نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلیہ ونوازل کی حالت میں فجر کی نماز میں قنوت نازلہ کا اصل حکم قائم ہے۔ فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رفع یدین افضل نہیں ہے۔
’’والذي یظہر لي أن المقتدي یتابع إمامہ إلا إذا جہر فیؤمن وإنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ‘‘(۱)
اس کے لیے ارسال تو ہے ہی؛ لیکن رفع یدین کے بارے میں بدائع الصنائع جلد: ۳، ص: ۳۷۲ میں ہے۔
’’روي عن علي رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان إذا أراد أن یقنت کبر وقنت وأما رفع الیدین، فلقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا ترفع الیدین إلا في سبعۃ مواطن وذکر من جملتہا القنوت‘‘(۲)
لیکن شامی میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے۔
’’لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن: عند افتتاح الصلاۃ وفي العیدین والقنوت في الوتر وعند استلام الحجر الخ‘‘(۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع یدین قنوت وتر کے ساتھ ہے قنوت نازلہ کے وقت نہیں؛ لیکن عمومی جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت نازلہ سے قبل بعد الرکوع رفع یدین ہے۔
بظاہر دونوں صورتیں جائز ہیں، فرق اولیت اور افضلیت کا ہوگا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں نزاع اور بحث نہ ہونی چاہیے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، وقت الوتر و صفۃ القرائۃ فیہ‘‘: ج ۱، ص:  ۶۱۲۔)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، حکم رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۵۔)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص332

 

نماز / جمعہ و عیدین

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔شرعی حدود میں رہ کر تعویذ کرنا جائز ہے،اور ایسے شخص کی امامت درست ہے۔ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا گناہ کبیرہ ہے، اور ایسے شخص کی امامت مکرہ تحریمی ہے۔ مذکورہ صورت میں تحقیق سے جو ثابت ہو اسی کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر امام صاحب ایسا عمل کرتے ہیں تو وہ شخص گناہ گار ہے قابل امامت نہیں ہے۔(۲)

(۲) (قولہ وفاسق) من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔۔۔۔، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع قولہ نال فضل الجماعۃ) أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعا إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: مطلب في إمامۃ الأمرد،: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص158

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کی مسجد کا حق زیادہ ہے اس لیے اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسرے محلہ کی مسجد میں نہ جانا چاہئے۔ شامی میں خانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر اپنے محلہ کی مسجد میں تنہا بھی نماز پڑھے تو اکیلا اذان کہہ کر نماز پڑھے اور اس کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں نہ جائے۔
’’بل في الخانیۃ لو لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یذہب إلیہ ویؤذن فیہ ویصلي ولو کان وحدہ لأن لہ حقا علیہ فیؤدیہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: مطلب في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۳، ط: زکریا۔
رجل یصلي في الجامع لکثرۃ الجمع ولا یصلي في مسجد حیہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل: وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ج۱، ص: ۲۲۸، المکتبۃ الرشیدیہ، کوئٹہ)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سننے کے بعد ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ دعا پڑھے اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی، امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث نقل کی ہے:
’’عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: من قال حین یسمع النداء: ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ حلت لہ شفاعتي یوم القیامۃ‘‘(۱)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان سننے کے بعد مذکورہ دعا پڑھی اُس کے لیے روزِ قیامت میری شفاعت لازم ہو گئی۔
اذان کے بعد دعا قبول ہوتی ہے دعا کی قبولیت میں بنیادی دخل تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعاکرنے والے کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ خاص احوال واوقات ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے، قبولیت ِدعاء کے خاص اوقات میں سے اذان کے دوران، اذان کے بعد اور اذان واقامت کے درمیان کاوقت بھی شامل ہے، ان اوقات میں بھی دعا قبول ہوتی ہے اور یہ روایات سے ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت:قال رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم:
ثلاث ساعات للمرأ المسلم مادعافیھن إلا استجیب لہ مالم یسأل قطیعۃ رحم، أو ماثما، قالت: فقلت: یارسول اللّٰہ! أي ساعۃ؟ قال حین یؤذن المؤذن بالصلوۃ حتی یسکت، وحین یلتقی الصفان حتی یحکم اللّٰہ بینھما، وحین ینزل المطر حتی یسکن، قالت، قلت: کیف اقول یا رسول اللّٰہ! حین اسمع المؤذن؟ علمني مما علمک اللّٰہ، واجھد، قال: تقولین کما کبراللّٰہ یقول اللّٰہ أکبر … ثم صلي علي وسلمي، ثم اذکري حاجتک‘‘(۲)
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’أقول ذلک لشمول الرحمۃ الإلٰھیۃ  ووجود الانقیاد من الداعي‘‘(۳)
یعنی اذان کے وقت مؤذن کی طرف سے کامل اتباع کا اظہار ہوتاہے اور رحمت الٰہی کا فیضان ہوتاہے، اس وجہ سے اس وقت دعا خصوصیت سے قبول کی جاتی ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، رقم: ۵۸۹، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن: باب قولہ: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۴۴۴۲۔
(۲) الأصفہاني،أبو نعیم ، حلیۃ الأولیاء، علی بن بکار: ج ۹، ص: ۳۲۱۔(شاملۃ)
(۳)  الدہلوي،الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:  فصل في المساجد، ج ۱، ص: ۴۰۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص149

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں سجدوں کے درمیان دعاء پڑھنا منقول ہے؛ البتہ باجماعت فرض نماز میں تخفیف کا حکم ہے؛ اس لیے جماعت کی نماز میں مناسب نہیں، ہاں نوافل میں یا تنہا فرض نماز پڑھنے کی صورت میں اس کی اجازت ہے، اسی طرح اگر مقتدی ایسے ہوں جن کو اس سے گرانی نہ ہو، تو پھر باجماعت نمازوں میں بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔(۲)
(۲) وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان  یقول بین السجدتین ’’اللہم اغفرلي وارحمني وعافني واہدني وارزقني۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الدعاء بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۸۵۰)
ہکذا أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما یقول بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۲۸۴، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  406

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حادثات ومصائب کے وقت قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
’’إذا وقعت نازلۃ قنت الإمام في الصلاۃ الجھریۃ، لکن في الأشباہ عن الغابۃ: قنت في صلاۃ الفجر و یؤیدہ ما في شرح المنیۃ …قال الحافظ أبو الجعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في الصلاۃ الفجر من غیر بلیۃ‘‘(۱)
مذکورہ عبارت سے یہ بھی واضح ہوا کہ بغیر مصیبت وحادثات کے پڑھنے کی اجازت نہیں قاریوں کی شہادت کے بعد رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک پڑھی۔
اس کے بعد چوں کہ کوئی حادثہ فاجعہ ایسا پیش نہیں آیا، تو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ بن کذاب مدعی نبوت سے جنگ کی اور اس کی وجہ سے پیش آمدہ فتنہ کے وقت دعاء قنوت نماز فجر میں پڑھی، ایسے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پڑھنا ثابت ہے، اسی طرح موجودہ وقت میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور فتنوں کا سامنا ہے، ایسے وقت میں نماز فجر میں حالات کے سازگار ہونے تک دعاء قنوت پڑھنا بلا شبہ جائز اور درست ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔)
(۲) أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب؛ علی رعل وذکوان، وعصیۃ وبنی لحیان، زاد خلیفۃ : …… أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان و بئر معونۃ۔ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۹۰)
النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند)
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر وفیہ التصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظہر الحموي أنہ قبلہ والأظہر ما قلناہ، واللہ أعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص334

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/0000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کو امام کے پیچھے  صرف ایک رکعت ملی، وہ امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پر اکتفاء کرے، امام کے سلام سے فارغ ہونے کے بعد  مقتدی کھڑا ہو اور اپنی دوسری رکعت اسی  طرح  ادا کرے جس  طرح چھوٹی ہے، یعنی بغیر ثناء پڑھے سورہ فاتحہ شروع کردے اور کوئی  سورہ یاچند آیات پڑھے، پھر رکوع وسجدہ کرے اور بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو، سورہ فاتحہ پڑھے،  کوئی  سورہ یا چند آیات پڑھے اور پھر رکوع وسجدہ  کرے اور اب سیدھا چوتھی  رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے اور  صرف سورہ فاتحہ پڑھے، سورہ نہ ملائے اور رکوع وسجدہ  کے بعد قعدہ اخیرہ کرے جس میں تشہد ، درودشریف اور دعاء کے بعد سلام پھیردے۔  فمدرک رکعۃ من غیر فجر یاتی برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشھد بینھما وبرابعۃ الرباعی بفاتحۃ فقط ولایقعد قبلھا (شامی باب الامامۃ ج2ص347)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر جگہ موجود ہونا اور سننا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ ہی کی خصوصیت ہے۔ ان میں کوئی اللہ کا شریک نہیں ہے، البتہ ملائکہ سیاحین ہیں۔ جو درود شریف کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں، مسجد میں بآواز بلند اجتماعی طور سے یہ عمل کتاب وسنت اجماع وقیاس سے ثابت نہیں ہے۔ اس سے مسجد میں نمازیوں کی نماز میں، کتاب اللہ پڑھنے والوں کی تلاوت میں بھی خلل ہوتا ہے۔ ویسے بے شمار بے حساب درود شریف ہیں، ’’صلی اللّٰہ علیک یارسول اللّٰہ وسلم علیک یا حبیب اللّٰہ‘‘ روضۂ اقدس کے سامنے پڑھنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور دنیا کی زندگی سے افضل واکمل زندگی ہے۔ یہ درود ماثور ہے، لیکن مستند صحیح حدیث سے نہیں ہے، افضل درود نماز والا ہے۔(۱)
(۱) رجل تزوج امرأۃ ولم یحضر الشہود، قال: ’’خدایرا ورسول را گواہ کردم‘‘ أو قال: ’’خدائے را وفرشتگان گواہ کردم‘‘ کفر ولو قال فشتہ ’’دست راست را گواہ کردم وفرشتہ دست جب را گواہ کردم‘‘ لا یکفر کذا في فصول العمادیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶)
وعن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علي عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیاً أبلغتہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۰، رقم: ۹۳۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص370

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس ہے جو تقوی وطہارت، پرہیز گاری اور اعلیٰ اخلاقی رویئے کا تقاضا کرتا ہے اس لیے مذکورہ باتیں جو سوال میں ذکر کی گئی ہیں اگر صحیح ہیں تو امام صاحب کو اپنے کردار پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ البتہ امام صاحب مذکورہ فعل کی وجہ سے اگرچہ گناہگار ہیں؛ لیکن ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازیں درست ہیں انہیں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گالی دینے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے:
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔(۱)
ابوداؤد شریف میں لکھا ہے:
فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔
’’الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان أو فاجرا وإن عمل الکبائر‘‘(۲)
البتہ اگر امام صاحب گالیاں دینے اور حرام مال کا استعمال کرنے سے نہ رکیں تووہ فاسق ہے ایسے شخص کو آئندہ امام مقرر نہیں کرنا چاہیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق‘‘(۳)
ایسے کی اقتداء سے بہتر تنہا نماز پڑھنے کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر نمازی عام آدمی ہے، یعنی جس کے اختیار میں ایسے امام کو رکھنا یا ہٹانا نہ ہو اورقریب کی کسی مسجد میں کوئی متقی و صالح امام بھی میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہوگا، البتہ اگر قریب میں اہلِ حق کی کسی مسجد کے امام متقی صالح ہوں تو وہاں جاکر نماز ادا کرے، اور اگر نمازی انتظامیہ میں سے یا با اثر شخصیت ہے تو اسے چاہیے کہ اولًا امام کی فہمائش یعنی آگاہ اور متنبہ کرے، اگر امام اصلاحِ اَحوال کرلیتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا بلاکراہت درست ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئے تو انتظامیہ امام تبدیل کرے، امام تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(والأحق بالإمامۃ) تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: بشرط اجتنابہ إلخ) کذا في الدرایۃ عن المجتبی۔ وعبارۃ الکافي وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی، إلا أن یطعن علیہ في دینہ؛ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۴۸۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إمامۃ البر والفاجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۲، رقم: ۵۹۴۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:  ص: ۲۹۴۔
(۲) أیضًا:۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص159