Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہوجائے گی لیکن ایسے خیال کو دفع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) یجب حضور القلب عند التحریمۃ، فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان، فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالی: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘ ج۲، ص: ۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ایک بڑی آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ تین چھوٹی آیات جیسے {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} کے بقدر ہو یعنی اس میں کم از کم تیس حروف ہوں، اگر کوئی ایسی ایک بڑی آیت بھی نہ پڑھ سکے تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔
’’وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳}، وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثاً قصاراً … وہي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفاً یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص222
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں بلاشبہ وہ اس کے مقتضی ہیں کہ دعائے قنوت پڑھی جائے عند الاحناف نماز فجر میں پڑھی جائے اور کسی نماز میں نہیں۔(۱)
(۱) وہو صریح فی أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹)
قال الإمام النووي: القنوت مسنون فی صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح: المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر أو ظاہر فی المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب القنوت‘‘: ج ۳، ص: ۹۵۸)
والقنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولولا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبداً ولا یترکوہ یوماً لعدم خلو المسلمین عن نازلۃ ما غالبا، لا سیما في زمن الخلفاء الأربعۃ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶،ادارۃ القرآن کراچی)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص330
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صبح صادق کے بعد صرف فجر کی دو سنت مؤکدہ پڑھ سکتے ہیں فجر کی نماز سے قبل اور نماز کے بعد نفل نماز مکروہ ہے۔
’’ویکرہ التنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من سنۃ قبل أداء الفرض لقولہ صلی اللہ جمیع الوقت مشغولاً بالفرض حکماً ولذا تخفف قرائۃ سنۃ الفجر‘‘(۱)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ص: ۱۰۱۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: راجح اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ فاسق اور بدعتی کے پیچھے جس کی بد اعتقادی حد کفر تک پہونچی ہوئی نہ ہو پڑھی ہوئی نماز دہرانا ضروری نہیں ہے اور اگر مجبوراً پڑھنا پڑھے، تو مکروہ بھی نہیں ہے۔ ’’ہذا إن وجد غیرہم وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲۔
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولایخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ، فإنہ لایؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال، بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا (أیضًا: ج۲، ص: ۲۹۹)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳)
قولہ فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ تبع فیہ الزیلعي، ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ، کرہ إمامۃ الفسق لغۃ خروج عن الاستقامۃ وہو معنی قولہم، خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد وشرعاً خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ قال القہستاني أي أو إصرار علی صغیرۃ (فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ الامامۃ) تبع فیہ الزیلعی ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أیضًا:)
وفي صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وفي الشامیۃ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص156
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام بغیر سنت پڑھے فرض نماز پڑھا سکتا ہے، نماز مکروہ نہ ہوگی، پھر ظہر فرض کے بعد دو رکعت سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں پڑھ لی جائیں۔ لیکن اس کی عادت بنانا اچھا نہیں ہے، حدیث شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوا کرتے تھے اور ظہر سے قبل چار سنتیں نہ پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے۔(۲)
(۲) بخلاف سنۃ الظہر وکذا الجمعۃ، فإنہ إن خاف فوت رکعۃ یترکہا ویقتدی ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ أي الظہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج۲، ص: ۵۱۰)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاہا بعدہا‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في الرکعتین قبل الظہر‘‘: ج۱، ص: ۵۷، رقم: ۴۲۶، نعیمیہ دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص362
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ کوئی خلاف شرع بات نہیں ہے؛ کیوں کہ نابالغ، ہوشیار اذان کو اچھی طرح صحیح طریقہ پر پڑھنے والے بچے کی اذان درست اور جائز ہے۔(۱)
(۱) أذان الصبي العاقل صحیح من غیر کراہۃ في ظاہر الروایۃ، ولکن أذان البالغ أفضل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
قولہ وقیل الذي یعقل أیضاً: ظاہر الروایۃ صحتہ بدون کراہۃ لأنہ من أہل الجماعۃ کما في السراج والبحر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)
ویجوز بلا کراہۃ أذان صبي مراہق وعبد۔ (الحصکفي، الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في أذان الجوق‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص148
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تشہد میں اثبات کے وقت انگلی اٹھانے کے لیے جو انگلی کا حلقہ بنتا ہے آخر تک اس کا باقی رکھنا افضل ہے اس کو کھولنے کا تذکرہ ہمیں کتب فقہ میں نہیں ملتا؛ لیکن اگرکوئی حلقہ کھول دے تو اس کو مطعون نہ کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ یہ صرف افضلیت کی بات ہے۔(۱)
(۱) وعن أبن عمر قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا جلس في الصلاۃ وضع یدیہ علی رکبتیہ ورفع أصبعہ الیمنی التي تلی الإبہام، فدعا بہا ویدہ الیسری علی رکبتیہ باسطہا علیہا، وفي لفطٍ: کان إذا جلس في الصلاۃ وضع کفہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ کلہا وأشار بأصبعہ التي تلي الإبہام وضع کفہ الیسری علی فخذہ الیسری، رواہما أحمد، ومسلم، والنسائي۔ (محمد بن علي الشوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإشارۃ بالسبابۃ وصفۃ وضع الیدین‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸، رقم: ۷۷۹)(شاملہ)
وفي المحیط إنہا سنۃ یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہو قول أبي حنیفۃؒ ومحمدؒ وکثرت بہ الآثار والأخبار فالعمل بہ أولیٰ، فہو صریح في أن المفتي بہ ہو الإشارۃ بالمسبحۃ مع عقد الأصابع علی الکیفیہ المذکورۃ لا مع بسطہا فإنہ لا إشارہ مع البسط عندنا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 404
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی لیکن امام کو اس کی عادت نہ بنانی چاہئے، لفظ صحیح ادا کرنا چاہئے صحیح لفظ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ہے۔(۲)
(۲) الأفضل فیہما بعدہ قائلاً السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ ہو السنۃ۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار،’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘ج ۲، ص: ۲۴۰، ۲۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: دوسری رکعت میں پڑھی گئیں دو آیتیں اگر تین چھوٹی آیتوں کے برابر تھیں تو نماز درست ہوگئی ورنہ نہیں، تاہم امام صاحب کو اتنی چھوٹی آیات پر اکتفا نہ کرنا چاہئے کہ مقتدیوں کو شبہ ہونے لگے۔
’’وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصاراً، ذکرہ الحلبي أي في شرحہ الکبیر علی المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصارًا أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص223