نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں فرداً فرداً نماز پڑھیں گے اور خارج مسجد جماعت کر سکتے ہیں، اس صورت میں جاعت سے نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لاإمام لہ ولا مؤذن، قولہ ویکرہ، أي تحریماً لقول الکافي لایجوز والمجمع لایباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي، (قولہ بأذان وإقامۃ، الخ … والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدر وغیرہا قال في المنبع والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ، جماعۃ لغیر أذان حیث یباح اجماعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قبلہ مشتبہ ہونے کی صورت میں بلا تحری نماز پڑھنا درست نہیں، لیکن اگر پڑھ لی اور بعد میں معلوم ہوا کہ صحیح سمت میں پڑھی ہے، تو نماز ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں، آپ نے جن کتابوں کے حوالے دئے ہیں وہ بھی درست ہیں۔
’’وإن شرع بلا تحر لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقاً‘‘(۱)
’’فلو صلی من اشتبہ علیہ حالہا بلا تحری أعادہا لترک ما افترض علیہ من التحري إلا إذا علم أنہ أصاب بعد الفراغ لحصول المقصود‘‘(۲)
’’قولہ: اجتہد فلو صلی من اشتبہت علیہ بلا تحری فعلیہ الإعادۃ إلا إن علم بعد الفراغ أنہ أصاب‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹۔
(۲) أبوالبرکات، عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، حاشیہ کنز الدقائق: ص: ۲۱، مکتبہ: تھانوی، دیوبند۔
(۳) المرغیناني، حاشیہ ہدایہ: ج ۱، ص: ۹۷، حاشیہ: ۷،یاسر ندیم، کمپنی، دیوبند۔
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسألہ عنہا اجتہد وصلیّ، کذا في الہدایۃ فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلیّ لا یعیدہا وإن علم ہو في الصلاۃ استدار إلی القبلۃ وبنی علیہا، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص269

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں قیام کی حالت میں دونوں کے درمیان چار انگشت کے بقدر جگہ رکھنا افضل ہے اور یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے شامی میں ہے ’’لأنہ أقرب إلی الخشوع‘‘ (۱) یہ افضلیت عام حالات میں ہے اگر کسی کو اس سے زیادہ فاصلہ رکھنے میں سکون ملے کہ کوئی موٹے جسم کا لحیم شحیم ہو تو اس کے لیے وہی افضل ہے جس میں اس کو سکون حاصل ہو اور خشوع و خضوع پایا جاسکے۔(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۱۔
(۲) عن أبي عبیدۃ قال: مر ابن مسعود برجل صاف بین قدمیہ، فقال: أما ہذا فقد أخطأ السنۃ، لو راوح بہما کان أحب إلي۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، رقم: ۳۳۰۶)

عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً صافاً بین قدمیہ، فقال: الزق إحداہما بالأخری، لقد رأیت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ (أخرجہ مصنف ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ من کان راوح بین قدمیہ في الصلاۃ: ج ۲، ص: ۱۰۹، رقم: ۷۰۶۳)
وقال الکمال: وینبغي أن یکون بین رجلیہ حالۃ القیام قدر أربع أصابع۔ (فخر الدین بن عثمان، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۹۸)
وینبغي أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید؛ لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنہ کان یفعلہ، کذا في الکبری۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
ویکرہ أن یلصق إحدی قدمیہ بالأخری في حال قیامہ؛ لما روي الأثرم،  عن عیینۃ بن عبد الرحمن، قال: کنت مع أبي في المسجد، فرأی رجلاً یصلي، قد صف بین قدمیہ، وألزق إحداہما بالأخری، فقال أبي: لقد أدرکت في ہذا المسجد ثمانیۃ عشر رجلاً من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما رأیت أحداً منہم فعل ہذا قط۔ وکان ابن عمر لا یفرج بین قدمیہ ولا یمس إحداہما بالأخری، ولکن بین ذلک، لا یقارب ولا یباعد۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۲، ص: ۹)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  414

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے باوجود علم کے عدت میں نکاح پڑھایا ہے تو نکاح پڑھانے والا اور اس نکاح میں شریک گاؤں کے لوگ سب کے سب گناہگار ہوں گے ان سب پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا}(۱)
’’یدل علی أن التوبۃ من الکتمان إنما یکون بإظہار البیان، وأنہ لا یکتفی فی صحۃ التوبۃ بالندم علی الکتمان فیما سلف دون البیان فیما استقبل‘‘(۲)
’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’من رأی منکم منکراً فلغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان‘‘(۳)

نیز اگر مذکورہ امام سے بہتر اور لائق کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ البتہ توبہ اور استغفار کے بعد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً، وولد الزنا، ہذا إن وجد غیرہم، وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)

(۱) سورۃ البقرۃ: ۱۶۰۔
(۲) الجصاص، أحکام القرآن: ’’سورۃ البقرۃ: ۱۶۰‘‘ ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب: النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص170

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں تعجیل بہتر ہے؛ البتہ کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے اور وقت کے اندر ہی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں مذکورہ صورت میں عذر بھی ہے اور تاخیر بھی اتنی نہیں ہے جس سے نماز میں کوئی کمی آئے اس لیے درست ہے۔(۱)
(۱) تأخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدۃ، (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۵۷، مکتبہ اتحاد دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں سلف و صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نمازیں کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں میں نمازیں پڑھیں، آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں، کمپاس یا قبلہ نماکی تعیین کا لازمی اعتبار نہیں ہے۔ ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیں ہے۔
اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ صفیں اس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہو جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے؛ لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہا أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقی شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
ومن کا خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ ہو الصحیح: ہکذا في التبیین۔
وجہۃ الکعبۃ تعرف بالدلیل، والدلیل في الأمصار والقریٰ المحاریب التي نصبہا الصحابۃ والتابعون فعلینا اتباعہم فإن لم تکن فالسوال من أہل ذلک الموضع، وأما في البحار والمفاوز فدلیل القبلۃ النجوم ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص270

 

نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللہ التوفیق: تشہد میں اثبات کے وقت انگلی اٹھانے کے بعد انگلیوں کا حلقہ بنایا جاتا ہے۔ آخر نماز تک اس کا باقی رکھنا افضل ہے اس کو کھولنے کا تذکرہ کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذرا۔ شامی میں ہے ’’أي حین الشہادۃ فیعقد عندہا الخ‘‘(۱) لیکن اگر کوئی حلقہ کھول دے تو اس کو مطعون نہ کیا جائے اس لیے کہ یہ صرف افضلیت کی بات ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
عن عبد اللّٰہ بن الزبیر أنہ ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا ولا یحرکہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود باب:الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم: ۹۹۰)
قال الطحطاوي في حاشیۃ علی مراقي الفلاح: قولہ، وتسن الإشارۃ، أي من غیر تحریک فإنہ مکروہ عندنا۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۱۱۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: راگ باجے کے ساتھ جانے والا امام و خطیب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے حتی الامکان اس کی امامت سے پرہیز کرنا چاہئے کسی دیندار پرہیز گار کے پیچھے نماز ادا کرنے کی سعی کریں۔ لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اس کی امامت میں نماز عید یا کوئی اور نماز ادا کرلی تو وہ ادا ہوگئی اعادہ ضروری نہیں ہوگی۔(۲)

(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ …بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا وتمام، ومراء ومتصنع) قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: ’’مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص171

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فتوی معلوم کرنے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کی تذلیل وتحقیر کے لیے مسئلہ معلوم کیا جاتاہے۔ وہ قاری صاحب آپ کے امام نہیں ہیں؛ اس لیے آپ کی نماز کی صحت وفساد بھی اس سے متعلق نہیں ہے اور وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں نہ ہمارے پاس تحقیق ہے اور نہ ہی اس قاری صاحب کا اقرار ہے؛ اس لیے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال واحوال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاہم اگر اس کو امام بنایا جائے تو اس کے پیچھے نماز درست ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) عن علي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصل الدین الصلاۃ خلف کل بر وفاجر۔ (أخرجہ الدار قطني في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۱ ، ص:۴۱۶، رقم: ۱۷۶۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص260

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ میں بھی نماز جمعہ اور دیگر نمازیں باجماعت درست ہیں؛ لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) المسجد الجامع لیس بشرط لہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلي في فناء المصر، (محمد بن محمد، کبیری، ’’حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ‘‘:ص: ۵۵۱، مطبع اشرفي دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص373