نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، اس لیے مقطوع اللحیہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ کسی بھی نماز میں ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے۔ تاہم جو نمازیں پہلے پڑھی جاچکی ہیں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مسجد کی کمیٹی وکمیٹی کے ممبران کے انتخاب کے وقت ہی باشرع لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے، مقطوع اللحیہ اشخاص کو مسجد کا ٹرسٹی یا ممبر بنانا بالکل مناسب نہیں ہے، جو لوگ خوف خدا سے ڈاڑھی نہ رکھ سکیں وہ کوئی فیصلہ کرنے میں کیوں کر انصاف کا خیال کریں گے۔ تاہم اگر کوئی امامت کے لیے نہ ہو، تو ایسے مقطوع اللحیہ کے پیچھے نماز پڑھنا، تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔(۱)

(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال: بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ،مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
ولأن الإمامۃ أمانۃ عظیمۃ فلا یتحملہا الفاسق؛ لأنہ لا یؤدي الأمانۃ علی وجہہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۷، زکریا دیوبند)
وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ تقلید الفاسق، ویعزل بہ إلا لفتنۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص164

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کے علاوہ کسی جگہ پر نماز باجماعت پڑھی جائے تو جماعت کا پورا ثواب ملتا ہے اس میں تو کمی نہیں ہوتی؛ البتہ مسجد میں نماز کا جو ثواب ہے اس سے محروم ہوجاتا ہے۔(۱)
(۱) عن انس بن مالک -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الذي یجمع فیہ بخمس مائۃ صلاۃ وصلاتہ في المسجد الأقصی بخمسین ألف صلاۃ وصلاتہ في مسجدی بخمسین ألف صلاۃ وصلاۃ في المسجد الحرام بمائۃ ألف صلاۃ۔ رواہ ابن ماجہ۔ (مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ص: ۵۲، رقم: ۷۵۲،مکتبہ یاسر ندیم دیوبند)
عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجمیع تزید علی صلاتہ في بیتہ و صلاۃ في سوقہ خمسا و عشرین درجۃ الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مسجد السوق، ج۱، ص۶۹، رقم:۴۷۲)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص368


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں قراء ۃ کے ختم ہونے پر ہاتھ چھوڑ کر رکوع کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جانا چاہئے پس مولوی صاحب کا قول درست ہے۔(۱)
(۱) (ثم) کما فرغ (یکبر) مع الانحطاط (للرکوع) (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘، ج۲، ص: ۱۹۶)
أفاد أن السنۃ کون ابتداء التکبیر عند الخرور وانتہائہ عند استواء الظہر وقیل إنہ یکبر قائماً والأول ہو الصحیح کما في المضمرات وتمامہ في القہستاني۔ (أیضًا:)
ویکبر مع الانحطاط، کذا في الہدایۃ قال الطحطاوي: وہو الصحیح کذا في معراج الدرایۃ، فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱، ط: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  410

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ اور اسی طرح صرف ’’إلا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرنا بھی صحیح ہے۔ کلام عرب میں مستثنیٰ منہ کا حذف بکثرت رائج ہے۔ (۳)
(۳) فقال العباس رضي اللّٰہ عنہ، یا رسول اللّٰہ إلا الإذخر، فإنہ لقینہم لبیوتہم فقال: إلا الإذخر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب جزاء الصید ونحوہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۲، رقم: ۱۸۳۴)
وإنما فعلوا ذلک لکون الذکر عند ہم ضد النسیان فکل ذکر صاحبہ غفلۃ أو نسیان لیس بذکر معتد بہ عند ہم ثم رأوا أن الذکر البسیط یر تسخ في القلب أسرع من المرکب   فلقنوا ذکر إسم الذات مرۃ وذکر الإثبات إلا اللّٰہ، إلا اللّٰہ مرۃ أخریٰ فالأذکار التي أخترعہا المشایخ وإن لم تکن ماثورۃ فإنہا مقدمات لقبول القلب وصلاحہ للذکر المأثور فہو نظیر تقطیع کلمات القرآن عند تعلیم الصبیان۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب الذکر والدعاء: ج ۱۸، ص: ۴۶۵)
أشرف علي التھانوي، إمدادالفتاوی جدید: ج ۱۱، ص: ۳۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص373

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: قتل کرنا اس کا جائز نہیں تھا اور اس قتل کی وجہ سے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہوا(۱) توبہ کرنا اور بیوی کے وارثوں سے معاف کرانا اس پر لازم ہے اگر اس نے توبہ کرلی اور معاف کرالیا تو امامت اس کی صحیح ہوگی(۲) ورنہ تو مکروہ تحریمی ہوگی۔(۳)

(۱) الأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصبا الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ؛ وقال الشامي: الأعلم بالسنۃ أولیٰ إلا أن یطعن في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
 {مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ؔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط وَلَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَہ۳۲ } (سورۃ المائدہ: ۳۲)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ، الحدیث۔ (أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین،  رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص165

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوقات مقررہ پر نماز پڑھانا امام کی ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی درست نہیں؛ لیکن امام کے لیے بھی اعذار ہوسکتے ہیں؛ اس لیے اگر امام کو کبھی تاخیر ہوجائے تو صرف پانچ منٹ انتظار میں مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ مسجد میں ہوتے ہوئے بغیر کسی عذر کے وقت مقررہ میں تاخیر امام کی صرف ضد معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہ کیا جائے نیز اس بارے میں نمازی حضرات ذمہ داران سے گفتگو کریں، ذمہ داران پر لازم ہے کہ نماز یوں کی پوری رعایت کریں اور جو بھی صورت ہو ذمہ داران و نمازی حضرات کے باہمی مشورہ سے اس کو حل کریں، بلا وجہ دینی امور میں اختلاف اور عوام میں انتشار جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ، فإن راٰھم اجتمعوا أقام و إلا انتظرھم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الأذان ج۱، ص۴۴۹)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص369

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مقتدیوں تک آواز پہونچانے کے لیے بلند آواز سے پڑھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
(۱) اقتداء الناس بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في مرض موتہ وہو قاعد وہم قیام وہو آخر أحوالہ، فتعین العمل بہ بنائً علی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إماماً وأبوبکر مبلغاً للناس تکبیرہ، وبہ استدل علی جواز رفع المؤذنین أصواتہم في الجمعۃ وغیرہما۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر شرعی طریقہ پر ثابت ہو کہ امام صاحب نے سونا رکھ لیا اور تانبے کی نشتر بنا کر دے دی جو کہ دھوکہ وفریب ہے،(۱) تو ان کی امامت
بوجہ خیانت و فسق مکروہ ہے،(۲) الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور سونا واپس کردیں؛(۳) لیکن بغیر شرعی ثبوت کے الزام تراشی درست نہیں ہے۔(۴)

(۱) علامات المنافق ثلث: إذا أحدث کذب وإذا وعد أخلف وإذا أؤتمن خان۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’ کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق‘‘: ج۱، ص: ۲۴، رقم: ۳۳)
(۲) وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
(۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۴) عن علي رضی اللّٰہ عنہ قال: البہتان علی البراء أثقل من السموات۔ (علی بن حسام الدین حنفي، کنز العمال، ج۳، ص: ۸۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص166

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بزرگ کی وجہ سے جماعت میں تاخیر اسی صورت میں درست ہے جب کہ تاخیر کی وجہ سے وقت مکروہ میں نماز پڑھنی نہ پڑے اور اس بزرگ کی جماعت میں شرکت یا امامت کا انتظار مقتدیوں کو بھی ہو ۔ مذکورہ صورت میں چوں کہ مقتدیوں کو اس انتظار پر ناراضگی ہے؛ اس لیے یہ انتظار درست نہیں ہوا، آئندہ کے لیے امام کو متنبہ کردیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
وینتظر المؤذن الناس، ومقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا وینبغي أن یؤذن في أول الوقت ویقیم في وسطہ حتی یفرغ المتوضي من وضوء ہ والمصلي من صلاتہ والمعتصر من قضاء حاجتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص370

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نوافل کے سجدہ میں دعا کرنا درست ہے، تاہم نوافل میں صرف وہی دعائیں کرسکتے ہیں جو قرآن و حدیث سے منقول ہوں اور انہیں الفاظ کے ساتھ کی جائیں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضياللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أقرب ما یکون العبد من ربہ وہو ساجد فأکثروا الدعاء‘‘(۲)
’’وأما السجود فاجتہدوا في الدعاء فقمن أن یستجاب لکم‘‘(۳)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقال في الرکوع والسجو‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۴۸۲۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النہي عن قراء ۃ القرآن في الرکوع والسجود‘‘: ج ۱، ص:۱۹۱، رقم: ۴۷۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  411