پہلے پڑھے یا بعد میں ہر ایک وقت میں بہت سی نمازیں ادا کرے جیسا بھی آسان ہو، مگر اس میں وتر کی بھی قضاء کرنی ہوگی۔(۱)
(۱) فالأصل فیہ أں کل صلاۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاء ہا سواء ترکہا عمداً وسہواً أو بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۰، ۱۴۱)إذ ارقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ عز وجل یقول أقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:178
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی نماز امام صاحب کے نزدیک واجب ہے اور صاحبین کے نزدیک سنت ہے، سنت فرض کے تابع ہوتی ہے، اگر فرض نماز نہیں ہوئی تو فرض کے ساتھ سنت کا بھی اعادہ کرنا ہوتاہے، واجب فرض کے تابع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے اگر فرض کا اعادہ کرنا ہو تو واجب کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اس اصول کی روشنی میں اگر کسی کی عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہو جائے اور وتر کی نماز صحیح ہو تو صاحبین کے مذہب کے مطابق صبح صادق سے پہلے اگر عشاء کا اعادہ کرے تو وتر کا بھی اعادہ کرنا ہوگا اور اگر صبح صادق کے بعد عشاء کی قضاء کرے تو سنت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن امام صاحب کے مذہب کے مطابق کسی صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور متاخرین نے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیا ہے؟ اس لیے اگر کسی نے عشاء کی نماز بلا وضو کے یا ناپاکی کی حالت میں پڑھی پھر اس نے پاکی کی حالت میں وتر کی نماز پڑھی بعد میں معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نہیں ہوئی ہے تو صرف عشاء کی نماز لوٹانی ہوگی وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وعند أبي حنیفۃ وقتہ وقت العشاء؛ لأن الوتر عندہ فرض عملا، والوقت إذا جمع بین صلاتین واجبتین کان وقتا لہما جمیعا کالفائتۃ والوقتیۃ۔ فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء۔ أجاب بقولہ (إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر) یعني إذا لم یکن ناسیا (للترتیب) وعلی ہذا إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء ثم تذکر لا یعیدہ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا فکذلک الوتر‘‘(۱)
’’إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلي العشاء وہو ذاکر لذالک لویجزہ بالاتفاق وفي الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضوء ثم توضأ وصلی السنۃ والوتر ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء یعید العشاء عندہ والسنۃ ولا یعید الوتر وعندہما یعید الوتر أیضاً‘‘(۲)
(۱) محمد بن محمد، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴۔
(۲) ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل العشرون، قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:177
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسا شخص امامت نہ کرے اور اگر امامت کرنے کی ضرورت ہے، تو پہلے قضاء شدہ نماز ادا کرے پھر وقتی نماز کی امامت کرے اگر وہ وقت ہونے کے باوجود قضاء نماز نہ پڑھے اور امامت وقتی نماز کی کرے گا، تو اس کی امامت میں نماز جائز نہیں ہوگی جس کا اعادہ واجب ہوگا۔(۱)(۱) الترتیب الوقتیۃ وبین الفوائت مستحق، حتی لایجوز أداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ،وکذا بین الفروض والوتر … لأن الترتیب عرف واجباً في الفرض، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر، في قضاء الفوائت‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱)الترتیب بین الفائتۃ القلیلۃ وہي مادون ست صلوات وبین الوقتیۃ المتسع وقتہا مع تذکر الفائتۃ لازم۔ (أحمد بن إسماعیل الططاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 176
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: فائتہ نمازوں میں ترتیب واجب ہے یا مستحب اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ یہ تینوں حضرات ترتیب کو ضروری قرار دیتے ہیں خلاف ترتیب ناجائز ہے۔ امام شافعی ؒ ترتیب کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے:’’إن الترتیب بین الفوائت و فرض الوقت مستحق عندنا و مستحب عند الشافعي‘‘(۱)ہمارے نزدیک ترتیب کے ساقط ہونے کی تین صورتیں ہے ایک تو فوائت کی کثرت ہو، اگر فائتہ نمازیں کثیر ہوں تو ترتیب کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔ کثرت کی مقدار چھ نمازیں ہیں یعنی چھ نمازیں اس طرح فوت ہوجائیں کہ چھٹی نماز کا وقت نکل چکا ہو تو وہ کثرت کی حد میں آجاتاہے پھر ترتیب واجب نہیں۔ دوسرا سبب سہو یعنی فائتہ نماز بھول گئے اور وقتیہ نماز پڑھ لی بعد میں یاد آیا تو اب نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ سہو کی وجہ سے بھی فائتہ کی ترتیب کاوجوب ساقط ہو جاتاہے۔تیسرا سبب ضیق وقت ہے: ادا نماز کا اتنا تنگ وقت رہ گیا کہ اگر فائتہ نماز پڑھیں تو وقتیہ نماز فوت ہو جائے گی تو ایسی صورت میں ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ تو ہمارے یہاں ترتیب کے ساقط ہونے کے تین اسباب ہے۔کثرت فوائت، نسیان اور ضیق وقت۔ ’’لأن الترتیب یسقط بضیق الوقت، وکذا بالنسیان وکثرۃ الفوائت‘‘(۲)امام مالکؒ کے نزدیک ضیق وقت کی وجہ سے بھی ترتیب ساقط نہیں ہوتی ہے، امام احمد کے نزدیک کثرت فوائت کی وجہ سے بھی ترتیب کا وجوب ساقط نہیں ہوتا ہے۔ائمہ ثلاثہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاخندق کے موقع پر ترتیب سے کیا ہے اگر ترتیب واجب نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ترتیب کے ساتھ کیوں کرتے۔’’لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم شغل عن أربع صلوات یوم الخندق فقضاہن مرتبا ثم قال صلوا کما رأیتموني أصلي‘‘(۳)
امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ ترتیب کے ساتھ آپ نے نماز قضا کی ہے لیکن یہ وجوب کی دلیل نہیں ہے یہ استحباب کی دلیل ہے؛ اس لیے کہ فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے جب تک کہ امر کا صیغہ نہ ہو محض فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوتا یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مضبوط دلیل ہے۔ احناف میں سے علامہ ابن ہمام، صاحب بحر، مولانا عبدالحئی لکھنوی ؒوغیرہ حضرات نے امام صاحب کا مسلک چھوڑ کر امام شافعیؒ صاحب کا ساتھ دیا ہے کہ صرف فعل کی وجہ سے وجوب ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ استحباب ثابت ہوسکتاہے۔ تاہم حنفی کے لئے ضروری ہے کہ احناف کے مسلک پر ہی عمل کرے۔(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴۔(۲) أیضاً: ۔(۳) أیضاً: ج ۱، ص: ۱۵۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: حج ادا کرنے سے قضاء نمازیں معاف نہیں ہوں گی۔ قضاء نمازوں کا پڑھنا فرض اور ضروری ہے کہ دونوں فرض علیحدہ علیحدہ ہیں۔(۱)(۱) ولا قائل بسقوط الدین ولو حقاً للّٰہ تعالیٰ کدین صلاۃ وزکاۃ؛ نعم إثم المطل وتأخیر الصلاۃ ونحوہا یسقط وفي الشامیہ: وقد یقال بسقوط نفس الحق إذا مات قبل المقدرۃ علی أدائہ سواء کان حق اللّٰہ تعالیٰ أو حق عبادہ ولیس في ترکتہ مایفي بہ الخ … والحاصل کما في البحر أن المسئلۃ ظنیۃ فلا یقطع بتکفیر الحج للکبائر من حقوقہ تعالیٰ فضلاً عن حقوق العباد۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الحج: باب الہدي، مطلب: في تکفیر الحج الکبائر‘‘: ج ۴، ص: ۴۸ تا ۵۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: قضاء عمری کی نیت سے عصر وفجر کی نمازیں دونوں مذکورہ وقتوں میں پڑھنا جائز اور درست ہیں۔(۱)
(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔منہا ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔ کذا في النہایۃ والکفایۃ یکرہ فیہ التطوع بأکثر من سنۃ الفجر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹)الثاني مابین الفجر والشمس وما بین صلوۃ العصر إلی الا صفرار ینعقد فیہ جمیع الصلوات التي ذکرناہا من غیر کراہۃ إلا النفل والواجب وغیرہ۔ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند احمرارہا إلی أن تغیب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 173
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: بعد نماز عصر کامل وقت میں اصفرار شمس سے پہلے قضاء نماز پڑھ سکتا ہے۔’’ولا باس بأن یصلی في ہذین الوقتین الفوائت …… لأن الکراہۃ کانت لحق الفرض لیصیر الوقت کالمشغول بہ لا لمعنی في الوقت فلم تظہر في حق الفرض‘‘(۲)(۲) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، دار الکتاب دیوبند۔(لا) یکرہ (قضاء فائتۃ … بعد طلوع فجر سوی سنۃ … (وقبل) صلاۃ (مغرب) … قولہ: الکراہۃ تاخیرہ) … تنبیہ: یجوز قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في ہذا الوقت بلا کراہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترک العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، ۳۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 172
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر واقعی طور پر بھیڑ وغیرہ کی وجہ سے نماز ادا کرنے کا موقع نہ مل سکے اور نماز قضاء ہوجائے اور بعد میں موقع ملنے پر بلا تاخیر اس کو قضاء کرے تو ایسی صورت میں زید گناہگار نہ ہوگا۔(۱)(۱) وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائماً فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضوء في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶)وفي الخلاصۃ: وفتاویٰ قاضي خان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافرعن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالیٰ لا تجب الإعادۃ وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 171
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر صاحب ترتیب (جس کے ذمہ میں صرف چھ سے کم نمازوں کی قضاء لازم ہو) نہیں ہے تو اس کو چاہئے کہ مغرب کی جماعت میں شامل ہوکر پہلے مغرب کی نماز با جماعت ادا کرے پھر عصر کی نماز قضاء کرے۔(۱)
(۱) الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ وبین الفوائت مستحق، کذا في الکافي حتی لا یجوز أداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ، کذا في محیط السرخسي۔ وکذا بین الفروض والوتر، ہکذا في شرح الوقایۃ … وإن کانت المتروکۃ أکثر من واحدۃ والوقت یسع فیہ بعضہا مع الوقتیۃ لاتجوز الوقتیۃ مالم یقض ذلک البعض حتی لو تذکر في وقت الفجر أنہ لم یصل العشاء والوتر وبقي من الوقت مالایسع فیہ إلا خمس رکعات علی قول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ یقضي الوتر ثم یصلي الفجر ثم یقضي العشاء بعد طلوع الشمس۔ وکذا لو تذکر في وقت العصر أنہ لم یصل الفجر والظہر ولم یبق من الوقت إلا مایسع فیہ ثماني رکعات فإنہ یقضي الظہر ثم یصلي العصر وإن کان لا یسع فیہ إلا ست رکعات فإنہ یصلي الفجر ثم العصر ثم الفائتۃ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔والعبرۃ في العصر لآخر الوقت عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالیٰ کذا في التبیین وذکر شمس الأئمۃ السرخسي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في المبسوط إن أمکنہ أداء الظہر والعصر قبل تغیر الشمس فعلیہ مراعاۃ الترتیب وإن کان لایمکنہ أداء الصلاتین قبل غروب الشمس فعلیہ أداء العصر وإن کان یمکنہ أداء الظہر قبل تغیر الشمس وتقع العصر کلہا أو بعضہا بعد تغیر الشمس فعلیہ مراعاۃ الترتیب إلا علی قول حسن بن زیاد فإن عندہ ما بعد تغیر الشمس لیس بوقت العصر، کذا في النہایۃ۔ ولو کان بقي من الوقت المستحب قدر ما لایسع فیہ الظہر سقط الترتیب بالإجماع، کذا في التبیین۔ ولو افتتح العصر في أول الوقت وہو لا یعلم أن علیہ الظہر وأطالہا حتی دخل وقت الکراہۃ ثم تذکر أن علیہ الظہر فلہ أن یمضي علی صلاتہ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱ تا ۱۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 170