نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی اہمیت ہے اور نماز باجماعت میںبھی مسجد کی جماعت کی تاکید ہے، اس لیے حتی الامکان تو اسی کی کوشش کی جائے کہ مسجد میں ایک ہی جماعت قائم ہو اور تمام حضرات اسی ایک جماعت میں شریک ہوں، لیکن اگر اس پر عمل ممکن نہ ہو حکومتی پابندی کا سامنا ہو توپھر ایسی صورت میں بہتر ہے کہ مسجد میں کئی جماعتیں کرلی جائیں اور یہ حکم عارضی طورپر ہوگا، عذر کے ختم ہونے کے بعد مسجد میں تکرار جماعت کا سلسلہ بند کردیا جائے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب اور مسجد میں جماعت کرنا یہ بھی واجب ہے، اگر گھر میںجماعت کی جائے تو اگر چہ جماعت کا اہتمام ہوجائے گا؛ لیکن دوسرا واجب چھوٹ جائے گا۔(۱)
یہاں ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر مسجد میں جماعت کا تکرار ہوگا تو لوگوں کے دلوں سے جماعت ثانیہ کی کراہت ختم ہوجائے گی؛ اس لیے بہتر ہے کہ گھروں میں ہی جماعت سے نماز پڑھ لیں مسجد میں تکرار نہ کیا جائے؛ لیکن اس میں ایک دوسری خرابی ہے لوگوں کے دلوں میں یہ بیٹھنا چاہیے کہ نماز مسجد میں جماعت سے پڑھنا ضروری ہے؛ لیکن اگر چند دن گھر میں جماعت بنا کر نماز پڑھیں گے تو دلوں سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی جو اہمیت ہے وہ بھی کم ہو سکتی ہے۔ پھر عارضی احوال میں اگر علاقے میں کئی مساجد ہوں جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے، وہاں پر مجبوری میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے یہ خدشہ ہے کہ بعد میں ان مساجد میں جمعہ باقی رہ جائے گا اور لوگ بند کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے جیسا کہ احوال واقعی ہے بہت سی جگہوں سے فتویٰ بھی طلب کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کی مجبوری کی وجہ سے دوسری تمام مساجد میں جمعہ قائم کیا گیا تھا اب جب کہ حالات معمول پر آرہے ہیں تو کیا وہاں جمعہ بند کرنا چاہیے جب کہ بعض حضرات بند کرنے پر راضی نہیں ہیں ظاہر ہے کہ ان مساجد میں بند کرنے کا ہی حکم دیاجائے گا؛ اس لیے عارضی احوال میں اگر مسجد میں تکرار جماعت ہو یا گھر میں جماعت کا اہتمام ہو، دونوں کی گنجائش ہے۔ محض خدشہ کی بناپر عذر کی وجہ سے تکرار جماعت کو مکروہ نہیں کہا جائے گا۔
(۱) قلت دلالتہ علی الجزء الأول ظاہرۃ حیث بولغ فی تہدید من تخلّف عنہا وحکم علیہ بالنفاق، ومثل ہذا التہدید لایکون إلا في ترک الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعۃ لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بإحراق البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنہم صلوہا بالجماعۃ فی بیوتہم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاہا بجماعۃ في بیتہ أتی بواجب وترک واجبًا آخر … و أما مایدل علی وجوبہا في المسجد فإنہم اتفقوا علی أن إجابۃ الأذان واجبۃ لما في عدم إجابتہا من الوعید۔ (إعلاء السنن، باب وجوب إتیان الجماعۃ في المسجد عند عدم العلۃ‘‘: ج۴، ص: ۱۸۶، إدارۃ القرآن کراچی)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364,366

 

نماز / جمعہ و عیدین

ـالجواب وباللہ التوفیق: کسی بھی نماز کے لیے اذان دی جائے تو وقت کے داخل ہونے کے بعد دی جائے، اگر وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دی گئی تو دوبارہ اذان دی جائے۔ جنتریاں مختلف ہیں بعض میں مقررہ ٹائم ہوتا ہے، بعض میں احتیاط کے پیش نظر دو تین منٹ کی تاخیر سے لکھا ہوا ہوتا ہے اور اذان ونماز کا مدار وقت پر ہے، عام لوگوں کو چاہئے کہ جنتری کے حساب سے وقت داخل ہونے پر ہی اذان پڑھیں۔(۱)

(۱) فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر، قولہ: وقع بعضہ، وکذا کلہ بالأولیٰ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب بہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰، زکریا دیوبند)… قولہ ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ، أي في الوقت إذا أذن قبلہ لأنہ یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص151

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: افضل یہ ہے کہ عمل قلیل سے اپنی آستین اتارے ایسی صورت اختیار نہ کرے کہ عمل کثیر ہوجائے اس کی صورت یہ ہے کہ کچھ رکوع میں کچھ قومہ میں کچھ جلسہ میں دونوں آستین اتارے۔
شامی میں ہے ’’مثلہ ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراک الرکعۃ مع الإمام وإذا دخل في الصلوٰۃ کذلک وقلنا بالکراہۃ فہل الأفضل إرخاء کمیہ فیہا بعمل قلیل أو ترکہما لم أرہ، والأظہر الأول بدلیل قولہ الآتي ولو سقطت قلنسوتہ فإعادتہا أفضل تامل ہذا وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین وظاہرہ أنہ لا یکرہ إلیٰ ما دونہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  407

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خاموش رہنا بہتر ہے۔ (۱)
(۱) ولو قرأ الإمام آیۃ الترغیب أو الترہیب فقال المقتدي: صدق اللّٰہ وبلغت رسلہ، فقد أساء، ولا تفسد صلاتہ۔ (فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷؛ وعلی ہامش الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۳۸، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع في ما یفسد الصلاۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، قدیم؛ ج ۱، ص: ۱۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص335

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبیوں اور پیغمبروں کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اجازت ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کی جو رحمتیں ان کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے صدقہ سے ہمارا کام ہوجائے؛ لیکن وسیلہ ضروری نہیں ہے (۱) صرف اللہ تعالیٰ کے فضل پر اکتفاء بھی درست ہے۔ (۲)
(۱) یحسن التوسل بالنبي إلی ربہ ولم ینکرہ أحد من السلف۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۷)

(۲) وأن یسأل اللّٰہ تعالیٰ بأسمائہ الحسنی وصفاتہ العلی۔ (علامہ محمد بن محمد زجري شافعي، حصن حصین: ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص371

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لائف انشورنس کرانا حرام ہے۔ امام صاحب نے جان بوجھ کربلا کسی مجبوری کے لائف انشورنس کرایا ہے، توان کا یہ عمل غلط ہے ان کو توبہ کرنی چاہیے اور اپنا انشورنس ختم کرادینا چاہیے اورا گر ممکن نہ ہو، تو جو اضافی رقم ہو وہ بلا نیت ثواب صدقہ کرنی چاہیے ،توبہ کے بعد امام صاحب کی امامت درست ہوگی اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ ایسے شخص کو مدرس رکھا جاسکتا ہے؛ تاہم اس کا یہ عمل غلط ہے جس سے اس کو توبہ کرنی چاہیے۔(۱)

(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
ولذا کرہ إمامۃ ’’الفاسق‘‘ العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا، وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ ’’والمبتدع‘‘ بارتکابہ ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع بشبھۃ أو استحسان وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسف أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر وجاہدوا مع کل بروفاجر ’’رواہ الدار قطني کما في البرہان وقال في مجمع الروایات، وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص161

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابالغ بچے عقل وشعور والے ہیں تو صورت مسئولہ کی گنجائش ہے اور اگر سبھی بچے ناسمجھ ہیں تو پھر جماعت نہیں ہوسکے گی، تاہم نماز کا جو وقت متعین ہے اسی پر نماز شروع کرنا لازم نہیں اس لیے اگر کبھی ایسی ضرورت پیش آجائے تو مقتدی حضرات کا تھوڑا اور انتظار کرلیں پھر نماز شروع کریں۔(۱)
(۱) إذا زاد علی الواحد في غیر الجمعۃ فہو جماعۃ وإن کان معہ صبي عاقل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس فيالإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
وأقلہا إثنان، واحد مع الإمام ولو ممیزاً أو ملکاً، قولہ ولو ممیزاً أي ولو کان الواحد المقتدي صبیاً ممیزاً قال في السراج: لو حلف لایصلي جماعۃ وأم صبیاً یعقل حنث ولا عبرۃ بغیر العاقل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۹)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص366

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  مسجد میں اذان دینا خلاف اولیٰ ہے اس لیے کہ اذان کا مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اذان کی آواز پہونچ جائے ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے کی صورت میں آواز دور تک نہیں پہونچ سکے گی اس لیے مسجد کے اندر اذان دینا بہتر نہیں ہے۔
’’ینبغي أن یؤذن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد‘‘(۱)
لیکن آج کل لاؤڈ اسپیکر پر عام طور پر اذان دی جاتی ہے اور اس سے دور تک آواز پہونچ جاتی ہے جو اذان کا اصل مقصود ہے اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد میں اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر مسجد سے باہر رکھا جائے تاکہ مسجد میں زیادہ شور اور آواز نہ ہو اگر اس کا بھی نظم نہ ہو سکے تو مسجد میں لاؤڈ اسپیکر رکھ کر اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’اعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ ووعمومہ ہذا الأذان بل مقیدا إذا کان المقصود إعلام ناس غیرہا ضرین‘‘ (۱)
 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: فی الأذان‘‘: الفصل الثاني: فی کلمات الأذان  والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۲۔
(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب التأذین عند خطبۃ  ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص152

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ہمارے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک آمین سراً کہی جائے گی جہراً نہیں، وہ شخص اگر اہل حدیث ہے تو اس کو خود ہی اپنے مذہب پر عمل کرلینا چاہئے دوسروں کو بہکاتا اور جھگڑتا ہے تو اس کو سختی کے ساتھ منع کردینا چاہئے۔(۱)
(۱) عن علقمۃ بن وائل، عن أبیہ، أن النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ (غیر المغضوب علیہم ولاالضالین)، فقال: آمین وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبوب الصلاۃ، باب ماجاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۲۴۸)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام غیر المغضوب علیہم ولاالضّالین، فقولوا: آمین۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: جہرالمأموم بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، رقم: ۱۵۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام (ولاالضالین)، فقولوا: آمین، فإن الإمام، یقولہا۔ (رواہ أحمد والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح، ’’أوجز المسالک: التأمین خلف الإمام‘‘: ج۱، ص: ۲۵۲)
حدثنا بندارنا یحییٰ بن سعید وعبد الرحمن بن مہدي قالا: ناشعبۃ عن سلمۃ بن کہیل عن حجر بن عنبس عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولاالضَّآلین، وقال آمین، وخفض بہا صوتہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في التأمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۸، رقم: ۲۴۸)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرے، اور اس میں تمام امت مسلمہ کی نیت کرے۔(۱)
(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عمم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في الدعاء بغیر العربیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵، زکریا دیوبند)
لایؤم رجل قوما فیخص نفسہ بالدعاء دونہم، فإن فعل فقد خانہم۔ (أخرجہ داؤد، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب أیصلي رجل و ھو حاقن‘‘: ج۱ ، ص: ۹۰؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ: ج۱، ص: ۳۵۷؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ج ۱، ص: ۶۱۹، ۹۲۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336