نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) اگر امام کی آواز مقتدیوں تک نہ پہنچ سکتی ہو، تو مکبر مقرر کرنا مستحب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں جب آپ کی آواز کمزور ہوگئی تھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی آواز کو لوگوں تک پہنچایا تھااس لیے یہ عمل بہتر ہے۔
(۲) اگر خود بخود امام کی آواز پہنچ رہی ہو، تو وہاں مکبر مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(۳) جو شخص نماز میں ہواور اس نے نماز میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ تکبیر کی نیت کی ہو اسی کو مکبر ہونا چاہیے خارجِ نماز کوئی شخص مکبر نہیں بن سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص صرف بات پہوچانے کی نیت کرے خود اپنی تکبیر تحریمہ کی نیت نہ کرے تو نہ اس کی نماز ہوگی اور نہ ہی اس کی تکبیر کی اقتدا کرنے والوں کی نماز ہوگی۔
’’إعلم أن الإمام إذا کبر للافتتاح فلابد لصحۃ صلاتہ من قصدہ بالتکبیر الإحرام، و إلا فلا صلاۃ لہ إذا قصد الإعلام فقط، فإن جمع بین الأمرین بأن قصد الإحرام و الإعلان للإعلام فذلک ہو المطلوب منہ شرعا، وکذلک المبلغ إذا قصد التبلیغ فقط خالیاعن قصد الإحرام فلا صلاۃ لہ، ولا لمن یصلي بتبلیغہ في ہذہ الحالۃ لأنہ اقتدی بمن لم یدخل في الصلاۃ، فإن قصد بتکبیرہ الإحرام مع التبلیغ للمصلین فذلک ہو المقصود منہ شرعا، کذا في فتاویٰ الشیخ محمد بن محمد الغزي‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ  خلف الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، مکتبہ: زکریا دیوبند
لکن إذا کان بقرب الإمام یسمع التکبیرات منہ فأما إذا کان یبعد منہ یسمع من المکبّرین یأتي بجمیع ما یسمع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)
ولقولہ … یقتدی بہ أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ وقال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي بالناس وکان أبو بکر مبلغاً۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند
)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  405

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتوں کے پڑھنے سے نماز درست ہوجاتی ہے صورت مسئولہ میں دو آیتیں اگر چھوٹی تین آیتوں کے برابر تھیں تو نماز درست ہوگئی ورنہ نہیں، تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورہ عصر ، اخلاص ، کوثر وغیرہ کے برابر ہو یاکم از کم درج ذیل آیتوں کے برابر ہوجائے۔ {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} اگر آپ دوسری رکعت میں پڑھی گئی دونوں آیتیں لکھ دیں تو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ یہ دو آیتیں چھوٹی تین آیتوں کے برابر ہیں یا نہیں، نیز امام کو اتنی کم قرأت نہیں کرنی چاہئے کہ شبہ ہونے لگے کہ نماز ہوئی یا نہیں۔(۱)
(۱) وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصاراً۔ ذکرہ الحلبي أي في شرحہ الکبیر علی المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصاراً أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ المذکورۃ: یعنی کراھۃ التحریم (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام صاحب کو یہ عادت بنا لینا خلاف سنت ہے اور مکروہ ہے اگر کوئی عذر نہ ہو تو نماز فجر میں سورہ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک سورتوں میں سے ایک ایک سورت یا اس کے بقدر ایک ایک رکعت میں پڑھے یہ ہی مسنون اور مستحب ہے۔ البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بنا پر قرآت مختصر کرنی پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر … ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات، قال الطحاوي و الإسبیجابي: وہذا إذا رآہ حتماً واجباً بحیث لایجوز غیرہ، أو رأي قراء ۃ غیرہ مکروہۃ، وأما إذا قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا کراہۃ في ذلک ولکن یشترط أن یقرأ غیرہ أحیانا لئلا یظن الجاہل أن غیرہ لایجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج۱، ص: ۱۳۵، زکریا دیوبند)
ومشایخنا استحسنوا قراء ۃ المفصل لیستمع القوم ، و لیتعلموا … اختار في البدائع أنہ لیس في القراء ۃ تقدیر یعني، بل یختلف باختلاف الوقت، وحال الإمام والقوم، کما في البحر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۶۳، شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلیہ ونوازل کی حالت میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اصل حکم قائم ہے۔ فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رفع یدین افضل نہیں ہے۔
’’والذي یظہر لي أن المقتدي یتابع إمامہ إلا إذا جہر فیؤمن وإنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ‘‘(۱)
اس کے لیے ارسال تو ہے ہی؛ لیکن رفع یدین کے بارے میں بدائع الصنائع جلد: ۳، ص: ۳۷۲ میں ہے۔
’’روي عن علي رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان إذا أراد أن یقنت کبر وقنت وأما رفع الیدین، فلقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا ترفع الیدین إلا في سبعۃ مواطن وذکر من جملتہا القنوت‘‘(۲)
لیکن شامی میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے۔
’’لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن: عند افتتاح الصلاۃ وفي العیدین والقنوت في الوتر وعند استلام الحجر الخ‘‘(۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع یدین قنوت وتر کے ساتھ ہے قنوت نازلہ کے وقت نہیں؛ لیکن عمومی جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت نازلہ سے قبل بعد الرکوع رفع یدین ہے۔
بظاہر دونوں صورتیں جائز ہیں، فرق اولیت اور افضلیت کا ہوگا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں نزاع اور بحث نہ ہونی چاہیے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، وقت الوتر و صفۃ القرائۃ فیہ‘‘: ج ۱، ص:  ۶۱۲۔)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، حکم رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۵۔)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص332

 

نماز / جمعہ و عیدین

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔شرعی حدود میں رہ کر تعویذ کرنا جائز ہے،اور ایسے شخص کی امامت درست ہے۔ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا گناہ کبیرہ ہے، اور ایسے شخص کی امامت مکرہ تحریمی ہے۔ مذکورہ صورت میں تحقیق سے جو ثابت ہو اسی کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر امام صاحب ایسا عمل کرتے ہیں تو وہ شخص گناہ گار ہے قابل امامت نہیں ہے۔(۲)

(۲) (قولہ وفاسق) من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔۔۔۔، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع قولہ نال فضل الجماعۃ) أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعا إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: مطلب في إمامۃ الأمرد،: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص158

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کی مسجد کا حق زیادہ ہے اس لیے اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسرے محلہ کی مسجد میں نہ جانا چاہئے۔ شامی میں خانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر اپنے محلہ کی مسجد میں تنہا بھی نماز پڑھے تو اکیلا اذان کہہ کر نماز پڑھے اور اس کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں نہ جائے۔
’’بل في الخانیۃ لو لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یذہب إلیہ ویؤذن فیہ ویصلي ولو کان وحدہ لأن لہ حقا علیہ فیؤدیہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: مطلب في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۳، ط: زکریا۔
رجل یصلي في الجامع لکثرۃ الجمع ولا یصلي في مسجد حیہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل: وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ج۱، ص: ۲۲۸، المکتبۃ الرشیدیہ، کوئٹہ)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سننے کے بعد ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ دعا پڑھے اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی، امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث نقل کی ہے:
’’عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: من قال حین یسمع النداء: ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ حلت لہ شفاعتي یوم القیامۃ‘‘(۱)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان سننے کے بعد مذکورہ دعا پڑھی اُس کے لیے روزِ قیامت میری شفاعت لازم ہو گئی۔
اذان کے بعد دعا قبول ہوتی ہے دعا کی قبولیت میں بنیادی دخل تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعاکرنے والے کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ خاص احوال واوقات ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے، قبولیت ِدعاء کے خاص اوقات میں سے اذان کے دوران، اذان کے بعد اور اذان واقامت کے درمیان کاوقت بھی شامل ہے، ان اوقات میں بھی دعا قبول ہوتی ہے اور یہ روایات سے ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت:قال رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم:
ثلاث ساعات للمرأ المسلم مادعافیھن إلا استجیب لہ مالم یسأل قطیعۃ رحم، أو ماثما، قالت: فقلت: یارسول اللّٰہ! أي ساعۃ؟ قال حین یؤذن المؤذن بالصلوۃ حتی یسکت، وحین یلتقی الصفان حتی یحکم اللّٰہ بینھما، وحین ینزل المطر حتی یسکن، قالت، قلت: کیف اقول یا رسول اللّٰہ! حین اسمع المؤذن؟ علمني مما علمک اللّٰہ، واجھد، قال: تقولین کما کبراللّٰہ یقول اللّٰہ أکبر … ثم صلي علي وسلمي، ثم اذکري حاجتک‘‘(۲)
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’أقول ذلک لشمول الرحمۃ الإلٰھیۃ  ووجود الانقیاد من الداعي‘‘(۳)
یعنی اذان کے وقت مؤذن کی طرف سے کامل اتباع کا اظہار ہوتاہے اور رحمت الٰہی کا فیضان ہوتاہے، اس وجہ سے اس وقت دعا خصوصیت سے قبول کی جاتی ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، رقم: ۵۸۹، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن: باب قولہ: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۴۴۴۲۔
(۲) الأصفہاني،أبو نعیم ، حلیۃ الأولیاء، علی بن بکار: ج ۹، ص: ۳۲۱۔(شاملۃ)
(۳)  الدہلوي،الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:  فصل في المساجد، ج ۱، ص: ۴۰۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص149

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں سجدوں کے درمیان دعاء پڑھنا منقول ہے؛ البتہ باجماعت فرض نماز میں تخفیف کا حکم ہے؛ اس لیے جماعت کی نماز میں مناسب نہیں، ہاں نوافل میں یا تنہا فرض نماز پڑھنے کی صورت میں اس کی اجازت ہے، اسی طرح اگر مقتدی ایسے ہوں جن کو اس سے گرانی نہ ہو، تو پھر باجماعت نمازوں میں بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔(۲)
(۲) وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان  یقول بین السجدتین ’’اللہم اغفرلي وارحمني وعافني واہدني وارزقني۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الدعاء بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۸۵۰)
ہکذا أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما یقول بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۲۸۴، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  406

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حادثات ومصائب کے وقت قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
’’إذا وقعت نازلۃ قنت الإمام في الصلاۃ الجھریۃ، لکن في الأشباہ عن الغابۃ: قنت في صلاۃ الفجر و یؤیدہ ما في شرح المنیۃ …قال الحافظ أبو الجعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في الصلاۃ الفجر من غیر بلیۃ‘‘(۱)
مذکورہ عبارت سے یہ بھی واضح ہوا کہ بغیر مصیبت وحادثات کے پڑھنے کی اجازت نہیں قاریوں کی شہادت کے بعد رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک پڑھی۔
اس کے بعد چوں کہ کوئی حادثہ فاجعہ ایسا پیش نہیں آیا، تو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ بن کذاب مدعی نبوت سے جنگ کی اور اس کی وجہ سے پیش آمدہ فتنہ کے وقت دعاء قنوت نماز فجر میں پڑھی، ایسے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پڑھنا ثابت ہے، اسی طرح موجودہ وقت میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور فتنوں کا سامنا ہے، ایسے وقت میں نماز فجر میں حالات کے سازگار ہونے تک دعاء قنوت پڑھنا بلا شبہ جائز اور درست ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔)
(۲) أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب؛ علی رعل وذکوان، وعصیۃ وبنی لحیان، زاد خلیفۃ : …… أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان و بئر معونۃ۔ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۹۰)
النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند)
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر وفیہ التصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظہر الحموي أنہ قبلہ والأظہر ما قلناہ، واللہ أعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص334