نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حوادثات اور فتنوں کے وقت صبح کی نماز میں دعاء قنوت احناف کے یہاں بھی جائز ہے۔
’’لما رواہ الإمام أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقنت في الفجر قط إلا شہراً واحدا لم یر قبل ذلک ولا بعدہ وإنما قنت فی ذلک الشہر یدعوا علی أناس من المشرکین وکذا في الصحیحین أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قنت شہرا یدعوا علی قوم من العرب ثم ترکہ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۴۴۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص328

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض فقہاء کہتے ہیں کہ سنت وفرض کے درمیان دنیاوی باتیں کرنے سے سنت باطل ہوجاتی ہیں مگر اقویٰ یہ ہے کہ سنت کا بطلان نہیں ہوتا البتہ ثواب کم ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر اللّٰہم أنت السلام الخ۔ قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد، واختارہ  الکمال۔ قال الحلبي: إن أرید بالکراھۃ التنزیھیۃ ارتفع الخلاف۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶،۲۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص438

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2469/45-3743

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عمل کثیر کی تشریح میں متعدد اقوال ہیں، البتہ ان میں مفتی بہ  قول یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو یہ غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے۔عمل کثیر مفسد صلوۃ ہے، ایسی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔  

صورت مسئولہ میں سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں سے  شلوارکو ہلکا سا اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے سجدہ میں جانا عمل قلیل ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بلاضرورت عمل قلیل کی عادت بنا لینا بھی مکروہ ہے، اس لئے  اس سے احتراز کرنا چاہئے اور پائچے کو نماز شروع کرنے  سے پہلےہی  درست کرلینا چاہئے۔

ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا۔ وفیہ خمسة أقوال: أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید فی فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل (شامی: ۲/۳۸۵، ط: زکریا دیوبند)۔ وکرہ عبثہ بثوبہ (شامی: ۲/۴۰۶۔ مکروہات الصلوة، ط: زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوکان، مکان میں محلہ کی مسجد کی اذان کا فی ہے، جنگل میں جہاں اذان کی اواز نہیں پہونچتی با جماعت نماز پڑھتے وقت اذان مسنون ہے۔
’’بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر، أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ … قولہ لہا مسجد أي فیہ أذان وإقامۃ … قولہ إذا أذان الحي یکفیہ لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ لأن المؤذن نائب أہل المصر کلہم‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا دیوبند۔…ولو صلی في بیتہ في قریۃ إن کان في القریۃ مسجد فیہ أذان وإقامۃ فحکمہ حکم من صلی في بیتہ في المصر وإن لم یکن فیہا مسجد فحکمہ حکم المسافر … وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفي بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریباً و إلا فلا۔ وحد القریب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ وإن أذنوا کان أولیٰ … وإن صلوا بجماعۃ في المفازۃ وترکوا الأذان لا یکرہ، وإن ترکوا الإقامۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص146

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس خیال آجانا مفسد نماز نہیں۔(۲)
(۲) یجب حضور القلب عند التحریمۃ؛ فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالي: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ابتداء میں امام کے پیچھے قرات رہی ہے بعد میں منسوخ کردی گئی، نسخ کی روایات قوی بھی ہیں اور عملی بھی ہیں، مثلاً ترمذی اور موطاء امام مالک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت آرہی ہے کہ آپ نے بعد نماز کہا کہ تم میں سے کس نے ابھی قرآن پڑھا ہے، ایک شخص نے ہاں عرض کی، آپ نے فرمایا میں بھی کہتا تھا مجھ سے قرآن چھینا جاتا ہے۔
راوی کہتے ہیں اس کے بعد لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراء ۃ جہری نمازوں میں چھوڑ دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصن رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے سند کے لحاظ سے یہ روایت حسن صحیح ہے۔ پھر مسلم میں یہ روایت آرہی ہے کہ جب امام قراء ۃ کرے تو تم خاموش رہواور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت آرہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام قراء ۃ پڑھے تو تم خاموشی کے ساتھ سنو! حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے کہ جب کوئی شخص امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراء ۃ اس شخص کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔ احناف کا عمل ان حدیثوں پر ہے۔(۱)
(۱) عن جابر بن عبداللّٰہ (رضي اللّٰہ عنہ) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا۔ باب: إذا قرأ الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم ۸۵۰)
عن حطان بن عبداللّٰہ الرقاشي، قال: صلیت مع أبي موسی الأشعري صلاۃ… فقال: أبو موسیٰ: أما تعلمون کیف تقولون في صلاتکم إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطبنا، فبین لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا، فقال: إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم، ثم لیؤمکم أحدکم، فإذا کبر فکبروا الخ۔ وفي حدیث قتادۃ من الزیادۃ وإذا قرأ فانصتوا الحدیث۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب التشہد في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴، رقم ۴۰۴)
والمؤتم لایقرأ مطلقاً ولا الفاتحۃ… فإن قرأ کرہ تحریما، وتصح في الأصح الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص221

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تاخیر رکن کی بناء پر سجدہ سہو واجب تھا اور وہ نہیں کیا گیا تو ترک واجب لازم آیا پس ترک واجب کی بناء پر اعادہ واجب ہوگا۔(۲)

(۲)أوإعادتہا بترکہ عمدا أي ما دام الوقت باقیا وکذا في السہو إن لم یسجد لہ وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقا آثما وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم … والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی، لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۷، ۲۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص329

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے ’’إنما الاعمال بالنیات‘‘ اس ثواب کا مدار نیت پر ہے۔ اگر خالص اللہ کے لیے کوئی شخص پڑھے گا تو ثواب بھی اسی قدر ملے گا اور حضرت ابن عباسؓ کو جو تسبیح سکھائی تھی وہ صرف ان کی خصوصیت نہیں تھی۔(۱)

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماہ ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل بل عشر خصال، إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذلک أولہ وآخرہ، قدیمہ وحدیثہ، خطأہ وعمدہ، صغیرہ وکبیرہ، سرہ وعلانیتہ، أن تصلی أربع رکعات۔ تقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب۔ الخ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ التسبیح، ج۱، ص۱۸۴، رقم ۱۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No 194344-1858

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز میں قیام فرض ہے، قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کرنماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور نماز میں جب قیام پر قدرت ہو جائے قیام کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ اس لئے اگربحالت مجبوری  بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کوئی  شخص بھول کر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد نہ پڑھ سکا، اور ابھی سورہ فاتحہ شروع نہیں  کی، تو اب واپس آکر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد پڑھنا درست ہے۔   اور اگر سورہ فاتحہ شروع کردی تو اس کو چاہیے کہ نماز آگے پڑھے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے، اس سے نماز درست ہوجائے گی۔ اور اگر قراءت شروع کرنے کے بعد واپس قعدہ میں آگیا ، تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

من فرائضہا القیام في فرض لقادر علیہ وعلی السجود“ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئا علی عصا أو حائط قام لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیة أو تکبیرة علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل“ (در مختار مع الشامی زکریا: ۲/۲۶۷) وإن لم یکن کذلک (أی بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوع مشقة لا یجوز ترک القیام“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷) وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷)

سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح  (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (الدر المختار مع رد المحتار(2/ 83،  کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اذان کا اعادہ کرلیا جائے، تو اچھا ہے؛ لیکن ضروری نہیں۔ اگر اعادہ نہ کیا گیا، تو مقصد اذان پورا ہوجائے گا اس لیے کوئی حرج نہیں۔(۱)

(۱) ولو قدم فیہما مؤخراً أعاد ما قدم فقط ولا یتکلم فیہما اصلا ولو رد سلام فإن تکلم استأنفہ، وفي الشامیۃ: قولہ أعاد ما قدم فقط، کما لو قدم الفلاح علی الصلاۃ یعیدہ فقط أي ولا یستأنف الأذان من أولہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶)
ویترتب بین کلمات الأذان والإقامۃ … وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ، وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص147