نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر دونوں خطبوں کے درمیان دعا مانگے تو دل دل میں دعاء مانگے، زبان سے اور ہاتھ اٹھاکر دعاء مانگنا اس حالت میں درست نہیں ہے۔ ’’إذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام‘‘(۲)’’(وإذا خرج الإمام یوم الجمعۃ ترک الناس الصلاۃ والکلام؛ حتی یفرغ من خطبتہ) قال رضي اللّٰہ عنہ: وہذا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وقالا: لا بأس بالکلام إذا خرج الإمام قبل أن یخطب وإذا نزل قبل أن یکبر، لأن الکراہۃ للإخلال بفرض الاستماع ولا استماع ہنا، بخلاف الصلاۃ؛ لأنہا قدتمتد، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: إذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام من  غیر فصل ولأن الکلام قدیمتد طبعاً فأشبہ الصلاۃ‘‘(۱)(۲) جمال الدین أبومحمد عبداللّٰہ نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ مع حاشیۃ تحفۃ الألمعي في تخریج الزیلعي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۳۔(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۵، ۶۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 106

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خطبہ پڑھنے کے بعد فوراً جمعہ کی نماز شروع کرنا لازم اور ضروری ہے اس کے خلاف کرنے والا گنہگار ہے پس دس منٹ کا وقت خطبہ اور جماعت کے درمیان دیا جانا جائز نہیں ہوگا اور اس میں سنت نماز بھی جائز نہیں ہوگی۔(۱)(۱) إذا شرع في الأربع قبل الجمعۃ ثم افتتح الخطبۃ أو الأربع قبل الظہر ثم أقیمت بل یقطع علی رأس الرکعتین تکملوا فیہ، والصحیح أنہ یتم ولا یقطع؛ لأنہا بمنزلۃ صلاۃ واحدۃ واجبۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۷۱)(إذا خرج الإمام) من الحجرۃ إن کان، وإلا فقیامہ للصعود شرح المجمع (فلا صلاۃ ولا کلام إلی تمامہا) قولہ: (فلا صلاۃ) شمل السنۃ وتحیۃ المسجد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آیت شریفہ میں ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں پھر مؤمنین سے خطاب ہے، علماء نے تصریح کی ہے کہ تینوں کے صلوٰۃ کے معنی ومطلب جداگانہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی ’’صلوٰۃ‘‘ رحمت بھیجنا، فرشتوں کی ’’صلوٰۃ‘‘ استغفار کرنا ،اور مؤمنین کی ’’صلوٰۃ‘‘ دعاء کرنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ سلام کا طریقہ، تو ہمیں معلوم ہوچکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے ’’السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ‘‘،’ ’صلوٰۃ‘‘ کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے جو نماز میں پڑھا کریں آپ نے یہ درود شریف تلقین کی جس کو درود ابراہیمی کہتے ہیں؛ پس ’’صلوٰۃ‘‘ اور ’’سلام‘‘ دونوں کے پڑھنے کی کیفیت وطریقہ حدیث سے واضح ہوگیا، خطبہ جمعہ یا عیدین میں درود وسلام نہ بھیجا جائے، جب بھی خطبہ اداء ہوجاتا ہے اور اگر درود پڑھے جس میں صرف صلوٰۃ کے الفاظ ہوں تو بھی بالکل صحیح ودرست ہے اور اگر صلوٰۃ وسلام والا درود پڑھے تو ممانعت نہیں لیکن طریقہ منقول کا ترک بھی تو اچھا ہرگز نہیں۔(۱)(۱) الخطبۃ تشتمل علی فرض وسنۃ، فالفرض شیئان: الوقت: وہو بعد الزوال  وقبل الصلاۃ حتی لو خطب قبل الزوال أو بعد الصلاۃ لایجوز ہکذا في العینی شرح الہدایۃ: والثاني: ذکر اللّٰہ تعالیٰ، کذا في البحر الرائق، وکفت تحمیدۃ أو تہلیلۃ أو تسبیحۃ، کذا في المتون ہذا إذا کان علی قصد الخطبۃ أما إذا عطس فحمد اللّٰہ، أو سبح، أو ہلل متعجباً من شيء لاینوب عن الخطبۃ إجماعاً، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۷)وأما سنن الخطبۃ فمنہا: أن یخطب خطبتین علی ماروي عن الحسن بن زیاد عن أبي حنیفۃ أنہ قال: ینبغي أن یخطب خطبۃ خفیفۃ یفتتح فیہا بحمد اللّٰہ تعالیٰ ویثنی علیہ ویتشہد ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویعظ ویذکر ویقرأ سورۃ ثم یجلس جلسۃ خفیۃ ثم یقوم فیخطب خطبۃ أخری یحمد اللّٰہ تعالیٰ ویثنی علیہ ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ویدعو للمومنین والمومنات۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ، سنن الخطبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹۰، ۵۹۱)قولہ: (ولا کلام) … وکذا اذا ذکر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایجوز أن یصلوا علیہ بالجہر، بل بالقلب وعلیہ الفتویٰ، رملی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۵)ولو قرأ القرآن فمر علی اسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم واٰلہ وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وآلہ وأصحابہ في ذلک الوقت، فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یقعد فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع: في الصلاۃ والتسبیح الخ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 104

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسنون ہے ’’کما في البدائع وأما سنن الخطبۃ فمنہا أن یخطب خطبتین … ثم یقوم فیخطب خطبۃ أخری بحمد اللّٰہ تعالیٰ ویثنی علیہ ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویدعوا للمؤمنین والمؤمنات‘‘(۱)(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ، سنن الخطبۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۹۱۔قولہ: (ولا کلام) … وکذالک إذا ذکر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایجوز أن یصلوا علیہ بالجہر؛ بل بالقلب، وعلیہ الفتویٰ رملی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۵)ولو قرأ القرآن فمر علی اسم النبي صلی اللّٰہ علیہ والہ وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ والہ وأصحابہ في ذلک الوقت، فإن فرغ ففعل فہو أفضل، وإن لم یفعل فلا شيء علیہ، کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خطبہ شہید پڑھنا بھی بلا کراہت درست ہے اگر کوئی ایسا خطبہ پڑھا جائے جس میں حسبِ ضرورت مسائل وفضائل ہوں مثلاً رمضان کا مضمون ہو، تو زیادہ بہتر ہے۔(۱)(۱) الخطبۃ تشتمل علی فرض وسنۃ فالفرض شیئان: الوقت: وہو بعد الزوال وقبل الصلاۃ حتی لو خطب قبل الزوال أو بعد الصلاۃ لایجوز، ہکذا في العینی شرح الہدایۃ، والثاني: … ذکر اللّٰہ تعالیٰ، کذا في البحر الرائق، وکفت تحمیدۃ أو تہلیلۃ أو تسبیحۃ، کذا في المتون۔ ہذا إذا کان علی قصد الخطبۃ، أما إذا عطس فحمد اللّٰہ، أو سبح، أو ہلل متعجباً من شيء لاینوب عن الخطبۃ إجماعاً، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۰۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قصداً جلسہ نہ کرنا برا اور مکروہ ہے۔ ’’والأصح أنہ یکون مسیئاً بترک الجلسۃ بین الخطبتین، کذا في القنیۃ‘‘(۲)(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۰۸۔عن عبداللّٰہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب خطیبین یقعد بینہما۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب القعدۃ بین الخطبتین، یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، رقم: ۹۲۸)(ویسن خطبتان) خفیفتان، وتکرہ زیادتہما علی قدر سورۃ من طوال المفصل (بجلسۃ بینہما) بقدر ثلاث آیات علی المذہب، وتارکہا میسيء علی الأصح کترکہ قراء ۃ قدر ثلاث آیات، ویجہر بالثانیۃ لا کالأولی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ایسی کوئی غلطی ہو جس کی وجہ سے معنی بدل جائیں تو اس صورت میں لقمہ دیدیا جائے بلا ضرورت درست نہیں ہے۔(۱)(۱) (وکل ماحرم في الصلاۃ حرم فیہا) أي في الخطبۃ خلاصۃ وغیرہا، فیحرم أکل وشرب وکلام ولو تسبیحا أو رد سلام أو أمر بمعروف؛ بل یجب علیہ أن یستمع ویسکت (بلا فرق بین قریب وبعید) في الأصح، ولا یرد تحذیر من خیف ہلاکہ؛ لأنہ یجب لحق آدمي، وہو محتاج إلیہ، والإنصات لحق اللّٰہ تعالیٰ ومبناہ علی المسامحۃ … والأصح أنہ لابأس بأن یشیر برأسہ أو یدہ عنہ  رویۃ منکر … وکذا یجب الاستماع لسائر الخطب کخطبۃ نکاح، وخطبۃ عید، وختم علی المعتمد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۵، ۳۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 101

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خطبہ کا اعادہ ضروری نہیں تھا نماز صحیح ہوگئی۔’’و لو خطب ثم ذہب فتوضأ في منزلہ ثم جاء فصلی تجوز‘‘(۱)

(۱) الشیخ إبراہیم،الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۴۷۹۔یری جمہور الفقہا أنہ یستحب الوضوء بالخطبۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي عقب الخطبۃ لایفصل بینہما بطہارۃ فیدل علی أنہ کان متطہراً والاقتداء بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن لم یکن واجباً فہو سنۃ۔ ویری الشافعیۃ والمالکیۃ علی القول المقابل للمشہور أن الطہارۃ عن الحدث من شروط الخطبۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’الخطبۃ‘‘:  وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، الکویت،ج ۴۳، ص: ۳۲۳)الطہارۃ من الحدث، والخبث غیر المعفو عنہ في الثوب، والبدن، والمکان، وہي لیست شرطاً عند الجمہور بل ہي سنۃ وہي شرط عند الشافعیۃ وأبي یوسف خطبۃ الجمعۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’خطبۃ الجمعۃ وسننہا‘‘: ج ۱۹، ص: ۱۸۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 100

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اس سلسلے میں حضرات فقہاء سے ایسی کوئی صراحت منقول نہیں کہ پہلے جامع مسجد میں نماز ہو پھر دیگر مساجد میں جمعہ ہو اس لیے جہاں پر متعدد مساجد میں جمعہ قائم کرنا درست ہے وہاں کسی بھی مسجد میں پہلے جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔’’(وتؤدي في مصر في مواضع) أي تؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، وہو قول أبي حنیفۃ ومحمد، وہو الأصح؛ لأن في الاجتماع في موضع واحد في مدینۃ کبیرۃ حرجا بینا‘‘(۱)(۱) زیلعي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 100

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص ایک جگہ نماز جمعہ پڑھانے یا پڑھنے کے بعد دوسری جگہ جمعہ کی امامت کرتا ہے تو اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی، اس لئے کہ امام کی یہ نماز نفل ہے اور اقتداء کرنے والوں کی نماز فرض ہے اور فرض نماز ادا کرنے والے نفل پڑھنے والے کی اقتداء کریں تو اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوتی، البتہ ایک جگہ جمعہ کی نماز پڑھ کر دوسری جگہ پھر پڑھنا بطور نفل کے درست ہے۔’’لا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضاً آخر سوائً تغیر الفرضان اسماً أو صفتاً‘‘(۱)’’(ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر) أي وفسد اقتداء المفترض بإمام متنفلٍ أو بإمام یصلی فرضاً غیر فرض المقتدي، لأن الاقتداء بناء وصف الفرضیۃ معدوم في حق الإمام في الأولیٰ وہو مشارکۃ وموافقۃٌ‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 99