Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کی مسجد کا حق زیادہ ہے اس لیے اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسرے محلہ کی مسجد میں نہ جانا چاہئے۔ شامی میں خانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر اپنے محلہ کی مسجد میں تنہا بھی نماز پڑھے تو اکیلا اذان کہہ کر نماز پڑھے اور اس کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں نہ جائے۔
’’بل في الخانیۃ لو لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یذہب إلیہ ویؤذن فیہ ویصلي ولو کان وحدہ لأن لہ حقا علیہ فیؤدیہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: مطلب في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۳، ط: زکریا۔
رجل یصلي في الجامع لکثرۃ الجمع ولا یصلي في مسجد حیہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل: وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ج۱، ص: ۲۲۸، المکتبۃ الرشیدیہ، کوئٹہ)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سننے کے بعد ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ دعا پڑھے اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی، امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث نقل کی ہے:
’’عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: من قال حین یسمع النداء: ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ حلت لہ شفاعتي یوم القیامۃ‘‘(۱)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان سننے کے بعد مذکورہ دعا پڑھی اُس کے لیے روزِ قیامت میری شفاعت لازم ہو گئی۔
اذان کے بعد دعا قبول ہوتی ہے دعا کی قبولیت میں بنیادی دخل تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعاکرنے والے کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ خاص احوال واوقات ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے، قبولیت ِدعاء کے خاص اوقات میں سے اذان کے دوران، اذان کے بعد اور اذان واقامت کے درمیان کاوقت بھی شامل ہے، ان اوقات میں بھی دعا قبول ہوتی ہے اور یہ روایات سے ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:
ثلاث ساعات للمرأ المسلم مادعافیھن إلا استجیب لہ مالم یسأل قطیعۃ رحم، أو ماثما، قالت: فقلت: یارسول اللّٰہ! أي ساعۃ؟ قال حین یؤذن المؤذن بالصلوۃ حتی یسکت، وحین یلتقی الصفان حتی یحکم اللّٰہ بینھما، وحین ینزل المطر حتی یسکن، قالت، قلت: کیف اقول یا رسول اللّٰہ! حین اسمع المؤذن؟ علمني مما علمک اللّٰہ، واجھد، قال: تقولین کما کبراللّٰہ یقول اللّٰہ أکبر … ثم صلي علي وسلمي، ثم اذکري حاجتک‘‘(۲)
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’أقول ذلک لشمول الرحمۃ الإلٰھیۃ ووجود الانقیاد من الداعي‘‘(۳)
یعنی اذان کے وقت مؤذن کی طرف سے کامل اتباع کا اظہار ہوتاہے اور رحمت الٰہی کا فیضان ہوتاہے، اس وجہ سے اس وقت دعا خصوصیت سے قبول کی جاتی ہے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، رقم: ۵۸۹، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن: باب قولہ: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۴۴۴۲۔
(۲) الأصفہاني،أبو نعیم ، حلیۃ الأولیاء، علی بن بکار: ج ۹، ص: ۳۲۱۔(شاملۃ)
(۳) الدہلوي،الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: فصل في المساجد، ج ۱، ص: ۴۰۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص149
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں سجدوں کے درمیان دعاء پڑھنا منقول ہے؛ البتہ باجماعت فرض نماز میں تخفیف کا حکم ہے؛ اس لیے جماعت کی نماز میں مناسب نہیں، ہاں نوافل میں یا تنہا فرض نماز پڑھنے کی صورت میں اس کی اجازت ہے، اسی طرح اگر مقتدی ایسے ہوں جن کو اس سے گرانی نہ ہو، تو پھر باجماعت نمازوں میں بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔(۲)
(۲) وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول بین السجدتین ’’اللہم اغفرلي وارحمني وعافني واہدني وارزقني۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الدعاء بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۸۵۰)
ہکذا أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما یقول بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۲۸۴، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 406
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حادثات ومصائب کے وقت قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
’’إذا وقعت نازلۃ قنت الإمام في الصلاۃ الجھریۃ، لکن في الأشباہ عن الغابۃ: قنت في صلاۃ الفجر و یؤیدہ ما في شرح المنیۃ …قال الحافظ أبو الجعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في الصلاۃ الفجر من غیر بلیۃ‘‘(۱)
مذکورہ عبارت سے یہ بھی واضح ہوا کہ بغیر مصیبت وحادثات کے پڑھنے کی اجازت نہیں قاریوں کی شہادت کے بعد رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک پڑھی۔
اس کے بعد چوں کہ کوئی حادثہ فاجعہ ایسا پیش نہیں آیا، تو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ بن کذاب مدعی نبوت سے جنگ کی اور اس کی وجہ سے پیش آمدہ فتنہ کے وقت دعاء قنوت نماز فجر میں پڑھی، ایسے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پڑھنا ثابت ہے، اسی طرح موجودہ وقت میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور فتنوں کا سامنا ہے، ایسے وقت میں نماز فجر میں حالات کے سازگار ہونے تک دعاء قنوت پڑھنا بلا شبہ جائز اور درست ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔)
(۲) أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب؛ علی رعل وذکوان، وعصیۃ وبنی لحیان، زاد خلیفۃ : …… أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان و بئر معونۃ۔ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۹۰)
النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند)
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر وفیہ التصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظہر الحموي أنہ قبلہ والأظہر ما قلناہ، واللہ أعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص334
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کو امام کے پیچھے صرف ایک رکعت ملی، وہ امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پر اکتفاء کرے، امام کے سلام سے فارغ ہونے کے بعد مقتدی کھڑا ہو اور اپنی دوسری رکعت اسی طرح ادا کرے جس طرح چھوٹی ہے، یعنی بغیر ثناء پڑھے سورہ فاتحہ شروع کردے اور کوئی سورہ یاچند آیات پڑھے، پھر رکوع وسجدہ کرے اور بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو، سورہ فاتحہ پڑھے، کوئی سورہ یا چند آیات پڑھے اور پھر رکوع وسجدہ کرے اور اب سیدھا چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے اور صرف سورہ فاتحہ پڑھے، سورہ نہ ملائے اور رکوع وسجدہ کے بعد قعدہ اخیرہ کرے جس میں تشہد ، درودشریف اور دعاء کے بعد سلام پھیردے۔ فمدرک رکعۃ من غیر فجر یاتی برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشھد بینھما وبرابعۃ الرباعی بفاتحۃ فقط ولایقعد قبلھا (شامی باب الامامۃ ج2ص347)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر جگہ موجود ہونا اور سننا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ ہی کی خصوصیت ہے۔ ان میں کوئی اللہ کا شریک نہیں ہے، البتہ ملائکہ سیاحین ہیں۔ جو درود شریف کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں، مسجد میں بآواز بلند اجتماعی طور سے یہ عمل کتاب وسنت اجماع وقیاس سے ثابت نہیں ہے۔ اس سے مسجد میں نمازیوں کی نماز میں، کتاب اللہ پڑھنے والوں کی تلاوت میں بھی خلل ہوتا ہے۔ ویسے بے شمار بے حساب درود شریف ہیں، ’’صلی اللّٰہ علیک یارسول اللّٰہ وسلم علیک یا حبیب اللّٰہ‘‘ روضۂ اقدس کے سامنے پڑھنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور دنیا کی زندگی سے افضل واکمل زندگی ہے۔ یہ درود ماثور ہے، لیکن مستند صحیح حدیث سے نہیں ہے، افضل درود نماز والا ہے۔(۱)
(۱) رجل تزوج امرأۃ ولم یحضر الشہود، قال: ’’خدایرا ورسول را گواہ کردم‘‘ أو قال: ’’خدائے را وفرشتگان گواہ کردم‘‘ کفر ولو قال فشتہ ’’دست راست را گواہ کردم وفرشتہ دست جب را گواہ کردم‘‘ لا یکفر کذا في فصول العمادیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶)
وعن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علي عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیاً أبلغتہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۰، رقم: ۹۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص370
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس ہے جو تقوی وطہارت، پرہیز گاری اور اعلیٰ اخلاقی رویئے کا تقاضا کرتا ہے اس لیے مذکورہ باتیں جو سوال میں ذکر کی گئی ہیں اگر صحیح ہیں تو امام صاحب کو اپنے کردار پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ البتہ امام صاحب مذکورہ فعل کی وجہ سے اگرچہ گناہگار ہیں؛ لیکن ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازیں درست ہیں انہیں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گالی دینے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے:
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔(۱)
ابوداؤد شریف میں لکھا ہے:
فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔
’’الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان أو فاجرا وإن عمل الکبائر‘‘(۲)
البتہ اگر امام صاحب گالیاں دینے اور حرام مال کا استعمال کرنے سے نہ رکیں تووہ فاسق ہے ایسے شخص کو آئندہ امام مقرر نہیں کرنا چاہیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق‘‘(۳)
ایسے کی اقتداء سے بہتر تنہا نماز پڑھنے کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر نمازی عام آدمی ہے، یعنی جس کے اختیار میں ایسے امام کو رکھنا یا ہٹانا نہ ہو اورقریب کی کسی مسجد میں کوئی متقی و صالح امام بھی میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہوگا، البتہ اگر قریب میں اہلِ حق کی کسی مسجد کے امام متقی صالح ہوں تو وہاں جاکر نماز ادا کرے، اور اگر نمازی انتظامیہ میں سے یا با اثر شخصیت ہے تو اسے چاہیے کہ اولًا امام کی فہمائش یعنی آگاہ اور متنبہ کرے، اگر امام اصلاحِ اَحوال کرلیتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا بلاکراہت درست ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئے تو انتظامیہ امام تبدیل کرے، امام تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(والأحق بالإمامۃ) تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: بشرط اجتنابہ إلخ) کذا في الدرایۃ عن المجتبی۔ وعبارۃ الکافي وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی، إلا أن یطعن علیہ في دینہ؛ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۴۸۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إمامۃ البر والفاجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۲، رقم: ۵۹۴۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا: ص: ۲۹۴۔
(۲) أیضًا:۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص159
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی اہمیت ہے اور نماز باجماعت میںبھی مسجد کی جماعت کی تاکید ہے، اس لیے حتی الامکان تو اسی کی کوشش کی جائے کہ مسجد میں ایک ہی جماعت قائم ہو اور تمام حضرات اسی ایک جماعت میں شریک ہوں، لیکن اگر اس پر عمل ممکن نہ ہو حکومتی پابندی کا سامنا ہو توپھر ایسی صورت میں بہتر ہے کہ مسجد میں کئی جماعتیں کرلی جائیں اور یہ حکم عارضی طورپر ہوگا، عذر کے ختم ہونے کے بعد مسجد میں تکرار جماعت کا سلسلہ بند کردیا جائے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب اور مسجد میں جماعت کرنا یہ بھی واجب ہے، اگر گھر میںجماعت کی جائے تو اگر چہ جماعت کا اہتمام ہوجائے گا؛ لیکن دوسرا واجب چھوٹ جائے گا۔(۱)
یہاں ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر مسجد میں جماعت کا تکرار ہوگا تو لوگوں کے دلوں سے جماعت ثانیہ کی کراہت ختم ہوجائے گی؛ اس لیے بہتر ہے کہ گھروں میں ہی جماعت سے نماز پڑھ لیں مسجد میں تکرار نہ کیا جائے؛ لیکن اس میں ایک دوسری خرابی ہے لوگوں کے دلوں میں یہ بیٹھنا چاہیے کہ نماز مسجد میں جماعت سے پڑھنا ضروری ہے؛ لیکن اگر چند دن گھر میں جماعت بنا کر نماز پڑھیں گے تو دلوں سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی جو اہمیت ہے وہ بھی کم ہو سکتی ہے۔ پھر عارضی احوال میں اگر علاقے میں کئی مساجد ہوں جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے، وہاں پر مجبوری میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے یہ خدشہ ہے کہ بعد میں ان مساجد میں جمعہ باقی رہ جائے گا اور لوگ بند کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے جیسا کہ احوال واقعی ہے بہت سی جگہوں سے فتویٰ بھی طلب کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کی مجبوری کی وجہ سے دوسری تمام مساجد میں جمعہ قائم کیا گیا تھا اب جب کہ حالات معمول پر آرہے ہیں تو کیا وہاں جمعہ بند کرنا چاہیے جب کہ بعض حضرات بند کرنے پر راضی نہیں ہیں ظاہر ہے کہ ان مساجد میں بند کرنے کا ہی حکم دیاجائے گا؛ اس لیے عارضی احوال میں اگر مسجد میں تکرار جماعت ہو یا گھر میں جماعت کا اہتمام ہو، دونوں کی گنجائش ہے۔ محض خدشہ کی بناپر عذر کی وجہ سے تکرار جماعت کو مکروہ نہیں کہا جائے گا۔
(۱) قلت دلالتہ علی الجزء الأول ظاہرۃ حیث بولغ فی تہدید من تخلّف عنہا وحکم علیہ بالنفاق، ومثل ہذا التہدید لایکون إلا في ترک الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعۃ لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بإحراق البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنہم صلوہا بالجماعۃ فی بیوتہم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاہا بجماعۃ في بیتہ أتی بواجب وترک واجبًا آخر … و أما مایدل علی وجوبہا في المسجد فإنہم اتفقوا علی أن إجابۃ الأذان واجبۃ لما في عدم إجابتہا من الوعید۔ (إعلاء السنن، باب وجوب إتیان الجماعۃ في المسجد عند عدم العلۃ‘‘: ج۴، ص: ۱۸۶، إدارۃ القرآن کراچی)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364,366
نماز / جمعہ و عیدین
ـالجواب وباللہ التوفیق: کسی بھی نماز کے لیے اذان دی جائے تو وقت کے داخل ہونے کے بعد دی جائے، اگر وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دی گئی تو دوبارہ اذان دی جائے۔ جنتریاں مختلف ہیں بعض میں مقررہ ٹائم ہوتا ہے، بعض میں احتیاط کے پیش نظر دو تین منٹ کی تاخیر سے لکھا ہوا ہوتا ہے اور اذان ونماز کا مدار وقت پر ہے، عام لوگوں کو چاہئے کہ جنتری کے حساب سے وقت داخل ہونے پر ہی اذان پڑھیں۔(۱)
(۱) فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر، قولہ: وقع بعضہ، وکذا کلہ بالأولیٰ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب بہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰، زکریا دیوبند)… قولہ ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ، أي في الوقت إذا أذن قبلہ لأنہ یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص151
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: افضل یہ ہے کہ عمل قلیل سے اپنی آستین اتارے ایسی صورت اختیار نہ کرے کہ عمل کثیر ہوجائے اس کی صورت یہ ہے کہ کچھ رکوع میں کچھ قومہ میں کچھ جلسہ میں دونوں آستین اتارے۔
شامی میں ہے ’’مثلہ ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراک الرکعۃ مع الإمام وإذا دخل في الصلوٰۃ کذلک وقلنا بالکراہۃ فہل الأفضل إرخاء کمیہ فیہا بعمل قلیل أو ترکہما لم أرہ، والأظہر الأول بدلیل قولہ الآتي ولو سقطت قلنسوتہ فإعادتہا أفضل تامل ہذا وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین وظاہرہ أنہ لا یکرہ إلیٰ ما دونہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۶۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 407