نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  مسجد میں اذان دینا خلاف اولیٰ ہے اس لیے کہ اذان کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اذان کی آواز پہونچ جائے ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے کی صورت میں آواز دور تک نہیں پہونچ سکے گی اس لیے مسجد کے اندر اذان دینا بہتر نہیں ہے۔
’’ینبغي أن یؤذن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد‘‘(۱)
لیکن آج کل لاؤڈ اسپیکر پر عام طور پر اذان دی جاتی ہے اور اس سے دور تک آواز پہونچ جاتی ہے جو اذان کا اصل مقصود ہے اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد میں اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر مسجد سے باہر رکھا جائے تاکہ مسجد میں زیادہ شور اور آواز نہ ہو اگر اس کا بھی نظم نہ ہو سکے تو مسجد میں لاؤڈ اسپیکر رکھ کر اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’اعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ ووعمومہ ہذا الأذان بل مقیدا إذا کان المقصود إعلام ناس غیرہا ضرین‘‘ (۱)
 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: فی الأذان‘‘: الفصل الثاني: فی کلمات الأذان  والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۲۔
(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب التأذین عند خطبۃ  ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص152

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ہمارے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک آمین سراً کہی جائے گی جہراً نہیں، وہ شخص اگر اہل حدیث ہے تو اس کو خود ہی اپنے مذہب پر عمل کرلینا چاہئے دوسروں کو بہکاتا اور جھگڑتا ہے تو اس کو سختی کے ساتھ منع کردینا چاہئے۔(۱)
(۱) عن علقمۃ بن وائل، عن أبیہ، أن النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ (غیر المغضوب علیہم ولاالضالین)، فقال: آمین وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبوب الصلاۃ، باب ماجاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۲۴۸)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام غیر المغضوب علیہم ولاالضّالین، فقولوا: آمین۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: جہرالمأموم بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، رقم: ۱۵۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام (ولاالضالین)، فقولوا: آمین، فإن الإمام، یقولہا۔ (رواہ أحمد والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح، ’’أوجز المسالک: التأمین خلف الإمام‘‘: ج۱، ص: ۲۵۲)
حدثنا بندارنا یحییٰ بن سعید وعبد الرحمن بن مہدي قالا: ناشعبۃ عن سلمۃ بن کہیل عن حجر بن عنبس عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولاالضَّآلین، وقال آمین، وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۸، رقم: ۲۴۸)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرے، اور اس میں تمام امت مسلمہ کی نیت کرے۔(۱)
(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عمم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في الدعاء بغیر العربیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵، زکریا دیوبند)
لایؤم رجل قوما فیخص نفسہ بالدعاء دونہم، فإن فعل فقد خانہم۔ (أخرجہ داؤد، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب أیصلي رجل و ھو حاقن‘‘: ج۱ ، ص: ۹۰؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ: ج۱، ص: ۳۵۷؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ج ۱، ص: ۶۱۹، ۹۲۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف کی کثرت رکھیں ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ صلاۃ حاجت پڑھ لیا کریں(۱) اور رو رو کر اللہ سے دعا کریں، اور روزانہ پانچ تسبیح ’’یاَ رَزَّاقُ‘‘ کی پڑھا کریں ان شاء اللہ جلد ہی کشادگی اور خوشی حاصل ہوگی، یہ اللہ رب العزت کی طرف سے نیک بندوں کا امتحان ہوتا ہے، ایسے مواقع پر صبر اور شکر سے کام لیا جائے صرف اللہ تعالیٰ سے دعاء کریں {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ}۔(۲)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّط ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۳)
(۲) سورۃ الیوسف: ۸۶۔
عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام، فقال: یا أیہا الناس اذکروا اللّٰہ اذکروا اللّٰہ جائت الراجفۃ تتبعہا الرادفۃ جاء الموت بما فیہ جاء الموت بما فیہ، قال أبي قلت: یا رسول اللّٰہ إني أکثر الصلاۃ علیک فکم أجعل لک من صلاتي، فقال: ما شئت؟ قال: قلت الربع، قال: ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک، قلت: النصف، قال: ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک، قال: قلت فالثلثین، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قلت: أجعل لک صلاتي کلہا، قال: إذا تکفی ہمک ویغفر لک ذنبک، قال: أبو عیسی ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص371

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زنا کا ثبوت زانی کے اقرار یا چار عینی ثقہ گواہوں کی گواہی سے ہوتاہے، اس کے بغیر زنا کا ثبوت نہیں ہوسکتاہے؛ لہٰذا اگر مذکور ہ شخص کے زنا کے شرعی ثبوت ہوں، تو جب تک وہ اس گندے فعل سے توبہ نہ کرلے اس وقت تک اس کی امامت شرعاً مکروہ تحریمی ہے۔ ’’ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا، فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱) ’’بل مشی فی شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ؛ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص163

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جذامی سے جمعہ وجماعت ساقط ومعاف ہے، اس لیے وہ مسجد میں نہ آئے؛ بلکہ گھر پر نماز پڑھے۔(۲)
(۲) ویمنع منہ (أي المسجد) وکذا کل موذ قال الشامي: وکذلک القصاب والسماک والمجذوم والأبرص أولی بالإلحاق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵، زکریا دیوبند)
وتسقط الجماعۃ بالأعذار حتی لا تجب علی المریض والمقعد والمزن ومقطوع الید والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا یستطیع المشي والشیخ الکبیر العاجز والأعمیٰ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص367

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:واضح رہے کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگوں تک آواز پہونچ جائے اور لوگوں کو نماز کی خبر مل جائے اور یہ اطلاع عصر حاضر میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ عام طور پر دی جاتی ہے؛ اس لیے حدودِ مسجد یا مسجد کے اندر کہیں بھی اذان دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جیسا کہ علامہ بدر الدین العینیؒ عمدۃ القاری شرح البخاری میں اور علامہ ظفر عثمانی  ؒنے اعلاء السنن میں تفصیل سے ذکر کیا ہے:
’’قال العیني: ذکر ما یستفاد منہ: فیہ استحباب رفع الصوت بالأذان لیکثر من یشہد لہ ولو أذن علی مکان مرتفع لیکون أبعد لذہاب الصوت وکان بلال رضي اللّٰہ عنہ یؤذن علی بیت امرأۃ من بني نجار بیتہا أطول بیت حول المسجد‘‘(۱)
’’واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقاً کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہذا الأذان؛ بل مقیداً بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر إلی قولہ في الجلابي: أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم‘‘(۲)

نیز مسجد کے اندر اذان نہ دینے کا حکم اس وقت لگایا جائے گا جب کہ اذان کا مقصد فوت ہو رہا
ہو اور لاؤڈ اسپیکر میں اذان دینے کی صورت میں مقصد بالکل بھی فوت نہیں ہو تاہے؛ اس لیے مسجد کے اندر اذان دینے میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے، البتہ جب مسجد کے اندر بغیر مائک کے اذان دی جائے اور لوگوں تک آواز کا پہونچنا ممکن نہ ہو تواس صورت میں مسجد کے اندر اذان دینے کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔
’’وینبغي أن یؤذّن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۳)

(۱) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري،’’کتاب الأذان،… باب رفع الصوت بالنداء‘‘: ج ۴، ص: ۱۶۲۔
(۲) ظفر عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلوۃ، أبواب الجمعۃ، باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما: ج ۱، ص: ۱۱۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص153

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صفوں کے سیدھا کرنے اور خالی جگہوں کو پر کرنے کی تعلیم احادیث میں موجود ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے، اس لیے صف کو سیدھا کرنے یا خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے مکبر کا آگے یا پیچھے ہٹنا جائز ودرست ہے۔(۱)
(۱) سووا صفوفکم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب: تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول منہا‘‘:ج۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۴۳۳)
اتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج۲۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۱۳۴۰)
ألا تصفون کما تصف الملائکۃ عند ربہم جل وعز؟ قلنا: وکیف تصف الملائکۃ عند ربہم؟ قال: یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون في الصف۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ،’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الصفوف، باب: تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۶۶۱۰)
وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک: لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: (سووا صفوفکم؛ فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ (فخر الدین عثمان بن علي،  تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  409

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 37/1184

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا  "امام اس لئے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، لہذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرنے لگے  تو خاموش ہوجاؤ"(بخاری 779)۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جب امام اللہ اکبر کہے تو اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب امام غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین کہے تو آمین  کہو  (ابن ماجہ 846)۔ حضرت جابر  سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد  فرمایا جب کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔ (ابن ماجہ 85)۔ اس لئے احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ اور اگر پڑھ لیا تو گو کراہت سے خالی نہیں مگر نماز درست ہوجائے گی۔( شامی ج2ص266)۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسمائے الٰہی کا ورد کرنا باعث ثواب ہے، اور مسجد میں خاموشی کے ساتھ اسماء وآیات کا زبان سے ورد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ نمازیوں کو خلل نہ ہو۔(۱) اور خاص عدد کا خاص اثر ہوتا ہے، اس لئے متعین تعداد کے مطابق وظیفہ کرنا بھی درست ہے۔(۲)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۸۴۱)
(۲) وحکمۃ السبع إن ہذا العدد فیہ برکۃ بالاستقراء (أحمد بن محمد الہتیمي، فتاویٰ حدیثیۃ، ’’مطلب في قولہ علیہ السلام أہریقوا علي سبع قرب لم تحلل أو کیتہن‘‘: ص: ۲۷۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص372