نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ اور اسی طرح صرف ’’إلا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرنا بھی صحیح ہے۔ کلام عرب میں مستثنیٰ منہ کا حذف بکثرت رائج ہے۔ (۳)
(۳) فقال العباس رضي اللّٰہ عنہ، یا رسول اللّٰہ إلا الإذخر، فإنہ لقینہم لبیوتہم فقال: إلا الإذخر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب جزاء الصید ونحوہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۲، رقم: ۱۸۳۴)
وإنما فعلوا ذلک لکون الذکر عند ہم ضد النسیان فکل ذکر صاحبہ غفلۃ أو نسیان لیس بذکر معتد بہ عند ہم ثم رأوا أن الذکر البسیط یر تسخ في القلب أسرع من المرکب   فلقنوا ذکر إسم الذات مرۃ وذکر الإثبات إلا اللّٰہ، إلا اللّٰہ مرۃ أخریٰ فالأذکار التي أخترعہا المشایخ وإن لم تکن ماثورۃ فإنہا مقدمات لقبول القلب وصلاحہ للذکر المأثور فہو نظیر تقطیع کلمات القرآن عند تعلیم الصبیان۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، باب الذکر والدعاء: ج ۱۸، ص: ۴۶۵)
أشرف علي التھانوي، إمدادالفتاوی جدید: ج ۱۱، ص: ۳۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص373

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: قتل کرنا اس کا جائز نہیں تھا اور اس قتل کی وجہ سے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہوا(۱) توبہ کرنا اور بیوی کے وارثوں سے معاف کرانا اس پر لازم ہے اگر اس نے توبہ کرلی اور معاف کرالیا تو امامت اس کی صحیح ہوگی(۲) ورنہ تو مکروہ تحریمی ہوگی۔(۳)

(۱) الأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصبا الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ؛ وقال الشامي: الأعلم بالسنۃ أولیٰ إلا أن یطعن في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
 {مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ؔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط وَلَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَہ۳۲ } (سورۃ المائدہ: ۳۲)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ، الحدیث۔ (أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین،  رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص165

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوقات مقررہ پر نماز پڑھانا امام کی ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی درست نہیں؛ لیکن امام کے لیے بھی اعذار ہوسکتے ہیں؛ اس لیے اگر امام کو کبھی تاخیر ہوجائے تو صرف پانچ منٹ انتظار میں مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ مسجد میں ہوتے ہوئے بغیر کسی عذر کے وقت مقررہ میں تاخیر امام کی صرف ضد معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہ کیا جائے نیز اس بارے میں نمازی حضرات ذمہ داران سے گفتگو کریں، ذمہ داران پر لازم ہے کہ نماز یوں کی پوری رعایت کریں اور جو بھی صورت ہو ذمہ داران و نمازی حضرات کے باہمی مشورہ سے اس کو حل کریں، بلا وجہ دینی امور میں اختلاف اور عوام میں انتشار جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ، فإن راٰھم اجتمعوا أقام و إلا انتظرھم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الأذان ج۱، ص۴۴۹)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص369

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مقتدیوں تک آواز پہونچانے کے لیے بلند آواز سے پڑھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
(۱) اقتداء الناس بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في مرض موتہ وہو قاعد وہم قیام وہو آخر أحوالہ، فتعین العمل بہ بنائً علی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إماماً وأبوبکر مبلغاً للناس تکبیرہ، وبہ استدل علی جواز رفع المؤذنین أصواتہم في الجمعۃ وغیرہما۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر شرعی طریقہ پر ثابت ہو کہ امام صاحب نے سونا رکھ لیا اور تانبے کی نشتر بنا کر دے دی جو کہ دھوکہ وفریب ہے،(۱) تو ان کی امامت
بوجہ خیانت و فسق مکروہ ہے،(۲) الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور سونا واپس کردیں؛(۳) لیکن بغیر شرعی ثبوت کے الزام تراشی درست نہیں ہے۔(۴)

(۱) علامات المنافق ثلث: إذا أحدث کذب وإذا وعد أخلف وإذا أؤتمن خان۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’ کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق‘‘: ج۱، ص: ۲۴، رقم: ۳۳)
(۲) وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
(۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۴) عن علي رضی اللّٰہ عنہ قال: البہتان علی البراء أثقل من السموات۔ (علی بن حسام الدین حنفي، کنز العمال، ج۳، ص: ۸۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص166

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بزرگ کی وجہ سے جماعت میں تاخیر اسی صورت میں درست ہے جب کہ تاخیر کی وجہ سے وقت مکروہ میں نماز پڑھنی نہ پڑے اور اس بزرگ کی جماعت میں شرکت یا امامت کا انتظار مقتدیوں کو بھی ہو ۔ مذکورہ صورت میں چوں کہ مقتدیوں کو اس انتظار پر ناراضگی ہے؛ اس لیے یہ انتظار درست نہیں ہوا، آئندہ کے لیے امام کو متنبہ کردیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
وینتظر المؤذن الناس، ومقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا وینبغي أن یؤذن في أول الوقت ویقیم في وسطہ حتی یفرغ المتوضي من وضوء ہ والمصلي من صلاتہ والمعتصر من قضاء حاجتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص370

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نوافل کے سجدہ میں دعا کرنا درست ہے، تاہم نوافل میں صرف وہی دعائیں کرسکتے ہیں جو قرآن و حدیث سے منقول ہوں اور انہیں الفاظ کے ساتھ کی جائیں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضياللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أقرب ما یکون العبد من ربہ وہو ساجد فأکثروا الدعاء‘‘(۲)
’’وأما السجود فاجتہدوا في الدعاء فقمن أن یستجاب لکم‘‘(۳)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقال في الرکوع والسجو‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۴۸۲۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النہي عن قراء ۃ القرآن في الرکوع والسجود‘‘: ج ۱، ص:۱۹۱، رقم: ۴۷۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  411

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو شخص اپنی خوشی اور رضامندی سے یا کسی لالچ میں خصی ہوگیا ہو، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ خصی ہونا حرام ہے؛(۱) لہٰذا حرام کام کرنے والے کو امامت جیسا منصب دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
إن خصاء الآدمي حرام صغیرا کان أو کبیرا لورود النہي عنہ۔(جماعۃ من الفقہاء، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ج۱۹، ص: ۱۲۰)
(۲) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص167

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  پوری مسجد برابر ہے جس جگہ بھی نماز پڑھی جائے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب برابر ملتا ہے؛ لیکن جماعت کے لیے محراب بنائی جاتی ہے بوقت جماعت امام کو محراب میں کھڑا ہونا چاہئے بغیر کسی عذر کے محراب چھوڑ کر دوسری جگہ جماعت کرنا افضلیت کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم الإمام في المحراب … لئلا یلزم عدم قیامہ في الوسط فلو لم یلزم ذلک لایکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الوسط أو في میسرتہ فقد أساء لمخالفۃ السنۃ، ہکذا في التبیین، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ،  ’’الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج۱، ص: ۱۴۷)، زکریا دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص371

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا نہ فرض ہے اور نہ ہی واجب، بلکہ دونوں سورتوں کے درمیان ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا بہتر ہے، خواہ سورۃ الفاتحہ اور سورت کی تلاوت جہراً (بآواز بلند) ہو یا سراً (آہستہ آواز سے) ہو، اگر کوئی ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ نہ پڑھ سکے تو اس سے نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، نماز ادا ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ حاشیہ الطحطاوی میں لکھا ہے:
’’فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقاً للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ‘‘(۱)
علامہ ابن نجیمؒ البحر الرائق اور علامہ ابن عابدین رد المحتار میں بیان کرتے ہیں:
’’إن سمی بین الفاتحۃ و السورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروء ۃ سراً أو جہراً کان حسناً عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۳)
’’عن أنس بن مالک، قال: صلی معاویۃ بالمدینۃ صلاۃ فجہر فیہا بالقراء ۃ، فقرأ فیہا بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لأم القرآن ولم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعدہا حتی قضی تلک القراء ۃ، فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین، والأنصار من کل مکان: یا معاویۃ أسرقت الصلاۃ، أم نسیت؟ فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم للسورۃ التي بعد أم القرآن، وکبر حین یہوی ساجداً  ‘‘(۱)
(۱) احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وإذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۸۹۔
(۱) أخرجہ الحاکم، في مستدرک:  ج ۱، ص: ۲۳۳، رقم: ۸۸۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  412