نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے ’’إنما الاعمال بالنیات‘‘ اس ثواب کا مدار نیت پر ہے۔ اگر خالص اللہ کے لیے کوئی شخص پڑھے گا تو ثواب بھی اسی قدر ملے گا اور حضرت ابن عباسؓ کو جو تسبیح سکھائی تھی وہ صرف ان کی خصوصیت نہیں تھی۔(۱)

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماہ ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل بل عشر خصال، إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذلک أولہ وآخرہ، قدیمہ وحدیثہ، خطأہ وعمدہ، صغیرہ وکبیرہ، سرہ وعلانیتہ، أن تصلی أربع رکعات۔ تقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب۔ الخ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ التسبیح، ج۱، ص۱۸۴، رقم ۱۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No 194344-1858

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز میں قیام فرض ہے، قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کرنماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور نماز میں جب قیام پر قدرت ہو جائے قیام کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ اس لئے اگربحالت مجبوری  بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کوئی  شخص بھول کر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد نہ پڑھ سکا، اور ابھی سورہ فاتحہ شروع نہیں  کی، تو اب واپس آکر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد پڑھنا درست ہے۔   اور اگر سورہ فاتحہ شروع کردی تو اس کو چاہیے کہ نماز آگے پڑھے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے، اس سے نماز درست ہوجائے گی۔ اور اگر قراءت شروع کرنے کے بعد واپس قعدہ میں آگیا ، تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

من فرائضہا القیام في فرض لقادر علیہ وعلی السجود“ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئا علی عصا أو حائط قام لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیة أو تکبیرة علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل“ (در مختار مع الشامی زکریا: ۲/۲۶۷) وإن لم یکن کذلک (أی بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوع مشقة لا یجوز ترک القیام“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷) وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷)

سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح  (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (الدر المختار مع رد المحتار(2/ 83،  کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اذان کا اعادہ کرلیا جائے، تو اچھا ہے؛ لیکن ضروری نہیں۔ اگر اعادہ نہ کیا گیا، تو مقصد اذان پورا ہوجائے گا اس لیے کوئی حرج نہیں۔(۱)

(۱) ولو قدم فیہما مؤخراً أعاد ما قدم فقط ولا یتکلم فیہما اصلا ولو رد سلام فإن تکلم استأنفہ، وفي الشامیۃ: قولہ أعاد ما قدم فقط، کما لو قدم الفلاح علی الصلاۃ یعیدہ فقط أي ولا یستأنف الأذان من أولہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶)
ویترتب بین کلمات الأذان والإقامۃ … وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ، وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص147

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہوجائے گی لیکن ایسے خیال کو دفع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) یجب حضور القلب عند التحریمۃ، فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان، فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالی: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘ ج۲، ص: ۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص104

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ایک بڑی آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ تین چھوٹی آیات جیسے {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} کے بقدر ہو یعنی اس میں کم از کم تیس حروف ہوں، اگر کوئی ایسی ایک بڑی آیت بھی نہ پڑھ سکے تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔
’’وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳}، وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثاً قصاراً … وہي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفاً یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص222

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں بلاشبہ وہ اس کے مقتضی ہیں کہ دعائے قنوت پڑھی جائے عند الاحناف نماز فجر میں پڑھی جائے اور کسی نماز میں نہیں۔(۱)

(۱) وہو صریح فی أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹)
قال الإمام النووي: القنوت مسنون فی صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح: المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر أو ظاہر فی المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب القنوت‘‘: ج ۳، ص: ۹۵۸)
والقنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولولا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبداً ولا یترکوہ یوماً لعدم خلو المسلمین عن نازلۃ ما غالبا، لا سیما في زمن الخلفاء الأربعۃ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶،ادارۃ القرآن کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص330

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صبح صادق کے بعد صرف فجر کی دو سنت مؤکدہ پڑھ سکتے ہیں فجر کی نماز سے قبل اور نماز کے بعد نفل نماز مکروہ ہے۔
’’ویکرہ التنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من سنۃ قبل أداء الفرض لقولہ صلی اللہ جمیع الوقت مشغولاً بالفرض حکماً ولذا تخفف قرائۃ سنۃ الفجر‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ص: ۱۰۱۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: راجح اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ فاسق اور بدعتی کے پیچھے جس کی بد اعتقادی حد کفر تک پہونچی ہوئی نہ ہو پڑھی ہوئی نماز دہرانا ضروری نہیں ہے اور اگر مجبوراً پڑھنا پڑھے، تو مکروہ بھی نہیں ہے۔ ’’ہذا إن وجد غیرہم وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲۔
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولایخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ، فإنہ لایؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال، بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا (أیضًا: ج۲، ص: ۲۹۹)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳)
قولہ فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ تبع فیہ الزیلعي، ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ، کرہ إمامۃ الفسق لغۃ خروج عن الاستقامۃ وہو معنی قولہم، خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد وشرعاً خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ قال القہستاني أي أو إصرار علی صغیرۃ (فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ الامامۃ) تبع فیہ الزیلعی ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أیضًا:)
وفي صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وفي الشامیۃ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص156

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام بغیر سنت پڑھے فرض نماز پڑھا سکتا ہے، نماز مکروہ نہ ہوگی، پھر ظہر فرض کے بعد دو رکعت سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں پڑھ لی جائیں۔ لیکن اس کی عادت بنانا اچھا نہیں ہے، حدیث شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوا کرتے تھے اور ظہر سے قبل چار سنتیں نہ پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے۔(۲)
(۲)  بخلاف سنۃ الظہر وکذا الجمعۃ، فإنہ إن خاف فوت رکعۃ یترکہا ویقتدی ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ أي الظہر۔ (ابن عابدین،  رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج۲، ص: ۵۱۰)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاہا بعدہا‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في الرکعتین قبل الظہر‘‘: ج۱، ص: ۵۷، رقم: ۴۲۶، نعیمیہ دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص362

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ کوئی خلاف شرع بات نہیں ہے؛ کیوں کہ نابالغ، ہوشیار اذان کو اچھی طرح صحیح طریقہ پر پڑھنے والے بچے کی اذان درست اور جائز ہے۔(۱)

(۱) أذان الصبي العاقل صحیح من غیر کراہۃ في ظاہر الروایۃ، ولکن أذان البالغ أفضل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
قولہ وقیل الذي یعقل أیضاً: ظاہر الروایۃ صحتہ بدون کراہۃ لأنہ من أہل الجماعۃ کما في السراج والبحر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)
ویجوز بلا کراہۃ أذان صبي مراہق وعبد۔ (الحصکفي، الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في أذان الجوق‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، زکریا دیوبند)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص148