Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز فاسد نہیں ہوئی، نماز صحیح اداء ہوگئی نماز میں تسبیحات بھی ہیں قرآن بھی ہے تکبیرات بھی ہیں التحیات بھی الی آخرہ ہے اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھی ہے اور دعاء بھی ہے والدین کے لیے استغفار اور جمیع مؤمنین ومؤمنات کے لیے دعاء بھی ہے؛ البتہ فجر کی نماز میں دعاء قنوت کا پڑھنا رسول اکرم علیہ الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے یہ بھی دعا پڑھی ’’اللہم إنا نستعینک سے یا اللہم إہدنا في من ہدیت‘‘ سے شروع ہو۔
(بدائع الصنائع) میں ہے: ’’ و أما دعاء القنوت فلیس في القنوت دعاء مؤقت … لأنہ روي عن الصحابۃ أدعیۃ مختلفہ في حال القنوت … ولأنہ لا توقیت في القرآن لشيء من الصلاۃ ففي دعاء القنوت أولیٰ‘‘(۱) اور یہ دعامصائب ونوازل میں پڑھی جاتی ہے اور اس کا اصل حکم باقی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء قنوت میں قبیلہ مضر، رعل، اور ذکوان کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی ہے ’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یدعوا علی قبائل‘‘ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرامؓ کی جماعت سے منقول ہے کہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی:
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہراً یدعوا في الصبح علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان‘‘(۱)
(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في القنوت‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۴، زکریا دیوبند۔)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع، و رعل الخ‘‘: ج ۲، ص:۵۸۵، رقم: ۴۰۹۰۔)
سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع الرکعۃ الآخرۃ من الفجر یقول: اللہم العن فلانا وفلانا وفلانا بعد ما یقول: سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ربنا ولک الحمد۔ فأنزل اللّٰہ {لیس لک من الأمر شیء} إلی قولہ {فإنہم ظالمون}۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المغازي‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۴۹)
أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیۃ وبنی لحیان۔ زاد خلیفۃ: حدثنا یزید بن زریع، حدثنا سعید، عن قتادۃ، حدثنا أنس أن أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب غزوۃ الرجیع، ورعل وذکوان،و بئر معونۃ۔ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۹۰)
غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹)
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر۔ وفیہ التصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح، بأنہ بعدہ؛ واستظہر الحموي أنہ قبلہ، والأظہر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص331
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احکام شریعت (خواہ تحریری ہوں یا زبانی) کو حقیر وذلیل سمجھنا اور ان کے ساتھ تذلیل وتحقیر کا معاملہ کرنا سخت ترین گناہ ہے اور ایسا کرنے والے شخص کے لیے کفر کا اندیشہ ہے ایسی باتوں سے مسلمانوں کو پرہیز کرنا لازم ہے، پس مذکورہ صورت میں شریعت کے حکم کو نہ ماننا اور اس کو پیروں تلے روندنا سخت گناہ کا باعث ہے اس شخص کو چاہئے کہ خدا سے توبہ اور استغفار کرے اگر امام بھی ایسا کرنے میں شریک رہا تو وہ بھی سخت گنہگار ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، کسی دوسرے نیک صالح دیندار پرہیزگار شخص کو امام بنانا چاہئے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً، ولایخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ، فإنہ لایؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال، بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریماً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۳)
قولہ فتجب إہانتہ شرعاً یعظم بتقدیمہ للإمامۃ تبع الزیلعي، ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ، أیضاً:
الفاسق والفسق لغۃ خروج عن الاستقامۃ وہو معنی قولہم خروج الشيء …عن الشيء علی وجہ الفساد وشرعاً خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ، قال القہستاني أي أو إصرار علی صغیرۃ (فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ الإمامۃ) تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أیضاً:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص157
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اس شخص کو جماعت میں شامل نہ ہونا چاہئے چوں کہ وہ شخص اپنی فرض نماز ادا کر چکاہے، اب جماعت کے ساتھ شامل ہونے سے اس کی نماز نفل ہوگی جب کہ فجر و عصر میں ادائے فرض کے بعد طلوع آفتاب وغروب آفتاب تک نوافل کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔(۲)
(۲) وعن ابن عمر کان یقول من صلی المغرب أو الصبح ثم أدرکہا مع الإمام فلا یعد لہما، وعن جابر قال: کان معاذ یصلی مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم العشاء ثم یرجع إلی قومہ فیصلي بہم العشاء وہي لہ نافلۃ‘‘ (مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب من صلی صلاۃ مرتین، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۰۳، قم: ۱۱۵۱، یاسر ندیم دیوبند)
وکرہ نفل بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر، لایکرہ قضاء فائتۃ وکذا بعد طلوع فجر سوی سنتہ، الخ … قال الشامي، قولہ کرہ: الکراہیۃ ہنا تحریمیۃ کما صرح بہ في الحلیۃ، وقولہ بعد صلاۃ فجر وعصر أي إلی ماقبل الطلوع والتغیر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۷، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص363
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ریکارڈ شدہ اذان کو سنا دینے سے اذان کی سنت ادا نہیں ہوگی؛ اس لیے ایسا کرنا کافی نہیں ہے۔
’’وذکر في البدائع أیضاً أن أذان الصبي الذي لا یعقل لا یجزی ویعاد: لأن ما یصدر لا عن عقل لا یعتد بہ کصوت الطیور … ہو أن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاۃ ثم صار من شعار الإسلام في کل بلدۃ أو ناحیۃ من البلاد الواسعۃ علی ما مر، فمن حیث الإعلام بدخول الوقت وقبول قولہ لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في أذان الجوق‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، زکریا، دیوبند۔
وأذان الصبي الذي لا یعقل لا یجوز ویعاد، وکذا المجنون، ہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص148
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) اگر امام کی آواز مقتدیوں تک نہ پہنچ سکتی ہو، تو مکبر مقرر کرنا مستحب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں جب آپ کی آواز کمزور ہوگئی تھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی آواز کو لوگوں تک پہنچایا تھااس لیے یہ عمل بہتر ہے۔
(۲) اگر خود بخود امام کی آواز پہنچ رہی ہو، تو وہاں مکبر مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(۳) جو شخص نماز میں ہواور اس نے نماز میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ تکبیر کی نیت کی ہو اسی کو مکبر ہونا چاہیے خارجِ نماز کوئی شخص مکبر نہیں بن سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص صرف بات پہوچانے کی نیت کرے خود اپنی تکبیر تحریمہ کی نیت نہ کرے تو نہ اس کی نماز ہوگی اور نہ ہی اس کی تکبیر کی اقتدا کرنے والوں کی نماز ہوگی۔
’’إعلم أن الإمام إذا کبر للافتتاح فلابد لصحۃ صلاتہ من قصدہ بالتکبیر الإحرام، و إلا فلا صلاۃ لہ إذا قصد الإعلام فقط، فإن جمع بین الأمرین بأن قصد الإحرام و الإعلان للإعلام فذلک ہو المطلوب منہ شرعا، وکذلک المبلغ إذا قصد التبلیغ فقط خالیاعن قصد الإحرام فلا صلاۃ لہ، ولا لمن یصلي بتبلیغہ في ہذہ الحالۃ لأنہ اقتدی بمن لم یدخل في الصلاۃ، فإن قصد بتکبیرہ الإحرام مع التبلیغ للمصلین فذلک ہو المقصود منہ شرعا، کذا في فتاویٰ الشیخ محمد بن محمد الغزي‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، مکتبہ: زکریا دیوبند
لکن إذا کان بقرب الإمام یسمع التکبیرات منہ فأما إذا کان یبعد منہ یسمع من المکبّرین یأتي بجمیع ما یسمع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)
ولقولہ … یقتدی بہ أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ وقال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي بالناس وکان أبو بکر مبلغاً۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 405
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتوں کے پڑھنے سے نماز درست ہوجاتی ہے صورت مسئولہ میں دو آیتیں اگر چھوٹی تین آیتوں کے برابر تھیں تو نماز درست ہوگئی ورنہ نہیں، تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورہ عصر ، اخلاص ، کوثر وغیرہ کے برابر ہو یاکم از کم درج ذیل آیتوں کے برابر ہوجائے۔ {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} اگر آپ دوسری رکعت میں پڑھی گئی دونوں آیتیں لکھ دیں تو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ یہ دو آیتیں چھوٹی تین آیتوں کے برابر ہیں یا نہیں، نیز امام کو اتنی کم قرأت نہیں کرنی چاہئے کہ شبہ ہونے لگے کہ نماز ہوئی یا نہیں۔(۱)
(۱) وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثا قصاراً۔ ذکرہ الحلبي أي في شرحہ الکبیر علی المنیۃ۔ وعبارتہ: وإن قرأ ثلاث آیات قصاراً أو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاث آیات قصار خرج عن حد الکراہۃ المذکورۃ: یعنی کراھۃ التحریم (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص105
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: امام صاحب کو یہ عادت بنا لینا خلاف سنت ہے اور مکروہ ہے اگر کوئی عذر نہ ہو تو نماز فجر میں سورہ حجرات سے لے کر سورہ بروج تک سورتوں میں سے ایک ایک سورت یا اس کے بقدر ایک ایک رکعت میں پڑھے یہ ہی مسنون اور مستحب ہے۔ البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بنا پر قرآت مختصر کرنی پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر … ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات، قال الطحاوي و الإسبیجابي: وہذا إذا رآہ حتماً واجباً بحیث لایجوز غیرہ، أو رأي قراء ۃ غیرہ مکروہۃ، وأما إذا قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا کراہۃ في ذلک ولکن یشترط أن یقرأ غیرہ أحیانا لئلا یظن الجاہل أن غیرہ لایجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج۱، ص: ۱۳۵، زکریا دیوبند)
ومشایخنا استحسنوا قراء ۃ المفصل لیستمع القوم ، و لیتعلموا … اختار في البدائع أنہ لیس في القراء ۃ تقدیر یعني، بل یختلف باختلاف الوقت، وحال الإمام والقوم، کما في البحر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۶۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلیہ ونوازل کی حالت میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اصل حکم قائم ہے۔ فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رفع یدین افضل نہیں ہے۔
’’والذي یظہر لي أن المقتدي یتابع إمامہ إلا إذا جہر فیؤمن وإنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ‘‘(۱)
اس کے لیے ارسال تو ہے ہی؛ لیکن رفع یدین کے بارے میں بدائع الصنائع جلد: ۳، ص: ۳۷۲ میں ہے۔
’’روي عن علي رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان إذا أراد أن یقنت کبر وقنت وأما رفع الیدین، فلقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا ترفع الیدین إلا في سبعۃ مواطن وذکر من جملتہا القنوت‘‘(۲)
لیکن شامی میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے۔
’’لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن: عند افتتاح الصلاۃ وفي العیدین والقنوت في الوتر وعند استلام الحجر الخ‘‘(۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع یدین قنوت وتر کے ساتھ ہے قنوت نازلہ کے وقت نہیں؛ لیکن عمومی جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت نازلہ سے قبل بعد الرکوع رفع یدین ہے۔
بظاہر دونوں صورتیں جائز ہیں، فرق اولیت اور افضلیت کا ہوگا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں نزاع اور بحث نہ ہونی چاہیے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، وقت الوتر و صفۃ القرائۃ فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۲۔)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، حکم رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۵۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص332
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔شرعی حدود میں رہ کر تعویذ کرنا جائز ہے،اور ایسے شخص کی امامت درست ہے۔ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا گناہ کبیرہ ہے، اور ایسے شخص کی امامت مکرہ تحریمی ہے۔ مذکورہ صورت میں تحقیق سے جو ثابت ہو اسی کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر امام صاحب ایسا عمل کرتے ہیں تو وہ شخص گناہ گار ہے قابل امامت نہیں ہے۔(۲)
(۲) (قولہ وفاسق) من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔۔۔۔، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع قولہ نال فضل الجماعۃ) أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعا إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: مطلب في إمامۃ الأمرد،: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص158