نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بسم اللہ یا مذکورہ آیت ضروری اور شرعی سمجھ کر یا سنت سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہئے نہ ہی اس پر دائمی عمل ہونا چاہئے حکم شرعی سمجھے بغیر اتفاقاً اگر کوئی پڑھ لے توکوئی حرج نہیں ہے۔(۲)
(۲)  ولہذا صرح في الذخیرۃ والمجتبی بأنہ إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروئۃ سرا أو جہرا کان حسنا عند أبي حنیفۃ ورجحہ المحقق ابن الہمام وتلمیذہ الحلبي … وقال في شرح المنیۃ إنہ الأحوط، لأن الأحادیث الصحیحۃ تدل علی مواظبتہ علیہ الصلاۃ والسلام علیہا، جعلہ في الوہبانیۃ قول الأکثرین  أي بناء علی قول الحلواني إن  أکثر المشایخ علی أنہا من الفاتحۃ، فإذا کانت منہا تجب مثلہا لکن لم یسلم کونہ قول الأکثر (قولہ ضعفہ فی البحر) حیث قال في سجود السہو: إن ہذا کلہ مخالف لظاہر المذہب المذکور فيالمتون والشروح والفتاوی من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۲، ۱۹۳)
ثم یسمی سرا کما تقدم ویسمی کل من یقرأ في صلاتہ في کل رکعۃ سواء صلی فرضا أو نفلا قبل الفاتحۃ بأن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفی فقط فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ  سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لا یسمی إلا في الرکعۃ الأولی۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۳۷)
فائدۃ: یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق فی الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  413

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1119/42-345

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1344/42-729

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو حدیث میں استخارہ کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ اللہ تعالی اس کے لئے خیروالا راستہ واضح فرمادے۔  استخارہ خود کرنا چاہئے اور درپیش معاملہ میں خود اللہ تعالی سے تعلق قائم کرکے خیر کا طالب ہوناچاہئے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورہ سکھاتے تھے۔ حدیث پاک میں کسی جگہ دوسروں سے استخارہ کرانا ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کرنا چاہئے اور خود سے استخارہ کرنا چاہئے۔ تاہم دوسروں سے استخارہ کو حرام بھی نہیں کہا جاسکتاہے، بعض مرتبہ آدمی کسی بزرگ کو نیک سمجھ کر اس سے استخارہ کراتاہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ خود سے بھی استخارہ کرتے رہنا چاہئے اور اگر معاملہ واضح نہ ہو تو سات دن کرتا رہے۔ کسی بھی مناسب وقت یا سونے سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی دعا پڑھے۔ استخارہ کی دعا یہ ہے: "اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به"۔ جب  "ھذا الامر" پر پہونچے تو اپنے کام کو دھیان میں رکھے۔

مطلب في ركعتي الاستخارة: (قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية. (شامی، باب الوتر والنوافل 2/26)

وإذا استخار يمضي لا ينشرح له صدره وينبغي أن يكررها سبع مرات لما روي عن أنس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات ثم انظر إلى الذي يسبق إلى قلبك فإن الخير فيه". (مراقی الفلاح، فصل فی تحیۃ المسجد 1/149)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جب کہ بکری کی قیمت بھی مقرر ہوگئی اور امام صاحب نے قیمت دینے کا وعدہ بھی کیا مگر اب قیمت کی ادائیگی سے انکار کر رہا ہے ان کے لیے سخت گناہ کی بات اور دھوکہ بازی ہے۔(۱)
اگر امام صاحب کو مدرس کے کام کا معاوضہ طلب کرنا تھا، تو اس کا مطالبہ مدرسہ کے ذمہ داروں سے کرتے یہی اصولی بات تھی مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے زید کا ذاتی حق دبانا چاہا یہ ان کے لیے درست اور جائز نہیں ہے۔ اگر وہ اس سے توبہ کرلیں اور حق زید ادا کردیں تو وہ قابلِ امامت ہیں(۲) اور اگر ایسا نہ کریں تو وہ قابل امامت نہیں ہیں ،اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا۔ (أخرج الترمذي في سننہ، ’’کتاب البیوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۵)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب: ذکر التوبۃ‘‘: ص:۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص169

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں فرداً فرداً نماز پڑھیں گے اور خارج مسجد جماعت کر سکتے ہیں، اس صورت میں جاعت سے نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لاإمام لہ ولا مؤذن، قولہ ویکرہ، أي تحریماً لقول الکافي لایجوز والمجمع لایباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي، (قولہ بأذان وإقامۃ، الخ … والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدر وغیرہا قال في المنبع والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ، جماعۃ لغیر أذان حیث یباح اجماعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قبلہ مشتبہ ہونے کی صورت میں بلا تحری نماز پڑھنا درست نہیں، لیکن اگر پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ صحیح سمت میں پڑھی ہے، تو نماز ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں، آپ نے جن کتابوں کے حوالے دئے ہیں وہ بھی درست ہیں۔
’’وإن شرع بلا تحر لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقاً‘‘(۱)
’’فلو صلی من اشتبہ علیہ حالہا بلا تحری أعادہا لترک ما افترض علیہ من التحري إلا إذا علم أنہ أصاب بعد الفراغ لحصول المقصود‘‘(۲)
’’قولہ: اجتہد فلو صلی من اشتبہت علیہ بلا تحری فعلیہ الإعادۃ إلا إن علم بعد الفراغ أنہ أصاب‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹۔
(۲) أبوالبرکات، عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، حاشیہ کنز الدقائق: ص: ۲۱، مکتبہ: تھانوی، دیوبند۔
(۳) المرغیناني، حاشیہ ہدایہ: ج ۱، ص: ۹۷، حاشیہ: ۷،یاسر ندیم، کمپنی، دیوبند۔
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسألہ عنہا اجتہد وصلیّ، کذا في الہدایۃ فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلیّ لا یعیدہا وإن علم ہو في الصلاۃ استدار إلی القبلۃ وبنی علیہا، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص269

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں قیام کی حالت میں دونوں کے درمیان چار انگشت کے بقدر جگہ رکھنا افضل ہے اور یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے شامی میں ہے ’’لأنہ أقرب إلی الخشوع‘‘ (۱) یہ افضلیت عام حالات میں ہے اگر کسی کو اس سے زیادہ فاصلہ رکھنے میں سکون ملے کہ کوئی موٹے جسم کا لحیم شحیم ہو تو اس کے لیے وہی افضل ہے جس میں اس کو سکون حاصل ہو اور خشوع و خضوع پایا جاسکے۔(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۱۔
(۲) عن أبي عبیدۃ قال: مر ابن مسعود برجل صاف بین قدمیہ، فقال: أما ہذا فقد أخطأ السنۃ، لو راوح بہما کان أحب إلي۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، رقم: ۳۳۰۶)

عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً صافاً بین قدمیہ، فقال: الزق إحداہما بالأخری، لقد رأیت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ (أخرجہ مصنف ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ من کان راوح بین قدمیہ في الصلاۃ: ج ۲، ص: ۱۰۹، رقم: ۷۰۶۳)
وقال الکمال: وینبغي أن یکون بین رجلیہ حالۃ القیام قدر أربع أصابع۔ (فخر الدین بن عثمان، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۹۸)
وینبغي أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنہ کان یفعلہ، کذا في الکبری۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
ویکرہ أن یلصق إحدی قدمیہ بالأخری في حال قیامہ؛ لما روي الأثرم،  عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً یصلي، قد صف بین قدمیہ، وألزق إحداہما بالأخری، فقال أبي: لقد أدرکت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر رجلاً من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ وکان ابن عمر لا یفرج بین قدمیہ ولا یمس إحداہما بالأخری، ولکن بین ذلک، لا یقارب ولا یباعد۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۲، ص: ۹)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  414

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے باوجود علم کے عدت میں نکاح پڑھایا ہے تو نکاح پڑھانے والا اور اس نکاح میں شریک گاؤں کے لوگ سب کے سب گناہگار ہوں گے ان سب پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا}(۱)
’’یدل علی أن التوبۃ من الکتمان إنما یکون بإظہار البیان، وأنہ لا یکتفی فی صحۃ التوبۃ بالندم علی الکتمان فیما سلف دون البیان فیما استقبل‘‘(۲)
’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’من رأی منکم منکراً فلغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان‘‘(۳)

نیز اگر مذکورہ امام سے بہتر اور لائق کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ البتہ توبہ اور استغفار کے بعد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً، وولد الزنا، ہذا إن وجد غیرہم، وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)

(۱) سورۃ البقرۃ: ۱۶۰۔
(۲) الجصاص، أحکام القرآن: ’’سورۃ البقرۃ: ۱۶۰‘‘ ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب: النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص170

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں تعجیل بہتر ہے؛ البتہ کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے اور وقت کے اندر ہی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں مذکورہ صورت میں عذر بھی ہے اور تاخیر بھی اتنی نہیں ہے جس سے نماز میں کوئی کمی آئے اس لیے درست ہے۔(۱)
(۱) تأخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدۃ، (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۵۷، مکتبہ اتحاد دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں سلف و صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نمازیں کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں میں نمازیں پڑھیں، آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں، کمپاس یا قبلہ نماکی تعیین کا لازمی اعتبار نہیں ہے۔ ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیں ہے۔
اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ صفیں اس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہو جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے؛ لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہا أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقی شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
ومن کا خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ ہو الصحیح: ہکذا في التبیین۔
وجہۃ الکعبۃ تعرف بالدلیل، والدلیل في الأمصار والقریٰ المحاریب التي نصبہا الصحابۃ والتابعون فعلینا اتباعہم فإن لم تکن فالسوال من أہل ذلک الموضع، وأما في البحار والمفاوز فدلیل القبلۃ النجوم ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص270