نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں مذکور ہے کہ امام کے اندر خرابیاں زیادہ ہیں لیکن ان کی وضاحت نہیں ہے جماعت و مسجد کو چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے سے متعلق احادیث مبارکہ میں بڑی وعیدیں آئی ہیں ایسا قطعاً نہ کیا جائے، امام صاحب کی اقتداء میں جماعت کے ساتھ مسجد میں نمازیں پڑھیں، امام صاحب کے اندر اگر واقعی کوئی بات خلاف شرع پائی جائے تو منتظمین مؤدب طریقہ سے امام صاحب سے بات کریں ۔(۱)

(۱) الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان أو فاجرا وإن عمل الکبائر۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إمامۃ البر والفاجر‘‘: ج۱، ص:۸۹)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴)
قولہ: بشرط اجتنابہ إلخ۔ کذا في الدرایۃ عن المجتبی۔ وعبارۃ الکافي وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی   إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص387

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے گھر میں آگ لگانے کے ارادہ کا اظہار فرمایا تھا؛ لیکن آگ نہیں لگائی؛ اس لیے آگ لگانا تو جائز نہیں ہے؛ البتہ اس کو مناسب طریقہ پر سمجھایا جائے اور نماز کی ترغیب دی جائے۔(۲)
(۲)  عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ، لقد ہممت أن آمر بحطب لیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثم آمر رجلاً فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجالٍ فأحرق علیہم بیوتہم، والذي نفسي بیدہ، لو یعلم أحدہم: أنہ یجد عرقاً سمیناً، أو مرمأتین حسنتین، لشہـد العشاء۔ (أخرجہ
البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب وجوب صلاۃ الجماعۃ،ج:۱، ص:۸۹  أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، أبواب المساجد والجماعات، التغلیظ في التخلف عن الجماعۃ‘‘: ج۱، ص:۵۷، رقم:۶۴۴)
قال في شرح المنیۃ: والأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکہا بلا عذر یعزر وترد شہادتہ ویأثم الجیران، بالسکوت عنہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبریٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، زکریا دیوبند)
وعن جابر رضي اللّٰہ … فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا بني سلمۃ: دیارکم تکتب آثارکم، دیارکم تکتب آثارکم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۷، فیصل بک ڈپو دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 32

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان کا جواب سنت ہے اگر مذکورہ شخص پوری اذان کا جواب دے رہا ہو تو مستحب یہ ہے کہ وہ بھی مؤذن کی طرح ’’أشہد أن محمد رسول اللّٰہ‘‘ ہی
کہے جب اذان پوری ہو جائے تو اذان کے بعد کی دعا ’’اللہم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ الخ‘‘ پڑھے اس کے بعد درود شریف پڑھے۔ اور اگر پوری اذان کا جواب نہ دے رہا ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سننے پر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر درود بھیج دے یہ درست ہے۔(۱)

(۱) عن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب عن أبیہ عن جدہ عمر بن الخطاب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم إذا قال المؤذن اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر فقال أحدکم اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر ثم قال أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ قال أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ ثم قال أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ قال أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ ثم قال حي علی الصلاۃ قال لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ ثم قال حی علی الفلاح قال لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ ثم قال اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر قال اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر ثم قال لا إلہ إلا اللّٰہ قال لا إلہ إلا اللّٰہ من قلبہ دخل الجنۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۳۸۴)
عن عبدالرحمن بن جبیر عن عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص أنہ سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی فإنہ من صلی علی صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا ثم سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ، فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ وأرجو أن أکون أنا ہو فمن سأل لي الوسیلۃ حلت علیہ الشفاعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶)
(بأن یقول) بلسانہ (کمقالتہ) إن سمع المسنون منہ، وہو ما کان عربیا لا لحن فیہ، ولو تکرر أجاب الأول (إلا في الحیعلتین) فیحوقل (وفي الصلاۃ خیر من النوم) فیقول: صدقت وبررت۔ ویندب القیام عند سماع الأذان بزازیۃ، ولم یذکر ہل یستمر إلی فراغہ أو یجلس، ولو لم یجبہ حتی فرغ لم أرہ۔ وینبغي تدارکہ إن قصر الفصل، ویدعو عند فراغہ بالوسیلۃ لرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۶،۶۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص169

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر تو یہ ہے کہ نیت کرتے وقت چہرہ بھی قبلہ رخ ہونا چاہیے، تاہم اگر نیت کرنے کے بعد چہرہ قبلہ رخ کر لیا، تو نماز اس کی درست ہو جائے گی، اگرچہ ایسا کرنا اور اس کی عادت ڈالنا برا ہے۔ (۱)

(۱) (أو حکماً) مثال المقارنۃ الحکمیۃ أن یقدم النیۃ علی الشروع قالو: لو نوی عند الوضوء أنہ یصلي الظہر مثلاً ولم یشتغل بعد النیۃ بعمل یدل علی الإعراض کأکل، وشرب، وکلام ونحوہا ثم انتہیٰ إلی محل الصلاۃ ولم تحضرہ النیۃ جازت صلاتہ بالنیۃ السابقۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۱۷، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
وأجمع أصحابنا علی أن الأفضل: أن تکون النیۃ مقارنۃ للشروع، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان‘‘ والنیۃ المتقدمۃ علی التکبیر کالقائمۃ عند التکبیر، إذا لم یوجد ما یقطعہ، وہو عملٌ لا یلیق بالصلاۃ، کذافي الکافي‘‘ حتی لو نویٰ ثم توضأ ومشی إلی المسجد فکبر ولم یحضرہ النیۃ، جاز ولا یعتد بالنیۃ المتأخرۃ عن التکبیر، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۴-۱۲۵، زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص292

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مسجد میں درسِ قرآن یا درسِ حدیث دینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ نیکی اور ثواب کا ذریعہ ہے؛ البتہ درس کی اطلاع وقت سے قبل ہی دے دی جائے تاکہ جو لوگ درس میں شریک نہ ہونا چاہیں وہ اپنی نماز مکمل کر کے گھر جا سکیں، ایسے ہی نمازی حضرات بھی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد سنن ونوافل ایک طرف ہو کر ادا کریں تاکہ درس کے سبب ان کو سنن ونوافل کی ادائیگی میں کسی دقت اور دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے بہر حال نماز کے بعد درسِ قرآن یا درسِ حدیث اور ذکر واذکار میں مشغول ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوکر ایک مؤثر اور عمدہ نصیحت فرمائی۔
’’صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صلاۃ الصبح ثم أقبل علینا بوجہہ فوعظنا موعظۃ بلیغۃ‘‘(۱)
’’وفي حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا وخلفًا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا، إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قاریٔ الخ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ  في سننہ، ’’باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین‘‘: ج ۱، ص: ۱۷، رقم: ۴۴۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في رفع الصوت بالذکر‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص437

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: قرأت میں ترتیب کے خلاف اس صورت میں ہوگا کہ پہلی رکعت میں القارعہ پڑھے اور دوسری رکعت میں العادیات پڑھے صورت مسئولہ عنہا میں ترتیب کے خلاف قرأت نہیں پائی گئی اور نماز بھی درست ہوگئی(۲) جو لوگ اس کو ترتیب کے خلاف سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ان کو اہل علم کی طرف رجوع کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
{فاسئلوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون}(۱)

(۲) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ، أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلا یکرہ۔ شرح المنیۃ: کما إذا کانت سورتان قصیرتان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۹، زکریا)
(۱) سورۃ النحل: ۴۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص233

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ظہر کا وقت شروع ہونے سے قبل سنت موکدہ معتبر نہیں، وقت ہونے کے بعد ہی ادا کی جائے یا جمعہ کے بعد ان سنتوں کو پڑھ لیں، اس کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) أما الأول: فوقت جملتہا وقت المکتوبات لأنہا توابع للمکتوبات فکانت تابعۃ لہا في الوقت ومقدار جملتہا إثنا عشر رکعۃ …۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الصلاۃ المسنونۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۶، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص361

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز با جماعت کے لیے کس وقت کھڑا ہونا چاہئے اقامت کے شروع میں یا اس وقت جب مؤذن حی علی الصلاۃ کہے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اختلاف استحباب وعدم استحباب میں ہے، جواز و عدم جواز میں نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی اقامت کے شروع میں کھڑا نہ ہو، تو اس کی امامت شرعاً درست ہے؛ البتہ اس کو لازم ہے کہ ان لوگوں پر لعن طعن نہ کرے جواقامت کے شروع میں کھڑے ہوتے ہیں؛ کیوں کہ یہ مسئلہ استحبابی ہے اس میں شدت سے کام نہ لیا جائے۔(۱)

(۱) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس،  الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص38

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لڑکی کی شادی کرنا موقع اور کفو کے مل جانے پر ضروری ہے اگر مناسب رشتہ مل جائے تو دیر نہ کرنی چاہئے حدیث شریف میں اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے۔کہ لڑکا و لڑکی کے بالغ ہوجانے کے بعد نکاح میں جلدی کرنی چاہئے تاہم امامت اس کی درست ہے۔(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا خطب إلیکم ممن ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ إلا تفعلوہ تکن فتنۃ في الأرض وفساد عریض‘‘(۲)


(۱) قولہ وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولدالزنا، بیان للشیئین الصحۃ والکراہۃ، أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث صلوا خلف کل بر وفاجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)
(۲) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب النکاح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من ترضون دینہ فزوجوہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۷، رقم: ۱۰۸۴؛ نعیمیہ دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص63

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تین طلاق کے بعد مطلقہ کے ساتھ رہنا بالکل حرام ہے پردہ اور علیحدگی واجب ہے،(۱) جو شخص تین طلاق دینے کے بعد اسی کے ساتھ شوہر وبیوی کی طرح  رہے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس کی اذان وامامت مکروہ تحریمی ہے، اور اس کے ساتھ رابطہ وتعلقات رکھنا بھی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وفاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمرہ والزاني وأکل الربا، ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص193