نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو شخص اپنی خوشی اور رضامندی سے یا کسی لالچ میں خصی ہوگیا ہو، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ خصی ہونا حرام ہے؛(۱) لہٰذا حرام کام کرنے والے کو امامت جیسا منصب دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
إن خصاء الآدمي حرام صغیرا کان أو کبیرا لورود النہي عنہ۔(جماعۃ من الفقہاء، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج۱۹، ص: ۱۲۰)
(۲) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص167

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  پوری مسجد برابر ہے جس جگہ بھی نماز پڑھی جائے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب برابر ملتا ہے؛ لیکن جماعت کے لیے محراب بنائی جاتی ہے بوقت جماعت امام کو محراب میں کھڑا ہونا چاہئے بغیر کسی عذر کے محراب چھوڑ کر دوسری جگہ جماعت کرنا افضلیت کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم الإمام في المحراب … لئلا یلزم عدم قیامہ في الوسط فلو لم یلزم ذلک لایکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الوسط أو في میسرتہ فقد أساء لمخالفۃ السنۃ، ہکذا في التبیین، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ،  ’’الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج۱، ص: ۱۴۷)، زکریا دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا نہ فرض ہے اور نہ ہی واجب، بلکہ دونوں سورتوں کے درمیان ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا بہتر ہے، خواہ سورۃ الفاتحہ اور سورت کی تلاوت جہراً (بآواز بلند) ہو یا سراً (آہستہ آواز سے) ہو، اگر کوئی ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ نہ پڑھ سکے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، نماز ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ حاشیہ الطحطاوی میں لکھا ہے:
’’فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقاً للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ‘‘(۱)
علامہ ابن نجیمؒ البحر الرائق اور علامہ ابن عابدین رد المحتار میں بیان کرتے ہیں:
’’إن سمی بین الفاتحۃ و السورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروء ۃ سراً أو جہراً کان حسناً عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۳)
’’عن أنس بن مالک، قال: صلی معاویۃ بالمدینۃ صلاۃ فجہر فیہا بالقراء ۃ، فقرأ فیہا بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لأم القرآن ولم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعدہا حتی قضی تلک القراء ۃ، فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین، والأنصار من کل مکان: یا معاویۃ أسرقت الصلاۃ، أم نسیت؟ فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعد أم القرآن، وکبر حین یہوی ساجداً  ‘‘(۱)
(۱) احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وإذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۸۹۔
(۱) أخرجہ الحاکم، في مستدرک:  ج ۱، ص: ۲۳۳، رقم: ۸۸۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  412

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مدرس نے جعلی کاپیاں چھپوائی، پھر جانچ کے وقت ان کو یہ پھاڑ ڈالا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے کاپیاں جعلی چھپوائی تھی اس نے اس سے چندہ بھی کیا ہوگا ان کاپیوں پر اگر چندہ کیا گیا ہے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو یہ شرعاً بالکل حق نہیں تھا اور نہ ہے کہ وہ اس رقم کو معاف کردیں؛ اس لیے کہ یہ ان حضرات کی ذاتی رقم نہیں ہے وہ رقم مدرسہ کی ہے جس کے معاف کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں ہے، رقم پوری لی جائے یا ماہ بماہ تنخواہ سے وضع کی جائے(۱) اور یہ مدرس اپنی سچی توبہ واستغفار کا اعلان کردے تو مدرسہ کے ذمہ دار ان کو حق ہے کہ اس
کی خیانت کو معاف کرکے دو بارہ مدرس رکھیں؛(۲) لیکن رقم کا لینا لازم ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آئندہ اس پر نظر رکھیںاس کو اس طرح خیانت کرنے کا موقعہ نہ ملے پس توبہ و استغفار کے اعلان کے بغیر اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ التوبہ: ۳۴)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ النساء: ۲۹)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘:  ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص168

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: در مختار میں مشغولیتِ علم فقہ کو ترکِ جماعت کا عذر قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اگر اتفاقاً ایسا ہوجائے تو حرج نہیں؛ البتہ اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) منہا مطر وبرد وخوف وظلمۃ وحبس وعمی وفلج وقطع ید ورجل وسقام وإقعاد ووحل وزمانۃ وشیخوخۃ وتکرار فقہ لا نحو ولغۃ بجماعۃ تفوتہ ولم یداوم علی ترکہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصلاۃ، ص: ۹۷، ۹۸)

قولہ وکذا اشتغالہ بالفقہ، الخ، عبارۃ نور الإیضاح، وتکرار فقہ بجماعۃ تفوتہ ولم أر ہذا القید لغیرہ ورمز في القنیۃ لنجم الأئمۃ فیمن لایحضرہا لاستغراق أوقاتہ في تکریر الفقہ لایعذر ولا تقبل شہادتہ ثم رمزلہ ثانیاً أنہ یعذر بخلاف مکرر اللغۃ ثم وفق بینہما بحمل الأول علی المواظب علی الترک تہاوناً والثاني علی غیرہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۳، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہم لوگ جہت (سمت) قبلہ کے مکلف ہیں اس میں اگر کچھ معمولی کمی زیادتی ہو جائے تب بھی نماز اداء ہو جاتی ہے، پس مذکورہ صورت میں نمازیں ادا ہو گئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ولغیر المشاہد إصابۃ جہتہا البعید والقریب سواء (ولو بمکۃ) وحال بینہ وبین الکعبۃ بناء أو جبل (علی الصحیح) کما في الدرایۃ والتنجیس۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،  ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۱۳-۲۱۴، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشائخ، وہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث، في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)
والأصح أن من بینہ وبینہا حائل کالغائب، وأقرہ المصنف قائلاً: والمراد بقولي ’’فللمکي‘‘ مکي یعاین الکعبۃ (ولغیرہ) أي غیر معاینہا إصابۃ جہتہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘:  مبحث في استقبال القبلۃ، ج۲، ص: ۱۰۸-۱۰۹، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص268

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بسم اللہ یا مذکورہ آیت ضروری اور شرعی سمجھ کر یا سنت سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہئے نہ ہی اس پر دائمی عمل ہونا چاہئے حکم شرعی سمجھے بغیر اتفاقاً اگر کوئی پڑھ لے توکوئی حرج نہیں ہے۔(۲)
(۲)  ولہذا صرح في الذخیرۃ والمجتبی بأنہ إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروئۃ سرا أو جہرا کان حسنا عند أبي حنیفۃ ورجحہ المحقق ابن الہمام وتلمیذہ الحلبي … وقال في شرح المنیۃ إنہ الأحوط، لأن الأحادیث الصحیحۃ تدل علی مواظبتہ علیہ الصلاۃ والسلام علیہا، جعلہ في الوہبانیۃ قول الأکثرین  أي بناء علی قول الحلواني إن  أکثر المشایخ علی أنہا من الفاتحۃ، فإذا کانت منہا تجب مثلہا لکن لم یسلم کونہ قول الأکثر (قولہ ضعفہ فی البحر) حیث قال في سجود السہو: إن ہذا کلہ مخالف لظاہر المذہب المذکور فيالمتون والشروح والفتاوی من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۲، ۱۹۳)
ثم یسمی سرا کما تقدم ویسمی کل من یقرأ في صلاتہ في کل رکعۃ سواء صلی فرضا أو نفلا قبل الفاتحۃ بأن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفی فقط فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ  سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لا یسمی إلا في الرکعۃ الأولی۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۳۷)
فائدۃ: یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق فی الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  413

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1119/42-345

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1344/42-729

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو حدیث میں استخارہ کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ اللہ تعالی اس کے لئے خیروالا راستہ واضح فرمادے۔  استخارہ خود کرنا چاہئے اور درپیش معاملہ میں خود اللہ تعالی سے تعلق قائم کرکے خیر کا طالب ہوناچاہئے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورہ سکھاتے تھے۔ حدیث پاک میں کسی جگہ دوسروں سے استخارہ کرانا ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کرنا چاہئے اور خود سے استخارہ کرنا چاہئے۔ تاہم دوسروں سے استخارہ کو حرام بھی نہیں کہا جاسکتاہے، بعض مرتبہ آدمی کسی بزرگ کو نیک سمجھ کر اس سے استخارہ کراتاہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ خود سے بھی استخارہ کرتے رہنا چاہئے اور اگر معاملہ واضح نہ ہو تو سات دن کرتا رہے۔ کسی بھی مناسب وقت یا سونے سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی دعا پڑھے۔ استخارہ کی دعا یہ ہے: "اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به"۔ جب  "ھذا الامر" پر پہونچے تو اپنے کام کو دھیان میں رکھے۔

مطلب في ركعتي الاستخارة: (قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية. (شامی، باب الوتر والنوافل 2/26)

وإذا استخار يمضي لا ينشرح له صدره وينبغي أن يكررها سبع مرات لما روي عن أنس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات ثم انظر إلى الذي يسبق إلى قلبك فإن الخير فيه". (مراقی الفلاح، فصل فی تحیۃ المسجد 1/149)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جب کہ بکری کی قیمت بھی مقرر ہوگئی اور امام صاحب نے قیمت دینے کا وعدہ بھی کیا مگر اب قیمت کی ادائیگی سے انکار کر رہا ہے ان کے لیے سخت گناہ کی بات اور دھوکہ بازی ہے۔(۱)
اگر امام صاحب کو مدرس کے کام کا معاوضہ طلب کرنا تھا، تو اس کا مطالبہ مدرسہ کے ذمہ داروں سے کرتے یہی اصولی بات تھی مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے زید کا ذاتی حق دبانا چاہا یہ ان کے لیے درست اور جائز نہیں ہے۔ اگر وہ اس سے توبہ کرلیں اور حق زید ادا کردیں تو وہ قابلِ امامت ہیں(۲) اور اگر ایسا نہ کریں تو وہ قابل امامت نہیں ہیں ،اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا۔ (أخرج الترمذي في سننہ، ’’کتاب البیوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۵)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب: ذکر التوبۃ‘‘: ص:۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص169