Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خاموش رہنا بہتر ہے۔ (۱)
(۱) ولو قرأ الإمام آیۃ الترغیب أو الترہیب فقال المقتدي: صدق اللّٰہ وبلغت رسلہ، فقد أساء، ولا تفسد صلاتہ۔ (فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷؛ وعلی ہامش الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۳۸، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع في ما یفسد الصلاۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، قدیم؛ ج ۱، ص: ۱۵۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبیوں اور پیغمبروں کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اجازت ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کی جو رحمتیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے صدقہ سے ہمارا کام ہوجائے؛ لیکن وسیلہ ضروری نہیں ہے (۱) صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر اکتفاء بھی درست ہے۔ (۲)
(۱) یحسن التوسل بالنبي إلی ربہ ولم ینکرہ أحد من السلف۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۷)
(۲) وأن یسأل اللّٰہ تعالیٰ بأسمائہ الحسنی وصفاتہ العلی۔ (علامہ محمد بن محمد زجري شافعي، حصن حصین: ص: ۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص371
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: لائف انشورنس کرانا حرام ہے۔ امام صاحب نے جان بوجھ کربلا کسی مجبوری کے لائف انشورنس کرایا ہے، توان کا یہ عمل غلط ہے ان کو توبہ کرنی چاہیے اور اپنا انشورنس ختم کرادینا چاہیے اورا گر ممکن نہ ہو، تو جو اضافی رقم ہو وہ بلا نیت ثواب صدقہ کرنی چاہیے ،توبہ کے بعد امام صاحب کی امامت درست ہوگی اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ ایسے شخص کو مدرس رکھا جاسکتا ہے؛ تاہم اس کا یہ عمل غلط ہے جس سے اس کو توبہ کرنی چاہیے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
ولذا کرہ إمامۃ ’’الفاسق‘‘ العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا، وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ ’’والمبتدع‘‘ بارتکابہ ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع بشبھۃ أو استحسان وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسف أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر وجاہدوا مع کل بروفاجر ’’رواہ الدار قطني کما في البرہان وقال في مجمع الروایات، وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص161
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابالغ بچے عقل وشعور والے ہیں تو صورت مسئولہ کی گنجائش ہے اور اگر سبھی بچے ناسمجھ ہیں تو پھر جماعت نہیں ہوسکے گی، تاہم نماز کا جو وقت متعین ہے اسی پر نماز شروع کرنا لازم نہیں اس لیے اگر کبھی ایسی ضرورت پیش آجائے تو مقتدی حضرات کا تھوڑا اور انتظار کرلیں پھر نماز شروع کریں۔(۱)
(۱) إذا زاد علی الواحد في غیر الجمعۃ فہو جماعۃ وإن کان معہ صبي عاقل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس فيالإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
وأقلہا إثنان، واحد مع الإمام ولو ممیزاً أو ملکاً، قولہ ولو ممیزاً أي ولو کان الواحد المقتدي صبیاً ممیزاً قال في السراج: لو حلف لایصلي جماعۃ وأم صبیاً یعقل حنث ولا عبرۃ بغیر العاقل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص366
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں اذان دینا خلاف اولیٰ ہے اس لیے کہ اذان کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اذان کی آواز پہونچ جائے ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے کی صورت میں آواز دور تک نہیں پہونچ سکے گی اس لیے مسجد کے اندر اذان دینا بہتر نہیں ہے۔
’’ینبغي أن یؤذن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد‘‘(۱)
لیکن آج کل لاؤڈ اسپیکر پر عام طور پر اذان دی جاتی ہے اور اس سے دور تک آواز پہونچ جاتی ہے جو اذان کا اصل مقصود ہے اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد میں اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر مسجد سے باہر رکھا جائے تاکہ مسجد میں زیادہ شور اور آواز نہ ہو اگر اس کا بھی نظم نہ ہو سکے تو مسجد میں لاؤڈ اسپیکر رکھ کر اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’اعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ ووعمومہ ہذا الأذان بل مقیدا إذا کان المقصود إعلام ناس غیرہا ضرین‘‘ (۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: فی الأذان‘‘: الفصل الثاني: فی کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۲۔
(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب التأذین عند خطبۃ ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص152
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ہمارے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک آمین سراً کہی جائے گی جہراً نہیں، وہ شخص اگر اہل حدیث ہے تو اس کو خود ہی اپنے مذہب پر عمل کرلینا چاہئے دوسروں کو بہکاتا اور جھگڑتا ہے تو اس کو سختی کے ساتھ منع کردینا چاہئے۔(۱)
(۱) عن علقمۃ بن وائل، عن أبیہ، أن النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ (غیر المغضوب علیہم ولاالضالین)، فقال: آمین وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبوب الصلاۃ، باب ماجاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۲۴۸)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام غیر المغضوب علیہم ولاالضّالین، فقولوا: آمین۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: جہرالمأموم بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، رقم: ۱۵۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام (ولاالضالین)، فقولوا: آمین، فإن الإمام، یقولہا۔ (رواہ أحمد والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح، ’’أوجز المسالک: التأمین خلف الإمام‘‘: ج۱، ص: ۲۵۲)
حدثنا بندارنا یحییٰ بن سعید وعبد الرحمن بن مہدي قالا: ناشعبۃ عن سلمۃ بن کہیل عن حجر بن عنبس عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولاالضَّآلین، وقال آمین، وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۸، رقم: ۲۴۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 408
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرے، اور اس میں تمام امت مسلمہ کی نیت کرے۔(۱)
(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عمم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في الدعاء بغیر العربیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵، زکریا دیوبند)
لایؤم رجل قوما فیخص نفسہ بالدعاء دونہم، فإن فعل فقد خانہم۔ (أخرجہ داؤد، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب أیصلي رجل و ھو حاقن‘‘: ج۱ ، ص: ۹۰؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ: ج۱، ص: ۳۵۷؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ج ۱، ص: ۶۱۹، ۹۲۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف کی کثرت رکھیں ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ صلاۃ حاجت پڑھ لیا کریں(۱) اور رو رو کر اللہ سے دعا کریں، اور روزانہ پانچ تسبیح ’’یاَ رَزَّاقُ‘‘ کی پڑھا کریں ان شاء اللہ جلد ہی کشادگی اور خوشی حاصل ہوگی، یہ اللہ رب العزت کی طرف سے نیک بندوں کا امتحان ہوتا ہے، ایسے مواقع پر صبر اور شکر سے کام لیا جائے صرف اللہ تعالیٰ سے دعاء کریں {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ}۔(۲)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّط ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۳)
(۲) سورۃ الیوسف: ۸۶۔
عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام، فقال: یا أیہا الناس اذکروا اللّٰہ اذکروا اللّٰہ جائت الراجفۃ تتبعہا الرادفۃ جاء الموت بما فیہ جاء الموت بما فیہ، قال أبي قلت: یا رسول اللّٰہ إني أکثر الصلاۃ علیک فکم أجعل لک من صلاتي، فقال: ما شئت؟ قال: قلت الربع، قال: ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک، قلت: النصف، قال: ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک، قال: قلت فالثلثین، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قلت: أجعل لک صلاتي کلہا، قال: إذا تکفی ہمک ویغفر لک ذنبک، قال: أبو عیسی ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص371
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زنا کا ثبوت زانی کے اقرار یا چار عینی ثقہ گواہوں کی گواہی سے ہوتاہے، اس کے بغیر زنا کا ثبوت نہیں ہوسکتاہے؛ لہٰذا اگر مذکور ہ شخص کے زنا کے شرعی ثبوت ہوں، تو جب تک وہ اس گندے فعل سے توبہ نہ کرلے اس وقت تک اس کی امامت شرعاً مکروہ تحریمی ہے۔ ’’ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا، فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱) ’’بل مشی فی شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ؛ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص163
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جذامی سے جمعہ وجماعت ساقط ومعاف ہے، اس لیے وہ مسجد میں نہ آئے؛ بلکہ گھر پر نماز پڑھے۔(۲)
(۲) ویمنع منہ (أي المسجد) وکذا کل موذ قال الشامي: وکذلک القصاب والسماک والمجذوم والأبرص أولی بالإلحاق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵، زکریا دیوبند)
وتسقط الجماعۃ بالأعذار حتی لا تجب علی المریض والمقعد والمزن ومقطوع الید والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا یستطیع المشي والشیخ الکبیر العاجز والأعمیٰ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص367