نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر جلدی کی وجہ سے ننگے سر یا بے وضو اذان پڑھ دی گئی تو وہ اذان ادا ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے اور اگر کوئی شخص عادت ہی بنالے کہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا رہے، تو یہ کراہت سے خالی نہیں۔
’’قال: أبوہریرۃ لا ینادي بالصلاۃ إلا متوضئ‘‘ (۲)
’’واختلف أہل العلم فی الأذان علیٰ غیر وضوء فکرہہ بعض أہل العلم وبہ یقول الشافعي وإسحاق، ورخص في ذلک بعض أہل العلم وبہ یقول: سفیان وابن المبارک وأحمد۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب‘‘ (۱)

 

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء في کراہیۃ الأذان بغیر وضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۱، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص145

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی نمازی عمل کثیر کے ذریعہ سانپ یا بچھو کو قتل کردے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے تفصیلات و دلائل کے لیے (امدادالفتاویٰ ج۱، ص ۴۴۱) کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۱) لکن صحح الحلبي الفساد حیث قال تبعاً لابن الہمام: فالحق فیما یظہر ہوالفساد، والأمر بالقتل لایستلزم صحۃ الصلاۃ مع وجودہ کما في صلاۃ الخوف، بل الأمر في مثلہ لإباحۃ مباشرتہ وإن کان مفسدا للصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۴۲۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ترتیب کے خلاف کرنا مکروہ ہے، لیکن  نماز صحیح ہوگئی، ترتیب اگرچہ واجب ہے، لیکن اس کے ترک کرنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں۔(۱)
(۱) قالو: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوسا أثم لکن لایلزمہ سجود السہو، لأن ذلک من واجبات القراء ۃ لامن واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸)
وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ، وفي الرکعۃ الأخریٰ أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص220

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حوادثات اور فتنوں کے وقت صبح کی نماز میں دعاء قنوت احناف کے یہاں بھی جائز ہے۔
’’لما رواہ الإمام أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقنت في الفجر قط إلا شہراً واحدا لم یر قبل ذلک ولا بعدہ وإنما قنت فی ذلک الشہر یدعوا علی أناس من المشرکین وکذا في الصحیحین أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قنت شہرا یدعوا علی قوم من العرب ثم ترکہ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۴۴۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص328

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض فقہاء کہتے ہیں کہ سنت وفرض کے درمیان دنیاوی باتیں کرنے سے سنت باطل ہوجاتی ہیں مگر اقویٰ یہ ہے کہ سنت کا بطلان نہیں ہوتا البتہ ثواب کم ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) یکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر اللّٰہم أنت السلام الخ۔ قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد، واختارہ  الکمال۔ قال الحلبي: إن أرید بالکراھۃ التنزیھیۃ ارتفع الخلاف۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶،۲۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص438

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2469/45-3743

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عمل کثیر کی تشریح میں متعدد اقوال ہیں، البتہ ان میں مفتی بہ  قول یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو یہ غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے۔عمل کثیر مفسد صلوۃ ہے، ایسی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔  

صورت مسئولہ میں سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں سے  شلوارکو ہلکا سا اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے سجدہ میں جانا عمل قلیل ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بلاضرورت عمل قلیل کی عادت بنا لینا بھی مکروہ ہے، اس لئے  اس سے احتراز کرنا چاہئے اور پائچے کو نماز شروع کرنے  سے پہلےہی  درست کرلینا چاہئے۔

ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا۔ وفیہ خمسة أقوال: أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید فی فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل (شامی: ۲/۳۸۵، ط: زکریا دیوبند)۔ وکرہ عبثہ بثوبہ (شامی: ۲/۴۰۶۔ مکروہات الصلوة، ط: زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوکان، مکان میں محلہ کی مسجد کی اذان کا فی ہے، جنگل میں جہاں اذان کی اواز نہیں پہونچتی با جماعت نماز پڑھتے وقت اذان مسنون ہے۔
’’بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر، أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ … قولہ لہا مسجد أي فیہ أذان وإقامۃ … قولہ إذا أذان الحي یکفیہ لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ لأن المؤذن نائب أہل المصر کلہم‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا دیوبند۔…ولو صلی في بیتہ في قریۃ إن کان في القریۃ مسجد فیہ أذان وإقامۃ فحکمہ حکم من صلی في بیتہ في المصر وإن لم یکن فیہا مسجد فحکمہ حکم المسافر … وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفي بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریباً و إلا فلا۔ وحد القریب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ وإن أذنوا کان أولیٰ … وإن صلوا بجماعۃ في المفازۃ وترکوا الأذان لا یکرہ، وإن ترکوا الإقامۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص146

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس خیال آجانا مفسد نماز نہیں۔(۲)
(۲) یجب حضور القلب عند التحریمۃ؛ فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالي: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ابتداء میں امام کے پیچھے قرات رہی ہے بعد میں منسوخ کردی گئی، نسخ کی روایات قوی بھی ہیں اور عملی بھی ہیں، مثلاً ترمذی اور موطاء امام مالک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت آرہی ہے کہ آپ نے بعد نماز کہا کہ تم میں سے کس نے ابھی قرآن پڑھا ہے، ایک شخص نے ہاں عرض کی، آپ نے فرمایا میں بھی کہتا تھا مجھ سے قرآن چھینا جاتا ہے۔
راوی کہتے ہیں اس کے بعد لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراء ۃ جہری نمازوں میں چھوڑ دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصن رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے سند کے لحاظ سے یہ روایت حسن صحیح ہے۔ پھر مسلم میں یہ روایت آرہی ہے کہ جب امام قراء ۃ کرے تو تم خاموش رہواور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت آرہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام قراء ۃ پڑھے تو تم خاموشی کے ساتھ سنو! حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے کہ جب کوئی شخص امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراء ۃ اس شخص کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔ احناف کا عمل ان حدیثوں پر ہے۔(۱)
(۱) عن جابر بن عبداللّٰہ (رضي اللّٰہ عنہ) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا۔ باب: إذا قرأ الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم ۸۵۰)
عن حطان بن عبداللّٰہ الرقاشي، قال: صلیت مع أبي موسی الأشعري صلاۃ… فقال: أبو موسیٰ: أما تعلمون کیف تقولون في صلاتکم إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطبنا، فبین لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا، فقال: إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم، ثم لیؤمکم أحدکم، فإذا کبر فکبروا الخ۔ وفي حدیث قتادۃ من الزیادۃ وإذا قرأ فانصتوا الحدیث۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب التشہد في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴، رقم ۴۰۴)
والمؤتم لایقرأ مطلقاً ولا الفاتحۃ… فإن قرأ کرہ تحریما، وتصح في الأصح الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص221

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تاخیر رکن کی بناء پر سجدہ سہو واجب تھا اور وہ نہیں کیا گیا تو ترک واجب لازم آیا پس ترک واجب کی بناء پر اعادہ واجب ہوگا۔(۲)

(۲)أوإعادتہا بترکہ عمدا أي ما دام الوقت باقیا وکذا في السہو إن لم یسجد لہ وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقا آثما وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم … والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی، لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۷، ۲۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص329