نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص کی امامت میں جو نمازیں ادا ہوئیں وہ صحیح ہوگئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۲) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ و لا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص257

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور اذان سننے کے بعد جماعت کے لیے جانا واجب ہے؛ جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ  کمقالتہ … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ ویجیب لو أذان مسجدہ … قال في الفتح أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أووجوبا والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۱)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اسے چاہئے کہ مؤذن جو الفاظ کہے ان ہی کو دہرائے
لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا؛ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي سعید الخدري أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن: وأیضاً: قال یحي وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال:لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مذکورہ عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانیں جو دی جاتی ہیں ان اذانوں کا جواب دینا بھی مستحب ہے اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔
در مختار میں ہے کہ: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں مثلاً بچے کی پیدائش کی اذان کا بھی جواب دیا جائے گا؟ پھر  اس کا جواب خود دیا کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوں کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب اذان غیر الصلوٰۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۵-۷۰۔
(۲)  أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب ما یقول إذا سمع المنادی‘‘: ج۱ ، ص: ۸۶، رقم ۶۱۱، ۶۱۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص144

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سب مقتدیوں اور امام پر اس کا اعادہ فرض ہے تنہا امام کے لوٹانے سے مقتدیوں کی نماز ادا نہ ہوگی۔(۱)
(۱) (وإذا ظہر حدث إمامہ) وکذا کل مفسد في رأي مقتد (بطلت فیلزم إعادتہا) لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃ وفسادا (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو رکن۔ (قولہ لتضمنہا) أی تضمن صلاۃ الإمام، والأولی التصریح بہ، أشار بہ إلی حدیث الإمام ضامن إذ لیس المراد بہ الکفالۃ، بل التضمن بمعنی أن صلاۃ الإمام متضمنۃ لصلاۃ المقتدي، ولذا اشترط عدم مغایرتہما، فإذا صحت صلاۃ الإمام صحت صلاۃ المقتدي، إلا لمانع آخر، وإذا فسدت صلاتہ فسدت صلاۃ المقتدي لأنہ متی فسد الشيء فسد ما في ضمنہ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’فروع اقتداء متنفل بمتنفل، مطلب: المواضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج۱، ص: ۵۹۱)
قال الإمام ضامن وہو ما أشار إلیہ المصنف بقولہ: ونحن نعتبر معنی التضمن فإنہ المراد بالضمان للاتفاق علی نفی إرادۃ حقیقۃ الضمان، وأقل ما یقتضیہ التضمن التساوي فیتضمن کل فعل مما علی الإمام مثلہ، وغایتہ أن یفضل کالمتنفل خلف المفترض، وإذا کان کذلک فبطلان صلاۃ الإمام یقتضي بطلان صلاۃ المقتدی إذ لا یتضمن المعدوم الموجود، وہذا معنی قولہ۔ وذلک فی الجواز والفساد۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’باب الامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۸۵، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)
وفساد صلاۃ المقتدي لا تؤثر في فساد صلاۃ الإمام، ولفساد صلاۃ الإمام أثر في فساد صلاۃ المقتدی۔ (الکاساني، بدائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل الکلام في الاستخلاف في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص101

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: باقی رکعتوں میں سورۂ بقرہ پڑھے یا جو سورت یاد ہو پڑھے، لیکن عمداً ایسا نہ کرنا چاہئے۔(۲)
(۲) الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار۔ ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراھۃ التحریم تجب إعادتھا‘‘: ج۲، ص:۱۴۸ زکریا۔
وأن یقرأ منکوساً ولا یکرہ في النفل شيء من ذلک الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوري: ج ۱، ص: ۵۸۔
وإذا قرأ في الأولیٰ {قل أعوذ برب الناس} فیقرأ في الثانیۃ، {قل اعوذ برب الناس}۔ (أیضاً)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص219

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت بھول کر رکوع میں چلے جانے اور پھر یاد آنے پر واپس نہیں لوٹنا چاہیے تھا؛ بلکہ اخیر میں سجدہ سہو کرنے سے نماز مکمل ہوجاتی۔ لیکن اگر واپس کھڑے ہوکر دعائے قنوت پڑھ لی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوئی اورجب آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو تلافی ہوگئی اوروتر کی نماز درست ہوگئی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’کما لو سہا عن القنو ت فرکع فإنہ لو عاد وقنت لاتفسد صلاتہ علی الأصح‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ج:۲، ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص328

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی اصل وجہ گناہ اور خدا کی نافرمانی ہے لہٰذا گناہ کو یاد کرکے اس سے سچی پکی توبہ کریں۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کو شب بیداری کی توفیق نہیں ہوتی اور حضرت شعبان اسکری ایک گناہ کے سبب پانچ ماہ تک تہجد سے محروم رہے فرمایا وہ گناہ یہ تھا کہ ایک شخص کو روتا دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا یہ شخص مکار ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہوکر تہجد کی توفیق سلب کرلی تھی۔ اور حرام روزی سے بھی بچنا چاہئے کہ اس سے بھی نیک اعمال میں سستی اور بد اعمالیوں میں چستی پیدا ہوتی ہے۔(۲)

(۲) {وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَہ۳۳} (سورۃ الأنفال: ۳۳)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)
ھي الندم بالقلب، وترک المعصیۃ في الحال، و العزم علٰی ألا یعود إلٰی مثلھا، وأن یکون ذلک حیائً من اللّٰہ۔ (القرطبي، في تفسیر القرطبي، ’’سورۃ النساء‘‘: ج ۵، ص: ۹۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص437

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شیعہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کی نماز میںکوئی فرق نہیں آئے گا اگرچہ وہ رفع یدین بھی کرتا ہو؛ کیوں کہ رفع یدین احناف کے نزدیک غیر اولیٰ ہے، اگر وہ مسجد میں قرآن پاک پڑھتا ہے یا وظیفہ پڑھتا ہے، تواس کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اگر وہ تنہا نماز پڑھتا ہے جب بھی اس کو مسجد میں آنے سے روکنا صحیح نہیںہے اپنے بچوں کی خود تربیت کی جائے۔(۱)

(۱) واختلف الأئمۃ في دخول الکفار المسجد فجوزہ الإمام ابوحنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ مطلقاً للآیۃ (ومن اظلم ممن منع الخ) فإنہا تفید دخولہم بخشیۃ وخشوع ولأن وفد ثقیف قدموا علیہ علیہ الصلاۃ والسلام فأنزلہم المسجد ولقولہ علیہ السلام: من دخل دار أبي سفیان فہو آمن ومن دخل الکعبۃ فہو آمن والنھي محمول علی التنزیۃ أو الدخول للحرم بقصد الحج۔ ومنعہ مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ مطلقاً۔ لقولہ تعالیٰ إنما المشکرون نجس۔ (التوبۃ آیۃ: ۲۸)
والمساجد یجب تطہیرہا عن النجاسات ولذا یمنع الجنب عن الدخول وجوزہ لحاجۃ۔ وفرق الإمام الشافعي رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ بین المسجد الحرام وغیرہ وقال الحدیث منسوخ بالآیۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۱۴، ۱۱۶‘‘: ج۱، ص: ۵۷۳، ۵۷۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر جلدی کی وجہ سے ننگے سر یا بے وضو اذان پڑھ دی گئی تو وہ اذان ادا ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے اور اگر کوئی شخص عادت ہی بنالے کہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا رہے، تو یہ کراہت سے خالی نہیں۔
’’قال: أبوہریرۃ لا ینادي بالصلاۃ إلا متوضئ‘‘ (۲)
’’واختلف أہل العلم فی الأذان علیٰ غیر وضوء فکرہہ بعض أہل العلم وبہ یقول الشافعي وإسحاق، ورخص في ذلک بعض أہل العلم وبہ یقول: سفیان وابن المبارک وأحمد۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب‘‘ (۱)

 

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء في کراہیۃ الأذان بغیر وضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص145

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی نمازی عمل کثیر کے ذریعہ سانپ یا بچھو کو قتل کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے تفصیلات و دلائل کے لیے (امدادالفتاویٰ ج۱، ص ۴۴۱) کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) لکن صحح الحلبي الفساد حیث قال تبعاً لابن الہمام: فالحق فیما یظہر ہوالفساد، والأمر بالقتل لایستلزم صحۃ الصلاۃ مع وجودہ کما في صلاۃ الخوف، بل الأمر في مثلہ لإباحۃ مباشرتہ وإن کان مفسدا للصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۴۲۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ترتیب کے خلاف کرنا مکروہ ہے، لیکن  نماز صحیح ہوگئی، ترتیب اگرچہ واجب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں۔(۱)
(۱) قالو: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لکن لایلزمہ سجود السہو، لأن ذلک من واجبات القراء ۃ لامن واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸)
وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ، وفي الرکعۃ الأخریٰ أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص220