نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: زید کا مذکورہ معمول درست نہیں ہے۔ مسجد کی پہلی جماعت کے ساتھ ہی سب کو باجماعت نماز اداکرنی چاہئے، درس حدیث بعد نمازبھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں ایک مرتبہ جماعت ہو جانے کے بعد اس میں دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے۔ اور اس کا معمول بنالینا اور بھی زیادہ بُرا ہے۔
’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا دخلوا المسجد، وقد صلی فیہ، صلوافرادی‘‘(۱)
’’لأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثرالجماعۃ، وإذا علموا أنہا لا تفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ‘‘(۲)

(۱) ابن أبی شیبۃ، في مصنفہ ’’کتاب الصلاۃ: باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون۔ مؤسسۃ علوم القرآن جدید: ج۵، ص: ۵۵، رقم: ۷۱۸۸۔
أما لو کان لہ إمام ومؤذن معلوم فیکون تکرار الجماعۃ فیہ الخ۔ (غنیۃ المستملی المعروف بالحلبي الکبیری، ’’کتاب الصلاۃ، فصل فيأحکام المسجد‘‘: ج ، ص: ، دارالکتاب دیوبند)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰،زکریا دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 500

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اذان کے درمیان یاد آیاجائے، تو جو کلمہ چھوٹا ہے وہاں سے آخر تک کلمات اذان کہہ کر اذان کو پورا کرے اور اگر اذان پورا کرنے کے بعد یاد آجائے، تو غلطی درست کرکے آخر تک کلمات کا اعادہ کرے اور اگر کافی وقت گزرنے کے بعد یاد آئے، تو دوبارہ اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ عالمگیری میں ہے:
’’ویرتب بین کلمات الأذان والإقامۃ کما شرع کذا في محیط السرخسي وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض نحو أن یقول أشہد أن محمد رسول اللّٰہ، قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضیٰ علی ذلک جازت صلاتہ کذا في المحیط‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘ :الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ: ج ۱، ص: ۱۱۳، مکتبہ: فیصل، دیوبند۔
ویقول ندباً بعد فلاح أذان الفجر: الصلاۃ خیر من النوم مرتین قولہ: بعد فلاح الخ فیہ رد علی من یقول: إن محلہ بعد الأذان بتمامہ وہو اختیار الفضلی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۴، زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص142

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے دروان اگر ناک سے خون نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے تو اس کا وضو ٹوٹ گیا اور نماز فاسد ہوگئی اگر وہ تنہا نماز پڑھ رہا تھا تو اسے چاہیے کہ نماز توڑ کر دوبارہ وضوکر ے اور از سر نو نماز پڑھے اور اگر وہ امام یا مقتدی تھا، تو اگر جماعت ملنے کی امید ہے تو استیناف یعنی از سر نو پڑھنا افضل ہے اور اگر جماعت ملنے کی امید نہیںہے تو بناکرلے۔
’’من سبقہ حدث توضأ وبنی، کذا في الکنز، والرجل والمرأۃ في حق حکم البناء سواء، کذا في المحیط۔ ولایعتد بالتی أحدث فیہا، ولا بد من الإعادۃ، ہکذا في الہدایۃ والکافی۔ والاستئناف أفضل، کذا في المتون۔ وہذا في حق الکل عند بعض المشایخ، وقیل: ہذا في حق المنفرد قطعًا، وأما الإمام والمأموم إن کانا یجدان جماعۃً فالاستئناف أفضل أیضًا، وإن کانا لایجدان فالبناء أفضل؛ صیانۃً لفضیلۃ الجماعۃ، وصحح ہذا في الفتاوی، کذا في الجوہرۃ النیرۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس في الحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص99

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس طرح کی آواز آنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نماز سری ہی رہے گی۔(۱)
 (۱) وأدنی (الجہرإسماع غیرہ) وأدنی (المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ، فلو سمع رجل أو رجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل۔ خلاصۃ (ویجري ذلک) المذکور (في کل مایتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرہا۔
قولہ: وأدنی الجہر إسماع غیرہ الخ۔ اعلم أنہم اختلفوا في حد وجود القراء ۃ علی ثلاثۃ أقوال: فشرط الہندواني والفضلي لوجودہا: خروج صوت یصل إلی أذنہ، وبہ قال الشافعي: وشرط بشر المریسی وأحمد: خروج الصوت من الفم وإن لم یصل إلی أذنہ، لکن بشرط کونہ مسموعاً في الجملۃ، حتی لو أدنی أحد صماخہ إلی فیہ یسمع۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: مطلب في الکلام علی الجہر والمخافتۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۵۲، ۲۵۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قنوت نازلہ نماز فجر میں اس وقت پڑھی جاتی ہے جب عام مسلمان کسی مصیبت وپریشانی میں پڑ جائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے سخت ترین مصائب میں قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے اور حالات درست ہونے پر موقوف کردی جائے۔
’’عن عاصم عن أنس: إنما قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (أي الفجر) شہراً یدعو علی أناس قتلوا أناسا من أصحابہ یقال لہم: القراء‘‘(۲)
’’عن عاصم بن سلیمان قلنا لأنس: إن قوماً یزعمون أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یزل یقنت في الفجر، فقال: کذبوا۔ إنما قنت شہراً واحداً یدعو علی حي من أحیاء المشرکین‘‘(۱)
’’ووفق شیخنا بین روایۃ الطحاوي عن أئمتنا أولا وبین ما حکی عنہ شارح المنیۃ: بأن القنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا وإنما یشرع بلیۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر، واللّٰہ اعلم، ولو لا ذلک للزم الصحابۃ القائلین بالقنوت النازلۃ أن یقنتوا أبداً ولا یترکوہ یوما لعدم خلو المسلمین عن نازلۃ ما غالباً، لا سیما في زمن الخلفاء الأربعۃ‘‘(۲)

(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب القنوت في جمیع الصلاۃ إذا نزلت بالمسلمین نازلۃ‘‘ :ج۱، ص۲۳۷ رقم: ۶۷۷۔)
(۱)  ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۶، ص: ۹۶، رقم: ۱۷۱۱۔)
(۲) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص325

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) تہجد نوافل میں شمار ہے اس نماز کا پڑھنا افضل اور باعث ثواب ہے۔
(۲) سوائے فرض و وتر تراویح کے کسی دوسری نماز کی جماعت ثابت نہیں ہے۔
’’واعلم أن النفل بالجماعۃعلی سبیل التداعي مکروہ‘‘ (۱)
’’ولا یصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي، بأن یقتدي أربعۃ بواحد‘‘ (۲)

(۱) إبراھیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ص: ۴۳۲۔)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، قبیل باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص:۵۰۰، زکریا دیوبند۔)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص436

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1109/42-335

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس چھوٹی مسجد میں جمعہ کی نماز وقتی طور پر ایک مجبوری کے تحت شروع کی گئی ہے، مجبوری ختم ہونے کے بعد اس میں جمعہ  بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حکومتی ہدایات کے مطابق ایک جگہ پر زیادہ لوگوں کا جمع ہونا ممنوع تھا ، اس لئے چھوٹی مسجد بلکہ شہر اور قریہ کبیرہ کے کسی بھی مقام پر چند لوگ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اب جبکہ وہ مجبوری ختم ہوگئی تو جمعہ کی نماز میں جس قدر مجمع زیادہ ہو وہ مستحسن ہے۔ جامع مسجد میں لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوں یہی زیادہ بہتر ہے۔ اگر اب بھی چھوٹی مسجدوں اور بلڈنگوں اور پارکوں میں لوگ نماز جمعہ ادا کریں گے تو جمعہ کا مقصد جو اجتماعیت کا اظہار ہے وہ فوت ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان کی مساجد بھی پاک ہوتی ہیں اس لیے اگر کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو پڑھ سکتے ہیں، نماز بہر صورت ادا ہوجائے گی۔ تاہم غالی شیعہ کی امامت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلي: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر، وجعلت لی الأرض وفي روایۃ ولأمتی مسجدا وطہورا، فأیما رجل من أمتي أدرکتہ الصلاۃ فلیصل (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الیتیم‘‘: ج۱، ص: ۳۹۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص256

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض روایات میں ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کی جگہ ’’صلو في بیوتکم‘‘ پڑھنا ثابت ہے؛ لیکن حضرات محدثین کی رائے ہے کہ اس جملہ کا اضافہ اذان کے بعد کیا جائے اذان کے اندر نہیں۔ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ: اذان میں شامل نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ اذان کے بعد کہنا چاہیے تاکہ اذان اپنی ہیئت پر باقی رہے؛ اسی طرحانہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اذان کے درمیان اور اذان کے بعد دونوں طرح کی اجازت ہے۔(۱)
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ عربی نہیں جانتے ہیں؛ اس لیے ’’صلوا في بیوتکم‘‘ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر لوگوں کو مسئلہ معلوم نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے عام لوگوں میں بحث کا ایک موضوع بن جائے گا اور بسا اوقات انتشار کا سبب ہوگا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اذان مکمل دی جائے ا ور اذان کے بعد اردو میں یا مقامی زبان میں یہ کہہ دیا جائے کہ گھر پر نماز پڑھ لیں۔(۲)
عرب میں ان کی زبان عربی ہے اور مؤذن سرکاری ہوتے ہیں اس لیے وہاں بحث کا موضوع نہیں بنتا اور انتشار پیدا نہیں ہوتا ہے۔

(۱) وقولہ ثم یقول یشعر بأن القول بہ کان بعد الأذان، فإن قلت قد تقدم في باب الکلام في الأذان أنہ کان في أثناء الأذان، قلت یجوز کلا ہما وہو نص الشافعي أیضاً في الأم ولکن الأولی أن یقال: بعد الأذان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب ہل یتبع المؤذن فاہ وہہنا‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۶)(شاملۃ)
(۲) حدثنا یحيٰ عن عبید اللّٰہ بن عمر قال: حدثني نافع قال: أذن ابن عمر في لیلۃ باردۃ بضجنان ثم قال صلوا في رحالکم وأخبرنا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یأمر مؤذنًا یؤذن ثم یقول علی إثرہ ألا صلوا في الرحال في اللیلۃ الباردۃ أو المطیرۃ في السفر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۸، رقم: ۶۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص142

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو قے منہ بھر کے ہو جائے تو وہ قے نجاست غلیظہ ہے اگر امام صاحب کے کپڑوں پر بقدر درہم لگی ہے تو معاف ہے نماز خراب نہیں ہوئی اور اگر درہم کی مقدار سے زیادہ لگ گئی تھی تو نجاست دور کرکے دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی جسم دار نجاست میں درہم کے وزن کا اعتبار ہے اور پتلی ہو تو پھیلاؤ کا اعتبار ہوگا۔(۱)
(۱) وما ینقض الوضوء بخروجہ من بدن الإنسان، کالدم السائل والمني والمذي والودي والاستحاضۃ والحیض والنفاس والقيء ملء الفم ونجاستہا غلیظۃ بالاتفاق لعدم معارض دلیل نجاستہا عندہ، ولعدم مساغ الاجتہاد فی طہارتہا عندہما۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب الأنجاس و الطھارۃ عنہا‘‘  ص:۱۵۵)
و ینقضہ قیء طعام أو ماء وإن لم یتغیر أو علق ہو سوداء محترقۃ أو مرۃ أي صفراء والنقض بأحد ہذہ الأشیاء إذا ملأ الفم لتنجسہ بما في قعر المعدۃ وہو مذہب العشرۃ المبشرین بالجنۃ ولأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قاء فتوضا،ٔ قال الترمذي: وہو أصح شيء في الباب، ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یعاد الوضوء من سبع: من إقطار البول والدم السائل والقيء ومن دسعۃ تملأ الفم ونوم مضطجع وقہقھۃ الرجل في الصلاۃ وخروج الدم وہو أي حد ملء الفم ما لا یطبق علیہ الفم إلا بتکلف علی الأصح۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل ھو طائفۃ من المسائل‘‘: ص: ۸۸، ۸۹)
وقدر الدرہم وما دونہ من النجس المغلظ کالدم والبول والخمر وخرء الدجاجۃ وبول الحمار جازت الصلاۃ معہ وإن زاد لم تجز۔ (المرغیناني، الھدایۃ، ’’باب الأنجاس و تطھیرھا‘‘: ج۱، ص: ۷۴، مکتبہ ملت دیوبند

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص100