نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ صاحب ترتیب ہے تو پہلے اپنی فجر کی نماز قضا کرے اس کے بعد جتنا بھی ہوسکے خطبہ سنے۔(۱)(۱) الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ وبین الفوائت مستحق۔ حتی لایجوز أداء الوقتیۃ قبل قضاء الفائتۃ۔ وکذا بین الفروض والوتر۔ ہکذا في شرح الوقایۃ، ولو صلی الفجر وہو ذاکر أنہ لم یوتر فہي فاسدۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ۔ ولو تذکر فائتۃ في تطوعہ لم یفسد تطوعہ۔ لأن الترتیب عرف واجبا في الفرض بخلاف القیاس فلا یلحق بہ غیرہ۔ کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر، في قضاء الفوائت‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱)وکذا الترتیب بین نفس الفوائت القلیلۃ مستحق أي لازم لأنہ فرض عملي یفوت الجواز بفوتہ والأصل في لزوم الترتیب، قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: من نام عن صلاۃ أو نسیہا فلم یذکرہا إلا وہو یصلي مع الإمام فلیصل التي ہو فیہا ثم لیقض التي تذکرہا ثم لیعید التي صلی مع الإمام۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 155

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جائز ہے۔ اگر ایک سے زائد افراد کی ایک ہی وقت کی نماز قضاء ہو جائے اور وہ ایک ہی جگہ قضا نماز پڑھ رہے ہوں تو ان کا باجماعت قضاء کرنا درست ہے، اگر جہری نماز کی قضاء باجماعت پڑھی جا رہی ہے تو امام جہراً قرأت کرے اور سری نماز میں سرا قرأت کرے۔غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ نمازوں کو باجماعت ادا کیا ہے؛ البتہ اپنی غفلت سے نماز قضاء کرنا گناہ کبیرہ ہے، اگر کبھی ایسا ہو جائے تو لوگوں سے چھپ کر جماعت کرے۔’’ومتی قضی الفوائت إن قضاہا بجماعۃ فإن کانت صلاۃ یجہر فیہا، یجہر فیہا الإمام بالقراء ۃ، وإن قضاہا وحدہ یتخیر بین الجہر والمخافتۃ، والجہر أفضل کما في الوقت، ویخافت فیما یخافت فیہ حتما‘‘(۱)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱۔روي أنہ علیہ السلام شغلہ المشر کون عن أربع صلوات یوم حفر الخندق حتی ذہب من اللیل ما شاء اللّٰہ تعالیٰ فأمر بلالا فأذن ثم أقام فصلی الظہر ثم أقام فصلی العصر ثم أقام فصلی المغرب ثم أقام فصلی العشاء۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 154

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  اگر جماعت کے شروع کئے جانے کا وقت ہوگیا تھا تو جماعت کے شروع کرنے میں تاخیر نہ کرتے ہوئے جماعت شروع کردینا صحیح تھا اپنی سنتیں ترک ہونے کی بنا پر نمازیوں کو انتظار کرانا غلط ہوتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سوال کون سی سنتوں سے متعلق ہے؟ سوال میں اس کی تصریح نہیں۔ اگر یہ واقعہ فجر کی سنتوں کا ہے تو وہ مؤکدہ ہیں ان کی تاکید بھی ثابت ہے اگر جماعت سے قبل وہ نہیں پڑھ سکے تھے تو طلوع آفتاب کے بعد امام کو وہ پڑھنی چاہئے تھیں(۱) اس لیے امام صاحب کا جواب قطعاً نامناسب تھا اور اگر ظہر کے فرض سے قبل کی سنتوں سے متعلق سوال ہے تو وہ بھی مؤکدہ ہیں؛ اگرچہ فجر کی سنتوں سے درجہ میں کم ہیں؛ لیکن فرض کے بعد دو سنتیں پڑھ کر ان چار سنتوں کو پڑھنا چاہئے۔(۲) اس اعتبار سے بھی امام صاحب کا جواب صحیح نہیں اور اس جواب سے دوسرا اہم نقصان یہ ہے کہ مصلیوں کے ذہن سے سنتوں کی اہمیت ختم ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ امام صاحب کو اپنا ذہن، دماغ اور زبان قابو میں رکھنی چاہئے کہ غلط الفاظ کا نمازیوں پر غلط اثر ہوتا ہے اور اس کا گناہ امام ہی کو ہوتا ہے۔(۱) واذا خاف فوت رکعتي الفجر لاشتغالہ بسنتہا ترکہا وإلا لا، ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ لقضاء فرضہا قبل الزوال لابعدہ في الأصح۔ أي لا یقضی سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع بکراہۃ النفل بعد الصبح، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما، وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی الزوال کما في الدرر، قیل: ہذا قریب من الاتفاق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب إدراک الفریضۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۰)

(۲) بخلاف سنۃ الظہر فانہ یترکہا ویقتدي ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ أي الظہر قبل شفعہ عند محمد وبہ یفتی۔ (أیضاً: ص: ۵۱۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 153

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوران سفر ظہر عصر عشاء فوت ہوجائیں تو گھر پر رہ کر قصر ہی پڑھی جائیں گی اور اس کے برعکس میں پوری نماز پڑھی جائے گی۔(۱) (۱) والمعتبر في تغییر الفرض آخر الوقت وہو قدر ما یسع التحریمۃ فإن کان المکلف في آخرہ مسافراً وجب رکعتان و إلا فأربع لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء قبلہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳)وفائتۃ السفر وفائتۃ الحضر تقضی رکعتین أربعاً فیہ لف ونشر مرتب لأن القضاء بحسب الأداء۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 153

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں بہتر تو یہ ہے کہ فرض کے بعد پہلے دو سنت پڑھے اور اس کے بعد پہلے کی چھوٹی ہوئی چار سنت ادا کرے لیکن اس کے برعکس کرلیا تب بھی درست ہے۔(۱) (۱) بخلاف سنۃ الظہر فإنہ یترکہا ویقتدي ثم یأتي بہا علی أنہا سنۃ في وقتہ قبل شفعہ عند محمد وبہ یفتی: وقال الشامي: وبہ یفتی وعلیہ المتون، لکن رجح في الفتح: تقدیم الرکعتین، قال في الإمداد وفي فتاویٰ العتابی: إنہ المختار، وفي مبسوط شیخ الإسلام: أنہ الأصح لحدیث عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ ہل الإسائۃ دون الکراہۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲، ۱۳، ۱۴؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳، مکتبہ شیخ الہند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 152

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز قضا عمری ہو یا ادا ہو نماز کے سنن و مستحبات میں اختصار ہو سکتا ہے مثلاً رکوع، سجدے کی تسبیح میں فرائض وواجبات میں اختصار جائز نہیں ہے کہ مثلاً سورۂ فاتحہ کی دو چار آیت پڑھے اور باقی چھوڑ دے یا ضم سورۃ چھوڑ دے ایسے اختصار سے نماز واجب الاعادہ ہوگی پس فرائض و واجبات میں اختصار درست نہیں ہوگا۔(۲)(۲) عن أبي ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ماشاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب إذا صلی لنفسہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷، رقم: ۷۰۳)الأفضل: أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ والسورۃ الکاملۃ في المکتوبۃ فإن عجز لہ أن یقرأ السورۃ في الرکعتین، کذا في الخلاصۃ، ولو قرأ بعض السورۃ في رکعۃ والبعض في رکعۃ، قیل: یکرہ، وقیل لایکرہ، وہو الصحیح، ولکن لاینبغي أن یفعل ولو فعل لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القرآن‘‘: ج۱، ص: ۳۶، ۱۳۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 151

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصول یہ ہے کہ جو نماز مکلف انسان پر فرض ہو اور وہ اس کو وقت میں ادا نہ کرسکے تو اس کی قضا اس پر لازم ہے خواہ وہ نماز جان بوجھ کر فوت ہوجائے یا غفلت اور نسیان کی وجہ سے فوت ہوجائے توبغیر ادا کیے اس کاذمہ بری نہیں ہوگا اور نہ ہی محض توبہ سے وہ نماز ذمہ سے ساقط ہوگی۔ جس مسلمان نے اپنی عمر کی ابتداء میں نمازیں اپنی غفلت یا لاپروائی کی وجہ سے نہ پڑھی ہوں او ربعد میں اسے تنبہ ہوا تو اس کے ذمہ ضروری ہے کہ اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا محتاط حساب لگاکر انہیں ادا کرے اسی کا نام قضائے عمری ہے۔ قضاء عمری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری زندگی قضاء کرتا رہے۔ یہ موقف صرف احناف کا نہیں؛ بلکہ ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف ہے؛ اس لیے مذکورہ بیان درست نہیں ہے احادیث سے نماز کی قضاء کا ثبوت ہے۔ حدیث شریف میں ہے:’’من نسي صلاۃ فلیصلّ إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک‘‘(۱)اور مسلم شریف میں ہے:’’إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ عز وجل یقول: أقم الصلاۃ لذکري‘‘(۲)اور البحر الرائق میں ہے:’’فالأصل فیہ أن کل صلاۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤہا سواء ترکہا عمدًا أو سہوًا أو بسبب نوم وسواء کانت الفوائت کثیرۃ أو قلیلۃ‘‘(۳)امام مالک کی المدونۃ الکبری میں ہے:

’’من نسي صلوات کثیرۃ أو ترک صلوات کثیرۃ فلیصل علی قدر طاقتہ و لیذہب إلی حوائجہ، فإذا فرغ من حوائجہ صلی أیضا ما بقی علیہ حتی یأتي علی جمیع ما نسي أو ترک‘‘(۱)(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب من نسي صلاۃ فلیصل‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۵۹۷۔(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۵۸۹۔(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۱۔

(۱) الإمام مالک، المدونۃ الکبري، ’’کتاب الصلاۃ: الثاني: ماجاء في قضاء الصلاۃإذا نسیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 149

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صاحب ترتیب اس کو کہتے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد اس کے ذمہ چھ نمازیں قضا نہ ہوں؛ بلکہ پانچ یا اس سے کم نمازیں قضا ہوں اور اگر قضا نمازیں زیادہ ہوں، پھر اس نے ان کو اداء کر لیا ہو تو وہ بھی صاحب ترتیب ہے اس پر لازم ہے، اگر اس کے ذمہ کوئی نماز قضا ہو تو اس کو وقتیہ نماز سے پہلے پڑھے۔’’وصیرورتہا ستا أي ویسقط الترتیب بصیرورۃ الفوائت ست صلوات‘‘(۱)’’وقید بقضاء البعض لأنہ لوقضی الکل عاد الترتیب عند الکل‘‘(۲)’’ویسقط الترتیب عند کثرۃ الفوائت، وہو الصحیح، وحد الکثرۃ أن تصیر الفوائت ستاً‘‘(۳)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۹۔(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 149

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جماعت چھوٹ گئی اور مذکورہ شخص نے مسجد کے حجرہ میں نماز پڑھ لی تو نماز درست وادا ہوگئی ہے۔(۱)(۱) أعطیت خمسا لم یعطہن أحد قبلي نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض مسجدا وطہورا الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۳)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فضلت علی الأنبیاء بستِ أعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب وأحلت لي المغانم وجعلت لي الأرض طہوراً و مسجداً وأرسلت إلی الخلق کافۃ وختم بي النبیون۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹، رقم: ۵۲۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 148

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مناسب یہ ہے کہ جو شخص نماز قضا کرے اس پر دوسروں کو مطلع نہ کرے یعنی پوشیدہ طور پر پڑھے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنا معصیت اور گناہ ہے اور معصیت کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔ شامی میں ہے کہ قضاء نماز کو علی الاعلان پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم اگر اعلان نہ کرے اور نہ کسی کو بتلائے اور ہر نماز کے وقت میں قضاء نماز پڑھ لے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)(۲) تقدم في باب الأذان أنہ یکرہ قضاء الفائتۃ في المسجد وعللہ الشارح بما ہنا من أن التاخیر معصیۃ فلا یظہرہا۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۹)أن رسول اللّٰہ ﷺ أقبل من نواحيالمدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا، فمال إلی منزلہ فجمع أہلہ فصلی بہم۔ (سلمان بن أحمد، الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۳۵، رقم: ۴۶۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)قولہ: وینبغي الخ، أنہ یکرہ قضاء الفائتۃ في المسجد وعللہ الشارح بما ہنا من أن التأخیر معصیۃ فلا یظہرہا و ظاہرہ أن الممنوع ہو القضاء مع الإطلاع علیہ سواء کان في المسجد أو غیرہ، قلت: والظاہر أن ینبغي ہنا الوجوب وأن الکراہۃ تحریمیۃ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 147