نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت بھول کر رکوع میں چلے جانے اور پھر یاد آنے پر واپس نہیں لوٹنا چاہیے تھا؛ بلکہ اخیر میں سجدہ سہو کرنے سے نماز مکمل ہوجاتی۔ لیکن اگر واپس کھڑے ہوکر دعائے قنوت پڑھ لی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوئی اورجب آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو تلافی ہوگئی اوروتر کی نماز درست ہوگئی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’کما لو سہا عن القنو ت فرکع فإنہ لو عاد وقنت لاتفسد صلاتہ علی الأصح‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ج:۲، ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص328

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی اصل وجہ گناہ اور خدا کی نافرمانی ہے لہٰذا گناہ کو یاد کرکے اس سے سچی پکی توبہ کریں۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کو شب بیداری کی توفیق نہیں ہوتی اور حضرت شعبان اسکری ایک گناہ کے سبب پانچ ماہ تک تہجد سے محروم رہے فرمایا وہ گناہ یہ تھا کہ ایک شخص کو روتا دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا یہ شخص مکار ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہوکر تہجد کی توفیق سلب کرلی تھی۔ اور حرام روزی سے بھی بچنا چاہئے کہ اس سے بھی نیک اعمال میں سستی اور بد اعمالیوں میں چستی پیدا ہوتی ہے۔(۲)

(۲) {وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَہ۳۳} (سورۃ الأنفال: ۳۳)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)
ھي الندم بالقلب، وترک المعصیۃ في الحال، و العزم علٰی ألا یعود إلٰی مثلھا، وأن یکون ذلک حیائً من اللّٰہ۔ (القرطبي، في تفسیر القرطبي، ’’سورۃ النساء‘‘: ج ۵، ص: ۹۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص437

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شیعہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کی نماز میںکوئی فرق نہیں آئے گا اگرچہ وہ رفع یدین بھی کرتا ہو؛ کیوں کہ رفع یدین احناف کے نزدیک غیر اولیٰ ہے، اگر وہ مسجد میں قرآن پاک پڑھتا ہے یا وظیفہ پڑھتا ہے، تواس کو منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اگر وہ تنہا نماز پڑھتا ہے جب بھی اس کو مسجد میں آنے سے روکنا صحیح نہیںہے اپنے بچوں کی خود تربیت کی جائے۔(۱)

(۱) واختلف الأئمۃ في دخول الکفار المسجد فجوزہ الإمام ابوحنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ مطلقاً للآیۃ (ومن اظلم ممن منع الخ) فإنہا تفید دخولہم بخشیۃ وخشوع ولأن وفد ثقیف قدموا علیہ علیہ الصلاۃ والسلام فأنزلہم المسجد ولقولہ علیہ السلام: من دخل دار أبي سفیان فہو آمن ومن دخل الکعبۃ فہو آمن والنھي محمول علی التنزیۃ أو الدخول للحرم بقصد الحج۔ ومنعہ مالک رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ مطلقاً۔ لقولہ تعالیٰ إنما المشکرون نجس۔ (التوبۃ آیۃ: ۲۸)
والمساجد یجب تطہیرہا عن النجاسات ولذا یمنع الجنب عن الدخول وجوزہ لحاجۃ۔ وفرق الإمام الشافعي رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ بین المسجد الحرام وغیرہ وقال الحدیث منسوخ بالآیۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۱۴، ۱۱۶‘‘: ج۱، ص: ۵۷۳، ۵۷۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر جلدی کی وجہ سے ننگے سر یا بے وضو اذان پڑھ دی گئی تو وہ اذان ادا ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے اور اگر کوئی شخص عادت ہی بنالے کہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا رہے، تو یہ کراہت سے خالی نہیں۔
’’قال: أبوہریرۃ لا ینادي بالصلاۃ إلا متوضئ‘‘ (۲)
’’واختلف أہل العلم فی الأذان علیٰ غیر وضوء فکرہہ بعض أہل العلم وبہ یقول الشافعي وإسحاق، ورخص في ذلک بعض أہل العلم وبہ یقول: سفیان وابن المبارک وأحمد۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب‘‘ (۱)

 

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء في کراہیۃ الأذان بغیر وضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص145

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی نمازی عمل کثیر کے ذریعہ سانپ یا بچھو کو قتل کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے تفصیلات و دلائل کے لیے (امدادالفتاویٰ ج۱، ص ۴۴۱) کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) لکن صحح الحلبي الفساد حیث قال تبعاً لابن الہمام: فالحق فیما یظہر ہوالفساد، والأمر بالقتل لایستلزم صحۃ الصلاۃ مع وجودہ کما في صلاۃ الخوف، بل الأمر في مثلہ لإباحۃ مباشرتہ وإن کان مفسدا للصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۴۲۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ترتیب کے خلاف کرنا مکروہ ہے، لیکن  نماز صحیح ہوگئی، ترتیب اگرچہ واجب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں۔(۱)
(۱) قالو: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لکن لایلزمہ سجود السہو، لأن ذلک من واجبات القراء ۃ لامن واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸)
وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ، وفي الرکعۃ الأخریٰ أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص220

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حوادثات اور فتنوں کے وقت صبح کی نماز میں دعاء قنوت احناف کے یہاں بھی جائز ہے۔
’’لما رواہ الإمام أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقنت في الفجر قط إلا شہراً واحدا لم یر قبل ذلک ولا بعدہ وإنما قنت فی ذلک الشہر یدعوا علی أناس من المشرکین وکذا في الصحیحین أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قنت شہرا یدعوا علی قوم من العرب ثم ترکہ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۴۴۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص328

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض فقہاء کہتے ہیں کہ سنت وفرض کے درمیان دنیاوی باتیں کرنے سے سنت باطل ہوجاتی ہیں مگر اقویٰ یہ ہے کہ سنت کا بطلان نہیں ہوتا البتہ ثواب کم ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر اللّٰہم أنت السلام الخ۔ قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد، واختارہ  الکمال۔ قال الحلبي: إن أرید بالکراھۃ التنزیھیۃ ارتفع الخلاف۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶،۲۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص438

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2469/45-3743

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عمل کثیر کی تشریح میں متعدد اقوال ہیں، البتہ ان میں مفتی بہ  قول یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو یہ غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے۔عمل کثیر مفسد صلوۃ ہے، ایسی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔  

صورت مسئولہ میں سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں سے  شلوارکو ہلکا سا اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے سجدہ میں جانا عمل قلیل ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بلاضرورت عمل قلیل کی عادت بنا لینا بھی مکروہ ہے، اس لئے  اس سے احتراز کرنا چاہئے اور پائچے کو نماز شروع کرنے  سے پہلےہی  درست کرلینا چاہئے۔

ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا۔ وفیہ خمسة أقوال: أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید فی فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل (شامی: ۲/۳۸۵، ط: زکریا دیوبند)۔ وکرہ عبثہ بثوبہ (شامی: ۲/۴۰۶۔ مکروہات الصلوة، ط: زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوکان، مکان میں محلہ کی مسجد کی اذان کا فی ہے، جنگل میں جہاں اذان کی اواز نہیں پہونچتی با جماعت نماز پڑھتے وقت اذان مسنون ہے۔
’’بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر، أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ … قولہ لہا مسجد أي فیہ أذان وإقامۃ … قولہ إذا أذان الحي یکفیہ لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ لأن المؤذن نائب أہل المصر کلہم‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا دیوبند۔…ولو صلی في بیتہ في قریۃ إن کان في القریۃ مسجد فیہ أذان وإقامۃ فحکمہ حکم من صلی في بیتہ في المصر وإن لم یکن فیہا مسجد فحکمہ حکم المسافر … وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفي بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریباً و إلا فلا۔ وحد القریب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ وإن أذنوا کان أولیٰ … وإن صلوا بجماعۃ في المفازۃ وترکوا الأذان لا یکرہ، وإن ترکوا الإقامۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص146