نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) نجدیوں کے بارے میں جو بات آپ نے لکھی ہے اگر واقعی ایسا ہے تو ان کو عاصی اور گنہگار تو کہا جاسکتا ہے، لیکن کافر کہنا گناہ ہوگا، اس لیے کہ جو کافر نہ ہو اس کو کافر کہنا بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔(۱) نجدی عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں اور اس کے عقائد غیر مقلدوں سے ملتے جلتے ہیں اگرچہ وہ اپنے کو حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل کے پیرو کار کہتے ہیں۔ بہر حال ان پر کفر کا فتویٰ لگانا حماقت ہے ان کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
(۲) مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا عالم ہو فقہ اور قانون اسلامی کی کتابیں اس نے پڑھی ہوں حالات زمانہ اور عرف سے واقفیت رکھتا ہو۔ جو صرف حافظ ہو اس کو فتویٰ دینے کا حق نہیں ہے اور اس سے فتویٰ لینا بھی درست نہیں ہے جو مسلمانوں کے عقائد خراب کرتا ہے اور ان میں فساد کراتا ہے یا اختلاف پیدا کرتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے وہ اس بات کا اہل نہیں کہ اس کو امام رکھا جائے اس کو الگ کردینا ہی مناسب ہے۔(۲)
(۱) لایرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک، (أخرجہ البخاری في صحیحہ، ’’کتاب الأدب، باب ماینہی عن السباب واللعن‘‘:ج۲، ص: ۸۹۳، رقم ۶۰۴۵)
(۲) وقد رأیت في فتاویٰ العلامۃ ابن حجر سئل في شخص یقرأ ویطالع في الکتب الفقہیۃ بنفسہ ولم یکن لہ شیخ ویفتی ویعتمد علی مطالعتہ في الکتب فہل یجوز لہ ذلک ام لا، فأجاب بقولہ: لایجوز لہ الافتاء بوجہ من الوجوہ، (شرح عقود رسم المفتی، ص: ۴۴، المکتبۃ العبدیۃ)

عن ابن مسعود قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃ لایقبل اللّٰہ منہم صلاۃ، من تقدم قوما وہم لہ کارہون۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الرجل یؤم القوم وہم لہ کارہون‘‘:ج۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۹۳)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص327

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: خطبہ شروع ہونے کے بعد اگر کوئی آئے تو اس کو جہاں جگہ بآسانی ملے وہیں بیٹھ جائے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آگے پہنچنا مکروہ ہے، اس سے احتراز کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) عن سہل بن معاذ بن انس الجھني، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: '' من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجمعۃ، کتاب الجمعۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في کراہیۃ التخطي یوم الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۷، رقم: ۵۱۳)
ولا یتخطی رقاب الناس للدنو من الإمام وذکر الفقیہ أبو جعفر عن أصحابنا رحمہم اللہ تعالٰی أنہ لا بأس بالتخطی ما لم یأخذ الإمام في الخطبۃ ویکرہ إذا أخذ؛ لأن للمسلم أن یتقدم ویدنوا من المحراب إذا لم یکن الإمام في الخطبۃ لیتسع المکان علی من یجيء بعدہ وینال ……فضل القرب من الإمام فإذا لم یفعل الأول فقد ضیع ذلک المکان من غیر عذر فکان للذي جاء بعدہ أن یأخذ ذلک المکان، وأما من جاء والإمام یخطب فعلیہ أن یستقر في موضعہ من المسجد؛ لأن مشیہ وتقدمہ عمل في حالۃ الخطبۃ، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص444

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر پہلی نماز کسی فرض وغیرہ کے چھوٹنے سے باطل ہوگئی اور دوبارہ نماز پڑھی جا رہی ہے، تو اس میں وہ بھی شریک ہوسکتے ہیں جو پہلی نماز میں شریک نہیں تھے، لیکن اگر پہلی نماز کسی واجب وغیرہ کے چھوٹنے سے فاسد ہوئی ہے، تو دوسری نماز میں اس کی شرکت درست نہیں جو پہلی نماز میں شریک نہیں تھا اور اگر یہ تفصیل معلوم ہی نہ ہو، تو بھی اس دوسری نماز جماعت میں شرکت کافی نہیں ہے الگ سے نماز پڑھی جائے۔(۱)

(۱) والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لایتکرر کما في الدر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص57

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کچھا پاک ہو تو نماز کچھے میں ادا ہوجاتی ہے البتہ اگر وہ اتنا سخت اور ٹائٹ ہے کہ نماز کے رکوع وسجدہ میں تنگی ہوتی ہے تو ایسے کچھے میں نماز مکروہ ہے۔(۱)

(۱) وتکرہ بحضرۃ کل مایشغل البال کزینۃ وبحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب ولذا نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الإتیان للصلاۃ سعیا بالہرولۃ۔ (أحمد بن  محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘:  ص: ۳۶۰)
والجائز من غیر کراہۃ أن یصلي في ثوب واحد متوشحا أو قمیص ضیق لوجود ستر العورۃ واصل الزینۃ والمکروہ أن یصلي في سراویل أو إزار لاغیر۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب مایفسد الصلاۃ الخ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص183

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: علماء مقتدمین کے نزدیک اس صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے ’’فصل لربک وانحر قرأ وانہر تفسد صلاتہ‘‘ اس لیے کہ معنی میں نمایاں تبدیلی ہوگی مگر عموم بلوی کی وجہ سے متاخرین علماء وفقہاء حضرات فساد کا حکم نہیں لگاتے ہیں کہ امتیاز مشکل ہے اور ابتلائے عوام ہے۔(۱)

(۱) ولا یجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ، إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف؛ فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، جدید، ج ۱، ص: ۱۴۴)
(قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ {الحمد للّٰہ رب العالمین} (سورۃ الفاتحۃ: ۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ: رابنا لک الحامد بألف بعد الراء، لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس، وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد، إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسدالصلاۃ الخ، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲، ۲۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص287

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نصف شب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے البتہ اگر آنکھ نہ کھلنے کا اندیشہ ہو اور عشاء کے بعد پڑھ کر سو جائے تو بھی ان شاء اللہ تہجد کا ثواب ملے گا۔(۱)

(۱) وفي تفسیر ابن عباس: قم اللیل یعنی کلہ إلا قلیلاً، فاشتد ذلک علی النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم، وعلی أصحابہ، وقاموا اللیل کلہ، ولم یعرفوا ماحد القلیل، فأنزل اللّٰہ تعالی نصفہ، أو أنقص منہ قلیلاً، أو زد علیہ یعني أنقص من النصف الی الثلث الخ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحی وإجماع اللیالی‘‘: ص: ۳۹۶، شیخ الہند دیوبند)
أقول: الظاہر أن حدیث الطبراني الأوّل بیان لکون وقتہ بعد صلاۃ العشاء، حتی لو نام ثم تطوع قبلہا لایحصل السنۃ … ولأن التہجد إزالۃ النوم بتکلف مثل تأثم: أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاۃ اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد … والظاہر أن تقییدہ بالتطوع بناء علی الغالب وأنہ یحصل بأي صلاۃ کانت، لقولہ علیہ السلام في الحدیث المار: وماکان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل … لکن ذکر آخر عنہ، علیہ السلام: من استیقظ من اللیل وأیقظ أہلہ فصلیا رکعتین کتبا من الذاکرین اللّٰہ کثیراً والذاکرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، ۴۶۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص403

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت میں جو رقم امام کو تنخواہ میں دی جاتی ہے اگر وہ یقنی طور پر سود کی رقم ہے۔ تو دینے والوں کے لیے وہ رقم امام صاحب کو دینی جائز نہیں ہے۔(۱) البتہ اگر امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہیں اور بہت غریب ہیں تو ان کے لیے بینک کی سودی رقم لینا جائز ہے تاہم اس سے تنخواہ ادا نہیں ہوگی۔ مسجد والوں پر لازم ہے کہ امام صاحب کے لیے محلہ والوں سے چندہ کرکے ان کی تنخواہ ادا کریں ورنہ سخت گنہگار ہوں گے اور آخرت میں جواب دہ ہوگے، تنخواہ امام صاحب کا حق ہے۔(۲)
(۱) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۶۲۵)
والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم وإلا فإن علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (أیضًا:)
(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ تعالیٰ: ثلاثۃ أنا خصمہم یوم القیامۃ رجل أعطي بي ثم غدر ورجل باع حرا فأکل ثمنہ ورجل استاجر أجیرا فاستوفی منہ ولم یعط أجرہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب البیوع، باب إثم من باع حرا‘‘: ج۲، ص: ۶۸۲، رقم: ۲۲۲۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص329

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نمازی کے سامنے سے گزرنا سخت منع ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص عین پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہوجائے تو اگلا شخص وہاں سے اپنی ضرورت کے لیے ہٹ جائے تو یہ ممنوع نہیں ہے(۲) حضرت عائشہؓ کی روایت میں ہے کہ میرے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے اور میں کھسک جایا کرتی تھی۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدي المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴،رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیرالہ من أن یمربین یدیہ (موطا إمام مالک،کتاب الصلاۃ،التشدید في أن یمر أحدبین یدي المصلي، ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)۔
(۲) أراد المرور بین یدی المصلی فإن کان معہ شییٔ یضعہ بین یدیہ ثم یمر ویأخذہ، ولو مر إثنان یقوم أحدہما أمامہ ویمر الآخر ویفعل الآخر، ہکذا یمران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۱)
(۳) عن عائشۃ، قالت: أعدلتمونا بالکلب والحمار لقد رأیتني مضطجعۃ علی السریر، فیجيء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیتوسط السریر، فیصلي، فأکرہ أن أسنحہ، فأنسل من قبل رجلي السریر حتی أنسل من لحافي۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إلی السریر‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، رقم: ۵۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص445

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آنے والا شخص جب دیکھے کہ امام صاحب ایک سلام پھیر چکے ہیں تو اس کے لیے اقتدا کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ لفظ سلام کہنے سے نماز ختم ہوگئی اب آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر اپنی نماز کو علیحدہ شروع کرے اور اس شخص کو اپنے آپ کو مقتدی سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے:
’’(قولہ: وتنقضي قدوۃ بالأول) أي بالسلام الأول۔ قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلاتہ۔۔۔ فلما قال: السلام جاء رجل و اقتدی بہ قبل أن یقول: علیکم لایصیر داخلًا في صلاتہ؛ لأنّ ہذا سلام؛ ألا تری أنہ لو أراد أن یسلم علی أحد في صلاتہ ساہیًا، فقال: السلام ثم علم فسکت تفسد صلاتہ‘‘(۱)
’’وتنقطع بہ التحریمۃ بتسلیمۃ واحدۃ … وتنقضی قدوۃ بالأول قبل علیکم علی المشہور۔ قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلاتہ، فلما قال السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول : علیکم لا یصیر داخلا في صلاتہ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لا ینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص:۱۶۲، ط:زکریا، دیوبند۔
(۲) الحصکفي و ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۲، ۲۳۹، ط: زکریا دیوبند۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص58

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور عمل کثیر پایا جائے تو نماز ہی ٹوٹ جاتی ہے اور عمل کثیر یہ ہے کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے اس لیے اس عمل سے امام کو بچنا چاہئے۔
’’إن اللّٰہ کرہ ثلاثاً: العبث في الصلاۃ والرفث في الصیام والضحک في المقابر‘‘(۲)
’’ویکرہ أیضاً أي یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفع بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود … ویکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو بجسدہ لقولہ علیہ السلام : ان اللّٰہ تعالیٰ کرہ لکم ثلاثاً وذکر منہا العبث في الصلاۃ ولا العبث خارج الصلاۃ حرام فما ظنک في الصلاۃ‘‘(۱)
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود‘‘(۲)
’’وکرہ عبثہ بثوبہ وبدنہ‘‘(۳)

(۲) أخرجہ ابن خزیمۃ، في الصحیح: ص: ۲۰۹۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۹؛ وابن الہمام، فتح القدیر: ج ۱، ص: ۳۵۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۱۶-۳۳، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص183