نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان کی مساجد بھی پاک ہوتی ہیں اس لیے اگر کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو پڑھ سکتے ہیں، نماز بہر صورت ادا ہوجائے گی۔ تاہم غالی شیعہ کی امامت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلي: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر، وجعلت لی الأرض وفي روایۃ ولأمتی مسجدا وطہورا، فأیما رجل من أمتي أدرکتہ الصلاۃ فلیصل (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الیتیم‘‘: ج۱، ص: ۳۹۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص256

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض روایات میں ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کی جگہ ’’صلو في بیوتکم‘‘ پڑھنا ثابت ہے؛ لیکن حضرات محدثین کی رائے ہے کہ اس جملہ کا اضافہ اذان کے بعد کیا جائے اذان کے اندر نہیں۔ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ: اذان میں شامل نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ اذان کے بعد کہنا چاہیے تاکہ اذان اپنی ہیئت پر باقی رہے؛ اسی طرحانہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اذان کے درمیان اور اذان کے بعد دونوں طرح کی اجازت ہے۔(۱)
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ عربی نہیں جانتے ہیں؛ اس لیے ’’صلوا في بیوتکم‘‘ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر لوگوں کو مسئلہ معلوم نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے عام لوگوں میں بحث کا ایک موضوع بن جائے گا اور بسا اوقات انتشار کا سبب ہوگا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اذان مکمل دی جائے ا ور اذان کے بعد اردو میں یا مقامی زبان میں یہ کہہ دیا جائے کہ گھر پر نماز پڑھ لیں۔(۲)
عرب میں ان کی زبان عربی ہے اور مؤذن سرکاری ہوتے ہیں اس لیے وہاں بحث کا موضوع نہیں بنتا اور انتشار پیدا نہیں ہوتا ہے۔

(۱) وقولہ ثم یقول یشعر بأن القول بہ کان بعد الأذان، فإن قلت قد تقدم في باب الکلام في الأذان أنہ کان في أثناء الأذان، قلت یجوز کلا ہما وہو نص الشافعي أیضاً في الأم ولکن الأولی أن یقال: بعد الأذان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب ہل یتبع المؤذن فاہ وہہنا‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۶)(شاملۃ)
(۲) حدثنا یحيٰ عن عبید اللّٰہ بن عمر قال: حدثني نافع قال: أذن ابن عمر في لیلۃ باردۃ بضجنان ثم قال صلوا في رحالکم وأخبرنا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یأمر مؤذنًا یؤذن ثم یقول علی إثرہ ألا صلوا في الرحال في اللیلۃ الباردۃ أو المطیرۃ في السفر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۸، رقم: ۶۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص142

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو قے منہ بھر کے ہو جائے تو وہ قے نجاست غلیظہ ہے اگر امام صاحب کے کپڑوں پر بقدر درہم لگی ہے تو معاف ہے نماز خراب نہیں ہوئی اور اگر درہم کی مقدار سے زیادہ لگ گئی تھی تو نجاست دور کرکے دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی جسم دار نجاست میں درہم کے وزن کا اعتبار ہے اور پتلی ہو تو پھیلاؤ کا اعتبار ہوگا۔(۱)
(۱) وما ینقض الوضوء بخروجہ من بدن الإنسان، کالدم السائل والمني والمذي والودي والاستحاضۃ والحیض والنفاس والقيء ملء الفم ونجاستہا غلیظۃ بالاتفاق لعدم معارض دلیل نجاستہا عندہ، ولعدم مساغ الاجتہاد فی طہارتہا عندہما۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب الأنجاس و الطھارۃ عنہا‘‘  ص:۱۵۵)
و ینقضہ قیء طعام أو ماء وإن لم یتغیر أو علق ہو سوداء محترقۃ أو مرۃ أي صفراء والنقض بأحد ہذہ الأشیاء إذا ملأ الفم لتنجسہ بما في قعر المعدۃ وہو مذہب العشرۃ المبشرین بالجنۃ ولأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قاء فتوضا،ٔ قال الترمذي: وہو أصح شيء في الباب، ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یعاد الوضوء من سبع: من إقطار البول والدم السائل والقيء ومن دسعۃ تملأ الفم ونوم مضطجع وقہقھۃ الرجل في الصلاۃ وخروج الدم وہو أي حد ملء الفم ما لا یطبق علیہ الفم إلا بتکلف علی الأصح۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل ھو طائفۃ من المسائل‘‘: ص: ۸۸، ۸۹)
وقدر الدرہم وما دونہ من النجس المغلظ کالدم والبول والخمر وخرء الدجاجۃ وبول الحمار جازت الصلاۃ معہ وإن زاد لم تجز۔ (المرغیناني، الھدایۃ، ’’باب الأنجاس و تطھیرھا‘‘: ج۱، ص: ۷۴، مکتبہ ملت دیوبند

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص100

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بغیر ضرورت کے مائک کا استعمال نماز میں نامناسب ہے۔
’’وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرائتہ، لیحصل إحضار القلب، کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص219

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے، دعاء قنوت کی جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے ’’اللھم إنا نستعینک‘‘ وہ دعا  پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس لیے اس کی جگہ اگر کسی نے کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا سورۂ فاتحہ پڑھ لی تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی، اس لیے آپ کی نماز درست ہوگئی۔
’’ولیس في القنوت دعاء مؤقت، کذا في التبیین۔ و الأولی أن یقرأ: اللّہم إنا نستعینک، و یقرأ بعدہ :اللّہم اہدنا فیمن ہدیت۔ و من لم یحسن القنوت یقول: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ کذا في المحیط۔ أو یقول: اللّہم اغفرلنا، و یکرر ذلک ثلاثاً، وہو اختیار أبي اللیث، کذا في السراجیۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: ویسن الدعاء المشہور) قدمنا في بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر۔ وذکر في البحر عن الکرخي أنّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لأنہ روي عن الصحابۃ أدعیۃ مختلفۃ، و لأنّ المؤقت من الدعاء یذھب برقۃ القلب … ومن لا یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ۔ الآیۃ۔ وقال ابو اللیث یقول: اللھم اغفرلي، یکررھا ثلاثا، وقیل یقول : یارب ثلاثا، ذکرہ في الذخیرۃ اھـ۔‘‘(۲)
’’وھو أن یقول: اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب إلیک ونؤمن بک … الخ ویجوز أن یقتصر في دعاء القنوت علی نحو قولہ: {رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} أو یقول یا رب ثلاثا أو اللھم اغفرلي ثلاثا لأنہ غیر مؤقت في ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعاء أولا‘‘(۳)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج۱، ص: ۱۷۰، زکریا دیوبند۔)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘ : ج ۲، ص: ۴۴۲، ۴۴۳۔)
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح: ج ۱، ص: ۲۸۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص326

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز عشاء سے قبل چار سنت غیر مؤکدہ ہیں جیسا کہ مظاہر حق میں ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء سے قبل چار رکعت پڑھے گویا اس نے تہجد کی نماز پڑھی اس رات میں اور جو کوئی بعد عشاء چار رکعت پڑھے گویا اس نے چار رکعت شب قدر میں پڑھی۔(۱)

(۱) إن التطوع بالأربع قبل العشاء حسن، لأن التطوع بہا لم یثبت أنہ  من السنن الراتبۃ ولو فعل ذلک فحسن۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ج ۱، ص: ۲۸۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص436


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص کی امامت میں جو نمازیں ادا ہوئیں وہ صحیح ہوگئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۲) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ و لا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص257

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور اذان سننے کے بعد جماعت کے لیے جانا واجب ہے؛ جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ  کمقالتہ … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ ویجیب لو أذان مسجدہ … قال في الفتح أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أووجوبا والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۱)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اسے چاہئے کہ مؤذن جو الفاظ کہے ان ہی کو دہرائے
لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا؛ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي سعید الخدري أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن: وأیضاً: قال یحي وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال:لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مذکورہ عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانیں جو دی جاتی ہیں ان اذانوں کا جواب دینا بھی مستحب ہے اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔
در مختار میں ہے کہ: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں مثلاً بچے کی پیدائش کی اذان کا بھی جواب دیا جائے گا؟ پھر  اس کا جواب خود دیا کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوں کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب اذان غیر الصلوٰۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۵-۷۰۔
(۲)  أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب ما یقول إذا سمع المنادی‘‘: ج۱ ، ص: ۸۶، رقم ۶۱۱، ۶۱۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص144

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سب مقتدیوں اور امام پر اس کا اعادہ فرض ہے تنہا امام کے لوٹانے سے مقتدیوں کی نماز ادا نہ ہوگی۔(۱)
(۱) (وإذا ظہر حدث إمامہ) وکذا کل مفسد في رأي مقتد (بطلت فیلزم إعادتہا) لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃ وفسادا (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو رکن۔ (قولہ لتضمنہا) أی تضمن صلاۃ الإمام، والأولی التصریح بہ، أشار بہ إلی حدیث الإمام ضامن إذ لیس المراد بہ الکفالۃ، بل التضمن بمعنی أن صلاۃ الإمام متضمنۃ لصلاۃ المقتدي، ولذا اشترط عدم مغایرتہما، فإذا صحت صلاۃ الإمام صحت صلاۃ المقتدي، إلا لمانع آخر، وإذا فسدت صلاتہ فسدت صلاۃ المقتدي لأنہ متی فسد الشيء فسد ما في ضمنہ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’فروع اقتداء متنفل بمتنفل، مطلب: المواضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج۱، ص: ۵۹۱)
قال الإمام ضامن وہو ما أشار إلیہ المصنف بقولہ: ونحن نعتبر معنی التضمن فإنہ المراد بالضمان للاتفاق علی نفی إرادۃ حقیقۃ الضمان، وأقل ما یقتضیہ التضمن التساوي فیتضمن کل فعل مما علی الإمام مثلہ، وغایتہ أن یفضل کالمتنفل خلف المفترض، وإذا کان کذلک فبطلان صلاۃ الإمام یقتضي بطلان صلاۃ المقتدی إذ لا یتضمن المعدوم الموجود، وہذا معنی قولہ۔ وذلک فی الجواز والفساد۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’باب الامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۸۵، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)
وفساد صلاۃ المقتدي لا تؤثر في فساد صلاۃ الإمام، ولفساد صلاۃ الإمام أثر في فساد صلاۃ المقتدی۔ (الکاساني، بدائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل الکلام في الاستخلاف في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص101

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: باقی رکعتوں میں سورۂ بقرہ پڑھے یا جو سورت یاد ہو پڑھے، لیکن عمداً ایسا نہ کرنا چاہئے۔(۲)
(۲) الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار۔ ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراھۃ التحریم تجب إعادتھا‘‘: ج۲، ص:۱۴۸ زکریا۔
وأن یقرأ منکوساً ولا یکرہ في النفل شيء من ذلک الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوري: ج ۱، ص: ۵۸۔
وإذا قرأ في الأولیٰ {قل أعوذ برب الناس} فیقرأ في الثانیۃ، {قل اعوذ برب الناس}۔ (أیضاً)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص219