Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:واضح رہے کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگوں تک آواز پہونچ جائے اور لوگوں کو نماز کی خبر مل جائے اور یہ اطلاع عصر حاضر میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ عام طور پر دی جاتی ہے؛ اس لیے حدودِ مسجد یا مسجد کے اندر کہیں بھی اذان دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جیسا کہ علامہ بدر الدین العینیؒ عمدۃ القاری شرح البخاری میں اور علامہ ظفر عثمانی ؒنے اعلاء السنن میں تفصیل سے ذکر کیا ہے:
’’قال العیني: ذکر ما یستفاد منہ: فیہ استحباب رفع الصوت بالأذان لیکثر من یشہد لہ ولو أذن علی مکان مرتفع لیکون أبعد لذہاب الصوت وکان بلال رضي اللّٰہ عنہ یؤذن علی بیت امرأۃ من بني نجار بیتہا أطول بیت حول المسجد‘‘(۱)
’’واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقاً کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہذا الأذان؛ بل مقیداً بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر إلی قولہ في الجلابي: أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم‘‘(۲)
نیز مسجد کے اندر اذان نہ دینے کا حکم اس وقت لگایا جائے گا جب کہ اذان کا مقصد فوت ہو رہا
ہو اور لاؤڈ اسپیکر میں اذان دینے کی صورت میں مقصد بالکل بھی فوت نہیں ہو تاہے؛ اس لیے مسجد کے اندر اذان دینے میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے، البتہ جب مسجد کے اندر بغیر مائک کے اذان دی جائے اور لوگوں تک آواز کا پہونچنا ممکن نہ ہو تواس صورت میں مسجد کے اندر اذان دینے کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔
’’وینبغي أن یؤذّن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۳)
(۱) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري،’’کتاب الأذان،… باب رفع الصوت بالنداء‘‘: ج ۴، ص: ۱۶۲۔
(۲) ظفر عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلوۃ، أبواب الجمعۃ، باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما: ج ۱، ص: ۱۱۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص153
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صفوں کے سیدھا کرنے اور خالی جگہوں کو پر کرنے کی تعلیم احادیث میں موجود ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے، اس لیے صف کو سیدھا کرنے یا خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے مکبر کا آگے یا پیچھے ہٹنا جائز ودرست ہے۔(۱)
(۱) سووا صفوفکم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب: تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول منہا‘‘:ج۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۴۳۳)
اتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج۲۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۱۳۴۰)
ألا تصفون کما تصف الملائکۃ عند ربہم جل وعز؟ قلنا: وکیف تصف الملائکۃ عند ربہم؟ قال: یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون في الصف۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ،’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الصفوف، باب: تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۶۶۱۰)
وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک: لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: (سووا صفوفکم؛ فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 409
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 37/1184
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا "امام اس لئے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، لہذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرنے لگے تو خاموش ہوجاؤ"(بخاری 779)۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جب امام اللہ اکبر کہے تو اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب امام غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین کہے تو آمین کہو (ابن ماجہ 846)۔ حضرت جابر سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔ (ابن ماجہ 85)۔ اس لئے احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ اور اگر پڑھ لیا تو گو کراہت سے خالی نہیں مگر نماز درست ہوجائے گی۔( شامی ج2ص266)۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسمائے الٰہی کا ورد کرنا باعث ثواب ہے، اور مسجد میں خاموشی کے ساتھ اسماء وآیات کا زبان سے ورد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ نمازیوں کو خلل نہ ہو۔(۱) اور خاص عدد کا خاص اثر ہوتا ہے، اس لئے متعین تعداد کے مطابق وظیفہ کرنا بھی درست ہے۔(۲)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۸۴۱)
(۲) وحکمۃ السبع إن ہذا العدد فیہ برکۃ بالاستقراء (أحمد بن محمد الہتیمي، فتاویٰ حدیثیۃ، ’’مطلب في قولہ علیہ السلام أہریقوا علي سبع قرب لم تحلل أو کیتہن‘‘: ص: ۲۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص372
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، اس لیے مقطوع اللحیہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ کسی بھی نماز میں ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے۔ تاہم جو نمازیں پہلے پڑھی جاچکی ہیں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مسجد کی کمیٹی وکمیٹی کے ممبران کے انتخاب کے وقت ہی باشرع لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے، مقطوع اللحیہ اشخاص کو مسجد کا ٹرسٹی یا ممبر بنانا بالکل مناسب نہیں ہے، جو لوگ خوف خدا سے ڈاڑھی نہ رکھ سکیں وہ کوئی فیصلہ کرنے میں کیوں کر انصاف کا خیال کریں گے۔ تاہم اگر کوئی امامت کے لیے نہ ہو، تو ایسے مقطوع اللحیہ کے پیچھے نماز پڑھنا، تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال: بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ،مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
ولأن الإمامۃ أمانۃ عظیمۃ فلا یتحملہا الفاسق؛ لأنہ لا یؤدي الأمانۃ علی وجہہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۷، زکریا دیوبند)
وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ تقلید الفاسق، ویعزل بہ إلا لفتنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص164
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کے علاوہ کسی جگہ پر نماز باجماعت پڑھی جائے تو جماعت کا پورا ثواب ملتا ہے اس میں تو کمی نہیں ہوتی؛ البتہ مسجد میں نماز کا جو ثواب ہے اس سے محروم ہوجاتا ہے۔(۱)
(۱) عن انس بن مالک -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الذي یجمع فیہ بخمس مائۃ صلاۃ وصلاتہ في المسجد الأقصی بخمسین ألف صلاۃ وصلاتہ في مسجدی بخمسین ألف صلاۃ وصلاۃ في المسجد الحرام بمائۃ ألف صلاۃ۔ رواہ ابن ماجہ۔ (مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ص: ۵۲، رقم: ۷۵۲،مکتبہ یاسر ندیم دیوبند)
عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجمیع تزید علی صلاتہ في بیتہ و صلاۃ في سوقہ خمسا و عشرین درجۃ الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مسجد السوق، ج۱، ص۶۹، رقم:۴۷۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص368
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں قراء ۃ کے ختم ہونے پر ہاتھ چھوڑ کر رکوع کی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جانا چاہئے پس مولوی صاحب کا قول درست ہے۔(۱)
(۱) (ثم) کما فرغ (یکبر) مع الانحطاط (للرکوع) (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘، ج۲، ص: ۱۹۶)
أفاد أن السنۃ کون ابتداء التکبیر عند الخرور وانتہائہ عند استواء الظہر وقیل إنہ یکبر قائماً والأول ہو الصحیح کما في المضمرات وتمامہ في القہستاني۔ (أیضًا:)
ویکبر مع الانحطاط، کذا في الہدایۃ قال الطحطاوي: وہو الصحیح کذا في معراج الدرایۃ، فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱، ط: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 410
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ اور اسی طرح صرف ’’إلا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرنا بھی صحیح ہے۔ کلام عرب میں مستثنیٰ منہ کا حذف بکثرت رائج ہے۔ (۳)
(۳) فقال العباس رضي اللّٰہ عنہ، یا رسول اللّٰہ إلا الإذخر، فإنہ لقینہم لبیوتہم فقال: إلا الإذخر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب جزاء الصید ونحوہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۲، رقم: ۱۸۳۴)
وإنما فعلوا ذلک لکون الذکر عند ہم ضد النسیان فکل ذکر صاحبہ غفلۃ أو نسیان لیس بذکر معتد بہ عند ہم ثم رأوا أن الذکر البسیط یر تسخ في القلب أسرع من المرکب فلقنوا ذکر إسم الذات مرۃ وذکر الإثبات إلا اللّٰہ، إلا اللّٰہ مرۃ أخریٰ فالأذکار التي أخترعہا المشایخ وإن لم تکن ماثورۃ فإنہا مقدمات لقبول القلب وصلاحہ للذکر المأثور فہو نظیر تقطیع کلمات القرآن عند تعلیم الصبیان۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب الذکر والدعاء: ج ۱۸، ص: ۴۶۵)
أشرف علي التھانوي، إمدادالفتاوی جدید: ج ۱۱، ص: ۳۱۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص373
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: قتل کرنا اس کا جائز نہیں تھا اور اس قتل کی وجہ سے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہوا(۱) توبہ کرنا اور بیوی کے وارثوں سے معاف کرانا اس پر لازم ہے اگر اس نے توبہ کرلی اور معاف کرالیا تو امامت اس کی صحیح ہوگی(۲) ورنہ تو مکروہ تحریمی ہوگی۔(۳)
(۱) الأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصبا الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ؛ وقال الشامي: الأعلم بالسنۃ أولیٰ إلا أن یطعن في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
{مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ؔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط وَلَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَہ۳۲ } (سورۃ المائدہ: ۳۲)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ، الحدیث۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص165
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوقات مقررہ پر نماز پڑھانا امام کی ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی درست نہیں؛ لیکن امام کے لیے بھی اعذار ہوسکتے ہیں؛ اس لیے اگر امام کو کبھی تاخیر ہوجائے تو صرف پانچ منٹ انتظار میں مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ مسجد میں ہوتے ہوئے بغیر کسی عذر کے وقت مقررہ میں تاخیر امام کی صرف ضد معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہ کیا جائے نیز اس بارے میں نمازی حضرات ذمہ داران سے گفتگو کریں، ذمہ داران پر لازم ہے کہ نماز یوں کی پوری رعایت کریں اور جو بھی صورت ہو ذمہ داران و نمازی حضرات کے باہمی مشورہ سے اس کو حل کریں، بلا وجہ دینی امور میں اختلاف اور عوام میں انتشار جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ، فإن راٰھم اجتمعوا أقام و إلا انتظرھم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الأذان ج۱، ص۴۴۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص369