نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مردوں کے لیے بغیر کسی عذر کے گھر پر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، حضرات فقہا نے فرض نماز جماعت کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کو حکماً واجب لکھا ہے؛ اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ مسجد کی جماعت ترک نہ ہو پائے، لیکن اگر کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد کی جماعت چھوٹ جائے تو گھر والوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا درست ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے جب واپس آئے تو جماعت ہو چکی تھی اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ جیسا کہ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے:
’’ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں مرد اپنی بیوی اور بچوں کو نماز جماعت سے پڑھانا چاہے تو وہ پڑھا سکتا ہے، لیکن جب گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اس وقت صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد خود آگے کھڑا ہوجائے یعنی امام بنے، پہلی صف میں بچے (لڑکے) کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا جو گھر کی خواتین ہوں، کھڑی ہوں۔ اور اگر ایک بچہ ہو تو وہ مرد کے دائیں طرف کھڑا ہو اور باقی خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔
نیز گھر میں جماعت کرتے وقت اذان واقامت کہنا ضروری نہیں ہے، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، تاہم افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ  جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت شوہر کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو اذان بھی شوہر دے یا اگر کوئی سمجھ دار بچہ ہو تو وہ اذان دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(وکرہ ترکہما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وکذا ترکہا) لا ترکہ لحضور الرفقۃ (بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (وفي بیتہ بمصر) أو قریۃ لہا مسجد؛ فلایکرہ ترکہما إذ أذان الحی یکفیہ‘‘(۲)
’’(قولہ: في بیتہ) أي فیما یتعلق بالبلد من الدار والکرم وغیرہما، قہستاني، وفي التفاریق: وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفی بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریبًا وإلا فلا۔ وحد القرب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ إسماعیل۔ والظاہر أنہ لایشترط سماعہ بالفعل، تأمل‘‘
’’(قولہ: لہا مسجد) أي فیہ أذان وإقامۃ، وإلا فحکمہ کالمسافر صدر الشریعۃ‘‘
’’أن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’(ویقف الواحد) ولو صبیاً، أما الواحدۃ فتتأخر (محاذیاً) أي مساویاً (لیمین إمامہ) علی المذہب، ولا عبرۃ بالرأس بل بالقدم، فلو صغیراً فالأصح ما لم یتقدم أکثر قدم المؤتم لاتفسد، فلو وقف عن یسارہ کرہ (اتفاقاً وکذا) یکرہ (خلفہ علی الأصح)؛ لمخالفۃ السنۃ، (والزائد) یقف (خلفہ) فلو توسط اثنین کرہ تنزیہاً، وتحریماً لو أکثر‘‘(۲)
’’(وإن أم نساء، فإن اقتدت بہ) المرأۃ (محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ، فلا بد) لصحۃ صلاتہا (من نیۃ إمامتہا) لئلایلزم الفساد بالمحاذاۃ بلا التزام (وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ) فقیل: یشترط، وقیل: لا کجنازۃ إجماعًا، وکجمعۃ وعید علی الأصح خلاصۃ وأشباہ، وعلیہ إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتہا وإلا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲،ص: ۲۸۸۔            (۲) وفیہ أیضاً۔
(۱) أخرجہ النسائي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۸۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلوۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲،ص: ۳۰۷۔            (۳) أیضاً۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص384

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کو بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھائی۔
انبیاء علیہم السلام جب صفیں درست کرچکے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امامت کے لیے آگے بڑھادیا اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے قریب حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے تھے اور داہنی جانب حضرت اسماعیل علیہ السلام کھڑے تھے اوربائیں جانب حضرت اسحاق علیہ السلام کھڑے تھے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر تمام انبیاء علیہم السلام کھڑے ہوئے تھے۔(۱)
(۱)  فحانت الصلوٰۃ فأممتہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ج۱ ، ص:۹۶ ، رقم: ۲۷۸)
ولعل المراد بہا صلوۃ التحیۃ أو یراد بہا صلوٰۃ المعراج۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفضائل والشمائل: باب في المعراج الأول‘‘: ج۱۰، ص:۵۷۱، رقم: ۵۸۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام کا اذان پڑھنا درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے روایات سے ایک ہی شخص کا اذان دینا اور نماز پڑھانا ثابت ہے۔(۳)

(۳) عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربک من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن للصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہ عز وجل: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم للصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبد، وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجۃ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰، رقم: ۱۲۰۳)
عن عقبۃ بن عامر قال: کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامنی عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، فيمصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر، مؤسسۃ علوم القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص168

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی مخصوص طریقہ پر پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر دوام اور استمرار درست نہیں؛ اس لیے غیر لازم چیز کو لازم سمجھنا شرعاً جائز نہیں(۱) آیت کریمہ (مذکورہ فی السوال) کے سنتے ہی درود فرض نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیرًا علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین،  رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ولو قرأ القرآن فمر علی إسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵،ص: ۳۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں جان بوجھ کر دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔ البتہ اگر بھول  سے ایسا ہوا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرصورت نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ ہی نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔ اور نوافل میں ایک ہی سورت دو رکعتوں میں پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
’’لا بأس أن یقرأ سورۃً ویعیدہا في الثانیۃ۔ (قولہ: لا بأس أن یقرأ سورۃً إلخ) أفاد أنہ یکرہ تنزیہا، وعلیہ یحمل جزم القنیۃ بالکراہۃ، ویحمل فعلہ علیہ الصلاۃ والسلام لذلک علی بیان الجواز، ہذا إذا لم یضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولیٰ: {قل أعوذ برب الناس} أعادہا في الثانیۃ إن لم یختم، نہر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص232

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرأت میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے، تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہر صورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو، تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)
قالوا: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوساً أثم، لکن لا یلزمہ سجود السہو؛ لأن ذلک من واجبات القرائۃ لا من واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي، ردالمحتار مع الدرالمختار، باب صفۃ الصلاۃ، ’’مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص360

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 930/41-64

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سجدہ تلاوت نماز فجر و عصر کے بعد کرنے میں  کوئی حرج نہیں ہے۔ جو سجدے ذمہ میں واجب ہیں ان کو مکروہ اوقات میں ( طلوع شمس، زوال سے قبل اور بوقت غروب) اداکرنا درست نہیں ہے۔تاہم اگرآیت سجدہ کی تلاوت مکروہ وقت میں کی اور اسی وقت سجدہ کیا  تو درست ہے۔

ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب۔۔۔هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت (الفتاوی الھندیۃ 1/52)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال صورت اگر واقعی ہے تو ایسے حالات میں ایسے شخص (جو فساد کا باعث بنا ہوا ہو اور مذکورہ غلط جملے استعمال کرتا ہو) کو خود ہی امامت سے سبکدوش ہو جانا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو امامت سے منع فرمایا ہے کہ وہ شخص امامت پر بضد ہو، ڈٹا رہے اور لوگ اس کی امامت سے متنفر ہوں، پس ایسے شخص کی امامت حدیث شریف کی روشنی میں کراہت سے خالی نہیں ہوگی۔ محلہ والوں اور مسجد کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ کسی نیک وصالح دیندار با شرع شخص کو امام بنائیں تاکہ تکثیر جماعت ہونے کی بنا پر لوگوں کو اجر وثواب زیادہ مل سکے اور نماز بلا کراہت ادا ہو سکے؛ لیکن مقتدیوں کو بھی بلاوجہ اعتراضات نہیں کرنے چاہئیں۔(۱)

(۱) عن أبي مسعود الأنصاري، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرؤہم لکتاب اللّٰہ، فإن کانوا في القراء ۃ سواء، فأعلمہم بالسنۃ، فإن کانوا في السنۃ سواء، فأقدمہم ہجرۃ،  ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ، ولا یقعد في بیتہ علی تکرمتہ إلا بإذنہ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أخرجہ قطني، في سننہ: ج ۲، ص: ۸۸؛ علي المتقي الہندي، کنز العمال: ج ۸، ص: ۱۱۳، رقم:۲۰۳۹۰)
ومن حکمہا نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ)    …بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۸۷)
و أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص37

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے لائق وہ شخص ہے جو دین دار، نیک، صالح متبع شریعت ہو، اس کا کردار صحیح ہو، اس کی شادی اگر نہ ہوئی ہو یا شادی ہونے کے باوجود وہ کافی دنوں تک تنہا رہتا ہو تو اس کی امامت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا کردار خراب نہ ہو۔(۱)

(۱) أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان ومن السنۃ حدیث صلوا خلف کل بر وفاجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)
وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار، (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘:ص: ۷۸- ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص62

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: حقیقت واقعہ یہی ہے کہ امام غیر محرموں کے ساتھ بے تکلف باتیں کرتا ہے تو ایسا شخص شرعاً فاسق ہے اور اس کی امامت مکروہ ہے۔(۱)

(۱) باب تحریم النظر إلی المرأۃ الأجنبیۃ والأمرد الحسن لغیر حاجۃ شرعیۃ۔ (ریاض الصالحین: ج۲، ص: ۲۲۸)
قال اللّٰہ تعالیٰ: {قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ} (سورۃ النور: ۳۰)
وقال تعالیٰ: {اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًاہ۳۶} (سورۃ الإسراء: ۳۶)
وقال تعالیٰ: {یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُہ۱۹} (سورۃ الغافر: ۱۹)
وقال تعالٰی: {اِنَّ رَبَّکَ لَبِا لْمِرْصَادِہط ۱۴} (سورۃ الفجر: ۱۴)
وفي الشرنبلالیۃ معزیا للجوہرۃ: ولا یکلم الأجنبیۃ إلا عجوزًا عطست أو سلمت فیثمتہا لایرد السلام علیہا وإلا لا، انتہی۔ (الحصکفي، الدر المختار شرح تنویر الأبصار في فقہ مذہب الإمام أبي حنیفۃ‘‘: ج۶، ص: ۳۶۹)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وأکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضاً:  ص: ۲۹۹)
تجوز إمامۃ الأعربي والأعمی والعبد والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ، إلا أنہا تکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، أفصل الثالث في بیان من یصلح أما مالغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (أیضاً: ج۱، ص: ۸۴)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد قولہ نال فضل الجماعۃ الخ أن الصلوۃ، خلفہما أولی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص192